علم و کتاب
علم و کتاب
February 8, 2025 at 04:32 PM
میری محسن کتابیں(۱) نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن خان شروانیؒ ولادت:بھیکن پور،ضلع علی گڑھ ۲۸ شعبان ۱۲۸۳ ھ مطابق ۵ جنوری ۱۸۶۷ ء مشہور افغانی خاندان شروانی سے آپ کا تعلق تھا،خاندانی رئیس تھے،بھیکن پور ضلع علی گڑھ آپ کی موروثی ریاست تھی۔دوسرے اساتذہ کے علاوہ خاص طور پر استاذالعلماء مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے علم کی تحصیل کی۔عربی تعلیم ہی کے زمانہ میں انگریزی کی تحصیل کی تھی،اس سے اچھی طرح واقف تھے،حضرت مولانا فضل رحمٰن گنج مرادابادی سے اجازت وخلافت حاصل تھی۔ندوۃ العلماء کے اساسی اراکین میں تھے،اور اس کے پرجوش وکیل وداعی تھے۔محمڈن کالج کو مسلم یونیورسٹی میں تبدیل کرنے میں آپ کی کوششوں کو بڑا دخل ہے۔۱۹۱۸ ء سے ۱۹۳۰ ء تک ریاست حیدرآباد کے صدرالصدور امور مذہبی رہے۔جامعہ عثمانیہ کے قیام اور اس کے تخیل میں بھی آ پ نے نمایاں کردار ادا کیا،آپ ہی اس کے پہلے وائس چانسلر تھے۔دارالمصنفین کے دائمی صدر بھی تھے۔ان کا ذاتی کتب خانہ برصغیر کے چند اہم شخصی کتب خانوں میں شمار ہوتا تھا،(اب وہ مولانا آزاد لائیبریری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا ایک حصہ ہے)اس میں صرف مخطوطات کی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ ہے۔ وہ ایک بلندپایہ مؤرخ،اور اردو کے بڑے ادیب وانشاپرداز تھے۔ان کی کتابوں میں تذکرئہ بابر ،سیرت الصدیق،علمائے سلف،نابینا علماء،استاذ العلماء،رسائل سیرت اور مقالات شروانی وغیرہ ہیں۔ وفات:علی گڑھ ۲۶ /شوال ۱۳۶۹ ھ مطابق ۱۱ / اگست ۱۹۵۰ ء مدفن:بھموری،آبائی قبرستان (ضلع علی گڑھ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ باغبان تخم بونے سے پہلے اس کے مناسب زمین کا انتخاب کرتا ہے،انتخاب کے بعد زمین کو سیراب کرتا ہے،خس و خاشاک سے پاک وصاف جب اس طرح زمین تیار ہولیتی ہے تو اس میں عمدہ تخم تلاش کر کے بوتا ہے،پود ے کی گرمی سردی سے حفاظت کرتا ہے،اس کے ماحول کو خار وخسک سے پاک و صاف رکھتا ہے،سیرابی سے اس کی نشو نما کو مدد پہنچاتا ہے۔اس اہتمام سے وہ پودا تناور درخت ہوجاتاہے،جو اپنے سائے اور پھل سے ایک عالم کو فیض پہنچاتا ہے۔ بعینہ یہ حال ایک طالب علم اور اس کے ذوق و استعداد علمی کے نشو نما کا ہے۔سب سے مقدم اس کے باطن کا بر ی خصلتوں سے اور بداخلاقیوں سے پاک وصاف ہوناہے۔باطن کی صفائی علمی اثرات کے قبول وبارآور ہونے کی ضامن ہے۔طالب علم کی صفات پر سب سے اول اثر گھر کے ماحول کا ہوتا ہے،اس کے بعد استاد کی صحبت کا،جس میں تعلیم و تربیت اخلاق دونوں شامل ہیں۔بالآخر خود طالب علم کی اس جد وجہد کا جو وہ خود اپنی تربیت میںکرے۔ یہ تمام اہتمام گویا زمین علم کی تیاری کا تھا۔پھر مناسبِ طبیعت علم کا انتخاب گویا تخم کا انتخاب ہے ۔درس و تعلیم اس تخم کی نشونما اور بارآور ہونے کی سعی ہے۔ اس ضروری تمہید کے بعد عرض ہے،جو خود ستائی نہیں اظہار واقعہ ہے،کہ میں نے جس فضامیںآنکھ کھولی وہ الحمدللہ علمی،دینی وادبی تھی۔میرے عم محترم مولوی عبدالشکور خاں صاحب مرحوم نے (جو میرے مربی تھے،اللہ کی رحمتیں ہوں ان پر)علوم عربیہ کی تحصیل ملا حسن تک کی تھی۔مولانا سید عالم علی صاحب محدث مرادابادی ہفتوں،بعض اوقات مہینوں بھیکن پور میں قیام فرمارہتے تھے۔وجہِ قیام زیادہ ترمعالجہ امراض ہوتا۔عم محترم حدیث میں ان کے شاگرد بھی تھے اور سنا ہے کہ مرید بھی۔مولانا لطف اللہ صاحب ؒ بھی اکثرتشریف فرماہوتے۔مولانافیض الحسن صاحب سہارنپوری بھی کرم فرماتے۔علی ہذا القیاس۔ دوسرا سلسلہ:مولوی عبدالغفور خاں صاحب نقشبندی مجددی کا گھر بھی مرید تھا۔ذکر کے حلقہ اندر باہر برابر ہوتے۔مولوی سید حضور احمد صاحب سہسوانی مرحوم کے مواعظ میںمثنوی مولانا رومؒ کی گرمیِ تاثیر اس قدر تھی کہ قرن گزر جانے پر بھی طبیعت اب تک ا سکا احساس رکھتی ہے۔ایک بڑی سعادت یہ تھی کہ میرے جد امجد محمد خان زماں خاںصاحب نے (جن کو شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ سے بیعت تھی)میاں سید امین الدین جلیسری کے ذریعہ سے،شاہ اسحاق صاحبؒ مرحوم محدث دہلوی سے شادی غمی کی رسموں سے متعلق فتویٰ حاصل کیا تھا،جو مسائل اربعین کے نام سے مشہور ہے۔اس کے مطابق اپنے برادر معظم حاجی محمد داؤد خاں صاحب مرحوم کی سرپرستی میں رسوم خاندان کی اصلاح فرمائی تھی ،جو بفضلہ تعالیٰ بہت کچھ اب تک جاری ہے۔اس طرح ہمارا گھر فضول رسوم سے پاک صاف تھا،اور کسی رسم کا اہتمام میں نے اپنے گھر میں نہیں دیکھا۔ میرے والد مرحوم کو ادب اردو اور تاریخ فارسی کا ذوق تھا۔ایک انتخاب ’’سراپا معشوق ‘‘کے نام سے شائع کیا تھاجس میں سراپا سے متعلق اردو شعراء کے کلام کا انتخاب تھا۔تاریخ میں تاریخ فرشتہ،سیر المتأخرین،تزک جہانگیری،روضۃ الصفا زیر مطالعہ رہیں۔شب کے کھانے سے پہلے،اور دوپہر کو سوتے وقت لیٹ کر کتاب دیکھتے۔فرماتے تھے:روضۃ الصفا کے وزن سے سینہ دکھنے لگتا ہے۔اپنی صحبتوں میں تاریخی واقعات بیان فرماتے۔ یہ تھی وہ فضا، جس میں میں نے آنکھ کھولی ،اور جو آج تک الحمدللہ آنکھوں کے سامنے ہے،اور جس کے سامنے کوئی دوسری فضا فروغ نہیں پاسکی۔ آمدم بر سر مطلب،سب سے اول جس کتاب کو خود پڑھا وہ مرزا غالب کی اردوئے معلی تھی۔والد مرحوم نے دیکھنے کو عنایت فرمائی تھی،یہ سمجھئے کہ کتاب دیکھنے کے شوق کی یہی بنیاد تھی ،محض ابتدائی عمر تھی،پوری طرح سمجھتا بھی نہ تھا،تاہم دیکھے جاتا تھا،اس سے ایک ادبی ذوق کا پیدا ہونا بین احساس تھا۔ https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
❤️ 👍 5

Comments