دور حاضر کے فتنے
February 24, 2025 at 11:10 AM
*ام حسان!وزیر داخلہ کچھ تو خیال کرو یار* نوید مسعود ہاشمی 19 فروری 2025ء بروز بدھ کو بعد نماز عشاء اسلام آباد پولیس نے مارگلہ ٹائون اسلام آباد سے محترمہ ام حسان کو گرفتار کر لیا،اس وقت کہ جب وطن عزیز پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے،دہشت گردی ایک دفعہ پھر سر اٹھا چکی ہے،بزرگ مذہبی خاتون کہ جن کی ساری زندگی اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی بالادستی کے لئے جدوجہد سے بھرپور ہے،کو گرفتار کرنا انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔ رسوائے زمانہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب امریکہ و یورپ کے ایماء پر وطن عزیز پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لئے متنازع اقدامات کئے گئے تو اس کے خلاف عملی مزاحمت کا مرکز لال مسجد و جامعہ سیدہ حفصہ بنا۔مولانا عبدالعزیز اور محترمہ ام حسان کی قیادت میں ان متنازعہ اقدامات کے خلاف تحریک چلی۔لال مسجد پہ بہت کچھ لکھا جاچکا۔لیکن اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ وطن عزیز پاکستان کی نظریاتی اساس بالخصوص وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور گرد و نواح میں واقع مساجد و مدارس محفوظ ہیں تو اس کا سہرا بھی مولانا عبدالعزیز غازی اور محترمہ ام حسان کو ہی جاتا ہے۔انہون نے اپنا سب کچھ قربان کرکے پاکستان کے اسلامی تشخص اور مساجد و مدارس کا تحفظ کیا۔ 2007ء میں جب رسوائے زمانہ پرویز مشرف کی حکومت نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع 80 سے زائد مساجد کو غیر قانونی قرار دے کر شہید کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو اس کے خلاف عملی مزاحمت لال مسجد و جامعہ حفصہ سے ہی ہوئی۔یکے بعد دیگرے سات مساجد کی شہادت کے بعد حضرت مولانا عبدالعزیز غازی اور محترمہ ام حسان کی قیادت میں لال مسجد و جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات انتہائی قدم اٹھانے پر اس وقت مجبور ہو گئے تھے،جب مارگلہ ٹائون اسلام آباد میں واقع قدیم مسجد ''مدنی مسجد'' کو بھی شہید کرنے کی کوشش ہوئی۔پھر چشم فلک نے تین جولائی تا دس جولائی 2007ء یہ منظر بھی دیکھا کہ لال مسجد و جامعہ حفصہ کے نہتے و معصوم طلبہ و طالبات پر ظلم و ستم کے ایسے ایسے پہاڑ ڈھائے گئے کہ جس کی مثال تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔اس تحریک کے دوران ایک موقع پر لال مسجد میں منعقدہ کانفرنس کے دوران ایک طالبہ کی جانب سے کہے گئے یہ الفاظ اس وقت میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ''ہماری جانیں تو چلی جائیں گی لیکن مساجد و مدارس محفوظ رہیں گے''۔پھر ایسا ہی ہوا کہ سینکڑوں معصوم و نہتے طلبہ و طالبات کی جانیں تو لال مسجد آپریشن کے دوران چلی گئیں لیکن اسلام آباد و گرد و نواح کے مساجد و مدارس محفوظ ہو گئے۔ گزشتہ چند روز سے مارگلہ ٹائون اسلام آباد میں واقع مدنی مسجد کو ایک دفعہ پھر سی ڈی اے کی جانب سے شہید کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔جس پر اہل علاقہ سراپا احتجاج تھے۔اسی سلسلے میں مورخہ 19 فروری کو بعد نماز ظہر اہل علاقہ اور مدنی مسجد کی انتظامیہ کا ایک وفد لال مسجد آیا اور اس وفد نے محترمہ ام حسان سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ چنانچہ وہ جامعہ حفصہ کی سات معلمات و طالبات کے ہمراہ مذکورہ مسجد پہنچ گئیں۔جہاں پر ان کے مذاکرات اسسٹنٹ کمشنر،ایس پی سمیت ضلعی انتظامیہ و پولیس کے دیگر حکام کے ساتھ ہوئے۔جس کے نتیجے میں اسی روز مغرب کے وقت ایک معاہدہ طے پا گیا۔خوش گوار ماحول میں افہام و تفہیم سے تمام معاملات طے پاگئے۔جس کے بعد محترمہ ام حسان اپنے ساتھ موجود جامعہ حفصہ کی سات معلمات و طالبات کے ہمراہ مذکورہ مسجد کے امام مولانا قاری ساجد کی رہائش گاہ پر چلی گئیں۔جہاں پر ان کے قیام و طعام کا انتظام تھا۔نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد محترمہ ام حسان کھانے کے دستر خوان پر موجود تھیں کہ اچانک ایس ایچ او تھانہ ویمن مصباح شہباز کی قیادت میں اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری نے مذکورہ رہائش گاہ کا محاصرہ کرلیا اور پھر ایس ایچ او کی قیادت میں ہی خواتین پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری نے اس گھر میں داخل ہوکر محترمہ ام حسان اور ان کے ساتھ موجود معلمات و طالبات کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔جس کے بعد اگلے روز انہیں انسداد دہشت گردی عدالت نمبر 2 اسلام آباد کے روبرو پیش کیا گیا۔ محترمہ ام حسان کو جامعہ حفصہ کی دیگر سات معلمات و طالبات وغیرہ کے ہمراہ اے ٹی سی 2 کے جج طاہر عباس سپرا کے روبرو پیش کیا گیا۔ایس ایچ او تھانہ ویمن اور ایس ایچ او تھانہ شہزاد ٹائون نے پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ انہیں عدالت میں پیش کیا۔اس موقع پر جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے۔عام افراد سمیت غیر متعلقہ وکلاء کو بھی جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔سماعت کے آغاز پر پولیس نے تھانہ شہزاد ٹائون میں انسداد دہشت گردی اور تعزیرات پاکستان کی متعدد دفعات کے تحت درج ایک جھوٹے مقدمے میں ام حسان سمیت تمام گرفتار شدگان کا جسمانی ریمانڈ مانگا۔پولیس نے دوران سماعت موقف اختیار کیا کہ ام حسان سے چاقو برآمد کر لیا ہے۔ ڈنڈے،سریا سمیت دیگر تعمیراتی میٹریل اور پسٹل وغیرہ برآمد کرنا ہے۔اس لئے ان کا ریمانڈ درکار ہے۔پولیس کے مذکورہ موقف پر عدالت میں موجود محترمہ ام حسان برہم ہو گئیں اور روسٹرم پر آکر کہا کہ ''یہ شخص کس ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہا ہے۔اسے شرم نہیں آتی۔کون سا چاقو اس نے مجھ سے برآمد کیا ہے؟مسجد کو شہید کرنے کے معاملے کی اطلاع ملی تو میں خالی ہاتھ ہی اپنے گھر سے نکل گئی۔میں تو اپنا موبائل بھی اپنے پاس رکھنا بھول گئی تھی۔میں لڑنے کے لئے نہیں بلکہ مصالحت کرانے کیلئے مارگلہ ٹائون گئی تھی۔ حکومت ہمارے ساتھ زیادتی کررہی ہے۔ ہمیں بلاجواز گرفتار کیا گیا۔لال مسجد آپریشن میں میرے اکلوتے بیٹے کو شہید کیا گیا۔میری ساس کو شہید کیا گیا۔میرے دیور کو شہید کیا گیا۔میری نہتی طالبات کو شہید کیا گیا۔ان کا دل اب بھی نہیں بھرا۔یہ اب ہماری جان بھی لینا چاہتے ہیں تو لے لیں''۔ اس موقع پر فاضل جج نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آپ کیوں ان کا ریمانڈ لینا چاہتے ہیں؟آپ نے انہیں جائے وقوعہ سے گرفتار کیا ہے۔ جو برآمدگی بھی آپ نے ان سے کرنی تھی،موقع پر ہی کر لی۔اس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ کچھ نامعلوم لوگ بھی ان کے ساتھ تھے،جو کچھ چیزیں لے کر بھاگ گئے۔فاضل جج نے پھر ریمارکس دیئے کہ اگر کچھ نامعلوم لوگ کچھ لے کر بھاگے ہیں تو آپ ان کے پیچھے جائیں۔ ان کو پکڑیں'ان سے برآمدگی کریں۔تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ جو لوگ بھاگے ہیں،ان کی شناخت ہم نے ان سے تفتیش میں کرنی ہے۔اس موقع پر محترمہ ام حسان و دیگر گرفتار شدگان کے وکیل وہاج الحسن کی جانب سے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی بھرپور مخالفت کی گئی۔دوران سماعت محترمہ ام حسان نے عدالت میں شکوہ کیا کہ ان لوگوں نے عدالت لاتے ہوئے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھی۔ام حسان کے شکوہ پر جج تفتیشی افسر پر برہم ہو گئے اور استفسار کیا کہ آپ لوگوں نے کیوں ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی؟ کیا کوئی شناخت پریڈ کروانی ہے۔تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ نہیں۔کوئی شناخت پریڈ ہم نے نہیں کرنی۔اس پر فاضل جج نے تفتیشی افسر کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اب خبردار کر رہا ہوں کہ ان میں سے کسی کی آنکھوں پر پٹی نہیں باندھنی۔بعدازاں فاضل عدالت نے پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے محترمہ ام حسان و دیگر گرفتار شدگان کو چار روز کے لئے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔عدالت نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ چار روزہ ریمانڈ مکمل ہونے پر محترمہ ام حسان و دیگر گرفتار شدگان کو پیر کو دوبارہ عدالت کے روبرو پیش کرے۔ راولپنڈی/اسلام آباد کے علماء سمیت ملک بھر کی مذہبی جماعتوں کے قائدین تادم تحریر ''سکتے'' کے عالم میں ہیں،میں اسلامی''یوٹیوبرز''کی اس حوالے سے منظر نامے سے غائب ہونے پر سوال اس لئے نہیں اٹھانا چاہتا،کیونکہ ان کی اسلام پسندی تو اب مصدقہ ہو چکی ہے(تفصیلات پھر کبھی سہی)،البتہ میں یہ سوال اٹھانے کا حق ضرور رکھتا ہوں کہ اگر اسلام آباد میں ایمان مزاری عورت ہو کر گستاخوں کی حمایت کر سکتی ہے،اگر ماروی سرمد نام کی عورت ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں ہم جنس پرستی کی حمائت کر سکتی ہے،اگر میرا جسم میری مرضی کے سلوگن کے ساتھ چند مادر پدر آزاد عورتیں ملک میں ننگا اور گندہ ایجنڈہ متعارف کروا سکتی ہیں،اگر وقت کی وزیرنی فردوس عاشق اعوان ٹاک شو میں مخالف ایم این اے کے منہ پر تھپڑ رسید کر سکتی ہیں اور مختلف ٹاک شوز میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین مخالفین کی پگڑیوں کو اچھال سکتی ہیں تو اس سے نہ قیامت آتی ہے اور نہ زلزلہ۔لیکن اگر ام حسان صاحبہ مساجد و مدارس کی حفاظت کی بات کریں یا مساجد کی حفاظت کے لئے سرکار سے مذاکرات کریں توکیا یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ ان پر جھوٹا پرچہ کاٹ کر گرفتار کر لیا جائے؟وزیر داخلہ!کچھ تو خیال کرو یار.

Comments