The world of science
The world of science
January 30, 2025 at 06:26 PM
ڈیپ سیک نے ان لوگوں کے نکتہ نظر کو تقویت دے دی ہے جو عرصہ سے وارننگ دے رہے تھے کہ جدید ٹیکنالوجی اور ریسرچ میں چین امریکہ کو بہت جلد پیچھے چھوڑ جائے گا۔ امریکہ کے مقابلے میں چین میں زیادہ ریسرچرز اور کم لاگت آنا دو بڑے مسائل تو تھے ہی اصل چیلنج اس سے کہین بڑا ہے۔ جو لوگ اس وقت امریکہ کی جدید ٹیکنالوجی میں برتری کو دیکھ کر خیال کرتے ہیں کہ یہ معاملہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا وہ خود امریکہ کی مثال بھول جاتے ہیں۔ بیسویں صدی کی ابتدا تک امریکہ یورپ کے مقابلے میں ایک تھرڈ ورلڈ کا ملک تھا جہاں جدید ٹیکنالوجی اور بہتر مصنوعات یورپ سے ہی امپورٹ ہوا کرتی تھیں اس کی فی کس آمدن ارجنٹینا کے قریب تھی کبھی اس سے بڑھ جاتی تھی کبھی کم ہوجاتی تھی۔ لیکن عین اسی وقت امریکہ جدید ریسرچ اور ٹیکنالوجی میں اپنی برتری کی بنیاد رکھ رہا تھا جس نے چند دہائیوں میں نقشہ ہی بدل دیا۔ اس کے پیچھے تھامس ایڈیسن اور اس کا آئیڈیا تھا۔ تھامس ایڈیسن نے بنیادی سائنس سے براہ راست نئی ٹیکنالوجی اخذ کرنے کے کام کو باقاعدہ بزنس کی شکل دے کر ایڈیسن لیبارٹریز کی بنیاد رکھی۔نکولا ٹیسلا بھی اس فرم میں کام کیا کرتا تھا۔ بہت جلد اس آئیڈیا کو گراہم بیل نے بھی اپنایا اور بیسویں صدی میں بیل لیبارٹریز کی بنیاد رکھی۔ ایڈیسن لیبارٹریز کوئی صنعتی مصنوعات نہیں بناتی تھی بلکہ بنیادی سائنس سے نئی ٹیکنالوجی اخذ کرکے مختلف فرموں کو اس کا لائسنس یا پیٹنٹ بیچتی تھی۔ پچاس کی دہائی تک اے ٹی اینڈ ٹی اور آئی بی ایم بھی اس دوڑ میں شامل ہوچکے تھے۔ یہ ریسرچ کے ڈائنوسارز تھے جہاں سائنسدان صنعتی فرموں یا یونیورسٹیز کی ریسرچ کے مقابلے میں وقت اور سرمایہ کی پابندی سے آزاد ہوکر بنیادی سائنس پہ ریسرچ کرکے براہ راست نئی ٹیکنالوجی وضع کررہے تھے۔ اور فرمیں ان لیبارٹریز سے لائسنس خرید کے نئی پراڈکٹس بناتی تھیں۔ اس سے قبل بنیادی سائنس پہ ریسرچ سے نئی ٹیکنالوجی وضع کرنے کا چیمپئین جرمنی تھا اور یہ فان براؤن جیسے جرمن ریسرچرز تھے جو ذاتی طور پہ راکٹ سائنس جیسی نئی ٹیکنالوجیز وضع کررہے تھے ، تیس اور چالیس کی دہائی میں جرمن سائنسدان جس طرح باقی دنیا سے بہت آگے تھے پچاس کی دہائی تک اس کام کو ایک بزنس بنا کر امریکی جرمنی سمیت باقی دنیا سے بہت آگے نکل گئے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی جدید ترین شمار ہونے والی ٹیکنالوجیز مثلاً سیلیکون چپس، لیزر، مائیکروویو، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور جی پی ایس وغیرہ انہی فرموں کی پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی ایجادات ہیں اور آج تک امریکی برتری کا مظہر ہیں یہ وہ دور تھا جب چین میں لکڑی کے ہل اور بیل کی مدد سے کاشت کاری ہورہی تھی۔ نوے کی دہائی میں ریسرچ میں امریکی برتری کی یہ بنیادیں کھسکنا شروع ہوگئین اور اس کی وجہ گلوبلائزیشن کا رجحان تھا، امریکی یورپی صنعتی فرمیں بجائے نئی ٹیکنالوجیز خریدنے کے ، چین یا دیگر سستی لیبر والے تیسری دنیا کے ممالک میں مینوفیکچرنگ کرنے لگ گئیں جن میں انہیں زیادہ منافع حاصل ہوتا تھا۔ یوں دس سال کے اندر ہی ریسرچ کے یہ بڑے بڑے ڈائنوسارز دیوالیہ ہو گئے کیونکہ اب وہ اس ریسرچ کا خرچہ برداشت کرنے کے اہل نہ رہے تھے۔ ان فرموں کے دیوالیہ ہونے کے بعد انکے سائنسدانوں نے یونیورسٹیز میں پڑھانا شروع کردیا اور امریکہ میں ریسرچ کا ایک نیا ماڈل متعارف ہوا جس میں پرائیویٹ فرمیں ان یونیورسٹیز کو اپنی ضرورت کی ٹیکنالوجی کی ریسرچ کے لئے فنڈنگ مہیا کرتے تھے لیکن اس ریسرچ کا سکوپ اور فنڈنگ بہت محدود تھی وہ پہلے سے موجود کسی خاص ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کے لئے کی جاتی تھی یوں ریسرچرز پہلے کی طرح وقت اور فنڈنگ کی پابندی سے آزاد ہوکر بنیادی سائنس پہ ریسرچ کرنے کے پہلے کی طرح اہل نہ رہے۔ اگلا دھچکا اس وقت لگا جب اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں زیادہ تر صنعت ہی امریکہ سے کُوچ کرکے چین چلی گئی اور سوائے سیلیکون ویلی کے امریکہ کے پاس کوئی بڑی صنعت ہی نہ رہی تب تک ریسرچ بھی یونیورسٹی تک ہی محدود ہوچکی تھی اور یونیورسٹییز کو فنڈنگ کی کمی لاحق ہونا شروع ہوگئی۔ تب سے یونیورسٹیز اپنی فنڈنگ ٹیوشن فیس کو مہنگا کرکے پورا کر رہی ہیں۔ لیکن اس کے ذیلی اثرات خود امریکہ یورپ کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔ عام مغربی سٹوڈنٹ اب اتنی مہنگی پرائیویٹ یونیورسٹی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں رہا تھا اور یونیورسٹیز زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سٹوڈنٹس پہ انحصار کرنے پہ مجبور تھیں۔ یہ وہ وقت یعنی اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تھا جب چین اس دوڑ مین باقاعدہ ریاستی پلاننگ سے شامل ہوا اور اس نے مغربی یونیورسٹیز میں اپنے طالب علموں کی بھرمار کردی۔ یہ وہ وقت تھا جب راقم الحروف یونیورسٹی آف بارسلونا کے سپینش لینگویج کورس میں اپنے ساتھ چینی طلبا کی بھرمار دیکھ کر حیران رہ گیا تب چین ایک ترقی پذیر نسبتاً غریب ملک شمار ہوتا تھا لیکن چینی طلبا نے گویا یلغار ہی کردی تھی۔ تب اکا دکا انڈین سٹوڈنٹس بھی نظر آتے تھے لیکن انہوں نے انگلش زبان کے مہنگے کورسز میں داخلے لئے ہوتے تھے جبکہ چینی سٹوڈنٹس بندہ ہی کی طرح مقامی یورپی زبانوں کے بہت سستے گورنمنٹ فنڈڈ کورسز سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں تھے۔ ادھر خود چین میں بھی فی کس آمدن بہتر ہورہی تھی سو چینی یونیورسٹی گریجویٹ تیسری دنیا کے باقی طالب علموں کے برعکس ایک دو سال رُک کر کام کرکے واپس چلے جاتے تھے اور وہاں ریسرچ کی بنیاد رکھنا شروع تھے۔ اس وقت چین ہی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بنیادی سائنس سے ٹیکنالوجی وضع کرنے پہ کام ہورہا ہے اور کوانٹم کمپیوٹر سے لیکر کاربن چپس پہ لامحدود گورنمنٹ فنڈنگ سے ریسرچ کی جارہی ہے جبکہ باقی دنیا میں یہ کام بہت محدود ہوچکا ہے۔ جو لوگ ابھی تک اس گمان میں ہیں کہ چونکہ ابھی تک امریکہ چین سے ٹیکنالوجی میں آگے ہے تو ہمیشہ یہی رہے گا انہیں کہنا ہے کہ اب رُک کر ذرا ماضی پہ بھی دھیان دیں اور 1890 کے امریکہ میں واپس جاکر اس کا یورپ سے موازنہ کریں۔ وہ لکڑی کے کچے پکے مکانات، کمتر انفراسٹرکچر ، کچی پکی سڑکیں، کہیں ریلوے ہے کہیں نہیں، کمتر پراڈکٹس، اکثر گر جانے والے ہلکے پُل، جہاں معیاری مصنوعات ہمیشہ یورپ سے درآمد ہوتی تھیں۔ عین اسی وقت تھامس ایڈیسن ، اپنی لیبارٹری کی بنیاد رکھ رہا تھا۔ تب کوئی سوچ سکتا تھا کہ چند ہی دہائیوں میں معاملہ الٹ جائے گا اور جدیدترین ٹیکنالوجی اور مصنوعات یورپ سے امریکہ کو نہیں بلکہ امریکہ سے یورپ کو جایا کریں گی ؟ لیکن ایسا ہی ہوا۔ اس وقت ایلون مسک واقعی بہت زبردست ہے اسے دیکھ کر تھامس ایڈیسن یاد آتا ہے وہ دوسرا ایڈیسن بن سکتا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ دوسرا ایڈیسن ہے نہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ وہ دوسری ایڈیسن لیبارٹری نہیں بنا سکا جو بنیادی سائنس سے ٹیکنالوجی اخذ کر سکے جبکہ چین میں یہی کام انکی ریاست اپنے بے پناہ وسائل سے کررہی ہے اور یہی بنیادی نکتہ ہے جو مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ عمیر فاروق
👍 ❤️ 7

Comments