دلچسپ و عجیب تاریخ
دلچسپ و عجیب تاریخ
February 17, 2025 at 08:52 AM
"آپکو اولاد چاہیے کیوں ہے؟" وہ جو خلا میں گھور رہی تھیں، میرے بولنے پر چونکیں۔ "کس کو نہیں چاہیے؟" "جی چاہیے تو سب کو ہے مگر آپکو کیوں چاہیے۔ اتنی بڑی جاگیر ہے، کوٹھی ہے، ٹھاٹ باٹھ ہے۔ پھر آپکو یہ ایک نعمت اور بھی چاہیے؟" "باقی نعمتوں کو بچانے کے لیے یہ ایک نعمت مانگ رہی ہوں۔ اگر اولاد نہیں ہوئی تو یہ کوٹھی، یہ جاگیر، سب کچھ خاندان میں بٹ جائے گا۔ یہ جس باغ میں تم بیٹھی ہو، یہ ہمارا ہی ہے۔ اگر یہ کسی اور کا ہوگیا تو میں ادھر کیسے آؤں گی۔ یہاں کی خوبصورتی پھر کبھی نہیں دیکھ پاؤں گی۔ راجہ کا تخت بھی کسی اور کا ہو جائے گا۔ ہم اپنے ہی گھر سے بےگھر کر دیے جائیں گے۔ اور بڑھاپے میں در در کی ٹھوکریں ہماری قسمت ٹھہریں گی۔ کوئی سمبھالنے والا نہیں ہوگا!" "آپکو نہیں لگتا کہ سمبھالنے والی ذات صرف اللہ‎ پاک کی ہے؟" اس سوال پر وہ اچانک خاموش ہوگئیں۔ "مگر رب نے دنیا میں وسیلے بھی تو بنائے ہیں۔ اولاد وہی وسیلہ نہیں تمھارے خیال میں؟" کچھ دیر بعد وہ بولی تھیں۔ "آپکو اتنا یقین کیوں ہے کہ اگر آپکی اولاد ہوئی تو وہ فرمابردار ہی ہوگی۔ وہ تخت کے نشے میں کچھ غلط کر کے آپکو گڑھ میں ذلیل نہیں کروائے گی۔ وہ آپکو بوڑھا اور بوجھ تصور کر کہ اپنے گھر سے نہیں نکالے گی؟" کافی دیر تک ایک لمبی چپ انہیں گھیرے رہی۔ "ہمارے آباء میں آج تک کسی نے تخت کے نشے میں کچھ غلط نہیں کیا۔" وہ بہت یقین سے بولی تھیں۔ "مگر! بہت ساری چیزیں زندگی میں پہلی بار ہی ہوا کرتی ہیں۔" ایک ثانیے کو انکا چہرہ زرد پڑ گیا۔ "تو تمہارا مطلب ہے میں اپنے لیے آزمائش مانگ رہی ہوں؟ اور مجھے اولاد کی طلب ختم کر دینی چاہیے؟" میں نے نفی میں سر ہلایا۔ "میرا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے۔ آپ بس اپنی نیت ٹھیک کرلیں تو اولاد آپ کے لیے آزمائش نہیں رحمت ہو جائے گی۔" "وہ کیسے!" "ایک اور نبی کی بات بتاؤں آپکو؟" میں نے پوچھا تو وہ ہلکا سا مسکرا دیں۔ "ہاں بتاؤ!" "زکریا ؑ نام تھا انکا۔ وہ کافی بوڑھے ہو چکے تھے اور انکی اولاد نہیں تھی۔ تو انہوں نے اللہ‎ سے دعا کی۔ اب آپ انکی دعا کے طریقے پر غور کرنا۔" وہ محو ہو کر سن رہی تھیں۔ "سب سے پہلے اپنی حالت اللہ‎ کو بتائی۔ اللہ‎ پاک میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور میں بہت بوڑھا ہو گیا ہوں۔ میں نے آپکو بھی کہا تھا نا کہ اپنی حالت اللہ‎ کو بتایا کریں، اللہ‎ کو اچھا لگتا ہے بندے کی گریہ وزاری سننا۔ اللہ‎ کو تو پتا تھا انکا بندہ کتنا بوڑھا ہے، پھر بھی نبی نے بتایا۔ تو حالت بتانے کے بعد حضرت زکریا ؑ بولے اے میرے رب میں آپکو پکار کے کبھی محروم نہیں رہا۔ کتنا اچھا لگا ہوگا اللہ‎ کو، کہ میرا بندہ مانتا تو ہے کہ جب بھی اسنے کچھ مانگا، میں نے اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ پھر جب کوئی بندہ اللہ‎ کا احسان مان لے تو اللہ‎ دوبارہ اسے خالی ہاتھ لوٹائیں گے؟ مگر پتا ہے بات دعا کی نیت کی بھی ہوتی ہے۔ آپکو اولاد چاہیے اپنی جاگیر اور بڑھاپے کے لیے۔ حضرت زکریا ؑ کو اولاد پتا ہے کیوں چاہیے تھی؟" اس نے معصومیت سے سر نفی میں ہلا دیا۔ "انہیں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں کا ڈر تھا۔" وہ ذرا چونکیں۔ "نہیں آپ غلط سمجھی ہیں۔ انہیں یہ ڈر تھا کہ انکی وفات کے بعد انکے رشتہ دار، جن میں شریر لوگ بھی تھے، دین میں کوئی تبدیلی نہ کر دیں کیوں کہ اس وقت اور کوئی نبی نہیں تھا۔ انہوں نے اولاد اللہ‎ کا دین بچانے کی خاطر مانگی تھی۔ کوئی تخت بچانے یا اپنی ناموری یا بڑھاپے کے سہارے کے لیے نہیں۔ سہارا تو بس ایک ہے۔ اللہ‎۔۔۔ جو بچپن اور جوانی میں سمبھال سکتا ہے، اسکے لیے بڑھاپے میں سمبھالنا مشکل نہیں ہے۔ اور انہوں نے دعا میں یہ بھی کہا کہ مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرمائیں، اور اسے پسندیدہ بنا دیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ جب دعا ایسے کر لی جائے تو وہ اولاد آزمائش نہیں رحمت بنا کر دی جاتی ہوگی۔ تو اللہ‎ پاک نے انکا خلوص، نیت اور طریقہ دیکھا ہوگا شائد اور پھر جو اولاد دی اسکے بارے میں پتا ہے کیا فرمایا؟" جوش سے میرے گال سرخ پڑ گۓ تھے۔ "فرمایا، اے زکریا ؑ ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جسکا نام یحییٰ ہے، اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ اللہ‎ پاک نے انکی اولاد کا نام بھی خود رکھا۔ آپ سوچ بھی سکتی ہیں یہ کتنا بڑا اعزاز ہے؟ اور پھر اتنے خوبصورت اوصاف حضرت یحییٰ ؑ کے اللہ‎ پاک نے بیان کیے قرآن میں اور پھر ان پر سلامتی بھیجی۔" انکی آنکھوں میں نمی کی وجہ سے سورج کی روشنی منعکس ہورہی تھی۔ ایک واضح روشنی۔ جو گمراہی کی دھند کے چھٹنے کی گواہ ہوتی ہے۔ "آپ بھی پسندیدہ اولاد مانگیں، نبی کا طریقہ اپنائیں، آپکے بڑھاپے کو اللہ‎ کافی ہے، آپ بس اللہ‎ کا دین پھیلانے کے لیے اولاد مانگیں۔ جو رب حضرت زکریا ؑ کا ہے وہی آپکا ہے، وہ انکو دے سکتا ہے تو آپکو بھی دے دے گا۔ یہ اللہ‎ پر بہت آسان ہے۔" اس نے ہولے سے سر ہلایا تو آنکھوں میں بھرا پانی گالوں پر لڑھک گیا، مگر اب کی بار یہ مایوسی کے آنسو نہیں تھے، ان میں امید تھی۔ صبا ایشل
❤️ 10

Comments