
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
February 8, 2025 at 05:11 PM
چراغ فکر(یومیہ)
﴿سلسلہ نمبر:22﴾
رودادِ سفر اورنگ آباد چوتھی اور آخری قسط
(لمحے، نظارے، احساسات، نقوش اور مشاہدات)
✍️ شاہ امان اللہ ندوی
ادارہ طیبہ ممبئی
رات کی خاموشی میں ہوا مدھم سرگوشیاں کر رہی تھی، درختوں کی شاخیں جیسے کوئی ان کہی داستان سنانے کو بے تاب تھیں۔ اور ہم، اورنگزیب عالمگیر رحمہ اللہ کے مزار کی زیارت سے لوٹ رہے تھے۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا، جو تاریخ کی گہرائیوں میں لے جانے کے لیے کافی تھا۔ دل کی کیفیت کچھ عجیب سی تھی—ایک روحانی سرشاری، ایک خاموش عقیدت۔ تھکن کے باوجود دل کو قرار تھا۔ کچھ دیر آرام کیا، پھر مغرب کی اذان نے بیدار کر دیا۔ وضو کے پانی نے سفر کی گرد دھو دی اور ہم ایک نئے عزم کے ساتھ دارالعلوم امدادیہ، ہرسول ساؤنگی اورنگ آباد کی طرف روانہ ہوئے، جہاں ایک روح پرور محفل ہمارا انتظار کر رہی تھی۔
دارالعلوم پہنچے تو ماحول پرنور تھا، چراغاں کی مدھم روشنی، طلبہ کے پرجوش چہرے، علما کی باوقار موجودگی—سب کچھ ایک روحانی محفل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ صدارت کی مسند پر حضرت مولانا قاری محمد یونس صاحب چودھری دامت برکاتہم العالیہ، نائب خازن جمعیت علماء مہاراشٹرا جلوہ افروز تھے۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے قاری عبد الرشید صاحب اندھیری، رکن جمعیت علماء مہاراشٹرا، حافظ شیر صاحب صدر جمعیت علماء اورنگ آباد، اور مولانا ابرار صاحب امام وخطیب جامع مسجد نیا نگر بھی رونق بخش رہے تھے۔ نظامت کی ذمہ داری ناچیز کے سپرد ہوئی، اور میں نے لرزتے الفاظ مگر مضبوط ارادے کے ساتھ اس بابرکت محفل کا آغاز کیا۔
پروگرام کا پہلا مرحلہ طلبہ کے رنگا رنگ مظاہرے پر مشتمل تھا۔ قرآن کی تلاوت سے نور برسا، نعتوں کی خوشبو سے فضا مہک اٹھی، تقاریر نے علم و فکر کی شمعیں روشن کیں، اور مکالموں نے سامعین کو محظوظ کر دیا۔ ہر پہلو دلکش تھا، ہر لمحہ یادگار۔ سامعین ہمہ تن گوش تھے، خوشی اور مسرت ہر چہرے سے عیاں تھی۔
پھر بیان کا سلسلہ شروع ہوا۔ حافظ شیر صاحب نے نہایت عمدہ اور جامع انداز میں مخاطب کیا، مولانا ابرار صاحب کے پُرتاثیر کلمات نے محفل کو مزید سنوارا، اور آخر میں حضرت مولانا قاری محمد یونس صاحب چودھری نے اپنے پرجوش اور مدلل خطاب سے محفل میں جان ڈال دی۔ انہوں نے مدارس کی اہمیت کو اجاگر کیا اور فرمایا کہ تعصب ایک فطری امر ہے، مگر جب اس میں شدت پیدا ہو جائے تو یہ زہرِ ہلاہل بن جاتا ہے۔ ان کے الفاظ میں ایک خاص تاثیر تھی، جو سننے والوں کے دل پر گہرا اثر چھوڑ گئی۔
پھر چادر پوشی کے ذریعے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا گیا، اور وہ لمحہ آیا جس کا بچوں کو بے حد انتظار تھا—تقسیم انعامات! کامیاب طلبہ کے چہروں پر خوشی کی روشنی پھیل گئی، جب ان کے ہاتھوں میں انعامات سجے۔ سامعین نے بھی دل کھول کر بچوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ہر ایک بچے کے چہرے پر خوشی اور فخر کے رنگ بکھرتے دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔
آخر میں دعا ہوئی، پھر عشائیہ کا اہتمام تھا۔ مہمانوں اور میزبانوں نے مل بیٹھ کر محبتوں کا یہ سفر مکمل کیا۔ مگر میرے لیے واپسی کا وقت آ چکا تھا۔ ساڑھے گیارہ بجے کی بس لی، اور صبح چھ بجے بورولی پہنچا۔ جسم تھکاوٹ سے چور تھا، مگر دل یادوں کے لطیف لمس سے معمور۔
حضرت مولانا قاری محمد یونس صاحب چودھری اور قاری عبد الرشید صاحب کی رفاقت ہمیشہ یاد رہے گی، یہ ایک مثالی صحبت تھی، جس نے دل پر نقش چھوڑ دیے۔ اللہ ان سب کو ان کے حسنِ ظن کے مطابق بہترین اجر عطا فرمائے، اور ہمیں بار بار ایسے روحانی اور علمی سفر نصیب فرمائے، آمین۔
یہ چوتھی اور آخری قسط ہے