
علم و کتاب
February 9, 2025 at 06:00 AM
کیا ہم مسلمان ہیں (۳۴) خدا کی سَمت میں کشاں کشاں زندگی ( دوسری قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی
جب جنگِ بدر کے ہمّت آزما میدان میں پہلی بار اس حقیقت کا تاریخی فیصلہ ہونا تھا کہ اکیلا زبر دست خدا کافی ہے یا پتّھروں سے تراشے ہوئے سیکڑوں جُھوٹے خدا ؟ جب باطل کے پاس سوائے خدا کے سب کچھ تھا اور حق کے دامن میں رحمتِ خدا کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا ۔ جب بُھوک اور افلاس سے کُچلے ہوئے مُٹھی بھر انسان خدا پر بھروسہ اور محمّد ﷺ کا اعتبار کر کے وہاں تک کھنچ آئے تھے جہاں موت اور زندگی کی سرحدوں پر کفرو شرک کی ساری قہرمانیت جبڑے پھیلائے کھڑی تھی ۔ جہاں بھولے بھالے انسانوں کو کچّا چبا جانے کے لیے درندگی اور شیطنت کا ایک جنگل کا جنگل دانت پیستا اور چنگھاڑتا ہوا آگے بڑھا چلا آرہا تھا __ جہاں صرف ایمان کی طاقت سے آہنی ہتھیاروں کو توڑ دینا اور آب دار تلواروں کو کُند کر دینا تھا __ جہاں دلوں کے سوز سے فولادی چٹانیں پگھلا دینی تھیں۔ جہاں بے سرو سامانی کو ثابت کرنا تھاکہ وہ سازوسامان پر بھاری ہے جہاں انسان کو اپنا عجز اور اللہ کی کبریائی کا ثبوت ایک ساتھ پیش کرنا تھا ۔ وہاں جہاں باطل کی دیو پیکر صفوں پر کفر و سرکشی نے شور و شر سے آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا وہاں خیمۂ رسالت ﷺ میں بندگی کا عجز آخری انتہاؤں کو چُھو رہا تھا۔ یہاں خدا کی شانِ بے نیازی سے لرزہ براندام ہوکر جن و بشر کے آقا محمد ﷺ کبھی فرشِ خاک پر سر رکھتے تھے اور کبھی ایک بھکاری کی طرح خدا کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بہ ہزار خشوع گڑ گڑا تے اور غیرتِ خداوندی اور رحمت کو تڑپ تڑپ کر پکارتے تھے ۔ اس وقت بھی وہ رازدانِ رسالت حضور ﷺ کے پہلو میں کھڑا ہوا شہادتِ حق کی ہوک سے تھر تھرا رہا تھا جب عبد و معبود کے درمیان راز و نیاز کے اس عجیب و غریب عالم میں آں حضرت ﷺ کی تڑپ ان دُعائیہ الفاظ تک پہنچی:
"یا اللہ! مجھے بے یارو مددگار نہ چھوڑ ! مُجھ سے تو نے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا فرما ۔ اگر تیرے یہ مُٹھی بھر بندے آج اس میدان میں کام آ گئے تو کیا اے خدا __ ! اے خدا __ ! تو یہ چاہتا ہے کہ زمین پر کبھی تیری پرستش نہ ہو .... کیا ...."
تو بے اختیار حضرت ابو بکرؓ کا کلیجہ مُنہ کو آ گیا ۔ دل کی بے قرار دھڑکنیں ہونٹوں پر تڑپ گئیں اور ساری انسانیت کا سوزِ حق __ سوزِ شہادتِ حق اپنی آواز میں سمیٹتے ہوئے انھوں نے آنسوؤں سے بھیگی اور جوش سے کانپتی ہُوئی آواز میں سرگوشی کی "اللہ کا رسول( ﷺ)سچّا ہے __ سچ کہتا ہوں اللہ کا رسول(ﷺ) بالکل سچّا ہے ۔"
اُدھر جنگ تھی کہ شدّت پکڑ رہی تھی ۔ ادھر دعا ے رسول ﷺ کا دِل دوز سوز تھا کہ جسم وجاں اور کون ومکاں سے آگے نِکلا جا رہا تھا ۔ اُدھر وحشیوں کی چنگھاڑ سے فضاؤں میں شگاف پڑ رہے تھے ۔ اِدھر رُوح و دِل کی ہوک تھی کہ ذرّوں سے ستاروں تک کائنات کا دل ہلائے دے رہی تھی ۔ حضرت ابو بکرؓ ان دونوں کے درمیان تھے ۔ اُدھر فرض تھا جو خون کے ایک ایک قطرے کو گرمائے دے رہا تھا۔ اِدھر رسول ﷺ کا دردِ دل تھا جو اُن کو تڑپائے دے رہا تھا کہ حضور ﷺ کے قدموں پر اپنا دل چیر کر ___ کلیجہ نکال کر رکھ دیں ۔ فرطِ شوق سے ان کا وجود "دو نیم" ہوا چاہتا تھا کہ اِدھر بھی کام کر سکے اور اُدھر بھی کام آ سکے ۔ محاذِ جنگ کی للکار سنائی دیتی تو برقِ نیم بسمل کی طرح تڑپتے ، بل کھاتے ہوئے نِکل جاتے پھر خیمۂ رسول ﷺ نظر آتا تو موت اور زندگی دونوں کو بُھولے ہوئے __ آتشِ لہو کے طوفانوں کو چیرتے ہوئے __ پارے کی طرح لرزتے تڑپتے ہوئے حضور ﷺ کے پاس دوڑ کر آتے اور پھر ایک نظر حضور ﷺ کو دیکھ کر شہادت کی نئی دُھن میں محاذِ جنگ کی طرف جست کر کے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیتے ، اس عالم میں اُنھوں نے تلواروں کی چھاؤں میں کھڑے ہو کر خیمۂ رسالت ﷺ کی طرف پلٹ کر دیکھا تو شدّتِ جذبات سے ایک بجلی سی گر گئی ___ ایک سنسنی خیز ، رقت انگیز منظر نے ابو بکرؓ کی تمام توجہ کو اپنے اندر جذب کر لیا ۔ اُنھوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ اب دُعا میں اس قدر گُم ہو چکے ہیں کہ آپ کو اور کسی بھی شے کا ہوش باقی نہیں ہے ۔ ارتعاش واضطراب کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کی رداے مبارک شانوں سے کِھسکتے کِھسکتے زمین پر جا گری تھی اور آپ ﷺ اسی طرح ہاتھ پھیلائے ہوئے معبُودِ حقیقی کے آگے گِڑ گِڑا رہے تھے۔ پیغمبر ﷺ کی یہ کیفیت کتنی دِل دوز اور کیسی ہوش رُبا تھی کہ حضرت ابو بکرؓ اُفتاں خیزاں خیمے کی طرف دوڑ رہے تھے ۔ اشک بار ، بے قرار ، پروانہ وار ـ۔ ! صرف اس لیے کہ محمّد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر زمین پر گر گئی تھی ۔ ہائے ان مقدّس شانوں سے ڈھلک کر اس چادر کا زمین پر گر جانا ابو بکر صدیقؓ کے لیے زمین و آسمان کے گر جانے سے بھی کہیں زیادہ تھا ۔ وہ مامتا سے بے قرار ماں کی طرح آۓ اور اس حسین چادر کو اشک آلود آنکھوں سے لگا کر پھر انھیں شانوں پر درست کر دیا جن شانوں پر دنیا بھر کی غم خواری کا بوجھ کوہِ گراں کی طرح رکھا ہوا تھا۔
یہ تھا وہ "سوز دعا" جس کی تپش سے بُھوکے پیاسے مومنوں کے سینوں میں عشق واطاعت کے اُونچے جذبات جوالا مکھی کی طرح پھٹے پڑتے تھے ۔ یہ سوزِ دُعا تھا جو صدیقی جرأت پر۔ حوصلوں اور ولولوں پر نغمۂ ہُدیٰ کا ساحرانہ کام کر رہا تھا ۔ نڈھال ہوتے ہوئے قدموں میں بجلیاں سی لپکتی تھیں ۔ شل ہوتے ہوئے بازوؤں میں خون کی روانی سُست پڑتے پڑتے اچانک ایک طوفان بن جاتی ۔ باطل کی زبر دست طاقت کو دیکھ کر آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جانے سےپہلے دِل فرطِ شوق سے شق ہوتے اور خُدا کی طاقت پر اٹل ایمان ایک سیلِ نور بن کر اُبل پڑتا۔ زخموں سے ٹپکتے ہوئے ہر ہر قطرۂ خون میں جب آخرت کی سُرخروئی ایک جاں نواز جھلک بن کر دکھاتی تو زخموں سے چُور جسم جراءت واستقلال کی چٹانیں بن جاتے ۔ یہ سوزِ دعا تھا جس سے زمین و آسمان میں سنسنی دوڑ رہی تھی ۔ انسان موج در موج آگے بڑھ رہے تھے ۔ فرشتے ہجوم در ہجوم زمین پر اُتر رہے تھے تاکہ ان انسانوں کے دوش بدوش کھڑے ہونے کا فخر حاصل کر سکیں جن کے متعلّق مشیتِ ایزدی کا فیصلہ یہ تھا کہ وہ قیامت کے دن خدا کی داہنی طرف جگہ پائیں گے. جب خُدا انتہائی جلال میں بساطِ کائنات کو اپنے ہاتھوں میں لپیٹ کر کہہ رہا ہوگا " آج کے دن کِس کا راج ہے __ ؟ اللہ زبر دست اکیلے کا !"
آخر حق فاتح نِکلا۔ شہادتِ حق کے لیے کُھلے ہوئے سینوں کو باطل پیٹھ دکھا کر بھاگ رہا تھا۔ بندگی کا حلقہ گردن میں ڈال لینے سے جن لوگوں نے انکار کیا تھا ان کے ہاتھوں میں خدا کے بندے زنجیریں پہنا رہے تھے غرور و تکبّر سے زمین کو دہلانے والے سلاسل میں جکڑے ہوئے سہمے کھڑے تھے ۔ یہ نفرت و سفّاکی کے مجرم تھے ۔ یہ انسانیت کے ہتیارے تھے ۔ یہ خدا کے باغی تھے ، اسی لیے سب سے بڑے ظالم تھے __ وہ ظالم جو دوسروں پر ظلم وستم کر کے در حقیقت خود اپنی جانوں پر آخری ستم ڈھاتے ہیں۔ لیکن یہ ظالمانہ مظلومیت کا درد ناک پہلو اس وقت ان کے جرائم کی سیاہی میں اس طرح چھپ کر رہ گیا تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ نے جوشیلی آواز میں یہ رائے پیش کی کہ ان سب کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے اور ساتھ ہی نسل و خون کا بُت بھی اس طرح پاش پاش کر دیا جائے کہ ہر مومن اس کا فر کو قتل کرے جو اس کا اپنا قریبی عزیز ہو ۔ لیکن رحمۃ للعالمین ﷺ نے فرمایا ان لوگوں کو معاف کیا جائے تو کیا حرج ہے __ ہائے وہ شفیق دل جو اس وقت بھی اجازت نہ دیتا تھا کہ کفر کے یہ مجرم کفر کی موت مرکر ہمیشہ کے لیے دوزخ کا ایندھن بنیں ۔
آپ ﷺ اس وقت بھی بے چین تھے کہ سرکشی کے جُرم میں تلوار کے نیچے پڑی ہوئی گردنیں اُٹھیں اور خدا کی چوکھٹ پر پیشانی ٹیک دیں ۔ اسلام کی مسلسل مظلومیت اور کفر کے پے در پے مظالم کو دیکھتے ہوئے حضور ﷺ کی اس تجویز کو حیرت بھری خاموشی سے سُنا گیا ۔ لیکن اس خاموشی کو توڑتی ہوئی اور حضور ﷺ کی تائید کرتی ہوئی جو پہلی آواز آئی وہ حضرت ابو بکرؓ کے سوا کس کی ہو سکتی تھی ___ ابو بکرؓ جس کے سازوں کے تمام تار مضرابِ رسالت ﷺ کے اشاروں پر حرکت کرتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا ۔ ابو بکرؓ کے سینے سے ہمیشہ اس کی صدائے بازگشت آئی ۔
(جارى)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
❤️
1