
Great Stories 😎
February 17, 2025 at 05:11 AM
ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گذر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ یہاں کے باشندوں نے کبھی جنگ کا نام تک نہ بھی سنا تھا اور وہ فاتح اور مفتوح کے معنی سے تک سے ناآشنا تھے۔ بستی کے باشندے شہنشاہ معظم کو مہمان کی حیثیت سے بڑے ادب و احترام ساتھ لے کر اپنے سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے شہنشاہ کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی۔
کچھ دیر میں اس بستی کے دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا الیہ کی حیثیت سے سردار کی جھونپڑی میں داخل ہوئے کیونکہ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی کرتی تھی۔
مدعی نے سردار کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے کہا۔
”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا، میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں مانتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس شخص سے صرف زمین خریدی تھی اور اسے صرف زمین ہی کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں“، اس لئے برآمد ہوئے خزانے پر میرا کوئی حق نہیں۔
مدعا الیہ نے جواب میں کہا۔
”میرا ضمیر ابھی زندہ ہے، میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں جب میں یہ زمین اسے فروخت کرکے اس کی قیمت وصول کر چکا ہوں۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے، اب میرا نہ تو اس زمین اور نہ ہی اس میں موجود اشیاء سے کوئی تعلق ہے“۔
سردار نے دونوں فریقین کی بات غور سے سننے کے بعد مدعی سے پوچھا۔
”تمہارا کوئی بیٹا ہے؟“
”ہاں ہے!“
پھر مدعا الیہ سے پوچھا۔
”اور تمہاری کوئی بیٹی بھی ہے؟“
”جی ہاں....“ مدعا الیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی۔
”تو تم ان دونوں کی شادی کرکے یہ خزانہ ان کے حوالے کر دو۔“
اس فیصلے نے جھونپڑی میں بیٹھے شہنشاہ کو حیران کر دیا۔ اور
وہ اسی حیرت زدہ انداز میں کچھ سوچنے لگا۔
سردار نے متردد شہنشاہ سے دریافت کیا۔ ”کیوں؟ کیا میرے اس فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟“
”نہیں ایسی بات نہیں ہے۔“ شہنشاہ نے جواب دیا۔
”لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔“
سردار نے سوال کیا۔
”اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟“
شہنشاہ نے کہا، ”پہلی تو بات یہ ہے کہ اگر یہ یا اس طرح کا کوئی واقعہ ہمارے ملک میں ہوتا تو خریدار اور بیچنے والے کے درمیان کچھ اس طرح کا جھگڑا ہوتا کہ بیچنے والا کہتا کہ میں نے اسے زمین بیچی ہے اور اس سے صرف زمین کی قیمت وصول کی ہے، اب جبکہ خزانہ نکل آیا ہے تو اس کی قیمت تو میں نے وصول ہی نہیں کی، اس لیے یہ میرا ہے ۔
جبکہ خریدنے والا کہتا کہ:
میں نے اس سے زمین خرید لی اور اس کی قیمت بھی ادا کر دی ہے تو اب اس میں جو کچھ بھی ہے وہ میری ملکیت ہے اور میری قسمت ہے ۔
سردار نے شہنشاہ سے پوچھا کہ پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟
شہنشاہ نے اس کے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فوراً جواب دیا کہ:
ہم دونوں فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کر دیا جاتا۔“
”بادشاہ کی ملکیت؟؟“
سردار نے حیرت سے پوچھا، ”کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟“
”جی ہاں کیوں نہیں؟“
”وہاں بارش بھی ہوتی ہے....؟“
”بالکل!“
”بہت خوب!“ سردار حیران تھا۔ ”لیکن ایک بات اور بتائیں، کیا آپ کے ہاں چرند پرند اور دوسرے جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس پھونس اور چارہ کھاتے ہیں؟“
”ہاں، ایسے بےشمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔“
”اوہ خوب، میں اب سمجھا۔“ سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آ گئی ہو۔
”تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کر رہی ہے۔
#arslankivoice #mrarslanceo