علم و کتاب WhatsApp Channel

علم و کتاب

2.3K subscribers

About علم و کتاب

https://telegram.me/ilmokitab Contact: https://telegram.me/muniri

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

علم و کتاب
علم و کتاب
5/30/2025, 8:43:23 PM

*وفیات: ۲۹ مئی* 1788ء مرزا جواں بخت۔ فرزند بہادر شاہ ظفر 1935ء مولانا شاہ محمد سلیمان پھلواروی۔ 1954ء اصغر علی روحی۔ 1976ء سید رضی اکبر ۔ 1976ء مولانا عبد العزیز مراد آبادی ۔ جامعہ اشرفیہ مبارکپور 1983ء سعید احمد۔ پروفیسر 1988ء عبدالستار اسحاق سیٹھ۔ 1991ء محمود میمن۔ 1998ء نیاز احمد مدنی۔ 1999ء عنایت حسین بھٹی۔ ادا کار 2000ء مولانا کلیم اللہ نوری۔ جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ 2003ء ظفر صدیقی۔ 2006ء سبحانی بایونس۔ اداکار 2006ء عبدالقہاردہلوی۔ 2009ء حنیف اخگر ملیح آبادی (سید محمد حنیف )۔ شاعر 2011ء سید سلیم شہزاد۔ صحافی 2013ء قمر علی عباسی۔ سفرنامہ نگار 2015ء رانا شمشاد علی۔ 2020ء محمد یحیی رسول نگری۔ (( وفیات اورخاکوں کا موسوعاتی اشاریہ۔۔۔ زیر ترتیب: عبد المتین منیری)) https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب
علم و کتاب
5/30/2025, 8:07:01 AM

غزل ساغر نظامی دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں ہے وہی عشق کی دنیا مگر آباد نہیں ڈھونڈھنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے وہ چلا ہے جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں روح بلبل نے خزاں بن کے اجاڑا گلشن پھول کہتے رہے ہم پھول ہیں صیاد نہیں حسن سے چوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ عشق سے بھول ہوئی ہے یہ مجھے یاد نہیں بربت ماہ پہ مضراب فغاں رکھ دی تھی میں نے اک نغمہ سنایا تھا تمہیں یاد نہیں لاؤ اک سجدہ کروں عالم مستی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں Https://telegram.me/ilmokitab

❤️ 5
علم و کتاب
علم و کتاب
6/1/2025, 6:49:27 AM

*سفرِ حج کے فائدے* مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں: سفرِ حج، در حقیقت انسانی ترقیوں کے تمام مراحل کا مجموعہ ہے۔ اس کے ذریعہ انسان، تجارت بھی کرسکتا ہے، علمی تحقیقات بھی کرسکتا ہے، جغرافیہ اور سیاحتِ علمیہ کے فوائد بھی حاصل کرسکتا ہے، مختلف قوموں کے تمدن و تہذیب سے بھی آشنا ہوسکتا ہے۔ اور ان میں میں باہم ارتباط و علائق بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اشاعتِ مذہب و تبلیغ، حق و معروف کا فرض بھی انجام دے سکتا ہے۔ سب سے آخر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام عالم کی اصلاح و ہدایت و انسدادِ مظالم و فتن، و قلع و قمع کفار و مفسدین و اعلانِ جہاد فی سبیل الحق و العدالت کے لیے بھی وہ ایک ہی اصلی بین الملی مرکز و مجمع عموم اہلِ ارض کا حکم رکھتا ہے۔ انتخاب الہلال/صفحہ: ۱۵۸/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

❤️ 👍 2
علم و کتاب
علم و کتاب
5/30/2025, 9:05:15 PM

*بارگاہ رسالت میں(۳۵ )۔۔۔ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ* *جمیل یوسف* ہماری یہ مشتاق نگاہیں مسجد نبویﷺ کے مینار دیکھنے کے لیے بیتاب وبیقرار تھیں۔ شہر کی متعدد شاہراہوں اور سڑکوں پر گھومتے ہوئے بس جونہی اک موڑ مڑی۔ ہماری نظروں کے سامنے مسجد نبویﷺ کے بلندوبالا نازک اندام مینار اپنے تمام تر حسن وجمال کے ساتھ آسمان کی بلندیوں اور کائنات کی وسعتوں کا استعارہ بن کر کھڑے تھے۔ ان میناروں کو زندگی میں ہزاروں دفعہ تصویروں میں جلوہ نما دیکھا تھا۔ تصویریں عموما اصل سے زیادہ حسین و جمیل ہوتی ہیں۔ مگر مسجد نبوی کے حسن کو کوئی تصویر پیش نہیں کرسکتی۔ وہ اپنی ہر تصویر سے زیادہ خوبصورت لگ رہے تھے۔ اسی اثنا میں کعبۃ اللہ کے میناروں کا خیال آیا لیکن ان میں وہ نزاکت ونفاست کہاں جو مسجد نبویﷺ کے چاروں طرف کسی محافظ ودرباں کی طرح ایستادہ میناروں میں ہے۔ یہ مینار کسی محبوب دلنواز کے قد رعنا کے تصور کی طرح دل آویز تھے۔ ان کی اُٹھان میں راستی اور بلندی تھی جس کو بیاں کرنے سے میرا قلم قاصر ہے۔ سیدعابد علی عابد کے الفاظ میں فقط اتنا کہا جاسکتا ہے ؎ مری زباں پہ لُغت بولتی ہے اور مجھے ملا نہ لفظ تیری آنکھ کے فسوں کے لیے مجھے بھی مسجد نبویﷺ کے حسن وجمال کے طلسم فسوں ساز کے اظہار کے لیے الفاظ نہیںمل رہے۔ ایک نمایاں فرق وامتیاز کعبۃ اللہ کی پرہیبت اور پرعظمت وشوکت عمارت اور اس کے میناروںکے مقابل مسجد نبویﷺ کی دلکشی اور دل آویزی اس کے میناروں کی رعنائی و زیبائی اور ندرت ونفاست میںتیکھا پن محسوس ہوتاہے۔ حرم کعبہ کے مینار اتنے بلند وبالا نہیں اور نہ ان کی اٹھان اور بلندی میں وہ راستی اور اونچائی ہے جو مسجد نبویﷺ کے میناروں میں ہے، پھر ان کے سامنے کلاک ٹاور کا بلند مینار لاٹ کی طرح ان کو ان سے کہیں اوپر اٹھائے کھڑا ہے۔ اس منظر کے مقابلے میں مسجد نبویﷺ کے میناروں سے اپنا سر بلند کرنے والی اور کوئی عمارت یا ٹاورمدینہ منورہ میں موجود نہیں ہے۔ ارد گرد کے ماحول میں کوئی اور بلند منظر ان کی ہمسری توکہاں ان کی برابری اور ان کی ہمسائیگی کا دعوی بھی نہیں کرسکتا۔ ہر مینار اپنے قد رعنا کے ساتھ کسی چاق وچوبند درباں کی طرح یکہ وتنہا کھڑا ہے۔ باالفاظ دگر مسجد نبویﷺ کے مینار تو اپنے قدرعنا کے ساتھ کسی شاخ گل کی طرح نرم ونازک دکھائی دیتے ہیں تو ایسے میں غالب کا یہ شعر خلد خیال کی زینت بن رہا ہے۔ جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم میں معتقدِ فتنہ محشر نہ ہوا تھا اور اب آکے تیرے شہر میں واپس نہ جائیں گے یہ فیصلہ کیا ہے ہم نے شہر تیرا دیکھنے کے بعد https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

👍 1
علم و کتاب
علم و کتاب
5/30/2025, 7:23:01 AM

*افادۂ آزاد* سکھر سندھ کے اجمل حسین قریشی مرحوم نے مولانا ابوالکلام آزاد علیہ الرحمہ سے ایک علمی سوال کیا تھا، جو اس طرح ہے: (سورۂ واقعہ کی ایک آیت کے متعلق، جس کا ترجمہ یہ ہے: "ہم نے تمہارے درمیان مقدر کر رکھا ہے اور ہمیں کوئی اس بات سے عاجز نہیں کرسکتا کہ تمہاری شکلیں تبدیل کردیں اور تمہیں ایسے مقام پر پیدا کریں، جسے تم نہیں جانتے؟" قریشی صاحب نے دریافت کیا تھا کہ اس میں موت کے بعد کسی دوسری شکل میں پیدائش کا بیان ہے، کیا اس سے آواگون اور تناسخ کے مسئلے پر استدلال کیا جاسکتا ہے؟ ۱۲/جولائی ۴۹ء) (مولانا ابوالکلام آزاد علیہ الرحمہ نے اس کا یہ جواب دیا) تناسخ پر اس سے کوئی استدلال نہیں ہوسکتا، جو لوگ مرنے کے بعد کی زندگی کے منکر ہیں، ان کی طرف روئے خطاب ہے کہ خدا کی قدرت، اس سے عاجز نہیں ہے کہ ایک نشاۃ کے بعد دوسری نشاہ پیدا کرے۔ افاداتِ آزاد/صفحہ: ۵۳/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

❤️ 1
علم و کتاب
علم و کتاب
5/31/2025, 9:00:12 AM

*ميزة الحج* من ميزة الحج، الجمع بين الحسنة في الدنيا، والحسنة في الآخرة: "وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّقُوۡلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً وَّفِى الۡاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ‏ أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ". (البقرة: ۲٠١/۲۰۲) ففي الحج منافع دنيوية للناس بجانب المنافع الأخروية. فإن الحج إذا كان بشروطه وآدابه يخرج الحاج بعد تأدية الحج، كأنه مطهر منقى يصدق عليه دعاء الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم "اللهم نقنى من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس". وذلك برعاية آداب الحج واحترام شعائره، وتأدية حقوقه المشروعة، لأن الاجتماع وخاصة إذا كان ذي جنسيات مختلفة، ولغات مختلفة، وطبائع مختلفة، يحدث دوافع إلى سوء تفاهم، ويؤدي الاختلاط والتزاحم إلى نزاعات فيؤكد القرآن الكريم على أهمية اجتناب هذه الدوافع، وإذا حدث سوء تفاهم فيؤكد على ضبط الأعصاب والتحمل فيقول "فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّؕ". (البقرة: ١٩٧) ولا يوجد نظير لمثل هذا الاجتماع الأمن المتصالح المتآخي المتعاون على البر والتقوى والإيثار، في الأمم الأخرى، فالأمن والسلامة والاحترام سمة من سمات هذا المكان والحج. الشيخ محمد واضح رشيد الحسني الندوي رحمه اللّٰه (الرائد: مايو٢٠٢٥م/ص: ١) https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

❤️ 🌹 👍 3
علم و کتاب
علم و کتاب
6/1/2025, 1:35:55 PM

بے نظیر بھٹو ۔ تحریر: کرامت اللہ غوری ۔ علم و کتاب لائبریری https://archive.org/download/banazeer-bhutto-by-karamatullah-gauri/Banazeer%20Bhutto%20By%20Karamatullah%20Gauri.pdf

علم و کتاب
علم و کتاب
6/1/2025, 9:37:03 AM

*وفیات: 1 جون* 1748ء میر قمر الدین خان صدیقی۔ آصف جاہ اول، نظام حیدرآباد 1961ء حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسری۔ بانی جامعہ اشرفیہ لاہور 1962ء شیدا لکھنوی (سید محمد نظیر )۔ 1963ء مولوی محمد سلیمان بدایونی۔ 1977ء سید سعید احمد ہاشمی ۔ کرنل 1978ء ڈاکٹر خلیل الرحمٰن عظمی۔ ادیب ونقاد 1979ء حضرت مولانا مولانا اسعد الله مظاہری۔ شیخ الادب مظاہر علوم سہارنپور 1987ء خواجہ احمد عباس۔ 1991ء مولانا سید رضا لقمان امروہوی۔ 1993ء مولانا شاہد تھانوی۔ 1995ء برگ یوسفی (شفیع اللہ خان)۔ 1996ء نیلم سنجیوا ریڈی۔ صدر ہند 2003ء شاہین بدر (سید محمد ابو ہاشم عابدین)۔ 2003ء فضل فتح پوری (سید افضال حسین نقوی)۔ 2006ء حنیف رامے۔ سیاست دان، ادیب 2007ء مولانا ناصر علی ندوی۔ استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو 2013ء ریاض الرحمن ساغر۔ 2019ء بشیر فاروقی ( بشیر الدین احمد)۔ شاعر 2020ء ڈاکٹر آصف فرخی۔ ادیب ونقاد 2021ء مفتی فیض الوحید۔ 2021ء احمد سعید خان ۔ نواب آٖف چھتاری ((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری)) https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

❤️ 1
علم و کتاب
علم و کتاب
5/30/2025, 7:55:24 AM

ایک کالم محققین، معلّمین اور مصلحین کے نام۔۔۔. احمد حاطب صدیقی - May 30, 2025 الحمد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے محترم عارف قریشی صاحب کا بہت بہت شکریہ کہ اُنھوں نے پندرہ منٹ سے پچپن سیکنڈ کم دورانیے کا ایک بصریہ ارسال فرمایا۔ اس بصریے میں متحرک عکاسی ہے اُردو زبان کے دو دانشوروں کے مکالمے کی۔ مکالمے کا آغاز کرتے ہیں ڈاکٹر عابد سیال، جو ہمارے عہد کے عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اُردو کے معلّم و محقق بھی ہیں۔ ڈاکٹر سیال نے یہ مصاحبہ اور مکالمہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ سے کیا ہے۔ ڈاکٹر ناشادؔ بھی ہمارے ملک کے ایک معروف شاعر، استاذ الاساتذہ اور اُردو زبان کے محقق ہیں۔ دراصل ڈاکٹر عابد سیال یوٹیوب پر ’’ادارۂ اُردو‘‘ کے نام سے ایک چینل چلا رہے ہیں۔ اس چینل کا ایک سلسلہ ’’ایک سوال‘‘ کے عنوان سے چل رہا ہے۔ مذکورہ بصریہ اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ڈاکٹر عابد سیال نے آغاز میں جو طویل سوال کیا ہے، اُس سوال کی طوالت معروف ماہر ابلاغیات جناب کامران خان کے سوالات کی طولانیوں کو مات کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے سوال میں سے فقروں کے فقرے نکال دینے کے باوجود تلخیص خاصی طویل ہوگئی ہے۔ یہ تلخیص بھی ہم اُنھیں کے الفاظ میں پیش کررہے ہیں۔ سوال کچھ یوں تھا: ’’ ہم اپنے ماحول میں بہت سی باتیں اپنی زبان درست کرنے کے حساب سے سنتے رہتے ہیں، یعنی ’مائنڈ یور لینگویج‘ وہ والا بھی اور جو ’زباں بگڑی توبگڑی تھی ‘۔ یعنی ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اُسے زبان کے کچھ اُصولوں کا زیادہ پتا ہے اورجو دوسرا ہے، جو چھوٹی چھوٹی غلطیاں کسی کتاب میں پڑھ لی ہے، کسی رسالے میں پڑھ لی ہے، کسی اخبار میں کوئی ایک مضمون چھپ گیا،کسی نے کوئی ایک بات کردی کسی تناظر میں، تو اُتنی بات یاد رکھ کے ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ دوسرا غلط زبان بول رہا ہے اور ایک لسانی درستی کا، جس طرح ہم اور معاملات کو درست کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، دوسروں کی اصلاح کی، تو لسانی درستی کا بھی یہ معاملہ ہے اور اس لسانی درستی کے عمل کے لیے جو حوالہ لاتے ہیں وہ حوالہ لاتے ہیں لغات سے کہ فلاں لغت میں ایسا لکھا ہوا ہے۔ تو لسانی درستی اور لغت پرستی میں کوئی فرق ہے کہ نہیں؟‘‘ سوال مختصرسا تھا کہ ’لسانی دُرستی اور لغت پرستی میں کوئی فرق ہے کہ نہیں؟‘ مگر تمہید طولانی ہوگئی۔ مختصر گوئی کی خوبی اپنانے کا مشورہ میرؔ صاحب تو کب کا دے چکے تھے کہ ’’عیبِ طولِ کلام مت کریو‘‘ پھر بھی ہمارے اکثر ماہرینِ ابلاغیات اسی اندازِ سخن کے خوگر ہیں۔ ڈاکٹر عابد سیال نے اچھا کیا کہ یہ سوال اُٹھادیا۔ ابلاغیات کی دُنیا میں اُردو زبان کے ساتھ جو’اسرائیلی سلوک‘ ہورہا ہے، اُس کو دیکھنے کے باوجود بہت سے ذہنوں میں سوال اُٹھ رہا ہے کہ آخر لسانی دُرستی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جو جیسے بول رہا ہے اُسے بولنے دیجے، بکنے دیجے۔ اس نقطۂ نظر کے حامی بیش تر وہ لوگ ہیں جن کی اپنی اُردو اچھی نہیں اور اب اُن میں اپنی اُردو اچھی کرنے کی سکت بھی نہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی اس نقطۂ نظر کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جن کا فرضِ منصبی ہی طلبہ کو اُردو کی تعلیم دینا ہے۔ تو جنابِ من! اگر لسانی دُرستی غیر ضروری شغل ہے تواس کی تعلیم دینے کی کیا مار آئی ہوئی ہے؟ ہمارے ملک میں اُردو کے جو گنے چنے چند اَساتذہ باقی رہ گئے ہیں، فارغ کردیجے اُنھیں بھی۔ استاذ الاساتذہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ نے اس بصریے میں جو باتیں بتائی ہیں اُن میں سے اکثر باتیں ہمارے ملک کے محققین، معلّمین اور مصلحین کے لیے چشم کُشا ہیں۔ بقول منیرؔ نیازی’’عقل والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت‘‘۔ مثلاً: ’’زبان کوئی جامد چیز نہیں، زبان ہر لحظہ بدلتی ہے، ہرآن بدلتی ہے اور یہ جو اس کا بدلنا ہے، یہ اس کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے‘‘۔ ’’ایک تو دیکھنا یہ ہے کہ لسانی درستی کون کررہا ہے؟ خود اُس کی لسان کا کیا عالم ہے؟‘‘ ’’اگر واقعتاً زبان کا وقوف رکھنے والا کوئی آدمی ہے اور واقعتاً اُس کا مقصد زبان کو بہتر کرنا ہے تو وہ بتائے، کوئی حرج نہیں ہے، اُسے بتانا چاہیے، وہ زبان کا سفرجانتا ہے، اس کے پاس سلیقہ ہے‘‘۔ زبان کو برتنے کے سلیقے پر ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ نے ’’کسی کا خوب صورت شعر‘‘ بھی سنایاکہ لفظ کے محملِ زرتار میں خوبانِ خیال کہیں مستور، کہیں چہرہ کُشا ہوتے ہیں ہم نے سید عابد علی عابدؔ کی ایک غزل میں یہی شعر یوں پڑھا تھا: لفظ کی بزمِ پُر اسرار میں خوبانِ خیال کبھی مستور، کبھی چہرہ کُشا ہوتے ہیں بات یہ ہے کہ آدمی اچھا شاعر ہو اور کسی کا شعر بھول جائے تو خود ہی اُس کی طرف سے اُس کے شعر سے اچھا شعر کہہ لیتا ہے۔ لسانی دُرستی کے باب میں ڈاکٹر ناشادؔ نے کیسی پتے کی بات کہی ہے کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ لسانی درستی کون کررہا ہے؟ خود اُس کی لسان کا کیا عالم ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ’’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ جیسی قدیم ضرب المثل کو درست کرنے کی کوشش میں ’’دھوبی کا کتا‘‘ بھگاکر اُس کی جگہ خود ’’دھوبی کا کتکا‘‘ لے کر کھڑا ہوجاتا ہو۔ عربی لغت سے ’غلیظ‘ کے معنی دیکھ کر آجاتا ہو، پھر سب کو ڈانٹ بتاتا ہوکہ ’’اُردو والو! تم اس لفظ کو+ بالکل غلط معنوں میں استعمال کررہے ہو‘‘۔ دنیا کی سب سے کم سن زبان ہونے کے باوجود اُردو انتہائی ترقی یافتہ زبان ہے۔ اس کے اپنے اُصول و قواعد ہیں۔ اپنے لغات ہیں۔ اُردو نے دوسری زبانوں سے جو الفاظ قبول کیے ہیں اُن میں سے کچھ الفاظ جوں کے توں لے لیے ہیں، تلفظ بھی وہی اور معنی بھی وہی، تاہم دوسری زبانوں کے کئی الفاظ ایسے ہیں جن میں سے کچھ کا تلفظ بدل گیا ہے، کچھ کا مفہوم۔ مثلاً اسی لفظ ’غلیظ‘ کو لے لیجے۔ اس کے معنی بدل گئے ہیں۔ عربی میں ’غلیظ‘ سخت اورگاڑھے کو کہتے ہیں، جو ’رقیق‘ کی ضد ہے، مگر اُردو میں یہ لفظ گندے، نجس اور ناپاک کے معنوں میں استعمال ہورہا ہے۔ غلیظ ہی سے’غلاظت‘ اور ’مغلّظات‘ بنالیا گیا ہے۔ اسی طرح فارسی میں ’مرغ‘ پرندے کو کہتے ہیں۔ اُن کے ہاں ہر طرح کا پرندہ ’مرغ‘ ہے۔گو کہ اُردو میں مرغ اِن معنوں میں بھی استعمال ہورہا ہے (تُو اے مرغِ حرم اُڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا) مگر ہمارے ہاں عموماً ایک خاص گھریلو پرندے کو مرغ یا مرغا کہا جاتاہے اور اس کی مادہ کو ’مرغی‘۔ انگریزی میں’ ‘Rail کے معنی پٹری، کٹہرا، جنگلا اور شہتیر یا کڑی وغیرہ ہیں۔ لیکن اُردو میں ’ریل‘ اُس گاڑی کو کہا جاتا ہے جو پٹری پر چلتی ہے اور چھکا چھک چلتی ہے۔ بعض لوگ وضاحتاً اسے ’ریل گاڑی‘ بھی بول دیتے ہیں۔ اُردو میں تو’ریل کی پٹری‘ کی ترکیب بھی رائج ہے، جسے انگریز سنے تو سنتے ہی پٹری پر لیٹ جائے۔ حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی ایک دن اجمیر کی طرف سے جے پور جارہے تھے کہ رستے میں ایک ’’جنگل کی شہزادی‘‘ کو دیکھ کر پٹری سے اُتر گئے۔ جوشؔ صاحب نے خود بڑے جوش و خروش اور تفصیل سے اس معاشقے کا احوال سنایا ہے: پیوست ہے جو دل میں وہ تیر کھینچتا ہوں اِک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں صاحبو! صورت یہ ہے کہ دیگر زبانوں کے لغات کی پرستش اُردو کا مزاج نہیں۔ اُردو کا اپنا مزاج ہے۔ اس کی دل کشی، اس کی شیرینی، اس کی گھلاوٹ اور اس کی جامعیت اپنی خوش مزاجی کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا اُردو کے مزاج کے خلاف جب کوئی چیز آتی ہے تو کھٹکنے لگتی ہے۔ تب ہی ’لسانی درستی‘ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً جس بصریے سے اس کالم کا آغاز ہوا ہے اُس میں سے نمونتاً صرف دوجملے: ’’لغت نہیں اَپ ڈیٹ ہوا‘‘…’’لغت کو اپ ڈیٹ کرنے والے جو ادارے ہیں اور جو اِنڈی وی جؤَل مرتبین ہیں…‘‘وغیرہ۔ آپ خود فیصلہ کیجیے کہ ’اَپ ڈیٹنگ‘ اور ’انڈی وی جؤلی ٹی‘ کو لغت پرستی کا نام دیا جائے گا یا سنتے ہی’لسانی دُرستی‘ کا کام کیا جائے گا؟ بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل Https://telegram.me/ilmokitab

❤️ 1
علم و کتاب
علم و کتاب
5/29/2025, 9:00:56 PM

*وفیات: 30 مئی* 1930ء مولانا قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری۔ مصنف رحمۃ للعالمین 1942ء مولانا حیدر حسن خان ٹونکی ۔ شیخ الحدیث 1981ء ضیاء الرحمن ۔ کرنل، صدر بنگلہ دیش 2001ء رضوان اللہ۔ 2004ء ڈاکٹر مقبول احمد ۔ 2004ء مولانا نظام الدین شامزئی۔ 2004ء عبد الرشید رستم قلم۔ 2005ء اسلم مجاہد۔ 2009ء جعفر النمیری۔ صدر سوڈان 2011ء سید سلیم شہزاد۔ ((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری)) https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Link copied to clipboard!