
Ōsťòd ÀĶ
February 1, 2025 at 04:21 PM
*شہداء قلات کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں*
جنوبی وزیرستان میں 16 فوجی شہید ہوئے ۔ کچھ دنوں بعد ہم نے افغانستان میں بمباری کر دی۔ عین اس وقت جب ہمارے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان ایک وفد کے ساتھ کابل میں موجود تھے۔ طالبان کے خلاف ہمارے میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ گزشتہ رات بلوچستان کے ضلع قلات میں ایک ہی حملے میں 18 فوجی شہید ہوئے ہیں۔ مگر آپ کو پاکستانی میڈیا یا حکام کی زبانوں پر ایران کا نام سننے کو نہیں ملے گا۔ حالانکہ جس طرح ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتی ہے اسی طرح بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد ایرانی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔ یہ میں ایران پر الزام تراشی نہیں کر رہا بلکہ یہ پاکستان کا سرکاری موقف ہے۔ پاکستان نے گزشتہ سال ایران کے اندر اس لئے بمباری کی تھی کہ پہلے ایران نے پاکستان کے اندر جیش العدل کے مبینہ ٹھکانوں پر بمباری کی تھی۔ ایران کے حملے میں ہمارا کوئی فوجی شہید نہیں ہوا تھا۔ آج بی ایل اے آزاد گروپ نے ایک حملے میں 18 فوجی شہید کئے تو کیا کوئی جوابی کارروائی دوسرے ملک میں ہوگی؟ میری نظر میں نہیں ہونی چاہئے۔ افغانستان میں بھی نہیں ہونی چاہئے تھی۔ نہ ہی ایران میں ہونی چاہیے ۔ تاہم یہ تقابلی جائزہ اس لئے پیش کیا ہے کہ پاکستان کی سرکاری پالیسیوں میں تضاد واضح کروں۔ اس کے باوجود کہ ایران کی سرزمین دہشت گرد پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں پاکستان ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لا رہا ہے اور ہر چیز کو صرف ایک ایشو کے ساتھ نتھی نہیں کر رکھا۔ جبکہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو ٹی ٹی پی کے ایشو کے ساتھ نتھی کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بھارت کو پھر افغانستان میں واپسی کا راستہ مل رہا ہے۔ 2021 میں افغانستان سے بھارتی انٹیلیجنس نیٹ ورک کا صفایا ہو گیا تھا۔ ہم طالبان کے ساتھ مسلسل دشمنی کی فضا پیدا کر کے انہیں بھارت کے قریب دھکیل رہے ہیں۔ ساری دنیا طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں مصروف ہے اور ہم ان کو دشمن کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ ستم ظریفی کیا ہوگی کہ 20 سال تک طالبان کی قیادت کو پناہ دے کر، ان پر سرمایہ کاری کر کے جب پھل کھانے کا وقت آیا تو ہم بھارت کو راستہ دے رہے ہیں اور اپنا رستہ محدود کر رہے ہیں۔
یہ فیصلہ جس مائی کے لعل نے یا لعلوں نے کیا تھا کہ پاکستان کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان صادق خان کی کابل میں موجودگی کے دوران افغانستان کے اندر فضائی حملے کئے جائیں ان لعلوں کو 31 توپوں کی سلامی۔ اگر ایسے دماغوں نے ملک اور اس کی سلامتی کی دیکھ بھال کرنی ہے تو پھر پاکستان کا خدا ہی حافظ۔
بدقسمتی سے بے سمت پالیسیوں کا خمیازہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے جوانوں اور افسروں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بلوچستان میں کل جو 18 فوجی شہید ہوئے، مجموعی طور پر جنوری میں فورسز کے پچاس سے زیادہ افراد شہید ہوئے وہ اپنا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کریں؟ فیلڈ میں موجود جوانوں اور افسروں کا کام ہے لڑنا اور وہ لڑ رہے ہیں۔ لیکن جن کا کام دہشت گردی کے خاتمے کی پالیسیاں بنانا ہے وہ کیا کر رہے ہیں؟
نیکٹا نے کل دوبارہ اعلان کیا ہے کہ متشدد انتہا پسندی کے خاتمے کی قومی پالیسی حکومت نے منظور کر لی ہے۔ اسی نیکٹا نے 2018 میں بھی اسی طرح کی پالیسی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ سب کاغذی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ وفاقی حکومت جوانوں کی ہر شہادت کے بعد اعلان کر دیتی ہے کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ جوانوں کا خون کسی کے سرٹیفیکیٹ کا محتاج نہیں۔ انہوں نے یقینا جنت میں جانا ہے۔ حکومت اپنی ذمہ داری بتائے کہ وہ کیا کر رہی ہے؟
بلوچستان میں ہمارے جوانوں کی شہادتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ کیا کسی کے دل میں درد کی لہر اٹھی کہ کم از کم بلوچستان میں ہی میرٹ کو لاگو کر دیں۔ سسٹم میں موجود سمگلروں کا آلہ کاروں کو ختم کر دیں؟ ہمارے جوان اپنی جانیں نہ صرف اس ملک کی بقا کے لئے دے رہے ہیں بلکہ انہی کی قربانیوں کا مرہون منت یہ حکومتی ڈھانچہ بھی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کسی کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور ہم ایک جامع پالیسی کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کی طرف کیوں نہیں بڑھتے؟
👍
❤️
4