
علم و کتاب
February 7, 2025 at 08:54 PM
[2/7, 6:57 PM] Masum Muradabadi: شمع ادبی معموں کی تیاری کچھ ادیب اور شاعر کیا کرتے تھے۔ مگر ان کا نام ہمیشہ صیغہ راز میں رکھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شناخت کسی کو معلوم نہیں ہوسکی۔ جملے اکثر کتابوں سے لئے جاتے تھے اور اشعار مجموعہ ہائے کلام سے۔
[2/7, 7:21 PM] Masum Muradabadi: خوشتر گرامی کے بیسویں صدی کی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے۔ جو تحریریں بیسویں صدی ان کے نام سے شائع ہوتی تھیں وہ کوئی اور لکھتے تھے۔ کسی وقت اس پر بھی لکھوں گا
[2/7, 7:38 PM] Abdul Mateen Muniri: ہماری یاد سے اردو کتابیں اور اخبارات لیتھو پر چھپا کرتے تھے، اس کے لئے اخباری سائز کا بڑا کاغذ ہوتا تھا جس پر انڈے اور ہلدی کی زردی پوتی جاتی تھی، اس پر خطاط لکھتے تھے، اور جسے ایک بڑے سنگ مرمر پر چسپان کیا جاتا تھا، کیمیکل سے اسے صاف کیا جاتا تو الٹے (معکوس) الفاظ ابھر آتے تھے، ممبئی بھنڈی بازار میں کئی سارے ناشریں تھے، جن کے یہاں خطاط کتابت پر مامور تھے، ہمارے تایا الحاج محی الدین منیری مرحوم کی ایجنسی تاج کمپبی ، مسجد اسٹریٹ میں مصاحف اور کتابوں کے ساتھ ان اوراق کی بھی فروخت ہوتی تھی،اور کاتب بڑی تعداد میں یہ مسالہ دار کاغذ لے کر جاتے تھے، اس زمانے میں ایک بڑے کاغذ کی قیمت پاونے دو روپیہ یا دو روپیہ ہوا کرتی تھی، خط معکوس اس دور سے پہلے کا ہے، جسے ہم نے نہیں دیکھا بس اس کے بارے میں سنا ہے، اس میں کتابت کے لئے مسالہ دار کاغذ کا استعمال نہیں ہوتا تھا، بلکہ خطاط براہ راست ایک موٹی سنگ مرمر کی سل پر براہ راست معکوس عبارت لکھتا تھا، اور اسے کیمیکل سے ابھارا جاتا تھا، ایک صفحہ چھپنے کے بعد اسے کیمیکل سے صاف کرکے دوسرا صفحہ اس پر لکھا جاتا ، اسے کتابت معکوس کہا جاتا تھے، خلیق ٹونکی رحلت پر جو مضامین آئے تھے، ان میں اس بات کا تذکرہ یاد ہے۔ یہ بڑا محنت طلب کام تھا۔
[2/7, 7:55 PM] Masum Muradabadi: معکوس نویسی براہ راست پتھر پر کی جاتی تھی۔ لیتھو طباعت کے لئے اس کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ پیلے مسطر پر ایک خاص کیمیکل والی سیاہی سے لکھی جاتی تھی۔ معکوس نویسی یعنی الفاظ کو الٹا لکھنا ایک بہت مشکل کام تھا۔ میرے خطاطی کے استاد مرحوم خلیق ٹونکی کو اس میں بھی مہارت حاصل تھی۔
[2/7, 8:04 PM] +91 90053 02800: لیتھو پریس میں بھی معکوس نویسی کا کام ہوتا تھا، پیلے رنگ کے کاغذ کو جب لیتھو مشین کی پلیٹوں پر چھاپا جاتا تھا تو الفاظ یا عبارتیں معکوس اس پر چھپ جاتیں، جب ان پلیٹوں پر کسی عبارت لفظ یا حرف کی تصحیح کرنی ہوتی تو معکوس نویسوں کی ضرورت پڑتی، اور وہ تصحیح کرتے، بعض ایسے خطاط بھی تھے جو ان پلیٹوں پر براہ راست لکھ دیتے تھے، ہمارے بچپن میں ہمارے ماموں جناب حفیظ نعمانی صاحب کے تنویر پریس میں قاری عبد القیوم صاحب یہ خدمت انجام دیتے تھے، وہ چھوٹے اعلانات وغیرہ براہ راست پلیٹ پر ہی لکھ دیتے، ہاں کتابیں وغیرہ اس طرح نہیں لکھے جاتے تھے، تنویر پریس میں جب قاری عبد القیوم صاحب کچھ لکھتے تو اپنا نام ایک کونے میں اس طرح لکھتے: "معکوس نوشتہ، قلم برداشتہ قاری عبد القیوم قائم لکھنوی م، ق".
ہمارے بچپن میں لیتھو پریس کی پلیٹیں جست کی ہوتی تھیں، پتھر کی نہیں ہوتی تھیں، ہوسکتا ہے پہلے ہوتی رہی ہوں.
[2/7, 8:21 PM] Abdul Mateen Muniri: جست کی پلیٹیں مہنگی پڑتی تھیں، لیتھو میں ایک ہی موٹی سل استعمال ہوتی تھی، جو گھس گھس کر پتلی ہوجاتی تھی، فوٹو افسٹ کے بعد غالبا جسٹ کی پلیٹوں کا استعمال عام ہوا، ہمارے خٰیال میں تاج کمپنی کراچی اور لاہور نے قرآن مجید کی اعلی طباعت اہتمام کیا اور اس پر جو خرچے اٹھائے ، بڑی بڑی مالدار سلطنتوں نے بھی ویسا نہ کرسکیں، یا انہیں کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، کتابت کے بعد جرمنی سے بلاک بنائے جاتے تھے، اس میں کتابت کی نفاست کا معیار ہی کچھ الگ تھا۔ غالبا ایک ایک مصحف کے بلاک سے کمرے بھر جاتے تھے۔
[2/7, 8:26 PM] Ubaid Iqbal Asim: راقم کا تعلق دیوبند سے ھے ۔دیوبند میں لیتھو پریس بڑی تعدادمیں تھے ۔ "جستی پلیٹوں" پر "مسطر" کو مشین کے ذریعہ چپکایا جاتا تھا وہ مشین ٹیکنیکل زبان میں "داب" کہلاتی تھی اس کے بعد پلیٹوں کی پانی سے دھلائ ہوتی تھی پلیٹ پر حروف ابھر آتے تھے' لیکن کچھ حروف چھوٹ جاتے تھے کوئ ۴ماہر کاتب الٹے حروف کو درست کرتا تھا اس کاتب کو "سنگساز" کہا جاتا تھا ۔ ہمارے گھر کے سامنے فرقان بھائ کا "محمدی پرنٹنگ پریس" چند قدم کے فاصلے پر بابو عطاؤالرحمان کا"وسیم پریس" ہمارے تاۓ زاد بھائ مولانا شوکت علی مرحوم کا "آزاد پریس" جیسے دسیوں پریس تھے جن میں یہ چھپائی ہوتی تھی بچپن سے ہی الٹی پلیٹ پڑھنے میں مہارت ہوگئ تھی آتےجاتے دو تین پلیٹ پڑھنا معمول میں شامل تھا اب تو بس باتیں ہی باتیں رہ گئ ہیں ۔۔۔ جانے کہاں گۓ وہ دن۔۔۔۔۔ عبید اقبال عاصم علی گڑھ
[2/7, 8:27 PM] Abdul Mateen Muniri: یہ کہنا کہ خوشتر گرامی نے کچھ نہیں لکھا شائد درست نہ ہو، شوکت تھانوی نے کہیں لکھا ہے خوشتر گرامی تاجر ہیں، پنجاب کے اردو اخبارات و پرچوں کے مالکان عموما تاجر ہی رہے ہیں، ان کے پاس ویسی زبان نہیں تھی جو مسلمان صحافیوں کی تھی، دیوان سنگھ مفتون کے ہفتہ وار ریاست کا تقسیم ہند سے قبل کیا دبدبہ رہا ہے، لیکن جب ان کی خواجہ حسن نظامی سے ٹھن گئی تو کہتے ہیں خواجہ صاحب کی زبان کے سامنے پٹ گئے۔ خوشتر کے ۱۹۷۴ء تک کے خاکوں کا ایک مجموعہ چھپا ہے، پمارے خیال میں یہ مضامین زیادہ تر انہیں کے قلم سے ہونگے، کیونکہ بعد کے خاکوں میں وہ بات نہیں ہے۔
[2/7, 10:37 PM] Dr Asghar Kamal Delhi: اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
(فانی )
زندگی ایک دیوانے کا خواب ہو کہ نہ ہو معموں کے ذریعے لکھ پتی بننے کا خواب دیکھنے والے دیوانوں کی کمی نہیں تھی ، مطبوعہ معمے ہر دوکان پر مہیا تھے جو شمع رسالہ بیچتے وہ معمے بھی اپنی دوکانوں پر سجالیا کرتے تھے ،
یہ ایک ایسا معمہ ہے جو کبھی حل ہی نہیں ہوا ، کبھی کبھی پورا معمہ حل کرنیوالے اتنی کثیر تعداد میں ہوتے کہ بطور انعام مختصر رقوم ہی ہاتھ لگتیں اور کبھی کبھی دو یا تین غلطی کرنیوالے اتنے مختصر ہوتے کہ ہزاروں روپے انعام کے حقدار ٹھہرتے ، کروڑوںکی تعداد میں لوگ اس میں حصہ لیتے تھے جبھی تو ہم جیسے اسکولی بچوں کو معمہ چیک کرنے کی (تین دن کی) اجرت اتنی مل جاتی کہ کچھ دن بڑے مزے میں گزرتے ، معموں کو چیک کرنے والے بھی دوچار نہ ہوتے تھے ان کی تعداد بھی سو سے تجاوز کرجاتی تھی اور پھر جیتنے والوں کے لئے منی آرڈر لکھے جاتے اور یہ سلسلہ بھی کافی دنوں تک جاری رہتا ، یہ ایک ایسا صاف شفاف کھیل تھا جس کے سینکڑوں گواہ تھے ، ایک ایک معمہ کو تین تین بار چیکنگ کی آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا ،
بچپن کی معصوم دنیا میں پہنچانے پر بھائی معصوم مرادآبادی کا شکریہ ،