
Bakht Zada Buneray
19 subscribers
About Bakht Zada Buneray
Secretary, Khatme Nubuwwat, Afkare Deoband Peshawar, Khyber & Bunair. Member of jui. Twitter @kn_jui السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ چینل سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، جمعیت علماء اسلام، وفاق المدارس عربیہ اور ترویج افکار دیوبند سے متعلق معلومات فراہم کی جائی گی، ان شاءاللہ
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

لاہوری جماعت کی حقیقت مولانا مفتی محمود مرزائی صاحبان کی لاہوری جماعت، جس کے بانی محمد علی لاہوری قادیانی تھے، بکثرت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتی، بلکہ مسیح موعود، مہدی اور مجدد مانتی ہے۔ اس لئے اس پر ختم نبوت کی خلاف ورزی کے الزام میں کفر عائد نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا مختصر سا جواب تو یہ ہے کہ جس شخص کا جھوٹا دعویٰ نبوت ثابت ہوچکا ہو، اسے صرف نبی ماننا ہی نہیں سچا ماننا اور واجب الاطاعت سمجھنا بھی کھلا کفر ہے۔ چہ جائیکہ اسے مسیح موعود، مہدی اور مجدد اور محدث (صاحب الہام) قرار دیا جائے۔ کسی شخص کا دعویٰ نبوت جو دو حریف مذہب پیدا کرتا ہے، وہ اسے سچا ماننے والوں اور جھوٹا ماننے والوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جو جماعت اسے سچا قرار دیتی ہے وہ ایک مذہب کی پیرو قرار پاتی ہے اور جو جماعت اس کی تکذیب کرتی ہے وہ دوسرے مذہب میں شامل ہوتی ہے۔ لہٰذا جب مرزا غلام احمد قادیانی کا مدعی نبوت ہونا روز روشن کی طرح ثابت ہوچکا ہے تو اب اس کو پیشوا ماننے والی تمام جماعتیں ایک ہی مذہب میں داخل ہوں گی، خواہ وہ اسے نبی کا نام دیں یا مسیح موعود، مہدی معہود اور مجدد کا، لیکن اس مختصر جواب کے ساتھ لاہوری جماعت کی پوری حقیقت واضح کر دینا بھی مناسب ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ عقیدہ و مذہب کے اعتبار سے ان دونوں جماعتوں میں عملاً کوئی فرق نہیں، بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں اور ان کے بعد ان کے خلیفہ اول حکیم نورالدین کے انتقال ہونے تک جماعت قادیان اور جماعت لاہور کوئی الگ جماعتیں نہ تھیں، اس پورے عرصہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کے تمام متبعین خواہ مرزا بشیر الدین ہوں یا محمد علی لاہوری پوری آزادی کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کو ''نبی'' اور ''رسول'' کہتے اور مانتے رہے۔ محمد علی لاہوری عرصہ دراز تک مشہور قادیانی رسالے ''ریویو آف ریلیجنز'' کے ایڈیٹر رہے اور اس عرصہ میں انہوں نے بے شمار مضامین میں نہ صرف مرزا قادیانی کے لئے ''نبی'' اور ''رسول'' کا لفظ استعمال کیا بلکہ ان کے لئے نبوت و رسالت کے تمام لوازم کے قائل رہے، ان کے ایسے مضامین کو جمع کیا جائے تو ایک پوری کتاب بن سکتی ہے۔ تاہم یہاں محض نمونے کے طور پر ان کی چند تحریریں پیش کی جاتی ہیں۔ ١٣مئی١٩٠٤ء کو گورداسپور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک بیان دیا، جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ جو شخص مرزا قادیانی کی تکذیب کرے، وہ ''کذاب'' ہوتا ہے، چنانچہ ایسے شخص کو اگر مرزا قادیانی نے کذاب لکھا تو ٹھیک کہا۔ اس بیان میں وہ لکھتے ہیں: ''مکذب مدعی نبوت کذاب ہوتا ہے۔ مرزا قادیانی ملزم مدعی نبوت ہے، اس کے مرید اس کو دعویٰ میں سچا اور دشمن جھوٹا سمجھتے ہیں۔'' (حلفیہ شہادت بعدالت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور، مورخہ ١٣مئی ١٩٠٤ء منقول از ماہنامہ فرقان قادیان، ج:١، نمبر:١ ص:١٥، جنوری ١٩٤٢ئ) ''آنحضرت کے بعد خداوند تعالیٰ نے تمام نبوتوں اور رسالتوں کے دروازے بند کردیئے، مگر آپ کے متبعین کامل کے لئے جو آپ کے رنگ میں رنگیں ہوکر آپ کے اخلاق کاملہ سے نور حاصل کرتے ہیں۔ ان کے لئے یہ دروازہ بند نہیں ہوا۔'' (ریویو آف ریلیجنز، ج:٥، نمبر:٥، ص:٨٦، مئی ١٩٠٦ء بحوالہ تبدیلی عقائد از محمد اسماعیل قادیانی، ص:٢٢، مطبوعہ احمدیہ کتاب گھر قادیان) ''جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں دنیا کی اصلاح کے لئے مامور اور نبی کرکے بھیجا ہے وہ بھی شہرت پسند نہیں، بلکہ ایک عرصہ دراز تک جب تک اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا کہ وہ لوگوں سے بیعت توبہ لیں۔ آپ کو کسی سے کچھ سروکار نہ تھااور سالہا سال تک گوشہ خلوت سے باہر نہیں نکلے، یہی سنت قدیم سے انبیاء کی چلی آئی ہے۔'' (ریویو، ج:٥،نمبر:٤، ص:١٣٢) ''مخالف خواہ کوئی ہی معنی کرے، مگر ہم تو اسی پر قائم ہیں کہ خدا نبی پیدا کرسکتا ہے صدیق بناسکتا ہے اور شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کرسکتا ہے مگر چاہئے مانگنے والا....ہم نے جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) وہ صادق تھا، خدا کا برگزیدہ اور مقدس رسول تھا۔'' (تقریر محمد علی دراحمدیہ بلڈنگس مندرجہ الحکم ١٨ جولائی ١٩٠٨ء بحوالہ ماہنامہ فرقان قادیان، جنوری ١٩٤٢ء ج:١، نمبر:١، ص:١١) یہ اقتباسات تو محض بطورِ نمونہ محمد علی لاہوری قادیانی بانی جماعت لاہور کی تحریروں سے پیش کئے گئے ہیں، لیکن یہ صرف انہی کا عقیدہ نہ تھا بلکہ پوری جماعت لاہور نے اپنے ایک حلفیہ بیان میں انہی عقائد کا اقرار کیا ہے۔ لاہوری جماعت کا حلفیہ بیان: ''پیغامِ صلح''جماعت لاہور کا مشہور اخبار ہے، اس کی ١٦اکتوبر ١٩١٣ء کی اشاعت میں پوری جماعت کی طرف سے یہ حلفیہ بیان شائع ہوا: ''معلوم ہوا ہے کہ بعض احباب کو کسی نے غلط فہمی میں ڈال دیا ہے کہ اخبار ہذا کے ساتھ تعلق رکھنے والے احباب یا ان میں سے کوئی ایک سیّدنا و ہادینا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود مہدی معہود کے مدارج عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت سے اخبار پیغامِ صلح کے ساتھ تعلق ہے، خدا تعالیٰ کو جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے، حاضر و ناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ: ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی پھیلانا محض بہتان ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود مہدی معہود کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں۔'' (پیغامِ صلح ١٦اکتوبر ١٩١٣ء ص:٢، بحوالہ ماہنامہ فرقان قادیان، جنوری ١٩٤٢ئ، ج:١، نمبر١، ص:١٤١٣) اس حلفیہ بیان کے بعد لاہوری جماعت کے اصل عقائد سے ہر پردہ اٹھ جاتا ہے، لیکن جب مرزائیوںکے خلیفہ اول حکیم نورالدین کا انتقال ہوتا ہے اور خلافت کا مسئلہ اٹھتا ہے تو محمد علی لاہوری قادیانی مرزا بشیر الدین محمود قادیانی کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور انہیں خلیفہ تسلیم کرنے سے انکار کرکے قادیان سے لاہور چلے آتے ہیں اور یہاں اپنی الگ جماعت کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔ ١٤مارچ ١٩١٤ء کو مرزا بشیر الدین محمود خلیفہ دوم مقرر کئے گئے اور ٢٢مارچ ١٩١٤ء کو اس فیصلے سے اختلاف کرنے والی جماعت لاہور کا پہلا جلسہ ہوا۔ اس جلسے میں جو قرارداد منظور کی گئی وہ یہ تھی: ''صاحبزادہ قادیانی (مرزا بشیر الدین محمود) کے انتخاب کو اس حد تک ہم جائز سمجھتے ہیں کہ وہ غیر احمدیوں سے احمد کے نام پر بیعت لیں، یعنی اپنے سلسلہ احمدیہ میں ان کو داخل کرلیں، لیکن احمدیوں سے دوبارہ بیعت لینے کی ہم ضرورت نہیں سمجھتے۔ اس حیثیت میں ہم انہیں امیر تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن اس کے لئے بیعت کی ضرورت نہ ہوگی اور نہ ہی امیر اس بات کا مجاز ہوگا کہ جو حقوق واختیارات صدر انجمن احمدیہ کو حضرت مسیح موعود نے دیئے ہیں اور اس کو اپنا جانشین قرار دیا ہے، اس میں کسی قسم کی دست اندازی کرے۔'' (ضمیمہ پیغامِ صلح، ٢٤مارچ ١٩١٤ء بحوالہ فرقان قادیان، جنوری ١٩٤٢ئ، ج:١،نمبر١، ص:٧) اس قرارداد سے واضح ہے کہ لاہوری جماعت کو اس وقت نہ جماعت قادیان کے عقائد پر اعتراض تھا اور نہ وہ مرزا بشیرالدین کو خلافت کے لئے نااہل قرار دیتے تھے، جھگڑا تھا تو اس بات پر تھا کہ تمام اختیارات انجمن احمدیہ کو دیئے جائیں نہ کہ خلیفہ کو، لیکن جب مرزا بشیرالدین محمود نے اس تجویز کو منظور نہ کیا تو محمد علی لاہوری نے لکھا: ''خلافت کا سلسلہ صرف چند روزہ ہوتا ہے تو کس طرح تسلیم کرلیا جائے کہ اگر ایک شخص کی بیعت کرلی تو اب آئندہ بھی کرتے جائو۔'' (پیغامِ صلح، ٢اپریل ١٩١٤ء منقول از فرقان جنوری ١٩٤٢ئ، ج:١،نمبر١، ص:٧، حوالہ ہالا) یہ تھا قادیانی اور لاہوری جماعتوں کا اصل اختلاف جس کی بنا پر یہ دونوں پارٹیاں الگ ہوئیں، اس سیاسی اختلاف کی بنا پر جب قادیانی جماعت نے لاہوری جماعت پر عرصہ حیات تنگ کردیا تو لاہوری گروپ مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے پر مجبور ہوا، چنانچہ جب جماعت لاہور نے اپنا الگ مرکز قائم کیا تو کچھ اپنی علیحدگی کو خوبصورت بنانے کی تدبیر، کچھ قادیانی جماعت کے بغض اور کچھ مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی فکر کی وجہ سے اس جماعت نے اپنے سابقہ عقائد اور تحریروںسے رجوع اور توبہ کا اعلان کئے بغیر یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں بلکہ مسیح موعود، مہدی اور مجدد مانتے ہیں۔ قادیان اور لاہور کی جماعتوں میں کوئی فرق نہیں: لیکن اگر لاہوری جماعت کے ان عقائد کو بھی دیکھا جائے، جن کا اعلان انہوں نے ١٩١٤ء کے بعد کیا ہے، تب بھی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان کا یہ موقف محض ایک لفظی ہیر پھیر ہے اور حقیقت کے اعتبار سے ان کے اور قادیانی جماعت کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، جس طرح وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے الہام کو حجت اور واجب الاتباع مانتے ہیں، اسی طرح یہ بھی اسے حجت اور واجب الاتباع سمجھتے ہیں۔ جس طرح وہ مرزا قادیانی کی تمام کفریات کی تصدیق کرتے ہیں، اسی طرح یہ بھی اسے واجب التصدیق قرار دیتے ہیںجس طرح وہ مرزا قادیانی کی تمام کتابوں کو اپنے لئے الہامی سند اور مذہبی اتھارٹی سمجھتے ہیں اسی طرح یہ بھی انہیں مذہبی ماخذ کی حیثیت دیتے ہیں جس طرح وہ مرزا قادیانی کے مخالفین کو کافر کہتے ہیں، اسی طرح یہ بھی مرزا قادیانی کو کافر اور جھوٹا قرار دینے والوں کے کفر کے قائل ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قادیانی جماعت مرزا قادیانی کے لئے لفظ نبی استعمال کرنے کو علی الاطلاق جائز سمجھتی ہے اور لاہوری جماعت مرزا قادیانی کے لئے اس لفظ کے استعمال کو صرف لغوی یا مجازی حیثیت میں جائز قرار دیتی ہے۔ اس حقیقت کی تشریح اس طرح ہوگی کہ لاہوری جماعت جن بنیادی عقیدوں میں اپنے آپ کو قادیانی جماعت سے ممتاز قرار دیتی ہے، وہ دو عقیدے ہیں: ١:...مرزا غلام احمد قادیانی کے لئے لفظ نبی کا استعمال۔ ٢:... غیر احمدیوں کو کافر کہنا۔ لاہوری جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ مرزا قادیانی کونبی نہیں مانتی بلکہ صرف مجدد مانتی ہے اور غیر احمدیوں کو کافر کے بجائے صرف فاسق قرار دیتی ہے، اب ان دونوں باتوں کی حقیقت ملاحظہ فرمایئے: نبی نہ ماننے کی حقیقت: لاہوری جماعت اگرچہ اعلان تو یہی کرتی ہے کہ ہم مرزا قادیانی کو نبی نہیں مانتے، بلکہ ''مجدد'' مانتے ہیں، لیکن ''مجدد'' کا مطلب کیا ہے؟ بعینہ وہ جسے قادیانی جماعت ظلی اور بروزی نبی کہتی ہے، چنانچہ محمد علی لاہوری قادیانی اپنی کتاب ''النبوة فی الاسلام'' میں جو جماعت لاہور کی علیحدگی کے بہت بعد کی تصنیف ہے، لکھتے ہیں: ''انواعِ نبوت میں سے وہ نوع جو محدث کو ملتی ہے وہ چونکہ بباعث اتباع اور فنا فی الرسول کے ملتی ہے، جیسا توضیح المرام میں لکھا تھا کہ وہ نوعِ مبشرات ہے۔ اس لئے وہ تحدید ختم نبوت سے باہر ہے اور یہ حضرت مسیح موعود ہی نہیں کہتے بلکہ حدیثوں نے صاف طور پر ایک طرف محدثوں کا وعدہ دے کر اور دوسری طرف مبشرات کو باقی رکھ کر یہی اصول قرار دیا ہے، گویا نبوت تو ختم ہے، مگر ایک نوعِ نبوت باقی ہے اور وہ نوعِ مبشرات ہیں، وہ ان لوگوں کو ملتی ہے جو کامل طور پر اتباع حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتے ہیں اور فنافی الرسول کے مقام تک پہنچ جاتے ہیں۔ اب بعینہ اسی اصول کو ''چشمہ معرفت'' میں جو آپ (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) کی سب سے آخری کتاب ہے بیان کیا ہے: ''تمام نبوتیں اسی پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے، مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں، یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں، کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے، یعنی اس کا ظل ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہر ہے۔'' (دیکھو، ص:٣٢٤) اب دیکھو کہ یہاں بھی نبوت کو تو ختم ہی کہا ہے، لیکن ایک قسم کی نبوت باقی بتائی ہے اور وہ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور اسی کتاب کے ص:١٨٢، پر یہ بھی صاف لکھ دیا ہے کہ: ''وہ نبوت جس کو ظلی نبوت یا نبوتِ محمدیہ قرار دیتے ہیں، وہ وہی مبشرات والی نبوت ہے۔'' (النبوة فی الاسلام، ص:١٥٠، مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ) آگے مرزا غلام احمد قادیانی کی عبارتوں کی تشریح کرتے ہوئے اور انہیں درست قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: '' درحقیقت جو کچھ فرمایا ہے (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی نے جو کچھ کہا ہے) گو اس کے الفاظ میں تھوڑا تھوڑا تغیر ہو، مگر ماحصل سب کا ایک ہی ہے، یعنی یہ کہ اول فرمایا کہ صاحب خاتم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا، پھر فرمایا کہ صاحب خاتم ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس کی مہر سے ایک ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے، جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے، اب امتی ہونے کے معنی یہی ہیں کہ کامل اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے اور اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فناکر دیا جائے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے ایک قسم کی نبوت بھی مل سکتی ہے، وہ نبوت کیا ہے؟ اس کو آخر میں جاکر صاف حل کردیا ہے کہ وہ ایک ظلی نبوت ہے جس کے معنی ہیں فیض محمدی سے وحی پانا اور یہ بھی فرمایا کہ وہ قیامت تک باقی رہے گی۔'' (النبوة فی الاسلام، ص:١٥٣ از محمد علی لاہور قادیانی) محمد علی لاہوری قادیانی کی ان عبارتوں کو اہل قادیان اور اہل ربوہ کے ان عقائد سے ملاکر دیکھئے جو پیچھے بیان ہوچکے ہیں، کیا کہیں کوئی فرق نظر آتا ہے؟ لیکن آگے فرق ظاہر کرنے کے لئے لفظوں کا یہ کھیل بھی ملاحظہ فرمائیں: ''حضرت مسیح موعود نے اپنی پہلی اور پچھلی تحریروں میں ایک ہی اصول باندھا ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ باب نبوت تو مسدود ہے مگر ایک نوع کی نبوت مل سکتی ہے، یوں نہیں کہیں گے کہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے بلکہ یہ کہیں گے کہ نبوت کا دروازہ بند ہے، مگر ایک نوع کی نبوت باقی رہ گئی ہے اور قیامت تک رہے گی، یوں نہیں کہیں گے کہ ایک شخص اب بھی نبی ہوسکتا ہے، یوں کہیں گے کہ ایک نوع کی نبوت اب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوسکتی ہے، اس کا نام ایک جگہ مبشرات، ایک جگہ جزوی نبوت، ایک جگہ محدثیت، ایک جگہ کثرتِ مکالمہ رکھا ہے مگر نام کوئی بھی رکھا ہو، اس کا بڑا نشان یہ قرار دیا ہے کہ وہ ایک انسانِ کامل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے مل سکتی ہے، وہ فنا فی الرسول (فنا فی الرسول سے نبوت مل جاتی ہے تو شاید فنافی اللہ سے خدائی بھی مل جاتی ہوگی) سے حاصل ہوتی ہے، وہ نبوت محمدیہۖ کی مستفاض ہے، وہ چراغ نبویۖ کی روشنی ہے، وہ اصلی کوئی چیز نہیں، ظل ہے۔'' (النبوة فی الاسلام، ص:١٥٨ مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ) کیایہ لفظوں کے معمولی ہیر پھیر سے ظل و بروز کا بعینہ وہی فلسفہ نہیں ہے جو مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت کے الفاظ میں پیچھے بیان کیا جاچکا ہے؟ اگر ہے اور یقینا ہے تو حقیقت کے لحاظ سے قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت میں فرق کیا رہ گیا؟ اور یہ صرف محمد علی لاہوری قادیانی ہی کا نہیں، پوری لاہوری جماعت کا عقیدہ ہے۔ چنانچہ قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت کے درمیان جو مباحثہ راولپنڈی میں ہوا اور جسے دونوں جماعتوں نے مشترک خرچ پر شائع کیا، اس میں لاہوری جماعت کے نمائندے نے صراحتاً کہا کہ: ''حضرت (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اظلال میں ایک کامل ظل ہیں، پس ان کی بیوی اس لئے ام المومنین ہے اور یہ بھی ظلی طور پر مرتبہ ہے۔'' (مباحثہ راولپنڈی، ص:١٩٦) نیز اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ: ''حضرت مسیح موعود نبی نہیں، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ان میں منعکس ہے۔'' (مباحثہ راولپنڈی، ص:١٩٦) یہ سب وہ عقائد ہیں جنہیں لاہوری جماعت اب بھی تسلیم کرتی ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے مسئلہ میں قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت میں صرف لفظی ہیر پھیر کا اختلاف ہے۔ لاہوری جماعت اگرچہ مرزا قادیانی کا لقب مسیح موعود اور مجدد رکھتی ہے، لیکن ان الفاظ سے اس کی مراد بعینہ وہ ہے جو قادیانی جماعت ظلی، بروزی یا غیر تشریعی یا امتی نبی کے الفاظ سے مراد لیتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ لاہوری جماعت کا مسلک یہ ہے کہ: مسیح موعود، مجدد اور مہدی کا یہ مقام جسے مرزا قادیانی نے ہزارہا مرتبہ لفظ ''نبی'' سے تعبیر کیا اور جس کے لئے وہ خود ١٩١٤ء تک بلاتکلف یہی لفظ استعمال کرتے رہے، خلافت کا نزاع پیدا ہونے کے بعد اس کے لئے ''نبوت'' کا لفظ صرف لفظ مجازی یا لغوی قرار پاگیا، جسے مرزا قادیانی کی عبارتوں کی تشریح کے لئے اب بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن عام تحریروں میں اس کا استعمال مصلحتاً ترک کردیا گیا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم نے بالکل صحیح بات کہی تھی کہ: ''تحریک احمدیت دو جماعتوں میں منقسم ہے جو قادیانی اور لاہوری جماعتوں کے نام سے موسوم ہیں۔ اول الذکر جماعت بانی احمدیت کو نبی تسلیم کرتی ہے۔ آخر الذکر نے اعتقاداً یا مصلحتاً قادیانیت کی شدت کو کم کرکے پیش کرنا مناسب سمجھا۔'' (حرفِ اقبال، ص:٤٩ المنار اکادمی مطبوعہ ١٩٤٠ئ) یہاں یہ حقیقت بھی واضح کردینا مناسب ہے کہ لاہوری صاحبان نے جو تاویل کی ہے کہ مرزا قادیانی نے ہر جگہ اپنے لئے لفظ ''نبی'' مجازی یا لغوی طور پر استعمال کیا ہے حقیقی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا (اگرچہ مرزا قادیانی کی بے شمار تحریریں اس دعویٰ کی بھی تردید کرتی ہیں) اس تاویل کے لئے انہوں نے ''حقیقی نبوت'' کی ایک مخصوص اصطلاح گھڑی ہے جو شرعی اصطلاح سے بالکل الگ ہے، اس حقیقی نبی کے لئے انہوں نے بہت سی شرائط عائد کی ہیں، جن میں سے چند یہ بھی ہیں: ١:... ''حقیقی نبی صرف وہ ہوگا، جس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے ہوں، نزول جبرئیل علیہ السلام کے بغیر کوئی حقیقی نبی نہیں ہوسکتا۔'' (ملخص النبوة فی الاسلام از محمد علی لاہوری، ص:٢٨) ٢:... ''حقیقی نبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ سابقہ شریعت کو منسوخ یا اس میں ترمیم کرسکے۔'' (ملخص النبوة فی الاسلام مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ، ص:٦٠) ٣:... ''وحی نبوت عبادات میں پڑھی جاتی ہے۔'' (النبوة فی الاسلام مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ، ص:٥٦) ٤:... ''ہر حقیقی نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ کتاب لائے۔'' (ملخص النبوة فی الاسلام، مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ، ص:٥٦) حقیقی نبوت کے لئے اس طرح کی بارہ شرائط عائد کرنے کے بعد انہوں نے ثابت کیا ہے کہ چونکہ یہ شرائط مرزا قادیانی کی نبوت میں نہیں پائی جاتیں۔ اس لئے ان پر حقیقی معنی میں لفظ نبی کا اطلاق درست نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ شریعت کی معروف اصطلاح میں نبی کے لئے نہ کتاب لانا ضروری ہے، نہ یہ ضروری ہے کہ اس کی وحی عبادتوں میں ضرور پڑھی جائے، نہ یہ لازمی ہے کہ نبی اپنے سے پہلی شریعت کو ہمیشہ منسوخ ہی کردے اور نہ نبوت کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ اس میں وحی لانے والے ہمیشہ جبرئیل علیہ السلام ہی ہوں۔ لہٰذا ''حقیقی نبوت'' صرف اسی نبوت کو قرار دینا جس میں یہ ساری شرائط موجود ہوں، محض ایک ایسا حیلہ ہے جس کے ذریعے کبھی مرزا قادیانی کو نبی قرار دینا اور کبھی ان کی نبوت سے انکار کرنا آسان ہوجائے کیونکہ یہ شرائط عائد کرکے تو بہت سے انبیائے بنی اسرائیل کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ''حقیقی نبی'' نہیں تھے، کیونکہ نہ ان پر کتاب اتری نہ ان کی وحی کی تلاوت کی گئی اور نہ وہ کوئی نئی شریعت لے کر آئے لیکن وہ انبیاء تھے۔ (جاری ہے)

لاہوری جماعت کی حقیقت! گزشتہ سے پیوستہ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود تکفیر کا مسئلہ: لاہوری جماعت جس بنیاد پر اپنے آپ کو اہل قادیان سے ممتاز قرار دیتی ہے، وہ اصل میں تو نبوت ہی کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں پیچھے واضح ہوچکا کہ وہ صرف لفظی ہیر پھیر کا فرق ہے، ورنہ حقیقت کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں۔ دوسرا مسئلہ جس کے بارے میں جماعت لاہور کا دعویٰ ہے کہ وہ جماعت قادیان سے مختلف ہے، تکفیر کا مسئلہ ہے، یعنی لاہوریوں کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ غیر احمدیوں کو مسلمان قرار دیتی ہے، لیکن یہاں بھی بات اتنی سادہ نہیں، جتنی بیان کی جاتی ہے، اس مسئلہ پر امیر جماعت محمد علی لاہوری قادیانی نے ایک مستقل کتاب ''ردِ تکفیر اہل قبلہ'' کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب کو بغور پڑھنے کے بعد ان کا جو نقطۂ نظر واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود نہ ماننے والوں کی دو قسمیں ہیں: ١:... ''وہ لوگ جو مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے، مگر انہیں کافر اور کاذب بھی نہیں کہتے، ایسے لوگ ان کے نزدیک بلاشبہ کافر نہیں ہیں، بلکہ فاسق ہیں۔'' (ملخص النبوة فی الاسلام مطبوعہ لاہور ١٩٧٤ئ، ص:٢١٥) ٢:...''وہ لوگ جو مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر یا کاذب کہتے ہیں، ان کے بارے میں ان کا مسلک بھی یہی ہے کہ وہ ''کافر'' ہیں۔ چنانچہ محمد علی قادیانی لکھتے ہیں: ''گویا آپ (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) کی تکفیر کرنے والے اور وہ منکر جو آپ کو کاذب یعنی جھوٹا بھی قرار دیتے ہیں، ایک قسم میں داخل ہیں اور ان کا حکم ایک ہے اور دوسرے منکروں کا حکم الگ ہے۔'' آگے پہلی قسم کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''حضرت مسیح موعود نے اب بھی اپنے انکار یا اپنے دعویٰ کے انکار کو وجۂ کفر قرار نہیں دیا، بلکہ وجۂ کفر صرف اسی بات کو قرار دیا ہے کہ مفتری کہہ کر اس نے مجھے کافر کہا۔ اس لئے اسی حدیث کے مطابق جو کافر کہنے والے پر کفر لوٹاتی ہے۔ اس صورت میں بھی کفر لوٹا۔'' مزید لکھتے ہیں : ''چونکہ کافر کہنے والا اور کاذب کہنے والا معنی یکساں ہیں یعنی مدعی (مرزا غلام احمد قادیانی) کی دونوں تکفیر کرتے ہیں، اس لئے دونوں اس حدیث کے ماتحت خود کفر کے نیچے آجاتے ہیں۔'' (ردِ تکفیر اہل قبلہ مصنفہ محمد علی لاہوری، ص:٤٢، مطبوعہ انجمن اشاعت اسلام ١٩٢٦ئ) نیز لاہوری جماعت کے معروف مناظر اختر حسین گیلانی لکھتے ہیں: ''جو (مرزا قادیانی) کی تکذیب کرنے والے ہیں، ان کے متعلق ضرور فرمایا کہ ان پر فتویٰ کفر لوٹ کر پڑتا ہے، کیونکہ تکذیب کرنے والے حقیقتاً مفتری قرار دے کر کافر ٹھہراتے ہیں۔ '' (مباحثہ راولپنڈی، ص:٢٥١ مطبوعہ قادیان) اس سے صاف واضح ہے کہ جو لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنے دعوئوں میں کاذب (جھوٹا) قرار دیتے ہیں یا انہیں کافر کہتے ہیں۔ ان کو لاہوری جماعت بھی کافر تسلیم کرتی ہے۔ صرف تکفیر کی وجہ کا فرق ہے، جو لوگ لاہوریوں کے نزدیک کفر کے فتوے سے مستثنیٰ ہیں اور صرف فاسق ہیں وہ صرف ایسے غیر احمدی ہیں جو مرزا قادیانی کو کاذب یا کافر نہیں کہتے، اب غور فرمایئے کہ عالم اسلام میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو مرزا غلام احمد قادیانی کی تکذیب نہیں کرتے؟ ظاہر ہے کہ جتنے مسلمان مرزا قادیانی کو نبی یا مسیح موعود نہیں مانتے وہ سب ان کی تکذیب ہی کرتے ہیں، لہٰذا وہ سب لاہوری جماعت کے نزدیک بھی فتوائے کفر کے تحت آجاتے ہیں، کیونکہ مرزا قادیانی کو مسیح موعود نہ ماننا اور ان کی تکذیب کرنا عملاً ایک ہی بات ہے خود مرزا قادیانی لکھتے ہیں: ''جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے۔'' (حقیقة الوحی، ص:١٦٣، روحانی خزائن، ج:٢٢، ص:١٦٧) منیر انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں جج صاحبان نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مرزا قادیانی کو نہ ماننا اور ان کی تکذیب کرنا ایک ہی بات ہے۔ لہٰذا جو فتویٰ تکذیب کرنے والوں پر لگے گا وہ درحقیقت تمام غیر احمدیوں پر عائد ہوگا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ''نماز جنازہ کے متعلق احمدیوں نے ہمارے سامنے بالآخر یہ موقف اختیار کیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا ایک فتویٰ حال ہی میں دستیاب ہوا ہے، جس میں انہوں نے احمدیوں کو اجازت دی ہے کہ وہ ان مسلمانوں کی نماز جنازہ میں شریک ہوسکتے ہیں، جو مرزا قادیانی کے مکذب اور مکفر نہ ہوں۔ لیکن اس کے بعد بھی معاملہ وہیں کا وہیں رہتا ہے، کیونکہ اس فتویٰ کا ضروری مفہوم یہی ہے کہ اس مرحوم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی جو مرزا قادیانی کو نہ مانتا ہو، لہٰذا اس اعتبار سے یہ فتویٰ موجودہ طرزِ عمل ہی کی تائید و تصدیق کرتا ہے۔'' (رپورٹ تحقیقاتی عدالت پنجاب ١٩٥٣ئ، ص:٢١٢) اب غور فرمایئے کہ فتویٰ کفر کے اعتبار سے عملاً لاہوری اور قادیانی جماعتوں میں کیا فرق رہ گیا؟ قادیانی کہتے ہیں کہ تمام مسلمان غیر احمدی ہونے کی بنا پر کافر ہیں اور لاہوری جماعت والے کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کو کاذب کہنے کی وجہ سے کافر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی کو نہ ماننے کی وجہ سے کافر ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ فتوائے کفر کے لوٹ کر پڑنے کی وجہ سے کافر ہیں۔ اب اس اندرونی فلسفے کو وہ خود طے کریں کہ مسلمانوں کو کافر کہنے کی وجہ کیا ہے؟ لیکن عملی اعتبار سے مسلمانوں کے لئے اس کے سوا اور کیا فرق پڑا کہ: ستم سے باز آکر بھی جفا کی تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی بعض مرتبہ لاہوری جماعت کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہم مرزا قادیانی کی تکذیب کرنے والوں کو جو کافر قرار دیتے ہیں، اس سے مراد ایسا کفر نہیں جو دائرئہ اسلام سے خارج کردے بلکہ ایسا کفر ہے جو ''فسق'' کے معنی میں بھی استعمال ہوجاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ''کفر'' سے ان کی مراد فسق ہی ہے تو پھر جو غیر احمدی مرزا قادیانی کو کافر یا کاذب نہیں کہتے، ان کے لئے اس لفظ کفر کا استعمال کیوں درست نہیں؟ جبکہ وہ بھی لاہوریوں کے نزدیک ''فاسق'' ضرور ہیں۔ (دیکھئے النبوة فی الاسلام، ص:٢١٥، طبع دوم و مباحثہ راولپنڈی، ص:٢٤٧) لاہوری جماعت کی وجوہِ کفر: مذکورہ بالا تشریحات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت کے درمیان بنیادی عقائد کے اعتبار سے کوئی عملی فرق نہیں۔ فرق اگر ہے تو وہ الفاظ و اصطلاحات اور فلسفیانہ تعبیروں کا فرق ہے اور ان کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ یہ فرق لاہوری جماعت نے ضرورتاً اور مصلحتاً پیدا کیا ہے، اسی لئے ١٩١٤ء کے تنازعہ خلافت سے پہلے اس کا کوئی نشان نہیں ملتا، اب منقح طور پر ان کے کفر کی وجوہ درج ذیل ہیں: ١:... ''قرآن و حدیث، اجماع امت مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد اور ذاتی حالات کی روشنی میں یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ہرگز وہ مسیح نہیں جس کا قربِ قیامت میں وعدہ کیا گیا ہے اور ان کو مسیح موعود ماننا قرآنِ کریم، متواتر احادیث اور اجماع امت کی تکذیب ہے، لاہوری مرزائی چونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود مانتے ہیں، اس لئے کافر اور دائرہ اسلام سے اسی طرح خارج ہیں جس طرح قادیانی مرزائی۔ '' ٢:... ''مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوائے نبوت قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوچکا ہے، لہٰذا اس کو کافر کہنے کے بجائے اپنا دینی پیشوا قرار دینے والا مسلمان نہیں ہوسکتا۔'' ٣:...''پیچھے بتایا جاچکا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی سینکڑوں کفریات کے باوجود لاہوری جماعت اس بات کی قائل ہے کہ (معاذ اللہ) وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز تھااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اس منعکس ہوگئی تھی اور اس اعتبار سے اسے نبی کہنا درست ہے، یہ عقیدئہ دائرہ اسلام میں کسی طرح نہیں کھپ سکتا۔'' ٤:...''دعوائے نبوت کے علاوہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تصانیف بے شمار کفریات سے لبریز ہیں لاہوری جماعت مرزا قادیانی کی تمام تحریروں کو حجت اور واجب الاطاعت قرار دے کر ان تمام کفریات کی تصدیق کرتی ہے۔'' محمد علی لاہوری قادیانی لکھتے ہیں: ''اور مسیح موعود کی تحریروں کا انکار درحقیقت مخفی رنگ میں خود مسیح موعود کا انکار ہے۔'' (النبوة فی الاسلام، ص:١١١، طبع دوم لاہور) یہاں یہ واضح رہنا بھی ضروری ہے کہ اسلام میں ''مجدد'' کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ جب اسلام کی تعلیمات سے روگردانی عام ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ پھر سے لوگوں کو اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان مجددین کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، نہ ان کی کسی بات کو شرعی حجت سمجھا جاتا ہے، نہ وہ اپنے مجدد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ لوگوں کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ انہیں ضرور مجدد مان کر ان کے ہاتھ پر بیعت کریں، بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ لوگ انہیں مجدد کی حیثیت سے پہچان بھی جائیں، چنانچہ چودہ سو سالہ تاریخ میں مجددین کے ناموں میں بھی اختلاف رہا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص انہیں مجدد تسلیم نہ کرے تو شرعاً وہ گناہگار بھی نہیں ہوتا، نہ وہ اپنے تجدیدی کارنامے الہام کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں اور نہ ان کے الہام کی تصدیق شرعاً واجب ہوتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس لاہوری جماعت مرزا قادیانی کے لئے ان تمام باتوں کی قائل ہے، لہٰذا اس کا یہ دعویٰ کہ: ''ہم مرزا قادیانی کو صرف مجدد مانتے ہیں'' مغالطے کے سوا کچھ نہیں۔٭٭

دنیا کی محبت کا مرض حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ہمارے اندر مختلف امراض باطنی پائے جاتے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق تمام امراض کی جڑ صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے دنیا کی محبت۔ دنیا کی محبت ایک بنیادی مرض ہے، لہٰذا اس کا علاج سب سے پہلے کرلینا چاہئے اور علاج کے دو طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہر ہر بیماری کا علاج الگ الگ ہونا چاہئے۔ لیکن اس علاج میں وقت بہت زیادہ خرچ ہوتا ہے اور دقتیں بھی پیش آتی ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تمام بیماریوں کی جڑ تلاش کی جائے کہ وہ کیا چیز ہے، جس کی وجہ سے بیماریاں لاحق ہوگئیں، جب اصل جڑکا علاج کیا جائے گا تو تمام بیماریاں خودبخود دور ہوجائیں گی اور یہی ایک کلی علاج ہے، لہٰذا دنیا کی محبت کا علاج پہلے کرلینا چاہئے۔ فرمایا: دنیا کی محبت تمام امراض کی جڑ اس لئے ہے کہ جس آدمی میں دنیا کی محبت رچ گئی ہو، اس سے آخرت کی تیاری کا اہتمام ہی نہیں ہوتا اور نہ معاصی سے بچتا ہے اور نہ نیک اعمال کو کوئی حیثیت دیتا ہے، تکبر، حسد، بغض، شہرت اور ریاکاری وغیرہ اسی دنیا کے لئے کئے جاتے ہیں۔ فرمایا: ایمان کے مراتب مختلف ہیں، ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی طبیب نے مریض کو نسخہ لکھ دیا اور استعمال کا طریقہ بھی بتادیا، مگر مریض نے پورا نسخہ استعمال نہیں کیا بلکہ آدھا نسخہ استعمال کیا، جس کی وجہ سے مریض کو آدھا نفع ہوا، اگر پورا نسخہ استعمال کرتا تو پورا نفع حاصل ہوتا، اسی طرح آخرت پر ایمان لانا دو طرح کا ہے، ایک ہے ناقص تصدیق، صرف آخرت پر تصدیق کرلی جائے اس کے لئے کوئی اہتمام نہ کیا جائے، اس تصدیق میں جہنم کے دائمی عذاب سے نجات ممکن تو ہے مگر مکمل نجات نہیں مل سکتی، اس تصدیق کے ساتھ معاصی جمع ہوسکتے ہیں، دوسرا درجہ کامل تصدیق کا ہے، اس درجہ میں معاصی جمع نہیں ہوسکتے، جس مسلمان کو یہ درجہ حاصل ہوجائے اس سے معاصی سرزد نہیں ہوں گے۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا سمجھنے کے مراتب مختلف ہیں، کامل سچا سمجھنے والا وہ ہے جس پر اثر کامل مرتب ہو کہ تمام گناہ چھوٹ جائیں اور دوسرا درجہ ناقص تصدیق کا ہے کہ کچھ معاصی چھوٹ جائیں اور کچھ باقی رہیں۔ (الاطمینان بالدنیا) مولانا محمد عرفان، کراچی

اسلامی اخوت اور شیطانی تدابیر از مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد امت مسلمہ کے حق میں سب سے بڑی نعمت اتفاق و اتحاد ہے، اور سب سے بڑا عذاب ان کا باہمی انتشار وافتراق ہے، قرآن کریم، مسلمانوں کو گروہ بندیوں کا حکم نہیں دیتا، بلکہ انہیں حکم دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور انہیں حق تعالیٰ کا یہ انعام یاد دلاتا ہے کہ دیکھو! تم اسلام سے پہلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، اللہ نے تم پر احسان فرمایا کہ تمہارے دلوں کو جوڑ دیا(آل عمران:١٠٣)۔ اور مسلمانوںکو یہ بھی فہمائش کرتا ہے کہ رسول کی اطاعت کو لازم پکڑو، اور اختلاف پیدانہ کرو، ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، تمہارا رعب و دبدبہ جاتا رہے گا اور تم دشمنوں کی نظر میں ذلیل و خوار اور بے قیمت ہوجائو گے۔(الانفال: ٤٦) قرآن کریم مسلمانوں کے اختلاف مٹانے کی تدبیر بھی بتاتا ہے اور اس کے لئے یہ کلیہ تجویز کرتا ہے کہ اگر تمہارے درمیان کسی مسئلہ میں نظریاتی اختلاف پیدا ہو جائے تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرکے سب اس کے فیصلے پر راضی ہوجائو(الشوریٰ:١٠) اور اپنے تنازعہ کو نمٹانے کے لئے اسے خدا ورسول کی عدالت میں پیش کرو(النسا ٔ: ٥٩) پھر خدا تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق جو فیصلہ بھی سامنے آئے اس پر سر تسلیم خم کردو۔(النسا ٔ:٦٥) دو مسلمانوں کے درمیان اگر ذاتی اور نجی امور میں باہمی رنجش پیدا ہوجائے تو قرآن کریم اسلامی برادری کو حکم دیتا ہے کہ عدل و تقویٰ کے تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک ملحوظ رکھتے ہوئے دو روٹھے ہوئے بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرادو۔ (الحجرات:١٠) اور اگر خدانخواستہ یہ رنجش گروہی جنگ کی شکل اختیار کرلے،اور اہل ایمان کی دو پارٹیاں آپس میں آمادئہ پیکار ہوجائیں تو قرآن کریم اسلامی معاشرہ پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ وہ رنگ ونسل، قوم و وطن، قبیلہ و برادری کے تمام تعلقات سے بالاتر ہوکر یہ دیکھے کہ ان دونوں میں سے حق پر کون ہے؟ اور زیادتی کس کی طرف سے ہو رہی ہے، پس جو فریق زیادتی پر اترآئے اس سے پورے معاشرے کو نمٹنا چاہئے، اور جب تک وہ اپنی زیادتی کو چھوڑ کر حکم الٰہی کے آگے جھکنے پر آمادہ نہ ہو اس سے مسلمانوں کی صلح نہیں ہونی چاہئے۔ (الحجرات: ٩) قرآن کریم نے ان اسباب و ذرائع کی بھی نشاندہی کی ہے جن کے ذریعہ شیطان مسلمانوں کو آپس میں لڑاتا ہے، اور جوان کے انتشار و افتراق کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں، ان میں سب سے پہلی چیز اسلامی اخوت کے رشتہ کا کمزور پڑجانا اور مسلمانوں کا خداو رسول کی اطاعت سے روگردانی کرنا ہے۔ جب اسلام کی عظمت و تقدس کا لحاظ نہ رہے تو ظاہر ہے کہ اسلامی اخوت و اسلامی اتحاد کا احترام بھی اٹھ جاتا ہے ، اس صورت میں مسلمان آپس میں دست و گریبان ہونے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کریں گے۔ دوسری چیز جو اسلامی اخوت کی روح کو کچل دیتی ہے وہ ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے بدگمانی ہے، اسی لئے قرآن کریم نے بدگمانی سے احتراز کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور مسلمانوں کو بتایا ہے کہ جس بدگمانی کا صحیح منشا ٔ موجود نہ ہو وہ گناہ ہے، حدیث پاک میں آنحضرت ۖ کا ارشاد ہے کہ ''بدگمانی سے احتراز کیا کرو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔'' تیسری بات جو بدگمانی سے جنم لیتی ہے وہ غیبت اور بہتان ہے۔ جب ایک شخص کو دوسرے شخص سے سو ٔ ظن ہوجاتا ہے تو اظہار نفرت کے لئے اس کی برائیوں کی داستان بڑے مزے لے کر بیان کرتا ہے، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی پس پشت برائی کرنا غیبت کہلاتا ہے ۔ اور یہ قرآن کریم کی نظرمیں مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے، غیبت ایسا خبیث گناہ ہے کہ بڑے بڑے پرہیزگار لوگ اس میں نہ صرف مبتلا ہوجاتے ہیں بلکہ اس کو اچھی چیز سمجھنے لگتے ہیں، کیونکہ دوسرے کی برائیاں بیان کرنے میں نفس کو لذت ملتی ہے، اور وہ ایسے زہر کو میٹھی گولی سمجھ کر شوق سے کھاتا ہے اسی بنا پر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ''غیبت زنا سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔''عرض کیا گیا یا رسول اللہ! یہ زنا سے سنگین جرم کیوں ہے؟ فرمایا: بدکار بدکاری کرتاہے تو اسے برا سمجھ کر کرتا ہے اور کرنے کے بعداس پر پشیمان ہوتا ہے، اس سے توبہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہے، مگر غیبت کرنے والے کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کوئی گناہ کررہا ہے۔ اس لئے اس کبیرہ گناہ سے توبہ کرنے کی بھی اسے توفیق نہیں ہوتی۔'' چوتھی چیز غلط خبروں کی اشاعت ہے جب آدمی کو کسی سے نفرت ہوجائے تو بسا اوقات وہ صرف غیبت ہی پر اکتفا نہیں کرتاہے بلکہ افسانہ طرازی بھی شروع کردیتاہے اور محض اپنے قیاس اور اندازے کو تخیلات میں ڈھال کر واقعہ بنا لیتا ہے۔ اور کبھی اصل بات کچھ اور ہوتی ہے مگر اس میں رنگ آمیزی اور حاشیہ آرائی کرکے اسے کچھ کا کچھ بنالیا جاتا ہے۔ یہ حرکت بہت سے کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔ جھوٹ، بہتان، غیبت، کسی مسلمان کی دل آزاری و رسوائی جیسے سب گناہ اس میں سمٹ آتے ہیں اس لئے قرآن کریم نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ جب انہیں کسی مسلمان کے بارے میں کوئی خبر ملے تو اس پر بغیر تحقیق کے نہ تو یقین کیا کریں، اور نہ اس پر اپنے کسی ردعمل کا اظہار کریں، قرآن کریم ایسی خبریں اڑانے والوں کو ''فاسق'' کہہ کر انہیں ناقابل اعتبار قرار دیتا ہے۔ پھر جب ایسی خبریں عام طور پر ایک دوسرے کے خلاف شائع ہونے لگتی ہیں تو طرفین میں عداوت کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی جو قوت کفر کے مقابلہ میں خرچ کرنی چاہئے تھی وہ آپس کی گناچنی میں صرف ہونے لگتی ہے، ہر فریق دوسرے فریق کو نیچا دکھانے کے لئے اپنی ساری صلاحیتیں خرچ کردیتا ہے اس طرح مسلمانوں کی قوت، ان کا وقت، ان کا مال، انکی دماغی وجسمانی صلاحیتیں آپس کی سر پھٹول کی نذر ہونے لگتی ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور انہیں مسلمانوں سے مقابلہ و مقاومت کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہ جاتا۔ یہ ہے وہ سب سے بڑا عذاب جس سے اسلامی معاشرہ دوچار ہے۔ شیطان نے مسلمانوں کو لڑانے کے لئے جو بے شمار ذرائع ایجاد کئے ہیں ان میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں۔ جن کی قباحت کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں جاتی، وہ اس کے لئے کبھی مذہبی میدان ہموار کرتاہے اور چند سرپھروں کو نئے نئے شوشے چھوڑنے پر اکساتا ہے، کبھی اس کے لئے سیاسی میدان تیار کرتا ہے۔ اور مسلمانوں کو مختلف ٹکڑیوں میں بانٹ کر سیاسی دنگل میں اتار دیتا ہے۔ کبھی قوم و وطن اور قبیلہ و برادری کا بت تراش کر چند سامریوں کو اس کا سرپرست بنادیتا ہے ، اور وہ اسلامی اخوت کے تمام رشتے کاٹ پھینکتے ہیں، کبھی طبقاتی کشمکش برپا کرکے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خون سے عداوت و دشمنی کی پیاس بجھانے کی تدبیر سجھاتا ہے۔ اور یہ ساری چیزیں اسلامی معاشرے کو جہنم کانمونہ بنا دیتی ہیں، بد قسمتی سے آج ہمارے گردوپیش یہی شیطانی الائو روشن ہیں اور مسلمان اس کا ایندھن بنتے جارہے ہیں۔ حق تعالیٰ شانہ اہل اسلام کو اسلامی اخوت کے رشتہ میں منسلک رہنے کی تو فیق عطا فرمائے، اور تمام شیطانی تدابیر سے انہیں محفوظ رکھے۔٭٭