TEAM KAPTAN OFFICIAL
TEAM KAPTAN OFFICIAL
February 20, 2025 at 06:31 PM
عاصم منیر کے دورہ برطانیہ اور پچھلے سال دورہ امریکہ میں کافی فرق ہے۔ امریکی دورے کی کوئی پروٹوکول والی تصویر نہیں جاری ہوئی صرف ایک عام سی تصویر تھی مائیک کوریلا کے ساتھ ،جبکہ برطانیہ کے دورے کی تصاویر باقاعدہ پروٹوکول والی ہیں۔جو صاف ظاہر کرتی ہیں کہ یہ ایک باقاعدہ سفارتی اشارہ ہے۔ اور ہمیں اسی اشارے کو ڈی کوڈ کرکے اس کا پیغام سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔ ایک اور بات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ رجیم چینج کے کچھ ہی بعد امریکہ اس کو ناکام پروجیکٹ سمجھ کر الگ ہونا چاہتا تھا وہ پی ٹی آئی سے تعلقات درست کرکے سیاسی حالات نارمل کرنا چاہتا تھا اور آئی ایم ایف کا مسلسل مطالبہ بھی یہی رہا۔ لیکن یہ دراصل برطانیہ تھا جو انڈیا کے مطالبے پہ رجیم چینج کا سفارشی رہا۔ آئی ایم ایف کو قرضوں پہ آمادہ کرنے ،انتخابی دھاندلی پہ نتائج کو تسلیم کرنے کے امریکی تردد کو دور کرنے، امارات کے ساتھ مل کر حکومت بنوانے اور اسلام آباد قتل عام پہ غیر ملکی سفیروں کے سامنے اس کا اثر زائل کرنے تک برطانوی خاموشی سے اس رجیم کی پشت پناہی کرتے آئے اور وجہ بھارتی مطالبہ تھا کیونکہ انڈیا رجیم کو اپنے فائدے میں تصور کرتا تھا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ روایتی طور پہ اپنا کردار لو پروفائل میں رکھنے والا برطانیہ اب ہائی پروفائل رول اداکیوں کر رہا ہے وہ کس کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے ؟ اس سے قبل دو اہم واقعات ہوئے ہیں، ایک تو امریکہ نے برطانیہ یوکرائن کو نظرانداز کرکے براہ راست روس سے یوکرائن پہ معاہدہ کرنے کا فیصلہ کرلیا جس پہ ظاہر ہے کہ برطانیہ کو اندر سے بہت تکلیف ہوئی ہوگی کیونکہ وہی اس جنگ کا اصل محرک بھی تھا برطانیہ نے اس جنگ میں اربوں کی سرمایہ کاری کی تھی لیکن امریکہ اپنے پیسوں کو تو یوکرائن کے معدنی ذخائر سے ریکور کررہا ہے برطانیہ کا پیسہ ریکور ہونے کی کوئی بات نہیں کی۔ دوسرا مودی ٹرمپ مشترکہ اعلامیہ ہے جس میں انڈیا نے رجیم چینج کے بعد پہلی بار پاکستان پہ ریاستی دہشت گردی کا الزام لگایا اور امریکہ کے ساتھ مل کر اس کے خلاف لڑنے کا عندیہ دیا۔ پہلے معاملے میں تو ظاہر ہے پاکستان کا رول صفر ہے لیکن دوسرے معاملے میں یہ برطانیہ ہی لگتا ہے جس نے رجیم چینج سے قبل پاک فوج کو گارنٹی دی ہوگی کہ اگر جرنیل انڈیا کے سامنے سرنڈر کر لیں تو جواب میں انڈیا ان پہ دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگانا چھوڑ دے گا۔ جرنیل اپنا وعدہ پورا کرتے رہے عمران کے آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی پہ انڈیا کا کیا گیا بائیکاٹ ختم کیا اور بلاول خود چل کر انڈیا گیا چاہے انہوں نے بے عزتی ہی کی وہ پاکستان میں کاش میری مجاہدین اور خالصتانیوں کو مارتے رہے لیکن ہماری لمبر ون کی انہیں درپردہ سہولت کاری حاصل رہی۔ اب انڈیا نے اپنی پالیسی بدل دی ہے تو جرنیلوں کی چیخیں نکلنے سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دورہ سے کچھ قبل کوئی اہم پاکستانی ریاستی شخصیت براستہ دوبئی لندن بھی گئی تھی شاید لمبر ون کا چیف وہاں شکایت لگانے رونے دھونے گیا ہوگا۔ یہ بات لازمی ہے کہ برطانوی حکام جنرل حافظ سے بہت پرجوش طریقے سے ملے ہونگے دلجوئی کی ہوگی دیکھنا یہ ہے کہ حافظ کو برطانیہ سے مل کیا سکتا ہے ؟ جنرل حافظ کو پیسے چاہییں کیونکہ آئی ایم ایف نے اب عدالتی نظام کو پیش نظر رکھنے کی بھی دھمکی لگا دی ہے سو برطانیہ وہاں لابنگ کا وعدہ تو کرے گا لیکن یہ کہا نہیں جا سکتا کہ امریکی مدد کے بغیر صرف برطانیہ کی لابنگ کتنی مؤثر ہوگی؟ اسی طرح جنرل حافظ انڈیا کی شکایت بھی لگائے گا اور اس کی بدعہدی کا شکوہ بھی کرے گا اور برطانیہ کو اس کی گارنٹی یاد دلا کر مدد کی درخواست بھی کرے گا۔ بلاشبہ برطانوی حکام اس ضمن میں مدد کی کوشش کرینگے لیکن یہ کوششیں کتنی مؤثر ثابت ہوتی ہیں ؟ صاف بات ہے کہ اس کا زیادہ امکان نہیں کیونکہ بھارتی یہ سمجھ چکے ہیں کہ موجودہ امریکی انتظامیہ پہ برطانیہ کا کوئی اثر نہیں بلکہ انکا رویہ سخت ہے اسی لیے انہوں نے امریکہ کے دیرینہ مطالبات پوری طرح سے مان لئے اور کوئی پس و پیش نہ کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب برطانیہ یا کسی لابی کی امداد انکو حاصل نہ ہوگی۔ اسی طرح وہ پیش آمدہ حالات کو بھی بھانپ چکے ہیں کہ امریکہ رجیم چینج کا آکسیجن ٹینٹ ہٹا لے گا اور رجیم اپنی موت آپ مر جائے گی لہذا انکا پاکستان کو رعایت دینے کا کوئی فائدہ نہیں اسی لیے وہ اپنی اگلی پالیسی وضع کرکے پاکستان پہ دہشت گردی کا الزام دوبارہ سے لگانا شروع ہیں۔ جبکہ برطانیہ کے پاس انڈیا کے خلاف کوئی لیوریج موجود نہیں ہے اب وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ ہی کھیل سے باہر ہو چکی ہے جس پہ برطانیہ کا اثرورسوخ تھا۔ سو برطانیہ کی کوشش تو ہوگی لیکن انڈیا کے ماننے کی امید موہوم ہے۔ البتہ ایک اور زاویہ بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ برطانیہ امریکہ کو اشارہ دینا چاہتا ہو کہ اس کا پاکستانی جرنیل شاہی پہ گہرا اثر ہے اور پاکستان کے اندر جاری سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے وہ جرنیلوں پہ اثرانداز ہو سکتا ہے۔ آئندہ دنوں میں آنے والی خبروں پہ گہری نظر رکھنا ضروری ہے اور وہی صورت حال کی مزید وضاحت کرینگی۔ Malik

Comments