
Great Stories 😎
0 subscribers
About Great Stories 😎
Stories time 🙂
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گذر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ یہاں کے باشندوں نے کبھی جنگ کا نام تک نہ بھی سنا تھا اور وہ فاتح اور مفتوح کے معنی سے تک سے ناآشنا تھے۔ بستی کے باشندے شہنشاہ معظم کو مہمان کی حیثیت سے بڑے ادب و احترام ساتھ لے کر اپنے سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے شہنشاہ کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی۔ کچھ دیر میں اس بستی کے دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا الیہ کی حیثیت سے سردار کی جھونپڑی میں داخل ہوئے کیونکہ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی کرتی تھی۔ مدعی نے سردار کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے کہا۔ ”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا، میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں مانتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس شخص سے صرف زمین خریدی تھی اور اسے صرف زمین ہی کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں“، اس لئے برآمد ہوئے خزانے پر میرا کوئی حق نہیں۔ مدعا الیہ نے جواب میں کہا۔ ”میرا ضمیر ابھی زندہ ہے، میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں جب میں یہ زمین اسے فروخت کرکے اس کی قیمت وصول کر چکا ہوں۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے، اب میرا نہ تو اس زمین اور نہ ہی اس میں موجود اشیاء سے کوئی تعلق ہے“۔ سردار نے دونوں فریقین کی بات غور سے سننے کے بعد مدعی سے پوچھا۔ ”تمہارا کوئی بیٹا ہے؟“ ”ہاں ہے!“ پھر مدعا الیہ سے پوچھا۔ ”اور تمہاری کوئی بیٹی بھی ہے؟“ ”جی ہاں....“ مدعا الیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی۔ ”تو تم ان دونوں کی شادی کرکے یہ خزانہ ان کے حوالے کر دو۔“ اس فیصلے نے جھونپڑی میں بیٹھے شہنشاہ کو حیران کر دیا۔ اور وہ اسی حیرت زدہ انداز میں کچھ سوچنے لگا۔ سردار نے متردد شہنشاہ سے دریافت کیا۔ ”کیوں؟ کیا میرے اس فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟“ ”نہیں ایسی بات نہیں ہے۔“ شہنشاہ نے جواب دیا۔ ”لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔“ سردار نے سوال کیا۔ ”اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟“ شہنشاہ نے کہا، ”پہلی تو بات یہ ہے کہ اگر یہ یا اس طرح کا کوئی واقعہ ہمارے ملک میں ہوتا تو خریدار اور بیچنے والے کے درمیان کچھ اس طرح کا جھگڑا ہوتا کہ بیچنے والا کہتا کہ میں نے اسے زمین بیچی ہے اور اس سے صرف زمین کی قیمت وصول کی ہے، اب جبکہ خزانہ نکل آیا ہے تو اس کی قیمت تو میں نے وصول ہی نہیں کی، اس لیے یہ میرا ہے ۔ جبکہ خریدنے والا کہتا کہ: میں نے اس سے زمین خرید لی اور اس کی قیمت بھی ادا کر دی ہے تو اب اس میں جو کچھ بھی ہے وہ میری ملکیت ہے اور میری قسمت ہے ۔ سردار نے شہنشاہ سے پوچھا کہ پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟ شہنشاہ نے اس کے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فوراً جواب دیا کہ: ہم دونوں فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کر دیا جاتا۔“ ”بادشاہ کی ملکیت؟؟“ سردار نے حیرت سے پوچھا، ”کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟“ ”جی ہاں کیوں نہیں؟“ ”وہاں بارش بھی ہوتی ہے....؟“ ”بالکل!“ ”بہت خوب!“ سردار حیران تھا۔ ”لیکن ایک بات اور بتائیں، کیا آپ کے ہاں چرند پرند اور دوسرے جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس پھونس اور چارہ کھاتے ہیں؟“ ”ہاں، ایسے بےشمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔“ ”اوہ خوب، میں اب سمجھا۔“ سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آ گئی ہو۔ ”تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کر رہی ہے۔ #arslankivoice #mrarslanceo

قسمت – وہ لڑکی جو کنواری نہ ہوتے ہوئے شادی کرتی ہے، اور اتفاق سے اس کا شوہر شادی کی رات نشے میں ہوتا ہے۔ مکاری – وہ آدمی جو اپنی بیٹی کا نام اپنی محبوبہ کے نام پر رکھتا ہے تاکہ بیوی کے سامنے غلطی نہ کرے۔ تقدیر – وہ بانجھ آدمی جو کسی معصوم لڑکی کی عزت لوٹ لیتا ہے، اور جب گھر واپس آتا ہے تو اس کی بیوی اسے یہ خوشخبری دیتی ہے کہ وہ ماں بننے والی ہے، حالانکہ وہ خود بانجھ ہوتا ہے۔ بے وفائی – وہ محبت جس میں غیرت نہ ہو! پردیس – وہ بوڑھی عورت جو روتی ہے کیونکہ وہ اپنا نام بھول چکی ہے۔ معصومیت – وہ بچہ جو اپنی ماں کے سر کے اوپر دیکھتا رہتا ہے جب وہ نماز پڑھ رہی ہوتی ہے، اور جب وہ نماز مکمل کرتی ہے تو پوچھتی ہے: "بیٹا! کیا ہوا؟" تو وہ معصومیت سے جواب دیتا ہے: "ماں! جنت تو آپ کے قدموں کے نیچے ہے، لیکن آپ کے سر کے اوپر کیا ہے؟" مایوسی – وہ بچہ جو مٹھائی والے کا انتظار کرتا رہا اور نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ خوبصورتی – یہ ہے کہ ان الفاظ کو پڑھا جائے اور ان کے گہرے معنی کو سمجھا جائے۔ بے اعتنائی – یہ ہے کہ میری لکھی گئی باتیں پڑھی جائیں اور بغیر کوئی شکریہ کہے چلے جایا جائے۔ میں تم سب سے محبت کرتا ہوں اور اس خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں جو دلوں میں جڑیں پکڑ چکی ہو۔ تم سب زندگی کی اصل خوبصورتی ہو، ہاں، تمہاری نرمی اور خلوص ہی حقیقی حسن ہے – حسن کے حسن سے بھی بڑھ کر!

صنف نازک سے صنف آہن کا سفر کسی نے سوال پوچھا کہ اگر کسی وجہ سے شوہر گھر کا کفیل نہ رہے تو کیا بیوی کی محبت ختم ہو جاتی ہے؟ جذباتی تعلق کی تبدیلی ،کفالت سے معذوری کی وجہ پر منحصر ہے ۔ اگر تو کفالت سے معذوری محض کام اور ذمےداری سے جی چرانا ہے تب تو ایسا مرد نہ صرف محبت سے محروم ہو گا بلکہ اپنی عزت اور مقام سے بھی ہاتھ دھوئے گا نہ صرف اپنی بیوی کی نظر میں بلکہ ہر اپنے سے متعلقہ ہر فرد بشمول اولاد ،والدین ،سسرال، احباب ،معاشرہ اور بہن بھائی ۔ لیکن اگر کفالت سے معذوری کسی مجبوری کی وجہ سے ہے مثلا نوکری کا چلا جانا اور یہ عارضی معذوری ہے تو امید واثق ہے کہ بیوی نہ صرف اپنے شوہر کی مجبوری سمجھے گی بلکہ اس کی ہمت بھی بندھائے گی اور اس کا ہر ممکن ساتھ بھی دے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کا شوہر ایک ذمےدار مرد ہے جو محض حالات کے ہاتھوں مجبور ہے ۔ دو نوکریوں کے درمیانی عارضی بےروزگاری کے دور میں ایک سمجھدار خاتون خانہ اپنی بچت اور معاملہ فہمی سے اس دور کو خوشگوار بنا سکتی ہے۔ گو ناسمجھ خاتون اسے انتہائی اسٹریس فل پیریڈ میں تبدیل بھی کر سکتی ہے ۔ لیکن ہر دو صورت میں شوہر سے محبت کا رشتہ تبدیل ہونے کا کوئی امکان مجھے نظر نہیں آتا ۔ سوا اس کے کہ خاتون لالچی فطرت کی ہو اور اس کی محبت محض کاروبار ہو تیسری صورت جس میں کفالت سے معذوری کی مدت غیر معینہ ہو مثلا روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے گھر پڑ جانا ، کسی قانونی مسئلے کی وجہ سے جیل چلے جانا یا جیسے غیر قانونی تارکین وطن بہت عرصے تک بیک ہوم رابطہ نہیں رکھ پاتے یا کسی طبی وجہ مثلا شوہر کا کسی شدید جسمانی عارضے میں مبتلا ہونا ، ایسی کسی بھی صورت میں خاندان کے کرداروں کی ری ارینجمنٹ ناگزیر ہو جاتی ہے۔ گھر کا کفیل تبدیل ہو جاتا ہے ۔ کسی اور ذمےدار مرد کی عدم موجودگی میں عموما یہ ذمےداری تعلیم یافتہ ، بہادر اور ہنرمند خاتون خانہ کے کندھوں پر آ پڑتی ہے۔ اس صورت میں شوہر سے بیوی کی محبت نہیں بدلتی لیکن فیملی ڈائنامکس تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کفیل خاندان کا سربراہ ہوتا ہے ۔سو اگر کفالت کی ذمہ داری عورت کے کندھے پر آ جائے تو قوت فیصلہ اور اقتدار کا توازن بھی عورت کی طرف جھک جاتا ہے اس صورت میں مرد اپنی اہمیت میں کمی کو عورت کی سردمہری یا محبت میں کمی سے تعبیر کرتا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ نہیں ہوتی ۔ جب مرد کہتا ہے کہ "تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روز گار کے" تب تو اسے درست مانا جاتا ہے لیکن اگر اسی کیفیت کا اظہار خاتون کہ طرف سے ہو جائے تو اسے بھی درست ہی مانا جانا چاہیے ۔ اس خاتون خانہ نے اب مرد کا کردار اپنا لیا ہوتا ہے نہ صرف خاندان کی معاشی کفالت اس کی ذمےداری بن جاتی ہے بلکہ شوہر جو صحت، عہدے، آمدنی کے ساتھ ساتھ، " گھر بھر کی طاقت" کی علامت سے بھی محروم ہوتا ہے اس کی جذباتی ٹوٹ پھوٹ کی کفالت بھی اس کی بیگم کا فرض ہوتی ہے ۔ مشرقی گھرانوں میں اولاد خصوصا کم عمر بچے ماں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں ۔گھر کے بڑے ستون جیسے بھی دباو کا سامنا کر رہے ہوں اپنی اولاد کے سر پر سکھ بھری چھاوں قائم رکھنا دونوں کی فطری خواہش ہوتی ہے ۔ خاتون خانہ جو اب گھر بھر کی کفیل بھی ہوتی ہے وہ اپنی اولاد کے فرائض سے بھی پہلو تہی نہیں کر سکتی کیونکہ شوہر پہلے ہی جسمانی و جذباتی طور پر اس پر منحصر ہے اور بچے ناسمجھ ہوتے ہوئے بھی گھر کے تبدیل شدہ ماحول سے لامحالہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی جسمانی جذباتی اور تعلیمی تمام کیفیات تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ شوہر کے ایکسیڈنٹ یا بیماری سے پہلے اگر گھر کی ذمےدار بیوی تھی اور شوہر کمانے کا ذمےدار تھا تو بعد کے حالات میں بیوی گھر بار ، گھبرائی ہوئی اولاد ، بیمار مجبور پریشان شوہر اور معاشرے کے بدلتے رویوں کے سامنے تن تنہا ڈٹ جاتی ہے ۔ اگر ایسی خاتون کو سسرال اور میکے کا بھرپور ساتھ میسر رہے تب یہ مشکل ترین دور پھر بھی کافی آسان ہو جاتا ہے لیکن اگر ایسا ساتھ میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں اس صنف نازک کو واقعتا "صنف آہن " بننا پڑتا ہے ۔ غیر جذباتی، ٹھوس اور مضبوط کردار کی حامل، بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال اور اپنے اٹھائے ہر قدم کے نتیجے کو برداشت کرنے کی ہمت رکھنے والی صنف آہن کہ جس کے لیے صنف آہن کی ترکیب بھی نازک و کمتر محسوس ہوتی ہے ۔ ایسی خاتون کی محبت کو اس کے احساس ذمہ داری و وفاشعاری سے محسوس کیا جانا چاہیے۔ ماضی میں کینڈل لائٹ ڈنر پر شوہر سے رومان پرور گفتگو کرنے کے خواب دیکھنے والی خاتون خانہ ، حالات کے تبدیل شدہ ابواب میں اپنے شوہر کے لیے بہترین علاج، بچوں کے لیے پیٹ بھر روٹی اور اچھی تعلیم کا انتظام کرنے میں اپنا رومانس بھلا دیتی ہے۔ یہ تبدیلی ہرگز ، ہرگز اس کے شوہر کی اہمیت میں کمی کا اعلان نہیں ہے بلکہ محض حالات کی تبدیلی کا منطقی نتیجہ ہے ۔ بس یوں سمجھیے کہ جب شوہر کفیل نہیں رہتا تو وہ مرد خانہ بن جاتا ہے اور عورت سربراہ خانہ ۔ اسے ذمےداری کی تبدیلی جانیے محبت کی نہیں۔ _____________________________________________ شوہر اگر نہ رہے تو اس کا کردار اپنانے والی بیوی نہ صرف اپنے شوہر سے مزید اور شدید تر محبت میں مبتلا ہوتی ہے بلکہ اس کی نہایت احسانمند بھی ہوتی ہے کہ کس کڑی دھوپ سے مرحوم نے اسے اور بچوں کو بچا رکھا تھا۔ لیکن چونکہ پوسٹ وفات کے حوالے سے نہیں تھی اس لیے یہ چیز اس میں مینشن نہیں کی گئی ۔ بعض شوہر طلاق کے بعد بھی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں جبکہ شرعی طور پر بچوں کی ذمےداری داری انہی کی ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں ایسا سابقہ شوہر اپنی سابقہ بیوی اور فراموش کردہ بچوں کی نفرت کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔ لیکن پوسٹ میں پوچھا گیا سوال اس حوالے سے بھی نہیں تھا اس لیے اسے آرٹیکل کا حصہ نہیں بنایا

صدیوں پرانا قصہ ہے کہ بدقسمتی سے کسی گاؤں کے نیم حکیم ایک شادی شدہ عورت جس کے حسن کے چرچے تھے کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو گئے اس کی چشمِ قاتل کے تیکھے ورمے نے حضرت کے لوہے جیسے دل میں سوراخ کر دیا اور آپ اس پر لٹو ھوگئے۔ شادی بیاہ اور میلو ں ٹھیلوں میں ڈھول بجانا عورت کے خاندان کا پیشہ تھا وہ کبھی دوا دارو کیلئے نیم حکیم صاحب کے پاس جاتی تو وہ بڑی دلچسپی اور تفصیل سے اس کی نبض چیک کرتے اور ملفوف الفاظ میں اپنا حالِ دل بھی ضرور سناتے اس کا بچہ بھی جب کبھی حضرت کے سامنے آتا تو وہ اسے چپکے سے کہتے ”تمہاری ماں کا کیا حال ھے"؟ "اسے میرا سلام کہنا‘‘ خوش شکل خاتون نے بڑا عرصہ سلام برداشت کئے مگر جب اس کی خیریت کے متعلق نیم حکیم ضرورت سے زیادہ فکرمند رھنے لگے تو اس نے اپنے خاوند کو ان کی تشویش سے آگاہ کر دیا اس سنگین مسئلے پر ڈھول بجانے والے خاندان کے مردوں کا ایک اجلاس منعقد ھوا جس میں حضرت کی صحت کاملہ کیلئے دعا کی گئی اور ان کے دردِ دل کے علاج کیلئے مختلف طریقوں پر غوروخوض کے بعد ایک جوھر زار شفا اسلوب فائنل ھوا۔ طے شدہ علاج کے مطابق خاوند نے اپنی زوجہ سے کہا کہ وہ حضرت کو پیغام بھجوا دے کہ اس کا خاوند آج گھر پر نہیں لہٰذا رات کا کھانا جھگی فقیراں میں تناول فرمائیں نیز اس مبارک موقع سے فائدہ اٹھاتے ھوئے باھمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال بھی ھوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں عورت نے طے شدہ شیڈول کے مطابق پیغام بھجوایا تو حضرت خوشی سے لال و لال ھو گئے تیر نشانے پر بیٹھا تھا چنانچہ دو گھنٹے کی جان توڑ تیاری میں آپ نے خضاب کو زینت ریش مبارک بنایا آنکھوں میں وافر مقدار میں سُرمہ لگایا اور کان میں عطر میں ڈبوئی روئی ٹھونس کر خراماں خراماں کوئے یار کی طرف رواں ھو گئے۔ دل پذیر محبوب نے نیم حکیم کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور انہیں ایک کمرے میں تشریف رکھنے کو کہا۔ عین اس وقت دوسرے کمرے سے خاندان کے مردوں پر مشتمل ظالم سماج کا ڈنڈوں سے مسلح ایک ٹولہ برآمد ہوا انہوں نے عورت کو چھت پر جا کر ڈھول بجائے کو کہا مراثیوں کے گھر میں ڈھول بجانے کی ریہرسل معمول کی بات تھی چنانچہ اھل دیہہ کو حالات کی سنگینی کا ادراک نہ ھو سکا اِدھر ظالم سماج کے ٹولے نے حضرت کی ڈنڈوں سے سیوا شروع کی تو انہوں نے بے ساختہ ڈھول کی تھاپ پر رقص کا آغاز کر دیا آپ بہت چیخے چلائے مگر ان کی آواز ڈھول کی دلفریب دھنوں میں دب کر رہ گئی المختصر! جب سیوا کرنے والے ٹولے نے حضرت کو گھر سے باعزت رخصت کیا تو ان کا اَنگ اَنگ ڈھول بجا رھا تھا اور نیم حکیم، نیم جاں ھو چکے تھے ۔ حسب توقع مراثیوں کی ڈنڈا ڈولی تیر بہدف نسخہ ثابت ھوا اور حضرت کو عشق جیسے موذی مرض سے نجات مل گئی تاھم اس علاج کا سائیڈ افیکٹ یہ سامنے آیا کہ وہ مستقل طور پر ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ھو گئے نیم حکیم جب بھی کہیں ڈھول کی آواز سنتے تو ان کا ”تراہ‘‘ نکل جاتا اور آپ خوف سے جھرجھری لے کر فرماتے ”اوہ ! آج پھر کوئی مسکین پِٹ رھا ھے‘‘ سبق::- پرھیز علاج سے بہتر ھے۔

ایک استانی کہتی ہیں، "میں کلاس میں داخل ہوئی اور پیچھے سے دروازہ بند کر لیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آج اپنا سارا غصہ بچوں پر نکالوں گی۔ واقعی، جس بچے نے ہوم ورک نہیں کیا تھا، اسے پکڑا اور مارا! ایک بچے کو میز پر سوئے ہوئے پایا، اس کا بازو پکڑا اور کہا: "تمہارا ہوم ورک کہاں ہے؟" وہ بچہ ڈر کے پیچھے ہٹ گیا اور لرزتے ہوئے بولا بھول گیا ہوں مجھے معاف کر دیں میں نے اسے پکڑا اور اپنے سارے غصے اور وہ دباؤ، جو میرے شوہر کی وجہ سے تھا، اس پر نکال دیا۔ پھر میں نے ایک بچے کو کھڑا پایا، وہ میرے قریب آیا، میرا دامن کھینچتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ جھک کر اس کی بات سنوں۔ میں غصے سے مڑی، جھکی، اور کہا: "ہاں، بولو، کیا ہے؟" وہ مسکرا کر بڑی معصومیت سے کہتا ہے: "کیا ہم کلاس سے باہر بات کر سکتے ہیں؟ یہ بہت ضروری ہے۔" میں نے اسے بے صبری سے دیکھا اور سوچا کہ ضرور کوئی معمولی بات ہوگی، مثلاً یہ کہ کسی ساتھی نے اس کا پین چوری کر لیا ہوگا۔ لیکن جب میں نے اس کی بات سنی تو میں اس کی ذہانت سے حیرت زدہ رہ گئی۔ اس کے پاس بے شمار تربیتی معلومات تھیں۔ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا: "دیکھیں، ٹیچر، آپ بہت اچھی ہیں، اور ہم سب آپ سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن میرا وہ ساتھی، جسے آپ نے آخر میں مارا، وہ یتیم ہے۔ اور اس کی ماں اسے ہمیشہ مارتی ہے جب وہ کوئی غلطی کرتا ہے۔ وہ اسے غلط طریقے سے تربیت دیتی ہے، اسی لیے وہ اکثر چیزیں بھول جاتا ہے اور ہر چیز سے ڈرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے ساتھ کھیلنے سے بھی ڈرتا ہے، کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ ہم اسے ماریں گے۔ میں اس کا دوست ہوں اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہوں۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے مار کھانا بالکل پسند نہیں۔ اگر آپ اس کا جسم دیکھیں تو آپ کو اس پر مار کے نشانات ملیں گے، جو اس کی ماں نے کیے ہیں۔" پھر وہ بچے نے کہا: "کیا آپ ہماری ماں اور مربی بن سکتی ہیں؟ اور براہِ کرم، جب آپ کلاس میں آئیں تو اپنا غصہ اور پریشانی باہر چھوڑ کر آئیں، کیونکہ ہم آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔" میں حیرانی سے اسے دیکھتی ہوں اور کہتی ہوں: "تم اتنے بڑے لوگوں سے کیسے بات کر لیتے ہو؟" تو وہ جواب دیتا ہے: "میری ماں نے ہمیشہ مجھے اچھا گمان کرنا سکھایا ہے، اور یہ بھی کہا ہے: ‘تمہیں نہیں معلوم کہ سامنے والے کس حالت میں ہیں، اس لیے اپنا غصہ اور پریشانی ایک طرف رکھو اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔ دنیا میں بہت سی تکلیف دہ چیزیں ہیں۔’ انہوں نے یہ بھی کہا: ‘اگر تم کسی کو پریشان دیکھو، تو اس سے معافی مانگو، خواہ تم اس کی تکلیف کے ذمہ دار نہ ہو۔’ پھر وہ مجھے گلے لگاتا ہے اور کہتا ہے: ‘یقیناً آپ کسی وجہ سے ناراض ہیں، اسی لیے آج ہمیں مارا۔ ٹیچر، میں آپ سے معذرت خواہ ہوں، براہِ کرم ناراض نہ ہوں، کیونکہ آپ بہت اچھی ہیں۔’ میں حیرانی کے عالم میں کھڑی تھی، اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں بچی ہوں اور وہ میرا استاد اور مربی ہے۔ کیا آج بھی ایسی تربیت ہوتی ہے؟ اور کیا ایسی مائیں موجود ہیں جو اپنے بچوں کی اس قدر عمدہ تربیت کرتی ہیں؟" میں نے اس بچے سے کہا: "ٹھیک ہے، میں اسے کیسے مناؤں؟" تو وہ بولا: "یہ لیں، چاکلیٹ! وہ اسے پسند کرتا ہے۔ اگر وہ آپ کو معاف کر دے تو اپنے رب سے استغفار کریں اور ‘سبحان اللہ وبحمدہ’ کہیں تاکہ جنت میں آپ کے لیے ایک درخت اگے۔" میں نے کہا: "جیسے دنیا میں درخت ہیں؟" وہ بولا: "میری ٹیچر، جنت کے درخت دنیا کے درختوں جیسے نہیں ہوتے۔ میری ماں نے بتایا کہ جنت کے درخت کی پھل بہت نرم، بڑے اور شہد سے بھی زیادہ میٹھے ہوتے ہیں، اور ان میں کوئی بیج نہیں ہوتا۔" میں نے پوچھا: "انس، کیا میں تمہاری ماں کو کوئی تحفہ دے سکتی ہوں؟" وہ بولا: "ہاں، مگر وہ ہمیشہ کہتی ہیں کہ ‘انس میرا تحفہ ہے۔’" میں نے کہا: "واقعی، تم ایک بہت بڑا تحفہ ہو اور بہت پیارے بچے ہو۔" انس نے کہا: "چلیں، آئیں احمد کو منائیں۔ میرے پاس پانچ روپے ہیں، اس سے چاکلیٹ خرید لیں اور احمد کو دیں، اور کہہ دیں کہ آپ نے اسے اس کے لیے خریدا ہے۔" میں نے انس سے کہا: "تمہاری ماں واقعی ایک عظیم خاتون ہیں، وہ جنت کی حقدار ہیں۔" وقت گزرتا گیا۔ "مس ریحام، آپ کیسی ہیں؟" میں نے مڑ کر دیکھا تو انس تھا، اب ایک جوان لڑکا، عینک پہنے کھڑا تھا اور اس کی ماں اس کے ساتھ تھی، جن کے چہرے پر نور تھا۔ بعد میں انس کی ماں میرے لیے ایک تحفہ لے کر آئیں اور کہا: "آپ انس کی استاد تھیں، یہ تحفہ میری طرف سے قبول کریں۔ آپ نے جو اچھائی انس کو سکھائی، یقیناً اس میں آپ کا بھی حصہ ہے۔" میں نے حیرانی سے کہا: "کیسے؟" وہ بولیں: "الحمدللہ، میرا بیٹا اب ڈینٹل کالج میں لیکچرر ہے۔" میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے کہا: "آپ کا شکریہ، یہ ہدیے تو آپ جیسے لوگوں کے لیے ہیں۔ آپ سمجھتی ہیں کہ آپ نے صرف انس کی تربیت کی؟ حقیقت میں، آپ کی تربیت نے مجھے بھی سدھار دیا۔ آپ کے بیٹے نے مجھے سالوں پہلے ایک سبق دیا، جس نے میری زندگی بدل دی۔ اسی کے باعث میں نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی، اور میرا ازدواجی رشتہ بھی بہتر ہو گیا۔" حکمت: نیک بیوی معاشرے کی جنت بنانے کے لیے ایک مضبوط بنیاد ہے۔ اور گھریلو عورت کے کردار کو معمولی نہ سمجھیں، کیونکہ وہ ایک پوری نسل کی مربی ہوتی ہے۔ اگر آپ نے کہانی پڑھ لی ہے تو صرف پڑھ کر نہ جائیں، اپنی پسند کا اظہار کریں اور "لا إله إلا الله محمد رسول الله" کا ذکر کریں، کیونکہ یہ ساتوں آسمانوں اور زمین سے زیادہ وزنی ہے۔ اور مزید قصے سننے کے لیے مجھے فالو کریں۔ یاد دہانی: نبی ﷺ نے فرمایا: "صدقہ دینے سے مال کبھی کم نہیں ہوتا۔" یاد رکھیں، جو کچھ آپ خرچ کریں یا شیئر کریں، اس کا اثر آپ کی زندگی میں برکت، صحت، رزق میں اضافہ، اور دل کی خوشی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ اس لیے دینے میں کبھی ہچکچائیں نہیں، کیونکہ عطا خیر کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔

پرانے دور کے جیب کترے کتنے ایماندار تھے بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں چونک پڑا۔جیب کٹ چکی تھی۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ ٹوٹل 9 روپے اور ایک خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا کہ "ماں ! میری نوکری چھوٹ گئی ہے ابھی پیسے نہیں بھیج پاؤں گا"۔ تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں پڑا تھا، پوسٹ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ نو روپئے جاچکے تھے۔یوں نو روپئے کوئی بڑی رقم نہیں تھی۔ لیکن جس کی نوکری چھوٹ گئی ہو اُس کے لیے نو سو سے کم بھی تو نہیں ہوتی ہے۔ کچھ دن گزرے۔ماں کا خط ملا۔پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا۔ضرور پیسے بھیجنے کو لکھا ہوگا۔لیکن خط پڑھ کر میں حیران رہ گیا!ماں نے لکھا تھا: "بیٹا! تیرا بھیجا پچاس روپئے کا منی آرڈر ملا۔ تو کتنا اچھا ہے ۔۔۔ پیسے بھیجنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتا"۔ میں کافی دنوں تک اس اُدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کو پیسے کس نے بھیجے۔۔۔۔؟ کچھ دن بعد ایک اور خط ملا۔ "بھائی نو روپئے تمھارے، اور اکتالیس روپئے اپنے ملا کر میں نے تمھاری ماں کو منی آرڈر بھیج دیا ہے۔فکر نہ کرنا، ماں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہے نا! وہ کیوں بھوکی رہے؟ -تمھارا جیب کترا۔

اگر آپ نے روسی ادب نہیں پڑھا تو پھر آپ نے ادب پڑھا ہی نہیں۔۔۔۔ اس کی بار بار میں مثالیں دیتا رہتا ہوں اور آج پھر سے ایک مثال پیش کر رہا ہوں ۔۔۔ #ڈاکٹر_عرفان_اقبال یہ عالمی ادب کی تاریخ کی سب سے حیرت انگیز مختصر کہانیوں میں سے ایک ہے، روسی مصنف انتون چیخوف کے نام: کچھ دن پہلے مجھے اپنے آفس روم میں بلایا گیا، جہاں میرے بچوں کی نینی (یولیا واسیلیونا) اپنا حساب چکانے آئی تھی۔ میں نے اس سے کہا: "بیٹھو، یولیا... آؤ، حساب کتاب کر لیتے ہیں۔ تمہیں اکثر پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن تم اتنی شرمیلی ہو کہ خود نہیں مانگتی۔ خیر، ہم نے ماہانہ تیس روبل طے کیے تھے۔" یولیا نے کہا: "چالیس۔" میں نے کہا: "نہیں، تیس... میرے پاس ریکارڈ موجود ہے۔ میں ہمیشہ نینی کو تیس روبل ہی دیتا ہوں۔" اس نے کہا: "ٹھیک ہے۔" میں نے پوچھا: "ہم نے کتنے مہینے کام کیا؟" یولیا نے جواب دیا: "دو مہینے اور پانچ دن۔" میں نے کہا: "ٹھیک ہے، دو مہینے۔ میرے پاس یہی درج ہے، تو تم ساٹھ روبل کی حق دار ہو۔ لیکن ہم اتوار کے نو دن منہا کریں گے، کیونکہ تم نے ان دنوں میں کولیا کو نہیں پڑھایا، بس اس کے ساتھ رہی تھیں۔ پھر تین دن کی چھٹی بھی لیں۔" یولیا واسیلیونا کا چہرہ زرد پڑ گیا، اور اس کی انگلیاں کپڑوں میں الجھنے لگیں، مگر اس نے کوئی شکایت نہ کی۔ میں نے مزید کہا: "ہم تین چھٹیوں کے بارہ روبل کم کرتے ہیں۔ کولیا چار دن بیمار تھا، تو تم نے صرف فاریہ کو پڑھایا، اس کے سات روبل اور کم ہوئے۔ پھر تین دن تمہارے دانت میں درد تھا، تو میری بیوی نے تمہیں دوپہر کے بعد پڑھانے دیا، اس کے بھی بارہ روبل کم۔ تو کل انیس کم کر کے باقی اکتالیس روبل بنتے ہیں، ٹھیک؟" یولیا واسیلیونا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس کی ٹھوڑی کانپنے لگی، مگر وہ اب بھی خاموش رہی۔ میں نے مزید حساب لگایا: "نئے سال سے پہلے تم نے ایک کپ اور پلیٹ توڑ دی، اس کے لیے چھ روبل کاٹنے ہوں گے۔ پھر، کولیا نے تمہاری لاپرواہی کے سبب درخت پر چڑھ کر اپنی جیکٹ پھاڑ لی، اس کے دس روبل کم۔ نوکرانی نے ایک جوتا چوری کر لیا اور یہ سب کچھ دیکھنا تمہاری ذمہ داری تھی، تو اس کے پانچ روبل اور کم۔ اور 10 جنوری کو تم نے مجھ سے دس روبل ادھار لیے تھے۔" یولیا واسیلیونا نے سرگوشی کی: "میں نے نہیں لیے تھے۔" میں نے کہا: "مگر میرے پاس ریکارڈ میں لکھا ہے۔" وہ بولی: "ٹھیک ہے، جیسا آپ کہیں۔" میں نے حساب مکمل کیا: "اکتالیس سے ستائیس کم کریں تو باقی چودہ روبل بچتے ہیں۔" یولیا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، اس کی لمبی خوبصورت ناک پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔ اس نے ٹوٹی ہوئی آواز میں کہا: "میں نے صرف ایک بار تین روبل ادھار لیے تھے، اس سے زیادہ نہیں۔" میں نے چونک کر کہا: "واقعی؟ میں نے تو یہ ریکارڈ میں نہیں لکھا! تو چودہ میں سے تین نکال کر گیارہ بچتے ہیں۔ لو، یہ لو تمہارے گیارہ روبل!" میں نے سکے اس کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے انہیں جیب میں ڈال لیا اور آہستہ سے کہا: "شکریہ۔" مجھے غصہ آ گیا۔ میں نے پوچھا: "کس چیز کا شکریہ؟" اس نے جواب دیا: "پیسوں کا۔" میں نے کہا: "لیکن میں نے تو تمہیں دھوکہ دیا، تم سے لوٹ مار کی، تمہارا حق مارا! اور تم پھر بھی شکریہ ادا کر رہی ہو؟" اس نے کہا: "دوسری جگہوں پر تو کچھ بھی نہیں ملتا۔" میں نے حیرت سے کہا: "کیا؟ تمہیں کچھ بھی نہیں دیا جاتا؟ کمال ہے! میں تو تم سے مذاق کر رہا تھا، تمہیں سبق سکھا رہا تھا! یہ لو، تمہارے اصل اسی روبل، جو میں نے تمہارے لیے لفافے میں رکھے تھے!" میں نے رقم اس کے حوالے کی اور مزید کہا: "لیکن کیا تم اتنی بے بس ہو؟ تم نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ تم خاموش کیوں رہیں؟ کیا دنیا میں ایسا ممکن ہے کہ تم اپنا حق مانگنے سے بھی قاصر ہو؟ کیا تم واقعی اتنی بے بس ہو؟" یولیا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: "ہاں، ایسا ممکن ہے۔" میں نے اسے بغور دیکھا، پھر سوچنے لگا: کتنا دردناک ہے اس دنیا میں کمزور ہونا!

مائی بشیراں ایک بوڑھی عورت گواہی دینے عدالت پیش ھوئی تو وکیل استغاثہ نے گواہ پر جرح شروع کی۔ بڑھیا قصبے کی سب سے قدیمی مائی تھی۔اور دنیا کا سرد گرم خوب جانتی تھی وکیل استغاثہ بھرپور اعتمادسے مائی کی طرف بڑھا اور اس سے پوچھا: مائی بشیراں، کیا تم مجھے جانتی ہو؟ مائی بشیراں: ہاں قدوس۔ میں تمہیں اس وقت سے اچھی طرح جانتی ہوں جب تم ایک بچے تھے۔ اور سچ پوچھو تو تم نے مجھے شدید مایوس کیا ہے۔ تم جھوٹ بولتے ہو۔ لڑائیاں کرواتے ہو، اپنی بیوی کو دھوکہ دیتے ہو، طوائفوں کے پاس بھی جاتے ہو ، تم لوگوں کو استعمال کر کے پھینک دیتے ہو۔ اور پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے۔ تم نے سپر مارکیٹ والے کے دس ہزار ابھی تک نہیں دئے - شراب پیتے ہو ، جوا بھی کھیلتے ہو اور تمہارا خیال ہے کہ تم بہت ذہین ہو حالانکہ تمہاری کھوپڑی میں مینڈک جتنا دماغ بھی نہیں ہے۔ ہاں ہاں میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔ وکیل ہکا بکا رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا پوچھے۔ گھبراہٹ میں اس نے وکیل دفاع کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا: مائی بشیراں تم اس شخص کو جانتی ہو؟ مائی بشیراں: اور نہیں تو کیا، جیسے میں عبدالغفور کو نہیں جانتی ؟ ارے اسے تو میں اس وقت سے جانتی ہوں جب یہ ڈائپر میں گھومتا تھا اور سارا محلہ ناک پر ہاتھ رکھ کر اس بھاگتا تھا۔ یہ یہاں کا سست ترین بندہ ہے اور ہر ایک کی برائی ہی کرتا ہے۔ اوپر سے یہ ہیروئنچی بھی ہے۔ کسی بندے سے یہ تعلقات نہیں بنا کر رکھ سکتا۔ اور شہر کا سب نکما اور ناکام وکیل یہی ہے۔ چار بندیوں سے اس کا افئیر چل رہا ہے۔ جن میں سے ایک تمہاری بیوی بھی ہے۔ دو بندوں سے مار کھا چکا ہے انہی باتوں پر ، ہاں اس بندے کو میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ جج نے دونوں وکیلوں کو اپنے پاس بلایا اور آہستہ سے بولا: اگر تم دونوں احمقوں میں سے کسی نے مائی بشیراں سے یہ پوچھا کہ وہ مجھے جانتی ہے تو دونوں کو پھانسی دے دوں گا۔

ناقابلِ شکست مسکراہٹ Aslamoalicom کہا جاتا ہے کہ دشمن کے سامنے مسکرا دینا جیت کی علامت ہے، لیکن اگر یہ مسکراہٹ درحقیقت ایک نقاب ہو؟ اگر یہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور دبی ہوئی مایوسی کا عکس ہو؟ اگر یہ دل کی گہرائیوں میں چھپا ایک بے آواز درد ہو، جو خود کو شکست خوردہ ثابت نہ ہونے دینے کی آخری کوشش کر رہا ہو؟ یہ محض ہونٹوں کی جنبش نہیں، بلکہ ایک خاموش چیخ ہے، ایک ایسا زخم جو رسنے سے انکار کرتا ہے تاکہ کسی دشمن کو اپنی کمزوری دکھائی نہ دے۔ یہ ایک ٹھنڈا ہتھیار ہے، ایک ایسی جنگ میں جہاں تلواروں کی آواز نہیں آتی، لیکن دل بار بار زخمی ہوتا ہے اور پھر بھی گرنے سے انکار کرتا ہے۔ میں مسکراتا ہوں، نہ اس لیے کہ میں جیت گیا، بلکہ اس لیے کہ میں نے سیکھ لیا کہ اپنی جنگیں دل میں کیسے لڑنی ہیں۔ کیسے خوف کو یہ یقین دلا دینا ہے کہ اب میں اس سے نہیں ڈرتا، اور کیسے طوفان میں کھڑے ہو کر بھی اپنے جسم کو لرزنے سے بچانا ہے۔ میں مسکراتا ہوں کیونکہ میں جان چکا ہوں کہ کچھ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ خاموشی سے جیتی جاتی ہیں، ایک پُراعتماد نظر سے جو دنیا کو بتا سکے کہ میں اب بھی یہاں ہوں، چاہے سب نے مجھے مٹانے کی کتنی ہی کوشش کی ہو۔

ایک خواجہ سرا نے اپنے آخری وقت میں اپنی ماں کو خط لکھا :( امی میری عمر نو دس برس کی تھی جب ابا نے مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے گهر سے بے گهرکر دیا تھا۔ میں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتا رہا مگر تم بےحس وحرکت سہمی ہوئی مجھے تکتی رہیں۔ واحد روانی تمہارے آنسوؤں کی تھی جو ابا کے غیض و غضب کے آگے بھی تهمنے کو تیار نہ تھے۔ تمہارا ہر آنسو اس بات کا ثبوت تها کہ تم ابا کے اس فعل سے بہت نالاں تھی مگر ابا کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور بهی۔ محلے والوں کے طعنے، رشتے داروں کے طنز اور لوگوں کی چبهتی ہوئی نگاہوں سے جب ابا بے قابو ہو جاتے تو پهر اپنی کالے چمڑے کی چپل سے میری چمڑی ادھیڑتے۔ اپنے جسم پر چپل سے بنائے گئے نقش لیے میں اس کال کوٹھڑی کی جانب بھاگتا جو پورے گهر میں میری واحد پناہ گاہ بن گئی تھی۔ پٹائی کا دن جب رات میں ڈھلتا تو تم ابا سے چھپ کر دبے پاؤں آتیں۔ مجھے سینے سے لگاتی، اپنے دوپٹے سے میرے زخموں کی ٹکور کرتی۔ میرا سر اپنی گود میں لیے گھنٹوں میرے پاس بیٹھی رہتی۔ مجھے چپ کراتے کراتے تمہاری اپنی سسکیاں بندھ جاتیں۔ آہوں اور سسکیوں کی گونج کے علاوہ اس کال کوٹھڑی میں کچھ سنائی نہ دیتا۔ ہم دونوں آنسوؤں کی زبان یں بات کرتے۔ میرے آنسوؤں میں ان گنت سوال ہوتے۔ کہ آخر کیوں ابا کی نفرت کی خاص عنایت مجھ پر ہی ہے؟ آخر کیوں گھر میں مہمانوں کے آتے ہی اسٹور کے تنگ وتاریک کمرے میں گهر کے ہر فالتو سامان کے ساتھ مجھے بند کردیا جاتا ہے اور جب تک اللہ کی رحمت ہمارے گھر سے چلی نہیں جاتی مجھے رہائی کا پروانہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ یہ رحمت ہر بار میرے لیے زحمت کیوں بن جاتی ہے؟ مگر اماں میرے ہر سوال کے جواب میں تم خاموشی سے میرے اوپر محبت بهری نگاه ڈالتی اور کچھ نہ بولتیں۔ بس کبھی تم میرے ماتهے کا بوسہ لیتی اور کبھی میرے ہاتھوں کو چوم کر اس بات کی گواہی دیتی کہ میں تو اپنے راجہ بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں۔ ایک سوال کرتے کرتے میں تهک جاتا اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا کہ آخر میرے سے ایسی کیا خطا ہوئی جو میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ابا کے پیار کا حقدار نہیں۔ ہاں تمہاری گود میں سو جانے سے پہلے میں یہ دعا بھی کرتا کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو مگر صبح ہوتی اور تم پھر اس عورت کا لباده اوڑھ لیتی جو ابا اور معاشرے کے خوف سے مجھے پیار کرتے ڈرتی تھی۔ جس دن ابا نے مجهے گهر سے نکالا اس دن میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے تمہاری سنگھار میز پر رکھی ہوئی لالی سے اپنے ہونٹ رنگ لیے تھے، تمہارا سرخ دوپٹہ سر پر رکھے، تمہارے ہاتھوں کے کنگن اپنی کلائی میں ڈالے تمہاری ٹک ٹک کرنے والی جوتی پہن کرخوش ہو رہا تھا، بس یہ دیکھنے کی دیر تھی کہ ابا نے مجھ پر پهر جوتوں کی برسات شروع کر دی۔ میں معافی کا طلب گار رہا مگر میری شنوائی نہ ہوئی اور پهرگالی گلوچ کرتے ہوئے زمین پر گھسیٹتے ہوئے زنخا زنخا کہتے ہوئے مجھے ہمیشہ کے لیے سب گهر والوں سے دور کر دیا۔ میرے لیے آبا کے آخری الفاظ یہ تھے کہ آج سے تو ہمارے لیے مر گیا۔ یہ جملہ سنتے ہی میری ہاتھوں کی گرفت جس نے ابا کے پیروں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کمزور پڑ گی۔ میری گڑگڑاتی ہوئی زبان خاموش ہوگی، میرے آنسو تهم گئے کیونکہ میں جانتا تھا کہ ابا اپنی کہی ہوئی بات سے کبھی نہیں پھرتے۔ اور تم ماں، ابا کے کسی بھی فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتی اس کے بعد ابا مجھے ہمیشہ کے لیے یہاں چهوڑ گے جہاں ایک گرو رہتا تھا۔ امجد کی جگہ میرا نام علیشاہ رکھ دیا گیا۔ مجھے ناچ گانےکی تربیت دی جاتی۔ مجھ پر نظر رکھی جاتی لیکن میں جب کبھی موقع ملتا تمہاری محبت میں گرفتار اپنے گهر کی طرف دیوانہ وار بھاگتا مگر ابا کا آخری جملہ مجھے دہلیز پار کرنے سے روک دیتا۔ دروازے کی اوٹ سے جب تمہیں گرما گرم روٹی اتارتے دیکھتا تو میری بھوک بھی چمک جاتی اور پهر تم اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر میرے بہن بھائیوں کے منہ میں ڈالتی تو ہر نوالے پر میرا بھی منہ کھلتا مگر وہ نوالے کی حسرت میں کھلا ہی رہتا۔ اس حسرت کو پورا کرنے کے لیے میں اکثر گهر کے باہر رکھی ہوئی سوکهی روٹی کو اپنے آنسوؤں میں بهگو بهگو کر کھاتا۔ بعد کی عیدیں تو تنہا ہی تھیں پر جب گھر بدر نہ ہوا تھا تب بھی عید پر جب ابا ہر ایک کے ہاتھ پر عیدی رکهتے تو میرا ہاتھ پھیلا ہی ره جاتا۔ جب ہر بچے کی جھولی پیار اور محبت سے بهر دی جاتی تو میری جھولی خالی ہی ره جاتی۔ جب ابا اپنا دست شفقت سب کے سروں پر پھیرتے تو میرا سر جهکا ہی رہتا۔ صحن میں کھڑی ابا کی سائیکل جس کو اکثر میں محلے سے گزرتے دیکھتا تو ہر بار دل میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش ابا سائیکل روک کر مجھے ایک بار، صرف ایک بار سینے سے لگا لیں مگر میری یہ خواہش، خواہش ہی ره گی۔ گھر چھوڑنے کے عذاب کے بعد میرے اوپر ایک اور عذاب نازل ہوا جس کے کرب نے میری روح تک کو زخمی کر دیا۔ چند ‘شرفا’ گرو کے پاس آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ مجھے زبردستی بے لباس کیا اور اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔ ماں، میں اتنا چھوٹا اور کمزور تھا کہ میں تکلیف کی وجہ سے اپنے ہوش ہی کهو بیٹھا تھا۔ پهر اس ہی بے ہوشی کے عالم میں مجھے گرو کے حوالے کر دیا گیا۔ پهر یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ میں روز ہی اپنی ہی نظروں میں گرتا رہا مرتا رہا۔ کرتا بھی کیا کہ اب میرے پاس کوئی اور دوسری پناہ گاه نہ تهی۔ پهر اسی کام کو میرے گرو نے میرے پیشے کا نام دے دیا۔ میں گرو کے پاس سے کئی بار بھاگا، در در نوکری کی تلاش میں پهرتا رہا مگر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ ہر بار گرو کے در پر ہی پناہ ملی۔ ہمارا وجود معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں تو کسی کو بددعا بھی دینی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ جا تیرے گهر بھی مجھ جیسا پیدا ہو۔ حالانکہ ہماری رگوں میں بهی سرخ رنگ کا خون دوڑتا ہے۔ ہمیں بنانے والا بھی تو وہی ہے جس نے ان کو پیدا کیا۔ ان کے سینے میں بھی دل ہماری طرح ہی دھڑکتا ہے۔ تو پهر ہمیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے ؟ہمارا جرم کیا ہوتا ہے؟ شاید ہمارا جرم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا خون سرخ ہے اور معاشرے کا سفید۔ ماں میں ساری زندگی جینے کی چاه میں مرتا چلا گیا۔ سفید خون رکھنے والے لوگ کبھی مذہب کی آڑ لے کر تو کبھی جسم فروشی سے انکار پر ہمارے جسموں میں گولیاں اتار دیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، مجھے بھی گولیاں ماری گئیں۔ جب مجھے ہوش آیا تو ڈاکٹر مجھے امید کی کرن دکهانے کی کوشش میں آہستہ آہستہ میرے کان میں سرگوشی کر رہا تھا کہ اگر تم ہمت کرو تو زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہو۔ میں نے بہت مشکل سے اپنے ہونٹوں کو جنبش دی اور ڈاکٹر سے کہا کہ اگر میں ہمت کر کے لوٹ بھی آیا تو کیا مجھے جینے دیا جائے گا؟ جب ملک الموت میرے پاس آیا تو میں نے اس سے جینے کے لیے چند لمحوں کی درخواست کی۔ نجانے کیوں اس بار مجھے امید تھی کہ تم دوڑی چلی آؤ گی، میرا بچہ کہتے ہوئے مجھے اپنے سینے سے لگاو گی۔ میرے سر کو اپنی گود میں رکھ کر میرے زخموں کی ٹکور کر کے مجھے اس دنیا سےرخصت کرو گی۔ لیکن موت کے فرشتے نے چند لمحوں کی مہلت بھی نہ دی۔ سنا ہے قیامت کے روز بچوں کو ماں کےحوالے سے پکارا جائے گا۔ بس ماں تم سے اتنی سی التجا ہے کہ اس دن تم مجھ سے منہ نہ پهیرنا۔🥲 تمہاری محبت کا طلبگار تمہارا بیٹا تحریر : لینہ حاشر