Dil Ki Duniya.  دل کی دنیا
Dil Ki Duniya. دل کی دنیا
February 22, 2025 at 04:26 AM
سنو سنو !! ہمارا کل ہمارا آج (ناصرالدین مظاہری) یہ عجیب اتفاق ہے کہ دارالعلوم دیوبند بالکل ابتدائی دنوں میں کئی سال تک بغیر نام کے چلتا رہا بس زیادہ سے زیادہ مدرسہ عربی کہا اور لکھا گیا عربی داں حضرات سے پوچھ لیں مدرسہ عربی یہ نام نکرہ میں شمار ہوتا ہے دارالعلوم دیوبند کی ابتدائی رودادیں بھی اسی مدرسہ عربی کے نام سے شائع ہوتی رہیں بالکل اسی طرح مظاہرعلوم سہارنپور بھی چھ سال تک بغیر نام کے چلتا رہا بلکہ یہاں تو ایک قدم آگے معاملہ رہا کہ اس کے پاس اپنی زمین بھی نہیں تھی کسی مسجد میں، کرائے کےکسی مکان میں ،خود بانیئ محترم کے مکان میں طلبہ آ آ کر پڑھتے رہے ، چھ سال تک ایسا ہی ہوا ، گمنامی اور بے وجودی کے باوجود اسی عہد میں مظاہرعلوم کو حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری اور حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی جیسے کامل و ماہر حدیث اساتذہ ملے۔ یہ بھی اتفاق ہی کی بات ہے کہ ابتدائی پانچ چھ سال تک نہ دیوبند میں مدرسہ نے کوئی عمارت بنائی نہ سہارنپور میں عمارت کا خیال پیدا ہوا۔اور بھی سنئے مظاہرعلوم بھی عربی مدرسہ کے نام سے چھ سال تک موسوم رہا ، اتفاق پر اتفاق دارالعلوم کے محرک اول اور بانی حضرت حاجی عابد حسین دیوبندی بحیثیت بانی تقریبا آج بھی گم نام ہیں یہاں مظاہرعلوم میں بھی اصل بانی اور محرک اور حضرت مولانا سعادت علی بھی آج تک تقریبا گمنام ہیں ، حضرت حاجی عابد حسین کے خاندان کی تفصیلات توکم ازکم مل جاتی ہیں یہاں مولانا سعادت علی کی گمنامی کا یہ عالم ہے کہ خاندان کاہی پتہ نہیں چل پاتا ، کون تھے ، کہاں کے تھے، والد کانام کیا تھا ، شجرہ نسب کہاں سے کہاں تک ملتا ہے ، اولاد کون ہے کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔اور دیکھئے مظاہرعلوم کا نام چھ سال بعد مظاہرعلوم تجویز کیا گیا ، دونوں ادارے ہم عمر ہیں چھ ماہ بعد مظاہرعلوم وجود میں آیا اس سے پہلے اگرچہ تعلیمی سلسلہ بانی مرحوم کے دولت کدے ہر جاری رہا۔ اور ہاں دارالعلوم کی سب سے پہلی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو دارالعلوم والوں نے مظاعلوم کے استاذ حدیث حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری سے نودرہ کا پہلا سنگ بنیاد رکھوایا اور یہاں مظاہرعلوم کی پہلی عمارت مدرسہ قدیم یعنی دفتر والی بلڈنگ جب تیار ہوگئی تو افتتاحی تقریر کے لئے دارالعلوم دیوبند سے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو بلایا ، حضرت نے تین گھنٹہ تقریر کی ۔ اس تفصیل کی ضرورت اس لئے پڑی کہ برصغیر کے اولین بڑے اداروں نے کس قدر خموشی اور سادگی کے ساتھ کام کی شروعات کی اور آج ہمارا حال یہ ہے کہ اگر کہیں کسی جگہ پر مدرسہ یا تعلیمی گہوارہ بنانا ہے تو پہلے دن سے ہی اس کا نام جامعہ کے ساتھ مشہور موسوم کردیا جاتا ہے ، بھلے ہی مدرسہ چھپر میں ہو ، جھونپڑی میں ہو، ایک دو کمروں پر مشتمل ہو ، تعلیم بھلے ہی ناظرہ تک ہو زیادہ ترقی کرلی تو حفظ کے چند بچے رکھ لئے اور یہ" جامعہ " ہوگیا۔ اس "جامعہ "نے عجم کو عرب میں بڑا رسوا کیا ہے ، وہ ہماری نادانی وکم علمی پر مسکراتے ہیں کہ واہ دو ایک کمروں میں انڈیا والے جامعہ چلالیتے ہیں۔ جامعہ کا مطلب ہوتا ہے یونیورسٹی ، یونیورسٹی میں تمام زبانیں، تمام علوم اور فنون کی تعلیم ہوتی ہے۔ نام بھی ایسے کہ عرب سنیں تو دنگ رہ جائیں ، یورپ والے سنیں تو اس تعلیمی ترقی کو دیکھنے کےلئے رخت سفر باندھنے پر مجبور ہوجائیں۔اور یہاں پہنچ کر کارڈ لے کر پتہ کرتے پھریں کہ بھیا یہ جامعہ کہاں ہے؟ کل ہی ایک مدرسہ کا معائینہ کرنے پہنچا نہ آدم نہ آدم زاد، ایک بوسیدہ سا ٹین شیڈ ،ویرانی ہی ویرانی ، صحن میں گھاس پھونس ، محلہ والوں سے پتہ چلا کہ سال دو سال سے تعلیم ہی نہیں ہوئی ہے کوئی استاذ ہے نہ طالب علم۔پھر بھی بورڈ پر "جامعہ "اور پہنچ گئے ہیں مظاہرعلوم وقف سہارنپور تصدیق لینے کے لئے۔ خدا کے واسطے امت کو زوال کی طرف لے جانے میں حصہ داری سے بچیں۔یہ امت غیروں سے تو پریشان ہے ہی اپنوں نے روز ہی اس قدر خم اور زخم پہنچارکھے ہیں کہ خطرہ غیروں سے کم اپنوں سے زیادہ ہوچکاہے۔ شاندار لیٹر پیڈ، بہترین تعارفی کتابچہ، خوبصورت البم ،دنیا بھر کی تصدیقات اور زمین پر مدرسہ کے نام سے ایک مکتب۔ یہ سچ کہہ رہاہوں ، سنی ہوئی نہیں دیکھی کہہ رہاہوں ، جگ بیتی نہیں آپ بیتی لکھ رہاہوں، دور کی نہیں قریب کی بتارہاہوں۔ جب گمنامی اور خمول پسندی ہمارا مزاج تھا تو ہمارے اداروں کی جڑیں مضبوط تھیں جب شہرت پسندی اور بینر شینر ، فوٹو گرافی، ویڈیو سازی ، شائع ہونے کا جنون سوار ہوا تو ہماری حیثیت ختم ہوگئی۔ اب تو مدرسوں کی پوری بلڈنگ بن جاتی ہے اور تعلیم شروع بھی نہیں ہوتی ہے پہلے بتدریج کام ہوتا تھا اور اب تدریج کو گندے انڈے کی طرح دور پھینک دیا گیا ہے۔ اس کا انجام ہم دیکھ رہے ہیں روزہی خبریں آتی ہیں کہ فلاں مدرسہ بند ہوگیا ، فلاں مدرسہ نے دینی تعلیم ختم کرکے عصری تعلیم شروع کردی، چند دن پہلے تو بڑی ہی افسوسناک خبر سہارنپور ہی کے ایک گاؤں کی سننے کو ملی کہ کسی کم ظرف نے مدرسہ کی پوری عمارت کسی غیر مسلم کو فروخت کردی اور خود بھاگ گیا۔اس مدرسہ کی اپنی مسجد بھی اسی خریدوفروخت میں شامل ہے۔توبہ توبہ۔ دارالعلوم دیوبند ، مظاہرعلوم سہارنپور ، ندوۃ العلماء لکھنؤ ، کل ہند رابطہ مدارس ، وفاق المدارس ، دینی مدارس بورڈ ان اداروں کو کوئی سخت نظام فراڈی مکاتب ومدارس کے خلاف اٹھانا چاہئے۔ ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے مہر مکتوب عزیزان گرامی لکھیے https://whatsapp.com/channel/0029VaEIR9iAzNbty0EHGp0h

Comments