Abdullah Umar
Abdullah Umar
February 12, 2025 at 04:57 AM
احمد جاوید! آپ بھی عام سے نکلے آصف محمود محترم جناب احمد جاوید کو سنا اور ورد بزمی کی ایک بھولی بسری نظم کا مصرعہ یاد آگیا: تم بھی عام سے نکلے۔ فلسطین کا مقدمہ تاریخ ، مذہب ، قانون کسی بھی میزان پر ، پرکھ لیجیے فلسطینی حق پر ہیں۔ یہاں تکرار کی حاجت نہیں ، میں اس مقدمے کی تفصیل اور تسلسل سے لکھ رہا ہوں۔ انٹر نیشنل لا انہیں واپسی کا حق بھی دیتا ہے اور مزااحمت کا بھی اور مزاحمت بھی مسلح ۔ اسرائیل قابض ہےا ور ناجائز قابض ہے ۔ قاانون کے مطابق جنگ کا آغاز فلسطینیوں کے حالیہ اقدام سے نہین ہو ا یہ اسرائیل کے ناجائز قبضے سے ہوا۔ جب تک قبضہ برقرار رہے قانون کہتا ہے کہ جنگ جاری ہے۔ جب تک جنگ جاری ہے مزاحمت کا حق موجود ہے۔ فلسطینیوں نے جو کیا ، بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قراردادیں اسے جائز کہتی ہیں۔ یہ حق دفاع ہے ، یہ حق مزاحمت ہے۔ کسی میں ہمت ہے تو اس مقدمے کو بین الاقوامی قانون کی روشنی مین جھٹلا کر دکھائے زیادہ سے زیادہ یہ بات ہو سکتی ہے کہ کیا فلسطینیوں کا یہ اقدام حکمت کے مطابق تھا یا نہیں ۔ تو صاحب بات یہ ہے کہ اس حکمت کا تعین کرنے کا حق اسئْی کو دیجیے جو صدی سے مقتل میں اکیلا کھڑا ہے ۔ کیسی دیانت ہے کہ مقتل میں کھڑا وہ مظلوم کبھی آپ کو یاد نہ آئے اور جب وہ مزاحمت کرے تو آپ اسی کو ہدف ملامت بنا لیں۔ معافی چاہتا ہوں یہ رویہ علم و تہذیب کی دنیا میں اجنبی ہے۔ عجب رویہ ہے ، بعض لوگ جب جب فلسطین پر لکھتےا ور بولتے ہیں زبان کو تلوار اور قلم کو نیزہ بنا لیتے ہیں۔ عجیب تکبر سے دوسروں کو جذباتی ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ انہین معلوم ہونا چاہیے یہ مقدمہ جذبات پر نہیں بین الاقوامی قانون پر کھڑا ہے۔ ویسے جذبات بھی انسانی زندگی کا حصہ ہیں ۔ ان سے ایسا بھی کیا فرار۔ ورد بزمی نے لکھا تھا: جھیل کے کنارے پر ایک شام بیٹھا تھا ڈھل رہا تھا سورج اور آسماں پہ سرخی تھی جھیل کے کنارے کے منفرد سے حصے کو ایک لہر دانستہ چومتی رہی پل پل دیکھ کر عنایت اور دیکھ کر کرم اتنا جھیل کے کنارے کے سادہ لوح حصے نے لہر سے کہا اتنا تم بہت ہی اچھی ہو آؤ ایک ہوجائیں چاہتوں میں کھو جائیں بدلے بدلے لہجے میں لہر نے یہ فرمایا میں تمہیں کناروں سے مختلف سمجھتی تھی تم بھی عام سے نکلے احمد جاوید صاحب ، آپ بھی عام سے نکلے ، ندی کے کنارے کی طرح
❤️ 👍 😢 13

Comments