تفسیر احسن البیان
تفسیر احسن البیان
February 2, 2025 at 05:50 AM
❇(سورة الفاتحة۔ سورۃ نمبر۱ ۔ تعداد آیات ۷)❇ 💧صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ‌ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ *🍁اُن لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا (۱)۔ ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی۔ (۲)* *🔹(۱)* یہ صراط مُستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جن پر وہ لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا ۔ یہ منعم علیه گروہ ہے انبیاء، شہداء، صديقین، اور صالحین کا۔ جیسا کہ سورہ نساء میں ہے ✨{وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا}۔ (النساء،٦٩) "اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں، وہ(قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہدا، اور صالحین، اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔" اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے، نہ کہ کوئی اور راستہ۔ *🔹(۲)* بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ) سے مراد یہودی اور (الضَّآلِیْن) (گمراہوں) سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں۔ ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ لَا أَعْلَمُ خِلَافًا بَيْنَ الْمُفَسِّرِينَ فِي تَفْسِيرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ بِالْيَهُودِ، وَالضَّالِّينَ بِالنَّصَارَى۔ (فتح القدیر) اس لیے صراط مستقیم پر چلنے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود اور نصاریٰ دونوں کی گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے ، آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے، حضرت عزیر کو انہوں نے ابن اللہ کہا، اور وہ اپنے احبار و رھبان کو حرام و حلال کرنے کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں ابن اللہ اور ثالث ثلاثہ (اللہ کا بیٹااور تین خداؤں میں سے ایک) قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی افراط و غلو کی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں۔ اللہ تعالٰی اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے، تاکہ ادبار و نکبت کے بڑھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکے۔ *✨سورۃ فاتحہ کے آخر میں آمِیْن کہنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید اور فضیلت بیان فرمائی ہے۔ اس لیے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہئیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (جہری نمازوں میں) اونچی اواز سے آمین کہا کرتے تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی حتیٰ کہ مسجد گونج اٹھتی۔* (سنن ابن ماجه۔ كتاب الصلوة، باب الجهر بأمين، سنن ابي داود، باب التامين وراء الامام، صحيح البخاري، باب جهر الامام بالتأمين، وباب جهر المأموم بالتأمين) بنا بریں أمین اونچی اواز سے کہنا سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول بہ ہے أمین کے معنی مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ كذلك فليكن (اسی طرح ہو) لا تخيب رجاءنا (ہمیں نہ مراد نہ کرنا) اللهم استجب لنا (اے اللہ ہماری دعا قبول فرمالے)۔
❤️ 1

Comments