دور حاضر کے فتنے
309 subscribers
Similar Channels
Swipe to see more
Posts
ماسکو کے چینی سفارت خانے نے ان ممالک کی فہرست شائع کی ہے، جن پر جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکا نے بمباری کی: جاپان: 6 اور 9 اگست 1945 کوریا اور چین: 1950–1953 (جنگِ کوریا) گواتی مالا: 1954، 1960، 1967–1969 انڈونیشیا: 1958 کیوبا: 1959–1961 کانگو: 1964 لاؤس: 1964–1973 ویتنام: 1961–1973 کمبوڈیا: 1969–1970 گریناڈا: 1983 لبنان: 1983، 1984 (لبنان اور شام میں اہداف پر حملے) لیبیا: 1986، 2011، 2015 ایل سلواڈور: 1980 نکاراگوا: 1980 ایران: 1987 پاناما: 1989 عراق: 1991 (خلیجی جنگ)، 1991–2003 (امریکی و برطانوی حملے)، 2003–2015 کویت: 1991 صومالیہ: 1993، 2007–2008، 2011 بوسنیا: 1994، 1995 سوڈان: 1998 افغانستان: 1998، 2001–2015 یوگوسلاویہ: 1999 یمن: 2002، 2009، 2011، 2024، 2025 پاکستان: 2007–2015 شام: 2014–2015 یہ فہرست 20 سے زائد ممالک پر مشتمل ہے۔ چین نے زور دیا ہے کہ "ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا کے لیے اصل خطرہ کون ہے۔" پھر سوال اُٹھتا ہے: کیا کبھی مغربی معاشرے نے امریکا پر برہمی ظاہر کی؟ کیا کبھی اس کے خلاف زوردار آوازیں بلند ہوئیں؟ کیا کسی ایک بار بھی امریکا پر پابندیاں عائد ہوئیں؟ یہ پورا دنیاوی نظام، جسے ہم "بین الاقوامی برادری" کہتے ہیں، خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے، جبکہ امریکا دنیا بھر کے ممالک پر ڈاکوؤں کی طرح حملہ آور ہو کر ان کے خوابوں کو بھی خوفناک کابوس میں بدل دیتا ہے۔ نہ کوئی مذمت، نہ کوئی سرزنش، نہ کسی قسم کی ناراضگی۔ ایک بزدل، بے شرم، اور منافق عالمی ضمیر۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فہرست کو ہر ممکن پلیٹ فارم پر بار بار نشر کیا جائے۔ ایسی ویڈیوز بنائی جائیں جو ان تمام مغربی منافقوں کو بے نقاب کریں اور امریکا کے ہاتھوں دنیا بھر میں ہونے والے جرائم کی ہر حقیقت یاد دلاتی رہیں۔ چینی سفارتخانے کی جانب سے یہ فہرست سفارتِ چین برائے روس (ماسکو) نے ایک سیاسی اور اخلاقی پیغام کے طور پر اُس وقت جاری کی، جب عالمی میڈیا اور مغربی ممالک ایران کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملے کی شدید مذمت کر رہے تھے، لیکن خود امریکا کے ماضی کو مکمل نظرانداز کیا جا رہا تھا۔ یہ فہرست اس دوہرے معیار (double standards) کو بے نقاب کرنے کے لیے شائع کی گئی، جو امریکا اور مغرب انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور عالمی سلامتی کے معاملات میں اپناتے ہیں۔ جب ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کیا تو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران کو "عالمی خطرہ" قرار دینا شروع کر دیا۔ چینی سفارتخانے نے اس تنقیدی مہم کے جواب میں یہ فہرست جاری کی تاکہ یاد دلایا جا سکے کہ حقیقی خطرہ وہ ملک ہے جس نے جنگِ عظیم دوم کے بعد 30 سے زائد ممالک پر بمباری کی ہے۔ چین کا موقف ہے کہ امریکا کسی بھی اخلاقی مقام سے بات کرنے کے اہل نہیں، کیونکہ خود اس کا ماضی اور حال انسانی حقوق کی پامالیوں اور عالمی جارحیت سے بھرا پڑا ہے۔ چین نے اس فہرست کو جاری کر کے ایک وسیع تر پیغام دیا: "دنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ کون اصل خطرہ ہے۔ مغربی میڈیا اور حکومتیں منافقت سے کام لیتے ہیں، اور جب امریکا قتل عام کرتا ہے تو وہ خاموش رہتے ہیں۔" یہ اقدام صرف سفارتی یا معلوماتی نہیں، بلکہ سیاسی جواب اور اخلاقی چارج شیٹ بھی ہے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے جاری یک طرفہ بیانیے کے خلاف۔۔
براۓ معلومات: اصطلاح "وسطی ایشیا" (Middle East) ایک ایسا لفظ ہے جس کا مقصد عرب جزیرہ نما، شام، مصر، ترکی اور ایران کے باشندوں کو کمتر سمجھنا اور ان کی تحـ.ـقیر کرنا ہے۔ یہ اصطلاح صرف انہی علاقوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ یورپیوں نے یہ اصطلاح ان کے نوآبـ.ـادیاتی حملوں کے دوران انیسویں صدی میں ایجاد کی۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ یورپ دنیا کا مرکز ہے اور باقی علاقے اس کے تابع اور پیچھے واقع ہیں۔ اسی لیے انہوں نے دنیا کو اپنی برتری اور مرکزیت کے نظریے کی بنیاد پر تقسیم کیا، اور ہمارے لیے "وسطی ایشیا" کا نام رکھا، جس میں تحقـ.ـیر اور توہـ.ـین پوشیدہ ہے۔ حقیقت میں، پورا یورپ خود ایشیا کا ایک حصہ ہے، لیکن یورپیوں نے اپنی غـ.ـرور آمیز سوچ کی وجہ سے ایک جـ.ـعلی براعظم بنایا جسے "یورپ" کہا جاتا ہے، حالانکہ جغرافیائی طور پر یورپ ایشیا سے جڑا ہوا ہے — یہاں تک کہ یورپ اور عرب جزیرہ نما اور شام کے درمیان بھی بہت سے رابطے ہیں۔ درحقیقت، عرب جزیرہ نما یورپ سے زیادہ حق دار ہے کہ اسے ایک علیحدہ براعظم سمجھا جائے، کیونکہ یہ ایک الگ ٹیکٹونک پلیٹ پر واقع ہے، جبکہ یورپ اور ایشیا ایک ہی پلیٹ پر ہیں۔ لہٰذا، بہتر ہوگا کہ ہم "وسطی ایشیا" کی اصطلاح کو ذہـ.ـن سے نکال دیں۔ https://whatsapp.com/channel/0029VacqVgNIHphPrnYzpq3a
یہ تصویر صرف ایک یادگار لمحے کو نہیں بلکہ پوری ایک سازش، سیاست، اور مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کے دھارے کو بدلنے والے فیصلوں کی نمائندہ ہے۔ ذیل میں اس منظر کی تفصیل، پس منظر، اور اس میں شامل تین اہم شخصیات کے بارے میں عام فہم، مستند اور مدلل انداز میں پیش کیا جا رہا ہے: 🌍 ایک لمحہ جو تاریخ بنا: یہ تصویر اپریل 1921ء کی ہے جو عمان (اردن) میں کھینچی گئی۔ تین شخصیات تصویر میں نمایاں ہیں: 1. مرکز میں: ہربرٹ صموئیل (Herbert Samuel) پس منظر: برطانوی سیاست دان اور یہودی نسل سے تعلق رکھنے والے شخص، جو 1916ء کے بعد برطانیہ میں یہودی مفادات کے سب سے بڑے نمائندے کے طور پر ابھرا۔ اہمیت: وہ پہلا یہودی تھا جسے برطانوی کابینہ میں وزیر مقرر کیا گیا۔ صہیونی تحریک (Zionism) کا پرزور حامی تھا، اور اس نے کابینہ میں بیٹھ کر فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی حمایت کی۔ اس کے خیالات ہی وعدہ بالفور (Balfour Declaration) 1917ء کی بنیاد بنے، جس میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کی۔ 1920ء تا 1925ء وہ فلسطین میں برطانیہ کا پہلا ہائی کمشنر (مندوب سامی) مقرر ہوا۔ اس نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی راہ ہموار کی، اور عربوں میں بے چینی کی بنیاد رکھی۔ ماخذ: Encyclopaedia Britannica, Herbert Samuel Benny Morris, "Righteous Victims", 2001 2. دائیں جانب: لیفٹیننٹ کرنل ٹی۔ ای۔ لارنس (T. E. Lawrence) خطاب: "لارنس آف عربیہ" (Lawrence of Arabia) پس منظر: برطانوی فوجی افسر، جاسوس اور ماہر آثارِ قدیمہ۔ کردار: پہلی جنگ عظیم کے دوران شریف حسین کے بیٹوں (فیصل اور عبد اللہ) کے ساتھ مل کر سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کو منظم کیا۔ عربوں کو آزادی کا وعدہ کیا لیکن پسِ پردہ سائیکس پیکو معاہدہ (1916) کے تحت برطانیہ اور فرانس نے عرب علاقوں کو آپس میں بانٹنے کی سازش کر لی۔ لارنس کی شخصیت کو برطانیہ نے ایک ہیرو اور عرب دوست کے طور پر پیش کیا، مگر وہ حقیقت میں سامراجی ایجنڈے کا حصہ تھا۔ ماخذ: T. E. Lawrence, "Seven Pillars of Wisdom" Scott Anderson, "Lawrence in Arabia", 2013 3. بائیں جانب: عبداللہ بن حسین (بعد میں: شاہ عبداللہ اول) نسب: شریف حسین بن علی (شریفِ مکہ) کا بیٹا کردار: عثمانی خلافت کے خلاف عرب بغاوت میں برطانیہ کے ساتھ اتحادی بنے۔ 1921ء میں برطانیہ نے اسے مشرقی اردن (Transjordan) کا امیر مقرر کیا، جس کا دارالحکومت عمان تھا۔ بعد ازاں وہ اردن کے بادشاہ بنے اور ہاشمی سلطنت کے بانی کہلائے۔ انہیں برطانوی حمایت سے اقتدار ملا، لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کا کردار مبہم اور بعض اوقات متنازع رہا۔ ماخذ: Avi Shlaim, "Lion of Jordan: The Life of King Hussein in War and Peace" Kedourie, Elie, "The Chatham House Version", 1970 🔍 اس تصویر کی تاریخی اہمیت: یہ تصویر انگریزوں کے مشرقِ وسطیٰ میں سامراجی منصوبے کا عکس ہے۔ ہربرٹ صموئیل یہودی وطن کے قیام کا سفیر تھا۔ لارنس وہ کردار تھا جس نے عربوں کو خواب دکھا کر ان سے اپنی لڑائی لڑوائی۔ عبداللہ بن حسین وہ عرب رہنما تھے جنہیں انگریزوں نے بغاوت کے بدلے علاقائی اقتدار دیا، مگر فلسطین ان کے ہاتھ نہ آیا۔ 📜 تاریخی تناظر: وعدہ بالفور سے ہاشمی سلطنت تک: 1917ء: برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی حمایت کرتا ہے (وعدہ بالفور)۔ 1918-1920: عرب بغاوت کامیاب ہوئی، عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ 1921ء: انگریزوں نے عرب علاقوں کو بانٹ دیا۔ عراق میں فیصل، اردن میں عبداللہ اور فلسطین پر براہ راست قبضہ۔ یہ تقسیم وہی تھی جس پر سائیکس پیکو معاہدے کے تحت پہلے ہی سازش ہو چکی تھی۔ یہ تصویر نہ صرف ایک یادگار لمحہ ہے بلکہ ایک عرب دھوکہ، ایک سامراجی منصوبہ، اور ایک صہیونی ایجنڈے کی علامت بھی ہے۔ اس میں ہمیں: عربوں کی سادگی، انگریزوں کی چالاکی، اور صہیونیوں کی منصوبہ بندی واضح نظر آتی ہے۔

*یہودی ایجنٹ منافق ابن سبا کے تیار کردہ گروہ شیعہ رافضیوں کے کفریہ عقائد۔ یہ تکیہ باز دین اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کہتے ہیں ہمارا ختم نبوت پر عقیدہ ہے۔ لیکن یہ تو نا اللہ کو وحدہ لاشریک مانتے ہیں اور نا ہی انبیا کو تمام انسانوں سے افضل، یہ تو سب کچھ نعوذ بااللہ حضرت علی رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی مانتے ہیں جو لوگ شیعہ رافضیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں، وہ یہ کلپ ضرور دیکھیں۔*
پروپیگندہ جو خود بخود دم توڑ گیا ایـــران نے 46 سالہ تاریخ میں کسی مسلمان ملک کو ستائے بغیر نہیں چھوڑا۔ ہر کسی کا دل چھلنی کیا۔ ملیشیا گروپس بنائے ۔ فـــرقہ وارانہ فســـادات کو ہوا دی۔ جن ممالک میں پانچ فیصد بھی ان کی کمیونٹی موجود ہے وہاں مختلف مجالـــس اور جلوســـوں کی آڑ میں عوام کی زندگی عذاب بنادی۔ سگنـــلز بند۔ نیـــٹ بند ۔ ســـڑکیں بند۔ یہ سب چیزیں لوگ بھولے نہیں ہیں ۔ لیکن اب مقابلہ اســـرائیل کے ساتھ ہے۔ تو سب مســـلمان وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چاھتے نہ چاھتے ہوئے ساتھ دے رہے ہیں۔ میرا خیال ہے یہ ایک قرض ہے۔ ایـــران اس کا صلہ کیا دیتا ہے یہ تو اگلا وقت بتائے گا۔ لیکن ایـــران اســـرائیـــل جنـــگ سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ایـــران اور ایـــران سے زیادہ ایـــران کے وفادار ہمیشہ ســـعودی عرب ،شـــام اور پاکـــستان کے خلاف پروپیگندہ کرتے ریے کہ یہ ممالک اســـرائیل نواز ہیں۔۔ شـــام کے بارے میں بتایا جاتا رہا کہ شـــام حکومت اســـرائیـــل نے تشکیل دیا ہے ،ســـعودی عرب اســـرائیل کا اتحادی ہے پاکســـتان اســـرائیل کو تســـلیم کرنے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ آج یہ حقیقیت ثابت ہوا جو ھم پہلے بھی بتاتے ریے کہ امریکہ کے ساتھ تجارت و تعلق اپنی جگہ لیکن اســـرائیل کے ساتھ نہ شـــام ملا ہوا ہے نہ ســـعودی عرب اور نہ پاکســـتان ۔۔۔۔۔۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر ان ممالک کا اســـرائیل کے ساتھ کوئی وابســـتگی ہوتی تو یہ کبھی بھی اســـرائیل کے خلاف اتنا موثر بیانیہ اور کردار ادا نہ کرتے اور نہ اســـرائیل کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوتے۔۔۔۔۔ شـــام نے اپنی فضائی حدود ایـــران کے لیے کھول دیں باوجود اس بات کے کہ شـــام کا چپہ چپہ ایـــران کے بارود سے جلا پڑا ہے۔۔ ســـعودی عرب نے علی الاعلان ایران کی حمایت کا اعلان کیا باوجود اس بات کے کہ ایران نے پچھلے دس سال اپنی حـــوثی پراکسی کے ذریعے سعـــودی عرب پر حملے کروائے۔۔ پاکستان نے کھلم کھلا ایـــران کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کیا باوجود اس بات کے کہ ایران نے ہمیشہ پاکستان پر انڈیا کو ترجیح دی ،کلبھوشن اور را کے ایجنٹوں کو ایـــران نے پاکستان میں داخل کروایا اس وقت ایران اگر جنگ ہارے گا تو وہ کسی دوسرے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے اندر کے غداروں کی وجہ سے ،اور اپنی قوم پر زبردستی اپنی خودساختہ ملا ازم مسلط کرنے کیوجہ سے جس سے ایران کے زیر عتاب 20 فیصد سنی اور 40 فیصد شـــیعہ پہلے سے تنگ آچکے ہیں اور اج وہ سیکولر ایران کے خواہشمند ہیں۔۔۔۔ اسلامی دنیا نے دل کھول کر سپورٹ کیا ہے لیکن کمزوری ان کے اندر ہے کہ ایران نے انہی ممالک کو کوکھلا کرنے کیلئے جتنا زور لگایا تھا اگر اس کی جگہ اپنے اندر کو مضبوط کیا ہوتا تو اج اســـرائیـــل کی شکست مقدر ہوتی
یہ ٹیکنالوجی کا پرفتن دور ہے۔ شریعت نے کبھی جدید سہولتوں کو رد نہیں کیا، لیکن جب سہولت فتنہ بن جائے، علم کا چہرہ مسخ ہو، اور جعل سازی کو فروغ ملے، تو عوام الناس ، یہاں تک کہ سادہ طالب علموں کے لیے بھی اس کا استعمال مضر بن جاتا ہے۔ ارٹیفیشل انٹیلیجنس جیسے چیٹ جی پی ٹی کو دینی رہنمائی کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ یہ ایک مشین کی اختراعی نقالی ہے، جسے سادہ لوح لوگ "علم" سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اور سب سے ہولناک خطرہ یہ ہے کہ اے آئی کسی بھی عالم دین کی آواز، انداز گفتگو، بلکہ چہرے تک کو ہو بہو نقل کر سکتی ہے۔ پرانی ویڈیوز میں بھی تحریف ممکن ہو چکی ہے۔ یوں وہ باتیں علماء کی طرف منسوب کی جا رہی ہیں، جو انہوں نے کبھی کہی ہی نہیں....! ایسے میں ہر مسلمان پر لازم ہے کہ تحقیق، بصیرت اور احتیاط کو اپنائے۔ اور یاد رکھیے: کسی بھی ویڈیو، تحریر یا آڈیو پر اعتماد کرنے سے قبل، براہ راست اس عالم دین سے رجوع کیجیے جس کے متعلق وہ بات منسوب کی جا رہی ہو۔ منقول
*_بریکنگ نیوز 🔴 ایرانی ہائپر سونک میزائلوں کے خوف سے اسرائیل کی ایئر لائن نے اپنے خالی جہاز فرار کروا دیئے، انتہا تو یہ کہ وزیراعظم کا جہاز بھی ملک سے باہر بھجوا دیا گیا ہے، الجزیرہ انٹرنیشنل_*
جزبات سے نہیں حقائق کی نظر سے دیکھیں۔ کیا نظر آتا ہے، ایران نے صرف دس سالوں میں ڈیرھ کروڑ مسلمانوں کو زبح کیا، اس وقت کسی کو امت کیوں نا یاد آئئ، شام میں یرموک کیمپ پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار فلسطینوں کو بھوک اور پیاس سے شہید کر دیا گیا، آپ کی امت نامی غیرت تب کیوں نا جاگی، آج ہمیں کوئی نا بتائے کہ ایران امت کے لیے لڑ رہا ہے، ان دونوں خونخوار بھیڑیوں کی جنگ میں ہم لڑائی کے ساتھ ہیں، اللہ دونوں کو آپس میں لڑوا کر تباہ و برباد کرے، آمین۔
