القدس کی پکار
القدس کی پکار
February 27, 2025 at 02:01 PM
https://whatsapp.com/channel/0029Vb00lau8PgsCBHoYYK2q *⭕ آزادی کی سحر اور قیدیوں کے تبادلے کی نئی حکمت عملی* آج کا دن اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدوں کی تاریخ میں سب سے اہم دنوں میں سے ایک ہے۔ یہ معاہدہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے "شالیت معاہدے" اور 1985 کے قیدیوں کے تبادلے کے بعد تیسرا سب سے بڑا معاہدہ ہے، کیونکہ اس کا اثر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع پر براہ راست پڑے گا۔ اسرائیلی حکومت نے قیدیوں کے تبادلے کو روکنے کے لیے سینکڑوں قوانین اور درجنوں فیصلے نافذ کیے تھے تاکہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو کسی بھی طرح قیدی رہا کروانے سے روکا جا سکے۔ لیکن آج وہی اسرائیل مجبور ہے کہ وہ اپنے جیلوں کے دروازے کھولے اور ان قیدیوں کو بھی رہا کرے جو عمر قید اور سخت سزاؤں کے تحت پابند سلاسل تھے۔ یہ مرحلہ قیدیوں کے تبادلے کے دوسرے مرحلے کی طرف ایک مضبوط پیش قدمی ہے، جو اسرائیل کے لیے نہایت حساس اور خطرناک ہوگا، کیونکہ اسے مزید فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے اپنی نئی شرائط پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اسرائیل اس موقع کو مزید سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وہ خاص طور پر اپنے ان قیدیوں کی رہائی کے لیے کسی بھی قسم کی قیمت ادا کیے بغیر ایک معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اس وقت فلسطینی مزاحمت کے قبضے میں ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکی حمایت اسے حاصل ہے، کیونکہ امریکہ اسرائیل کو ہر ممکن سفارتی اور عسکری مدد فراہم کر رہا ہے تاکہ اسرائیلی حکومت سیاسی طور پر مستحکم رہے اور کوئی داخلی بحران پیدا نہ ہو۔ _طاقت آزمائی کا مرحلہ (عض الأصابع)_ یہ معاہدے کا سب سے مشکل اور نازک مرحلہ ہے۔ اس وقت اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں طاقت اور صبر کی آزمائش میں مصروف ہیں۔ فلسطینی مزاحمت نے پہلے مرحلے کے معاہدے پر پوری دیانتداری کے ساتھ عمل کیا، لیکن اسرائیل نے ہمیشہ کی طرح چالاکیوں اور معاہدے سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ اسرائیل کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ امکان موجود ہے کہ وہ اگلے مراحل میں غزہ، مغربی کنارے، اور دیگر علاقوں میں فوجی کارروائیاں بڑھا دے۔ خاص طور پر مغربی کنارے میں آبادکاری کے منصوبے کو مزید مضبوط کرنے اور فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت نئی سازشوں پر کام کر رہی ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کے دوسرے مرحلے میں درجنوں اسرائیلی فوجیوں کی قسمت کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اگر ان فوجیوں کے متعلق یہ تصدیق نہ ہو سکی کہ وہ زندہ ہیں یا ہلاک ہو چکے ہیں، تو یہ نکتہ معاہدے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں ایک بڑا تنازع بن سکتا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی داخلی سیاست اور بین الاقوامی دباؤ بھی اس معاہدے کی کامیابی یا ناکامی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ معاہدے کے مختلف مراحل کو کس طرح کامیابی کے ساتھ مکمل کیا جائے؟ اس وقت فلسطینی مزاحمت کو چار بڑے چیلنج درپیش ہیں: 1️⃣ پہلے مرحلے کو مزید طول دینا تاکہ زیادہ سے زیادہ فلسطینی قیدی رہا ہو سکیں۔ 2️⃣ دوسرے مرحلے کے مذاکرات کو منظم اور مؤثر بنانا تاکہ اسرائیل کو مزید رعایتیں دینے پر مجبور کیا جا سکے۔ 3️⃣ دوسرے مرحلے کو عملی طور پر نافذ کرنا تاکہ مزید قیدیوں کی رہائی یقینی ہو سکے۔ 4️⃣ تیسرے مرحلے کے لیے تیاری کرنا، جو سب سے اہم اور پیچیدہ ہوگا۔ یہ تمام مراحل مسلسل جدوجہد اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھائے جائیں گے۔ فلسطینی مزاحمت اور اسرائیل کے درمیان یہ ایک طویل صبر اور حوصلے کی جنگ ہے، جو اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ تمام فلسطینی قیدی آزادی حاصل نہ کر لیں۔

Comments