Bakht Zada Buneray
Bakht Zada Buneray
February 11, 2025 at 06:47 PM
‏اسلامی اخوت اور شیطانی تدابیر از مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد امت مسلمہ کے حق میں سب سے بڑی نعمت اتفاق و اتحاد ہے، اور سب سے بڑا عذاب ان کا باہمی انتشار وافتراق ہے، قرآن کریم، مسلمانوں کو گروہ بندیوں کا حکم نہیں دیتا، بلکہ انہیں حکم دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور انہیں حق تعالیٰ کا یہ انعام یاد دلاتا ہے کہ دیکھو! تم اسلام سے پہلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، اللہ نے تم پر احسان فرمایا کہ تمہارے دلوں کو جوڑ دیا(آل عمران:١٠٣)۔ اور مسلمانوںکو یہ بھی فہمائش کرتا ہے کہ رسول کی اطاعت کو لازم پکڑو، اور اختلاف پیدانہ کرو، ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، تمہارا رعب و دبدبہ جاتا رہے گا اور تم دشمنوں کی نظر میں ذلیل و خوار اور بے قیمت ہوجائو گے۔(الانفال: ٤٦) قرآن کریم مسلمانوں کے اختلاف مٹانے کی تدبیر بھی بتاتا ہے اور اس کے لئے یہ کلیہ تجویز کرتا ہے کہ اگر تمہارے درمیان کسی مسئلہ میں نظریاتی اختلاف پیدا ہو جائے تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرکے سب اس کے فیصلے پر راضی ہوجائو(الشوریٰ:١٠) اور اپنے تنازعہ کو نمٹانے کے لئے اسے خدا ورسول کی عدالت میں پیش کرو(النسا ٔ: ٥٩) پھر خدا تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق جو فیصلہ بھی سامنے آئے اس پر سر تسلیم خم کردو۔(النسا ٔ:٦٥) دو مسلمانوں کے درمیان اگر ذاتی اور نجی امور میں باہمی رنجش پیدا ہوجائے تو قرآن کریم اسلامی برادری کو حکم دیتا ہے کہ عدل و تقویٰ کے تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک ملحوظ رکھتے ہوئے دو روٹھے ہوئے بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرادو۔ (الحجرات:١٠) اور اگر خدانخواستہ یہ رنجش گروہی جنگ کی شکل اختیار کرلے،اور اہل ایمان کی دو پارٹیاں آپس میں آمادئہ پیکار ہوجائیں تو قرآن کریم اسلامی معاشرہ پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ وہ رنگ ونسل، قوم و وطن، قبیلہ و برادری کے تمام تعلقات سے بالاتر ہوکر یہ دیکھے کہ ان دونوں میں سے حق پر کون ہے؟ اور زیادتی کس کی طرف سے ہو رہی ہے، پس جو فریق زیادتی پر اترآئے اس سے پورے معاشرے کو نمٹنا چاہئے، اور جب تک وہ اپنی زیادتی کو چھوڑ کر حکم الٰہی کے آگے جھکنے پر آمادہ نہ ہو اس سے مسلمانوں کی صلح نہیں ہونی چاہئے۔ (الحجرات: ٩) قرآن کریم نے ان اسباب و ذرائع کی بھی نشاندہی کی ہے جن کے ذریعہ شیطان مسلمانوں کو آپس میں لڑاتا ہے، اور جوان کے انتشار و افتراق کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں، ان میں سب سے پہلی چیز اسلامی اخوت کے رشتہ کا کمزور پڑجانا اور مسلمانوں کا خداو رسول کی اطاعت سے روگردانی کرنا ہے۔ جب اسلام کی عظمت و تقدس کا لحاظ نہ رہے تو ظاہر ہے کہ اسلامی اخوت و اسلامی اتحاد کا احترام بھی اٹھ جاتا ہے ، اس صورت میں مسلمان آپس میں دست و گریبان ہونے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کریں گے۔ دوسری چیز جو اسلامی اخوت کی روح کو کچل دیتی ہے وہ ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے بدگمانی ہے، اسی لئے قرآن کریم نے بدگمانی سے احتراز کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور مسلمانوں کو بتایا ہے کہ جس بدگمانی کا صحیح منشا ٔ موجود نہ ہو وہ گناہ ہے، حدیث پاک میں آنحضرت ۖ کا ارشاد ہے کہ ''بدگمانی سے احتراز کیا کرو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔'' تیسری بات جو بدگمانی سے جنم لیتی ہے وہ غیبت اور بہتان ہے۔ جب ایک شخص کو دوسرے شخص سے سو ٔ ظن ہوجاتا ہے تو اظہار نفرت کے لئے اس کی برائیوں کی داستان بڑے مزے لے کر بیان کرتا ہے، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی پس پشت برائی کرنا غیبت کہلاتا ہے ۔ اور یہ قرآن کریم کی نظرمیں مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے، غیبت ایسا خبیث گناہ ہے کہ بڑے بڑے پرہیزگار لوگ اس میں نہ صرف مبتلا ہوجاتے ہیں بلکہ اس کو اچھی چیز سمجھنے لگتے ہیں، کیونکہ دوسرے کی برائیاں بیان کرنے میں نفس کو لذت ملتی ہے، اور وہ ایسے زہر کو میٹھی گولی سمجھ کر شوق سے کھاتا ہے اسی بنا پر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ''غیبت زنا سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔''عرض کیا گیا یا رسول اللہ! یہ زنا سے سنگین جرم کیوں ہے؟ فرمایا: بدکار بدکاری کرتاہے تو اسے برا سمجھ کر کرتا ہے اور کرنے کے بعداس پر پشیمان ہوتا ہے، اس سے توبہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہے، مگر غیبت کرنے والے کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کوئی گناہ کررہا ہے۔ اس لئے اس کبیرہ گناہ سے توبہ کرنے کی بھی اسے توفیق نہیں ہوتی۔'' چوتھی چیز غلط خبروں کی اشاعت ہے جب آدمی کو کسی سے نفرت ہوجائے تو بسا اوقات وہ صرف غیبت ہی پر اکتفا نہیں کرتاہے بلکہ افسانہ طرازی بھی شروع کردیتاہے اور محض اپنے قیاس اور اندازے کو تخیلات میں ڈھال کر واقعہ بنا لیتا ہے۔ اور کبھی اصل بات کچھ اور ہوتی ہے مگر اس میں رنگ آمیزی اور حاشیہ آرائی کرکے اسے کچھ کا کچھ بنالیا جاتا ہے۔ ‏یہ حرکت بہت سے کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔ جھوٹ، بہتان، غیبت، کسی مسلمان کی دل آزاری و رسوائی جیسے سب گناہ اس میں سمٹ آتے ہیں اس لئے قرآن کریم نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ جب انہیں کسی مسلمان کے بارے میں کوئی خبر ملے تو اس پر بغیر تحقیق کے نہ تو یقین کیا کریں، اور نہ اس پر اپنے کسی ردعمل کا اظہار کریں، قرآن کریم ایسی خبریں اڑانے والوں کو ''فاسق'' کہہ کر انہیں ناقابل اعتبار قرار دیتا ہے۔ پھر جب ایسی خبریں عام طور پر ایک دوسرے کے خلاف شائع ہونے لگتی ہیں تو طرفین میں عداوت کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی جو قوت کفر کے مقابلہ میں خرچ کرنی چاہئے تھی وہ آپس کی گناچنی میں صرف ہونے لگتی ہے، ہر فریق دوسرے فریق کو نیچا دکھانے کے لئے اپنی ساری صلاحیتیں خرچ کردیتا ہے اس طرح مسلمانوں کی قوت، ان کا وقت، ان کا مال، انکی دماغی وجسمانی صلاحیتیں آپس کی سر پھٹول کی نذر ہونے لگتی ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور انہیں مسلمانوں سے مقابلہ و مقاومت کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہ جاتا۔ یہ ہے وہ سب سے بڑا عذاب جس سے اسلامی معاشرہ دوچار ہے۔ شیطان نے مسلمانوں کو لڑانے کے لئے جو بے شمار ذرائع ایجاد کئے ہیں ان میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں۔ جن کی قباحت کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں جاتی، وہ اس کے لئے کبھی مذہبی میدان ہموار کرتاہے اور چند سرپھروں کو نئے نئے شوشے چھوڑنے پر اکساتا ہے، کبھی اس کے لئے سیاسی میدان تیار کرتا ہے۔ اور مسلمانوں کو مختلف ٹکڑیوں میں بانٹ کر سیاسی دنگل میں اتار دیتا ہے۔ کبھی قوم و وطن اور قبیلہ و برادری کا بت تراش کر چند سامریوں کو اس کا سرپرست بنادیتا ہے ، اور وہ اسلامی اخوت کے تمام رشتے کاٹ پھینکتے ہیں، کبھی طبقاتی کشمکش برپا کرکے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خون سے عداوت و دشمنی کی پیاس بجھانے کی تدبیر سجھاتا ہے۔ اور یہ ساری چیزیں اسلامی معاشرے کو جہنم کانمونہ بنا دیتی ہیں، بد قسمتی سے آج ہمارے گردوپیش یہی شیطانی الائو روشن ہیں اور مسلمان اس کا ایندھن بنتے جارہے ہیں۔ حق تعالیٰ شانہ اہل اسلام کو اسلامی اخوت کے رشتہ میں منسلک رہنے کی تو فیق عطا فرمائے، اور تمام شیطانی تدابیر سے انہیں محفوظ رکھے۔٭٭

Comments