
ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
February 20, 2025 at 03:05 AM
کتاب زبدةالفقہ
قسط نمبر 109
سنن و نوافل کے مخصوص مسائل
1.عام نفل نماز جس میں کوئی تخصیص نہ ہو سوائے اوقات مکروہہ کے ہر وقت پڑھنا مستحب ہے ، دن کی نفلوں میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعتوں سے زیادہ پڑھنا اور رات کی نفلوں میں آٹھ رکعتوں سے زیادہ ایک سلام سے پڑھنا مکروہ ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک افضل یہ ہے کہ خواہ دن ہو یا رات چار چار رکعت پر سلام پھیرے بعض فقہا کے نزدیک اسی پر فتویٰ ہے اور صاحبین کے نزدیک افضل یہ ہے کہ دن کے وقت چار رکعت ایک سلام سے پڑھے اور رات کے وقت ہر دوگانہ پر سلام پھیرتا جائے بعض کے نزدیک اسی پر فتویٰ ہے ، یہی روایات کے زیادہ مطابق ہے اور اکثر علما اسی طرف گئے ہیں
2.سنتیں خواہ فرض نماز سے پہلے ہوں یا بعد کی اور نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے نو نمازیں اس حکم سے مستثنٰی ہیں اور وہ یہ ہیں اول نمازِ تراویح، دوم تحیتہ المسجد، سوم واپسی سفر کی نماز، چہارم احرام کی دو رکعتیں جبکہ میقات کے نزدیک کوئی مسجد ہو، پنجم طواف کی دو رکعتیں ، ششم اعتکاف کرنے والے کی نفل نماز، ہفتم سورج گہن کی نماز، ہشتم جس کو گھر میں جا کر کاموں میں مشغول ہو جانے کے سبب سنن و نوافل فوت ہو جانے کا ڈر ہو یا گھر میں جی نہ لگے اور خشوع کم ہو، نہم نماز جمعہ سے قبل کی سنتیں
3.جماعت قائم ہو جانے کے بعد کسی نفل نماز کا شروع کرنا جائز نہیں ، سوائے سنتِ فجر کے، پس اگر کوئی شخص گھر سے فجر کی سنتیں پڑھ کر نہیں آیا اور مسجد میں جماعت ہو رہی ہو اور یہ شخص جانتا ہے کہ سنتیں پڑھنے کے بعد اس کو جماعت مل جائے گی خواہ قعدہ ہی مل جائے تو وہ سنتیں پڑھ لے مگر صف کے برابر کھڑا ہو کر نہ پڑھے بلکہ جماعت سے الگ دُور پڑھے، مثلاً اگر مسجد میں اندر جماعت ہو رہی ہو تو باہر پڑھے، امام کے نماز شروع کرنے سے پہلے جہاں چاہے پڑھ لے خواہ وہ کوئی سی سنتیں ہوں ، اگر یہ معلوم ہو کہ جماعت جلدی کھڑی ہونے والی ہے اور یہ اس وقت تک سنتوں سے فارغ نہیں ہو سکے گا تو ایسی جگہ نہ پڑھے کہ اس کی وجہ سے صف قطع ہوتی ہو، اگر فجر کی نماز میں امام کو رکوع میں پایا اور یہ معلوم نہیں کہ پہلی رکعت کا رکوع ہے یا دوسری رکعت کا تو فجر کی سنتیں ترک کر دے اور جماعت میں مل جائے جو سنتیں فرضوں کے بعد پڑھی جاتی ہیں اُن کو مسجد میں اسی جگہ پڑھنا جائز ہے لیکن اولٰی یہ ہے کہ وہاں سے کچھ ہٹ جائے اور امام کو اپنی جگہ سے ضرور ہٹنا چاہئے ، اس کے لئے اسی جگہ پڑھنا مکروہ ہے
4.سنت خواہ مؤکدہ ہوں یا غیر مؤکدہ اور نوافل اور وتر کی ہر رکعت میں منفرد اور امام کے لئے الحمد کے ساتھ سورة ملانا واجب ہے
5.چار رکعتی سنتِ مؤکدہ یعنی ظہر اور جمعہ سے پہلے کی اور جمعہ کے بعد کی چار رکعتوں کے پہلے قعدے میں التحیات کے بعد درود شریف نہ پڑھے اگر بھول کر پڑھ لیا تو اللھم صلی علی محمد کی مقدار پڑھنے سے سجدہ سہو کرنا لازم آتا ہے اور جب سنتوں کی تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تو سبحانک اللھم اور اعوذ نہ پڑھے کیونکہ سنتیں مؤکدہ ہونے کی وجہ سے فرض کے مشابہ ہو گئیں اگر چار رکعت والی سنتِ غیر مؤکدہ یا نفل نماز پڑھے تو اختیار ہے خواہ پہلے قعدے میں درود شریف و دعا بھی پڑھے اور تیسری رکعت میں ثنا اور اعوذ بھی پڑھے اور خواہ فرضوں کی طرح صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور تیسری رکعت میں ثنا اور اعوذ بھی نہ پڑھے صحیح تر قول میں یہی دوسری صورت افضل ہے ، چار سے زیادہ یعنی چھ یا آٹھ رکعت نوافل کا بھی یہی حکم ہے اور نماز نذر کا بھی یہی حکم ہے
بیٹھ کر نفل وغیرہ نماز پڑھنے کے مسائل
1.جو شخص کھڑا ہونے پر قادر ہے اس کو اصح قول کے بموجب بیٹھ کر نفل نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے مگر کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے اور بل عذر بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ہوتا ہے
2.اگر عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے خواہ فرض ہو یا نفل وغیرہ تو ثواب میں کمی نہیں ہو گی یعنی کھڑے ہونے کی مطابق ثواب ملے گا
3.صحیح یہ ہے کہ وتر کے بعد کے نفلوں کا بھی کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے اور بیٹھ کر پڑھنے میں آدھا ثواب ہے
4.فرض و واجب نماز بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں ، سنت فجر کا بھی یہی حکم ہے باقی سنتوں کو بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے خواہ وہ نماز تراویح ہو لیکن عمل سلف اور توارث کے خلاف ہے نذر کی نماز جس کو کھڑا ہونے کے ساتھ متعین نہ کیا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے
5.جب نفل نماز کھڑے ہو کر شروع کر دی پھر پہلی یا دوسری رکعت میں بلا عذر بیٹھ گیا تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک بلا کراہت جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک بلا عذر ایسا کرنا جائز نہیں ہے اور اگر چار رکعت کی نیت کی اور پہلا دوگانہ کھڑے ہو کر پڑھا اور دوسرے دو گانے میں بیٹھ گیا تو بالاتفاق جائز ہے
6.اگر نفل نماز کھڑے ہو کر شروع کی پھر تھک گیا تو لاٹھی یا دیوار وغیرہ پر سہارا لگانے میں کوئی کراہت نہیں ہے اور بغیر تھکے ایسا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے
7.اگر نفل نماز بیٹھ کر شروع کی پھر کھڑا ہو گیا خواہ ایک رکعت بیٹھ کر پڑھی ہو اور ایک رکعت کھڑے ہو کر یا ایک ہی رکعت کا کچھ حصہ بیٹھ کر اور کچھ حصہ کھڑا ہو کر پڑھا ہو اس کی نماز بالاتفاق بلا کراہت جائز ہے
8.اگر کوئی شخص نفل بیٹھ کر پڑھے اور رکوع کے وقت کھڑا ہو کر رکوع کرے تو اس کے واسطہ افضل یہ ہے کہ کھڑا ہو کر کچھ قرأت بھی کر لے پھر رکوع کرے تاکہ سنت کے موافق ہو جائے اور اگر سیدھا کھڑا ہو کر کچھ قرأت کئے بغیر رکوع کر دیا تو جائز ہے اور اگر سیدھا کھڑا نہیں ہوا اور رکوع کر دیا تو جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس کا رکوع میں جانا نہ کھڑا ہونے کی حالت میں واقع ہوا نہ بیٹھنے کی حالت میں
۹.نفل نماز بھی فرض نماز کی طرح بلا عذر لیٹ کر اشارہ سے ادا کرنا جائز نہیں ہے اور عذر کی وجہ سے جائز ہے اسی طرح اگر رکوع کے قریب جھکا ہوا ہونے کی حال میں نماز نفل شروع کی تو صحیح نہی ہے
نماز نذر
1.نمازِ نذر واجب ہے لیکن یہ واجب لغیرہ ہے یعنی ان نوافل میں سے ہے جو بندے کے اپنے فعل سے اس پر واجب ہوتے ہیں اسی لئے اس کے بعض احکام فرضوں کے مشابہ ہیں اور بعض احکام نفلوں کے مطابق ہیں
2.اگر کسی شخص نے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے واسطہ نذر کی کہ ایک دن کی نماز پڑھوں تو اس پر دو رکعتیں لازم ہوں گی اور اگر کسی نے مہینے بھر کی نمازوں کی نذر کی تو ایک مہینے کی جتنی فرض اور وتر نمازیں ہیں وہ اس پر لازم ہوں گی سنتیں لازم نہ ہوں گی، لیکن اس کو چاہئے کہ مغرب کے فرض اور نماز وتر کو بدلے میں چار چار رکعتیں پڑھے
3.اگر بغیر طہارت یا بغیر سترِ عورت یا بغیر قرأت دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر کی تو امام محمد کے نزدیک اس پر کچھ لازم نہیں ہو گا کیونکہ یہ نذر بالمعصیت ہے ، امام ابو یوسف کے نزدیک دو رکعت طہارت اور ستر عورت اور قرأت کے ساتھ ادا کرنا لازم ہو گا اور یہ شرط لغو ہو جائے گی
4.اگر ایک یا آدھی رکعت نماز پڑھنے کی منت مانگی تو اس پر دو رکعتیں لازم ہونگی اور اگر تین رکعتوں کی منت مانگی تو چار رکعتیں لازم ہوں گی
5.اگر ظہر کی فرض نماز کے لئے آٹھ رکعتیں پڑھنے کی نذر کی اس پر صرف چار رکعتیں ہی ادا کرنا فرض ہے اس سے زیادہ کچھ لازم نہ ہو گا کیونکہ یہ زائد رکعتوں کا التزام غیر مشروع و نذر بمعصیت ہے
6.اگر دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر کی اور ان کو کھڑے ہو کر پڑھنے کے ساتھ متعین نہیں کیا تو ان کو بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے لیکن سواری پر ادا کرنا جائز نہیں اور اگر کھڑے ہو کر ادا کرنے کی نذر کی تھی تو کھڑے ہو کر پڑھنا واجب ہے اور کسی چیز پر سہارا دے کر کھڑا ہونا مکروہ ہے
7.اگر کسی معین دن کے لئے دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر کی اور اس دن ادا نہ کی تو ان دو رکعت کو قضا کرے اور اگر کسی معین دن کے لئے دو رکعت نماز پڑھنے کی قسم کھائی اور اس دن نہ پڑھی تو قسم کا کفارہ دے اس پر قضا لازم نہیں ہے اور قسم کا کفارہ ایک غلام آزاد کرانا یا دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے اگر یہ نہ ہو سکے تو تین روزے رکھنا ہے
8.اگر مسجدالحرام یا مسجد بیت المقدس میں نماز ادا کرنے کی نذر کی اور کسی اور کم درجے کی مسجد میں یا گھر کی مسجد میں ادا کی تو جائز ہے
۹.اگر کسی عورت نے کسی معین دن میں نماز ادا کرنے کی نذر کی اور اس دن اس کو حیض آ گیا تو اس کی قضا واجب ہو گی حیض وجوب کا مانع نہیں ادا کا مانع ہے اور اگر یہ نذر مانی کہ حالت حیض میں نماز پڑھے گی تو کچھ لازم نہ ہو گا کیونکہ نذر بمعصیت ہے
10.اگر کسی نے چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی منت مانگی یا ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی قید نہیں لگائی تو اس کو چاروں رکعت ایک ہی سلام سے ادا کرنا واجب ہے دو تسلیموں سے ادا کرنے میں وہ نذر ادا نہیں ہو گی اور اگر اس کے برعکس چار رکعتیں دو تسلیمیوں سے ادا کرنے کی منت مانی تو ان چاروں کو ایک ہی سلام سے ادا کرنا بھی جائز ہے اور منت ادا ہو جائے گی اور اگر نذر کی چار رکعت ادا کرنے کی نیت سے نماز شروع کی پھر اس کو توڑ دیا تو اس پر بلا خلاف چار رکعت کی قضا لازم ہے
❤️
1