Abdullah Umar
Abdullah Umar
February 18, 2025 at 08:52 AM
گزشتہ تحریر شریک کرنے پر مولانا عامر صاحب نے درج ذیل تبصرہ کیا ہے ۔ ارباب مدارس و اساتذہ مدارس و قرآن وسنت کو متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ عبداللہ عمر مذکورہ تحریر ایک تلخ حقیقت کا آئینہ ہے ایسی حقیقت جس سے انکار ممکن نہیں۔ الحاد کی یہ آگ، جو بظاہر چند افراد کےخیالات کا مجموعہ نظر آتی ہے، درحقیقت ایک بڑھتی ہوئی فکری لہر ہے جو خاص طور پر تعلیمی اداروں، جامعات اور علمی حلقوں میں سرایت کر چکی ہے۔ میرا تعلق بھی ایسے ہی ایک یونیورسٹی سے ہے، جہاں میں بطور لیکچرار خدمات انجام دے رہا ہوں۔ یونیورسٹی میں میرے سامنے ایسے طلبہ آتے ہیں جو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جن کی فکری تربیت کمزور بنیادوں پر استوار ہوئی نظر آتی ہے، اور جدید سائنسی اور فلسفیانہ اسلام مخالف سوالات کے جوابات انہیں یا تو نہیں ملے، یا اگر ملے بھی تو غیر تسلی بخش رہے۔ یہی وہ خلا ہے جسے الحاد اپنی دلکش مگر زہر آلود دلیلوں سے پُر کر رہا ہے۔ لیکن اس سارے منظرنامے میں جو چیز سب سے زیادہ افسوسناک ہے، وہ ہمارے بعض دینی حلقوں کا طرزِ عمل ہے۔ میں خود ایک دینی مدرسے کا فاضل ہوں، علم کلام کو اپنے اساتذہ سے پڑھا ہے، اور اس علم کی روشنی میں ہی طلبہ کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر جب میں انہی اساتذہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی موجودہ ذمہ داریوں کا ذکر کرتا ہوں، تو مجھے سخت ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مدارس کے بعض اکابر، جو خود گہرے علمی رسوخ کے حامل ہیں، یونیورسٹی اور دیگر عصری اداروں میں تدریس کو نہ صرف کمتر سمجھتے ہیں بلکہ وہاں پڑھانے والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ روش ہمارے تعلیمی نظام کے سب سے بڑے بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ ہم پہلے ہی علمی انحطاط کا شکار ہیں، اور اگر ہمارے مدارس کے کہنہ مشق علماء خود کو محدود رکھتے رہے، تو وہ علمی و فکری جنگ جس کا سامنا ہم سب کو ہے، یکطرفہ ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو علم کلام کے ماہر ہوں، جدید فکری سوالات کے جوابات دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور اپنی علمی بصیرت کو محض مدارس تک محدود رکھنے کے بجائے، عصری تعلیمی اداروں میں بھی پہنچائیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ایسے علمی فورمز اور حلقوں سے رجوع کیا ہے، جہاں مجھے اپنے سوالات کے جوابات مل سکیں۔ میرے جیسے کئی دیگر افراد بھی اسی ضرورت کے تحت ان علمی مجالس کا حصہ بنے ہیں، تاکہ الحاد کی اس بڑھتی ہوئی یلغار کے مقابلے میں ایک مضبوط فکری اور علمی دفاع ممکن ہو سکے۔ لہٰذا، میری عاجزانہ گزارش ہے کہ علم کلام کے جید علما اور ماہرین اس مسئلے کی سنگینی کو محسوس کریں۔ اگر ہمارے نوجوانوں کو فکری تربیت اور علمی بنیاد فراہم نہ کی گئی، تو وہ فکری اور نظریاتی بھٹکاؤ کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ وقت زبانی نصیحتوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے کا ہے۔ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ ہماری رہنمائی کے مستحق ہیں، نہ کہ انہیں محض شکاریوں کے حوالے کر دیا جائے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی علمی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور وہ کام کریں جو آنے والی نسلوں کے فکری استحکام کے لیے ضروری ہے۔
❤️ 👍 7

Comments