القدس کی پکار
القدس کی پکار
February 27, 2025 at 09:35 AM
*انجینئر شہید یحيیٰ عیاش – مزاحمت جدوجہد اور جہاد کی زندہ علامت* _پیدائش اور ابتدائی زندگی_ فلسطین کے گاؤں رافات کی گلیوں میں، 6 مارچ 1966 کو یحيیٰ عبد اللطیف عیاش کی پیدائش ہوئی۔ ایک دیندار گھرانے میں آنکھ کھولنے والے یحيیٰ نے ایک پر سکون بچپن گزارا۔ وہ نہایت مودب اور سنجیدہ مزاج کے حامل تھے۔ ان کے ایک چچا کے بقول: "وہ حد سے زیادہ خاموش رہتا، زیادہ میل جول پسند نہیں کرتا تھا، یہاں تک کہ میں اسے کچھ حد تک تنہائی پسند سمجھتا تھا۔" یحيیٰ نے چھ سال کی عمر میں گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے اپنی غیر معمولی ذہانت سے اساتذہ کو حیران کر دیا۔ وہ نہ صرف اپنے درجے کے اسباق یاد کر لیتے بلکہ اگلی جماعت کے اسباق بھی ازبر کر لیتے تھے۔ _تعلیمی سفر اور مزاحمتی سرگرمیاں_ یحيیٰ عیاش نے 1984 میں بدیا سیکنڈری اسکول سے 92.8% نمبروں کے ساتھ میٹرک مکمل کیا اور بیرزیت یونیورسٹی میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔ وہ نہ صرف اپنی تعلیمی صلاحیتوں میں ممتاز تھے بلکہ الکتلة الإسلامية کے پلیٹ فارم سے فلسطینی تحریک مزاحمت میں بھی متحرک کردار ادا کیا۔ وہ نہ صرف قابض قوتوں کے خلاف مزاحم رہے بلکہ مخالف طلبہ تنظیموں کے ساتھ بھی نظریاتی سطح پر نبرد آزما رہے۔ 1991 میں اعلیٰ نمبروں کے ساتھ فارغ التحصیل ہونے کے بعد، انہوں نے 9 ستمبر 1992 کو اپنی خالہ زاد بہن سے نکاح کیا۔ ان کے بڑے بیٹے براء کی پیدائش یکم جنوری 1993 کو ہوئی، اس وقت وہ پہلے ہی قابض فوج کے نشانے پر آ چکے تھے۔ شہادت سے دو دن قبل، اللہ نے انہیں دوسرے بیٹے کی نعمت سے نوازا، جسے انہوں نے اپنے والد کے نام پر عبد اللطیف رکھا، مگر جب ان کی شہادت واقع ہوئی تو خاندان نے اس کا نام بدل کر یحيیٰ رکھ دیا، تاکہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں۔ _رافات کے شیخ الاخوان_ یحيیٰ عیاش نے 1985 میں اخوان المسلمین میں شمولیت اختیار کی اور ایک وفادار سپاہی کی طرح جماعت سے وابستہ ہو گئے۔ وہ ایک سنجیدہ، جفاکش اور مخلص داعی ثابت ہوئے اور رام اللہ، بیرزیت یونیورسٹی، اور اپنے آبائی گاؤں رافات میں اسلامی دعوت کو فعال کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنے والد کی کار کو بھی اسلامی تحریک کی خدمت میں وقف کر دیا اور نوجوانوں کی تربیت کے لیے تحریکی گروہ تشکیل دیے۔ انتفاضہ اولیٰ کے دوران، ان کی حکمت، قیادت اور اعلیٰ اخلاق کی بدولت انہیں فلسطینی حلقوں میں "شیخ الاخوان فی رافات" کا لقب دیا گیا، اور وہ تحریک کی تنظیمی اور مزاحمتی سرگرمیوں کے محور بن گئے۔ _ابن القسام – عسکری جدوجہد کی ابتدا_ یحيیٰ عیاش کی عسکری جدوجہد انتفاضہ اولیٰ (1987-1993) کے دوران شروع ہوئی۔ 1990-91 میں، انہوں نے قابض ریاست کی جانب سے مسلح مزاحمت کو کچلنے کے لیے عائد پابندیوں کا توڑ نکالتے ہوئے دھماکہ خیز مواد مقامی سطح پر تیار کرنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ انہوں نے طبی اور کیمیائی اجزا سے بم بنانے کا ایسا طریقہ دریافت کیا، جس سے فلسطینی مزاحمت کو ایک نئی قوت ملی۔ ان کی پہلی کارروائی رامات ایفعال میں ایک کار بم دھماکہ تھی، جسے قابض انٹیلیجنس نے محض اتفاقیہ طور پر دریافت کر لیا۔ اس واقعے کے بعد، اسرائیلی انٹیلیجنس "شاباک" نے دو فلسطینی مزاحمت کاروں کو گرفتار کیا اور شدید تفتیش کے بعد یحيیٰ عیاش کا نام پہلی بار اسرائیلی ہٹ لسٹ میں شامل کر لیا۔ _المہندس – ناقابل تسخیر دشمن_ 25 اپریل 1993 کو، یحيیٰ عیاش کی باقاعدہ تلاش کا آغاز ہوا۔ اس دن وہ اپنے گھر کو خیرباد کہہ کر مکمل طور پر مزاحمت کے قافلے میں شامل ہو گئے۔ اگلے تین سال تک اسرائیلی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیاں ان کے پیچھے دوڑتی رہیں، مگر وہ ہر بار ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر غائب ہو جاتے۔ یحيیٰ عیاش نے اپنی غیر معمولی ذہانت، اختراعی مہارت اور جنگی حکمت عملی سے دشمن کو چکرا کر رکھ دیا۔ وہ قابض ریاست کے لیے دہشت کا نشان اور فلسطینی عوام کے لیے مزاحمت کی مشعل بن چکے تھے۔ تین سال تک قابض فوج اور اس کی ایجنسیاں انہیں پکڑنے میں ناکام رہیں، اور ان کی یہی بے بسی یحيیٰ عیاش کی فتح کا اعلان تھی۔ _شہادت – چراغ جو کبھی بجھ نہ سکا_ یحییٰ عیاش کی شہادت 5 جنوری 1996 کو اس وقت ہوئی جب قابض صیہونی انٹیلیجنس شاباک نے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ان کا سراغ لگایا اور انہیں قتل کرنے کے لیے ایک انتہائی خفیہ آپریشن ترتیب دیا ۔ اسرائیلی انٹیلیجنس عرصے سے یحییٰ عیاش کے تعاقب میں تھی، مگر ان کی غیرمعمولی احتیاطی تدابیر کے باعث انہیں پکڑنا ناممکن ہو چکا تھا۔ کئی ناکام کوششوں کے بعد، صیہونی انٹیلیجنس نے فلسطینی علاقوں میں اپنے ایجنٹوں کو متحرک کر کے ان کا سراغ لگانے کی حکمت عملی اپنائی۔ شاباک نے یحییٰ عیاش کے ایک جاننے والے کو استعمال کرتے ہوئے انہیں ایک موبائل فون فراہم کروایا، جس میں انتہائی جدید ٹیکنالوجی سے تیار کردہ دھماکہ خیز چپ نصب تھی۔ یہ موبائل فون یحییٰ عیاش تک پہنچانے کے لیے اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے بعض عناصر کے ساتھ بھی رابطہ کیا تھا، جو اوسلو معاہدے کے بعد اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی کوآرڈینیشن میں شامل ہو چکے تھے۔ 1995 میں اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کے قتل کے بعد، اسرائیل کی نئی قیادت نے یحییٰ عیاش کو ختم کرنے کا فیصلہ تیز کر دیا۔ شاباک نے جدید ترین سیٹلائٹ اور جاسوسی آلات کے ذریعے ان کا پتہ چلایا اور 5 جنوری 1996 کی صبح، یحییٰ عیاش غزہ کے علاقے جبالیا میں ایک گھر میں موجود تھے۔ جیسے ہی انہوں نے اپنے والد سے موبائل فون پر بات چیت شروع کی، اسرائیلی انٹیلیجنس نے ایک ریموٹ کنٹرول کے ذریعے موبائل فون میں نصب دھماکہ خیز مواد کو متحرک کر دیا، جس سے ایک زور دار دھماکہ ہوا اور ابن القسام یحییٰ عیاش موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ یحییٰ عیاش کی شہادت کی خبر سنتے ہی فلسطینی عوام میں شدید غم و غصہ پھیل گیا، اور لاکھوں افراد ان کے جنازے میں شریک ہوئے۔ حماس نے ان کی شہادت کو فلسطینی مزاحمت کے لیے ایک نئے باب کی شروعات قرار دیا اور جلد ہی ان کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے کئی آپریشنز کیے، جن میں تل ابیب اور القدس میں بڑی کارروائیاں شامل تھیں۔ یحییٰ عیاش کی شہادت آج بھی فلسطینی مزاحمت میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، اور ان کے نام سے حماس کی عسکری شاخ عزالدین القسام بریگیڈز میں آج بھی کئی یونٹ منسوب ہیں۔ یحيیٰ عیاش کی زندگی ایک انقلاب، ایک تحریک اور ایک نظریہ تھی۔ ان کی شہادت کے باوجود، ان کا راستہ آج بھی زندہ ہے، ان کے نظریات آج بھی آزادی کے متوالوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں، اور ان کی مزاحمت آج بھی قابض دشمن کے لیے خوف اور دہشت کی علامت ہے۔ "المہندس! وہ جس نے مزاحمت کو نئی زبان دی، وہ جس نے دشمن کی نیندیں اڑا دیں، وہ جس نے فلسطین کی تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے رقم کر دیا!" غرض جب بھی فلسطین کی تاریخ – قوم اور قضیہ – انصاف اور امانت داری کے ساتھ لکھی جائے گی، تو آنے والی نسلیں جان سکیں گی کہ یحییٰ عیاش، جنہیں زندگی میں "المہندس" کے لقب سے جانا گیا، ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دین اور وطن کے لیے ایک لازوال تاریخ رقم کی اور اللہ کی راہ میں، فلسطین کے دفاع میں شہید ہوئے۔ وہ فلسطینی جدوجہد کی گہری فہم رکھتے تھے اور دشمن سے نمٹنے کا اصل اصول سمجھ چکے تھے۔ جب ان کے ہاتھوں نے پہلی بار ایک کار بم کو تیار کیا، تو یہ محض ایک ہتھیار نہیں تھا بلکہ فلسطینی عوام کو بیدار کرنے اور ہر طبقے کو مکمل مزاحمت کے لیے متحد کرنے کی ایک کوشش تھی، کیونکہ قابض دشمن صرف طاقت اور مزاحمت کی زبان سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی قیادت مایوسی کے عالم میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئی: "ہم اس نوجوان کا کیا کریں جو مرنے کے لیے تیار ہے؟" یحییٰ عیاش وہ فلسطینی اسطوری شخصیت تھے جنہوں نے امید کو زندہ کیا، مایوسی کو موت دی اور فلسطین میں جہاد و مزاحمت کی روح کو ازسرنو جِلا بخشی۔ انہوں نے بدترین حالات میں صبر و استقامت اور شجاعت کی وہ داستانیں رقم کیں جو تاریخ کے سنہرے اوراق میں محفوظ رہیں گی۔ المہندس کی کہانی محبت اور عظمت کی سیاہی سے لکھی گئی ہے، اور وہ اپنے معاصرین کے دلوں میں ہمیشہ ایک محترم یادگار کے طور پر زندہ رہے۔ ان کا نام ہر گلی، ہر گھر، ہر زبان پر رہا، اور جب دنیا پر اندھیرے چھائے، بحران شدید ہوئے، اور امت پر مایوسی کے بادل چھائے، تب کروڑوں عربوں اور مسلمانوں نے ان کی یاد کو تازہ کیا۔ یحییٰ عیاش نے دشمن کی کمزوری اور اپنی قوم کی طاقت کو بخوبی پہچان لیا تھا۔ انہوں نے اپنی اس دانشمندی کو استعمال کرتے ہوئے طاقت کے توازن کو کسی حد تک بحال کیا۔ وہ دشمن، جو موت کے خوف میں جکڑا ہوا تھا، اس قوم کے مقابل آیا جو اللہ کی راہ میں شہادت کی متمنی تھی۔ انہی مشکل گھڑیوں میں یحییٰ عیاش ایک منفرد ہیرو کے طور پر ابھرے، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ جس قوم کی قبر کھودی جا رہی ہو، وہ ابھی زندہ ہے۔ ان کی مزاحمت نے ان رسمی بیانیوں کو باطل کر دیا جو فلسطینی کاز کے اختتام کا اعلان کر رہے تھے۔ اپنی مختصر زندگی میں، یحییٰ عیاش نے وہ کچھ کر دکھایا جو صدیوں میں ممکن نہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وقت بہت کم ہے، اس لیے انہوں نے صہیونیوں کے فولادی حفاظتی حصار کو توڑنے کے لیے اپنی پوری ذہانت صرف کر دی۔ قابض قوتوں نے جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی اور تجربات کو بروئے کار لا کر فلسطینیوں کو محصور کرنے کی کوشش کی، مگر یحییٰ عیاش نے ایک نئی جنگی حکمت عملی اپنائی، جو وسائل سے زیادہ ایمانی قوت پر انحصار کرتی تھی۔ وہ اپنی قوم کے لیے جیتے اور اسی کے لیے قربان ہو گئے، جبکہ کئی لوگ اقتدار اور مفادات کے کھیل میں الجھے رہے۔ یہ غیر معمولی شخصیت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم ان کی حیات پر غور کریں، ان کی جدوجہد کے دروس اخذ کریں اور ان کی لازوال قربانیوں سے سیکھیں۔ اگرچہ یحییٰ عیاش ایک عام دیہاتی نوجوان تھے، جو کسی بھی دوسرے گریجویٹ کی طرح ایک اچھی ملازمت حاصل کر سکتے تھے، مگر انہوں نے دنیاوی کامیابیوں کو نظرانداز کر کے اپنے اسلام اور فلسطین کے لیے اپنا سب کچھ وقف کر دیا۔ ان کے لیے مزاحمت اور جہاد محض ایک نظریہ نہیں، بلکہ ایک حقیقی مشن تھا، اور وہ اس راہ پر اس انداز میں چلے کہ اپنی ذہانت، اخلاص اور عمل سے نئی تاریخ رقم کر دی۔ یحییٰ عیاش نے کسی شہرت کی جستجو نہیں کی، بلکہ تاریخ نے انہیں ایک رہنما کے طور پر چنا۔ وہ خود سے کوئی بڑا کردار نہیں تراش رہے تھے، بلکہ امت ایک ایسے قائد کی تلاش میں تھی جو مزاحمت کی شمع روشن کرے، زندگی کو امید اور اسلام کو فتح کا احساس دلائے۔ حماس کے قائدین ہمیشہ حادثاتی ہیرو نہیں ہوتے، بلکہ وہ منصوبہ بندی، عزم اور ایمانی طاقت کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں، اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں اور پھر عظمت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ یحییٰ عیاش دنیا سے چلے گئے، مگر ان کا نام آج بھی دشمنوں کے دلوں میں خوف پیدا کرتا ہے۔ ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے القسام بریگیڈ نے 2021ء کی معرکہ "سیف القدس" کے دوران سب سے دور مار کرنے والے راکٹ کا نام "عیاش 250" رکھا۔ آج، بفضلِ خدا، عیاش 250 کی بدولت فلسطین کے ہر قابض ہدف پر القسام کے راکٹوں کی پہنچ ممکن ہو چکی ہے۔ انجینئر یحییٰ عیاش کی شہادت کے بعد فروری 1996 کا مہینہ "مقدس انتقام" کی کارروائیوں کے آغاز کی چنگاری ثابت ہوا۔ یہ کارروائیاں قسام بریگیڈ کے قیدی کمانڈر حسن سلامہ کی منصوبہ بندی کے تحت انجام دی گئیں اور ان کا مقصد "انجینئر" یحییٰ عیاش کی شہادت کا بدلہ لینا تھا۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں 46 سے زائد صیہونی ہلاک اور تقریباً 100 زخمی ہوئے۔ _القدس آپریشن_ 25 فروری 1996 کو، "انجینئر یحییٰ عیاش کے قتل کے خلاف مقدس انتقام – 1" کے تحت، قسام بریگیڈ کے شہید مجدی محمد محمود ابو وردہ (19 سال) نے جو الخلیل شہر کے الفوار کیمپ سے تعلق رکھتے تھے مقبوضہ 1948 کی سرزمین میں ایک صیہونی بس میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ یہ بس "ایغد" کمپنی کی تھی اور نمبر 18 کے روٹ پر چلتی تھی، جو صیہونی پولیس اور خفیہ ایجنسی "شاباک" کے ہیڈکوارٹر کی طرف جا رہی تھی۔ اس کارروائی کے نتیجے میں دشمن کے اعترافات کے مطابق 24 صیہونی ہلاک ہوئے، جن میں 13 فوجی، شاباک کے کئی افسران اور اہلکار شامل تھے، جو اپنے کام پر جا رہے تھے۔ اس کے علاوہ، 50 سے زائد صیہونی مختلف نوعیت کی چوٹوں، جلنے کے زخموں اور مستقل معذوری کا شکار ہوئے۔ صیہونی ذرائع کے مطابق، زخمیوں میں تین امریکی شہری بھی شامل تھے، جو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔ _عسقلان آپریشن_ اسی دن، ابو وردہ کی کارروائی کے 30 منٹ بعد، ابراہیم احمد حسن السراحنا (25 سال) نے، جو کہ الخلیل شہر کے الفوار کیمپ سے تعلق رکھتے تھے، مقبوضہ عسقلان شہر میں ایک صیہونی بس میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ صیہونی ریڈیو کے مطابق، حملہ آور عسقلان میں فوجی وردی میں ملبوس ہو کر بس میں سوار ہوا اور تین صیہونی فوجیوں کو ہلاک جبکہ 30 سے زائد کو زخمی کر دیا۔ یہ کارروائی "انجینئر یحییٰ عیاش کے قتل کے خلاف مقدس انتقام – 2" کے تحت انجام دی گئی۔ _دوسرا القدس آپریشن_ پہلی دو کارروائیوں کے ایک ہفتے بعد، 3 مارچ 1996 کو، رائد عبد الکریم الشغنوبي نے مقبوضہ القدس میں نمبر 18 کی بس میں فدائ دھماکہ کیا۔ اس زوردار دھماکے کے نتیجے میں بس مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور اس کے ٹکڑے تقریباً 50 میٹر کے دائرے میں بکھر گئے۔ صیہونی فوجی پولیس کے ترجمان کے مطابق، اس حملے میں 19 صیہونی ہلاک ہوئے، جن میں 3 فوجی شامل تھے، جبکہ 10 دیگر زخمی ہوئے، جن میں سے 7 کی حالت تشویشناک تھی۔ یہ کارروائی "انجینئر یحییٰ عیاش کے قتل کے خلاف مقدس انتقام – 3" کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ ✍🏻 امجاد الشھداء فی فلسطین https://whatsapp.com/channel/0029Vb00lau8PgsCBHoYYK2q
🇵🇸 1

Comments