
تفسیر احسن البیان
February 25, 2025 at 10:56 PM
*❇(سورةالبقرة۔ سورۃ نمبر۲۔ تعداد آیات ۲۸٦)❇*
▪️أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم
💧إِنَّ اللَّـهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴿٢٦﴾
*🍁یقیناً اللہ تعالٰی کسی مثال کے بیان کرنے سے نہیں شرماتا، خواہ مچھر کی ہو، یا اس سے بھی ہلکی چیز کی۔(١) ایمان والے تو اسے اپنے رب کی جانب سے صحیح سمجھتے ہیں اور کفار کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ نے کیا مراد لی ہے؟ اسی کے ساتھ بیشتر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر لوگوں کو راہ راست پر لاتا ہے۔ (٢) اور گمراہ تو صرف فاسقوں کو ہی کرتا ہے۔*
*🔹(١)* جب اللہ تعالٰی نے دلائل قاطعہ سے قرآن کا معجزہ ہونا ثابت کر دیا تو کفار نے ایک دوسرے طریقے سے معارضہ کر دیا اور وہ یہ کہ اگر یہ کلام الہٰی ہوتا تو اتنی عظیم ذات کے نازل کردہ کلام میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثالیں نہ ہوتیں۔ اللہ تعالٰی نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات کی توضیح اور كسى حکمت بالغہ کے پیش نظر تمثیلات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لیے اس میں حیا و حجاب بھی نہیں۔ {فَوْقَھَا} جو مچھر کے اوپر ہو، یعنی پر یا بازو، مراد اس مچھر سے بھی حقیر تر چیز۔ یا فوق کے معنی، اس سے بڑھ کر، بھی ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں معنی "مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز" کے ہوں گے۔ لفظ فَوْقَھَا میں دونوں مفہوم کی گنجائش ہے۔
*🔹(٢)* اللہ کی بیان کردہ مثالوں سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور اہل کفر کے کفر میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ سب اللہ کے قانون قدرت و مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ جسے قرآن نے {نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى}۔ (النساء:115) (جس طرف کوئی پھرتا ہے، ہم اسی طرف اس کو پھیر دیتے ہیں) اور حدیث میں ((كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِما خُلِقَ له))۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورة اللیل) سے تعبیر کیا گیا ہے۔
فسق، اطاعت الٰہی سے خروج کو کہتے ہیں، جس کا ارتکاب عارضی اور وقتی طور پر ایک مومن سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس آیت میں فسق سے مراد اطاعت سے کلی خروج یعنی کفر ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے کہ اس میں مومن کے مقابلے میں کافروں والی صفات کا تذکرہ ہے۔