ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust WhatsApp Channel

ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust

96 subscribers

About ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust

بسم اللہ الرحمن الرحیم مدارس اسلامیہ دین کے آہنی قلعے ہیں، اور ان کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ان مدارس کے ساتھ امت مسلمہ کے وجود اور بقاء کا گہرا تعلق ہے۔ اسلام کی ترقی و بقاء، تعلیمات اسلامیہ کی نشر و اشاعت، اور قرآن و حدیث کی تبلیغ کے لیے دنیا بھر میں دینی مدارس و مکاتب کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ دین اسلام اور عقیدۂ توحید کی حفاظت اور بقاء کا انحصار تعلیمات دینیہ پر ہے۔ جس قوم میں دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کا نظام اہل علم و دانش اور فکر مند حضرات کی نگرانی میں چلتا ہے، وہ قوم اپنے دین و ایمان میں نہ صرف ثابت قدم رہتی ہے بلکہ رہنمایانہ اور اصلاحی زندگی بھی گزارتی ہے۔ یہ مدارس علم و دانش کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی و معاشرتی اصولوں کی تربیت بھی فراہم کرتے ہیں، جو ایک کامیاب اور متوازن معاشرے کے لیے ضروری ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مدارس کی خدمات کو قبول فرمائے اور ہمیں ان کی حفاظت اور ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ مدارس اسلامیہ ہمیشہ سے اسلامی تہذیب و ثقافت، دینی علوم کی حفاظت، اور امت مسلمہ کے لیے ایک مضبوط قلعہ رہے ہیں۔ ان کی خدمات نہ صرف علمی اور دینی میدان میں نمایاں ہیں بلکہ ملک کی ترقی اور سالمیت میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔ وطن کی آزادی کی تحریکوں میں علماء اور مدارس کا جو قائدانہ کردار رہا ہے، وہ آج بھی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا ہوا ہے۔ ادارہ طیبہ اسلامی تہذیب اور دینی خدمات کی عمدہ نمائندگی کرتا ہے، اور حضرت مولانا شاہ امان اللہ ندوی کی قیادت میں نہایت اہم خدمات انجام دے رہا ہے، آپ کی شب و روز محنت اور طلبہ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ اس ادارے کی کامیابی کا باعث بنے گی ان شاءاللہ۔ اس وقت تقریباً ساٹھ سترطلبہ یہاں دین کی خدمت کے جذبے کے ساتھ علم حاصل کر رہے ہیں اور ستائیس طلبا مقیم بھی ہیں، جو کہ اس ادارے کے بہترین تعلیمی اور تربیتی نظام کا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور اس ادارے کو مزید ترقیات سے نوازے۔ آمین۔ سرحدی عقاب

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
6/16/2025, 4:34:20 PM

چراغ فکر(یومیہ) ﴿سلسلہ نمبر:،١٧﴾ زندگی کی کب شام ہو جائے؟ ✍️ شاہ امان اللہ ندوی ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ زندگی ایک پانی کے بلبلے کی مانند ہے،قطرہ جب اٹھتا ہے تو وہ زندگی ہے، اور جب گرتا ہے تو وہ موت، زندگی کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں، کتنے سورما، زبردست طاقتور اور ذہین لوگ آئے اور چلے گئے، لیکن زمانے کی گردش ہمیشہ سے جاری ہے اور تا قیامت رہے گی، دن و رات کا یہ تغیر ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ لیکن انسان کی زندگی، آخرت کے مقابلے میں، بس ایک دن ہے—فقط "امروز" ہے،کل کا کسی کو علم نہیں، کل کون زندہ ہوگا، کوئی نہیں جانتا، یہ بھی حقیقت ہے کہ اصل وجود انسان کا ہے، باقی سب چیزیں عارضی ہیں، انسان کی خدمت گزار۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے "زمانے کی گردش جاودانہ، حقیقت ایک تُو، باقی فسانہ کسی نے دوش دیکھا نہ فردا، فقط امروز ہے تیرا زمانہ" آپ چاہے موت سے بچنے کے لیے کتنی ہی احتیاطی تدابیر اختیار کریں، لیکن موت آ کر رہے گی"أینما تکونوا یدرککم الموت"(جہاں کہیں بھی تم ہو، موت تمہیں آ لے گی)جس کی جس جگہ، جس وقت، اور جس بہانے سے موت لکھی گئی ہے، وہ وہیں سے اپنی آخری سواری پر سوار ہوگا، خواہ وہ فطری موت ہو یا حادثاتی۔ یہ سب تقدیر کے قلم سے لکھا جا چکا ہے"والقدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالیٰ"(تقدیر، خیر ہو یا شر، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے)۔ بعض لوگ تقدیر پر اعتراض کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ نوشتۂ تقدیر میں لکھ دیا گیا، وہ ہو کر رہے گا البتہ اچھے اعمال اور دعاؤں سے بری تقدیر کو ٹالا جا سکتا ہے، اورحالات میں خیر و برکت پیدا کی جا سکتی ہے۔ حال ہی میں احمد آباد طیارہ حادثہ نے پوری دنیا کو چونکا دیا، ایسا لگا کہ موت کا استحضار دوبارہ لوگوں کے دلوں میں جاگا ہے، جو عرصے سے خوابیدہ ہو چکا تھا،معلوم نہیں یہ بیداری کب تک ذہنوں اور دلوں میں باقی رہے گی، لیکن اگر یہ احساس پائیدار ہو جائے تو دنیا سے بہت سی برائیاں ختم ہو جائیں اورپوری دنیامیں امن و سکون کی فضا قائم ہو جائے۔ (سرحدی عقاب)

ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
6/15/2025, 11:35:06 AM

چراغ فکر(یومیہ) ﴿سلسلہ نمبر:،١٦﴾ اکرامِ ضیوف کا روشن نمونہ۔۔۔ندوہ میں برونائی وفد کا استقبال ✍️ شاہ امان اللہ ندوی ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ سفر و زیارت کا سلسلہ انسانی تہذیب و تمدن کا حصہ رہا ہے، مختلف قوموں، ملکوں اور تہذیبوں کے مابین تعلقات و روابط استوار کرنے میں ان دوروں کا بڑا عمل دخل ہے،جب ایسے اسفار دینی و علمی مراکز سے مربوط ہوں تو ان کی معنویت اور گہرائی مزید بڑھ جاتی ہے، حالیہ دنوں برونائی کے سرکاری بزنس وفد نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا خصوصی دورہ کیا، اس موقع پر میرے استادِ محترم ،ندوہ کے نائب مہتمم حضرت مولانا عبد العزیز صاحب ندوی مدظلہ نے جو علمی، اخلاقی اور تہذیبی پذیرائی کی، وہ قابلِ تحسین ہی نہیں بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ استاد محترم حضرت مولانا عبد العزیز ندوی صاحب کو محض ایک انتظامی شخصیت کہنا ان کی قدرو منزلت کو محدود کرنا ہوگا، وہ ایک صاحبِ علم مدرس، سلیم الطبع مربی، خوش گفتار خطیب اور اعلیٰ اخلاق کے مالک بزرگ ہیں،ان کا تعلق خاندانی اعتبار سے "بھٹکل" کی علمی روایت سے جڑا ہوا ہے، جس کی بنیاد حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ جیسے عظیم المرتبت اساتذہ سے وابستگی رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مولانا کی شخصیت میں ندوہ کی وسعت فکر، بھٹکل کی دینی رسوخ، اور برصغیر کی روایتی مروّت نمایاں ہے۔ برونائی وفد کا ندوہ آنا محض ایک رسمی ملاقات نہ تھی، بلکہ دو عالموں، دو تہذیبوں، اور دو فکری اداروں کا باہمی احترام تھا، جس گرمجوشی، محبت اور تواضع کے ساتھ مولانا نے وفد کا استقبال کیا، وہ ان کے اسوۂ نبوی ﷺ سے گہرے تعلق کی جھلک تھی۔ نشست میں گفتگو، سوال و جواب، دعوتِ دین، بین الاقوامی تعاون، اور تعلیمِ دین جیسے اہم موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ میز پر چائے نہیں، اخلاق کا ذائقہ تھا۔ نشستیں نہیں، تربیت کی مجلس تھی، کوئی تصنّع نہیں، بلکہ دل سے دل کی بات تھی۔ استادِ محترم حضرت مولانا عبد العزیز ندوی صاحب کی زندگی کا یہ پہلو ہمیشہ نمایاں رہا ہے کہ وہ آنے والے مہمانوں کو کسی عہدے یا مفاد کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، بلکہ انہیں اللہ کی طرف سے امانت سمجھتے ہیں۔ خواہ وہ علماء ہوں یا تاجر، محققین ہوں یا سادہ طلبہ، ہر ایک سے وہ خندہ پیشانی سے ملتے ہیں، ان کے مسائل سنتے ہیں، رہنمائی کرتے ہیں، اور ندوہ کے علمی ذوق سے روشناس کراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برونائی وفد کے چہروں پر اعتماد، شکرگزاری اور محبت کی جھلک دیکھی گئی، وفد کے ارکان نے ندوہ کی علمی فضا، کتب خانہ، درسی نشستیں، اور اساتذہ کی گفتگو کو نہایت متاثر کن قرار دیا۔ ندوہ ہمیشہ سے عالمی سطح پر مسلم دنیا کے علمی مراکز میں ممتاز رہا ہے، برونائی جیسے ترقی یافتہ اور دینی ذوق رکھنے والے ملک کے وفد کی آمد اس امر کا بین ثبوت ہے کہ ندوہ کی کشش آج بھی قائم ہے،مولانا عبد العزیز صاحب جیسے اصحابِ بصیرت کی موجودگی میں یہ مرکز مزید نکھر رہا ہے، ترقی کر رہا ہے، اور اپنی روحانی، فکری اور دعوتی خدمات کے دائرے کو وسعت دے رہا ہے۔ یہ محض ایک وفد کا استقبال نہ تھا، بلکہ یہ ایک سبق تھا کہ کس طرح علم، اخلاق، تواضع، خدمت اور حسنِ ظن کے ساتھ دلوں کو جیتا جا سکتا ہے، مولانا عزیز بھٹکلی کی شخصیت گویا سچ مچ اس شعر کا مجسم نمونہ ہے۔ خوشبو کی طرح ملتے ہیں لوگ کچھ مہک جاتے ہیں دل میں برسوں کے لیے اللہ تعالیٰ استاد محترم حضرت مولانا عبد العزیز صاحب کی عمر، علم، خدمت اور اثر کو باقی و جاری رکھے، اور ندوہ کو ایسے ہی رجالِ کار عطا فرماتا رہے، جن کی سادگی میں دینی عظمت پوشیدہ ہو، اور جن کی گفتگو سے دلوں کی دنیا بدل جائے۔ (سرحدی عقاب)

Post image
Image
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
6/14/2025, 2:35:20 PM

چراغ فکر(یومیہ)﴿سلسلہ نمبر:،١١٥﴾ احمد آباد طیارہ حادثہ ( اظہار غم اورایک علمی و تحقیقی جائزہ) ✍️ شاہ امان اللہ ندوی ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ احمد آباد کے حالیہ طیارہ حادثے نے ملک بھر میں ایک گہری تشویش اور درد انگیز فضا پیدا کر دی ہے، اس حادثے میں جو جانیں تلف ہوئیں وہ انسانی سانحہ سے کم نہیں، مگر ایک سنجیدہ اور علمی نگاہ اس واقعے کو صرف حادثہ نہیں بلکہ کئی پہلوؤں سے غور و فکر کا ایک موقع تصور کرتی ہے۔ یہ مضمون ایک رفیق کے اصرار پر لکھا جا رہا ہے، جبکہ اس موضوع پر راقم کا بیان جمعہ میں ہو چکا ہے،یہاں کوشش کی جائے گی کہ حادثے کے اسباب، فنی پہلو، موت کی حقیقت اور تکنیکی سقم پر تحقیقی روشنی ڈالی جائے۔ احمد آباد کی حدود میں گر کر تباہ ہونے والا یہ طیارہ ایک دو انجن والا مسافر بردار جہاز تھا، جو معمول کے مطابق اڑان بھر چکا تھا اور اپنی بلندی پر بھی پہنچ چکا تھا، لیکن اچانک فضا میں دونوں انجن فیل ہو گئے، جس کے بعد پائلٹ نے ایمرجنسی لینڈنگ کی کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکی۔ یہاں ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ"جب طیارہ میں دو انجن موجود ہوتے ہیں، اور ہر انجن کی علیحدہ سسٹم کے ساتھ حفاظت و کنٹرول ہوتا ہے، تو دونوں انجن بیک وقت کیسے فیل ہو گئے؟یہی سوال اس حادثے کا علمی مرکز ہے۔ ہوائی جہازوں میں عموماً twin-engine (دو انجن) نصب ہوتے ہیں، جو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر کام کرتے ہیں، اگر ایک انجن فیل ہو جائے تو دوسرا انجن طیارے کو نہ صرف سنبھال سکتا ہے بلکہ لینڈنگ تک پہنچا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ انجنز کے اندرون میں کئی تہوں پر مشتمل حفاظتی سسٹم ہوتا ہے، جیسے Fuel redundancy system (ایندھن کا متبادل نظام) Electrical control separation (برقی نظام کی تقسیم) Dual fire suppression system (دونوں انجن کے لئے آگ بجھانے کا الگ سسٹم) لہٰذا، دونوں انجن کا ایک ساتھ فیل ہو جانا عام تکنیکی فہم کے لحاظ سے 'غیرمعمولی' یا 'مشکوک' واقعہ ہے۔ ممکنہ اسباب کی تحقیقی درجہ بندی ایندھن کی آلودگی یا عدم فراہمی (Fuel contamination or starvation) اگر ایندھن کا معیار خراب ہو یا پمپ سسٹم میں خرابی ہو تو دونوں انجن ایک ساتھ فیل ہو سکتے ہیں۔ برقی سسٹم کی مکمل ناکامی (Total electrical failure) برقی نظام اگر مکمل طور پر بیٹھ جائے، یا مین کنٹرول سسٹم جل جائے، تو دونوں انجن آٹو شٹ ڈاؤن کر سکتے ہیں۔ پرندے سے ٹکراؤ (Bird strike) اگر دونوں انجن ایک ساتھ پرندوں کے جھنڈ سے ٹکرا جائیں تو یہ بھی انجن فیل ہونے کا سبب ہو سکتا ہے۔ سائبر ہیک یا تکنیکی مداخلت (Cyber-sabotage or software bug) جدید جہاز مکمل آٹومیٹڈ ہوتے جا رہے ہیں، جن میں فلائٹ منیجمنٹ سسٹم (FMS) اگر ہیک ہو جائے یا اس میں خلل آجائے تو دونوں انجن بند کیے جا سکتے ہیں۔ مینٹیننس کی غفلت (Negligence in maintenance) اگر جہاز کی دیکھ ریکھ میں کوتاہی ہوئی ہو، یا اسپیئر پارٹس پرانی ہوں تو ایک انجن کی خرابی دوسرے پر اثر ڈال سکتی ہے۔ یہ حادثہ ہمیں صرف تکنیکی نظام کی خرابی ہی نہیں سکھاتا، بلکہ یہ ہمیں زندگی کی بے ثباتی اور موت کی یقینی حقیقت کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے، کون جانتا تھا کہ ان سوار افراد میں سے کون کب، کہاں، اور کیسے اپنی زندگی کی آخری سانس لے گا؟ قرآن مجید اعلان کرتا ہے:"كل نفس ذائقة الموت"ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔" (آل عمران: ١٨٥) زندگی کی شام کب ہو جائے، کون سا سفر آخری ثابت ہو، کس پرندے کی چونچ یا کس تکنیکی نقص کے ذریعے انسان قضا کی دہلیز پر پہنچ جائے، یہ سب ہمارے علم و اختیار سے باہر ہے۔ لہٰذا، موت کا استحضار ہر مسلمان کے لیے لازم ہے،انسان کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا "اکثروا ذکر ہادم اللذات" "لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کرو۔" اسلام میں ایک جان کا ضیاع انتہائی سنگین جرم سمجھا گیا ہے،حدیث میں آتا ہے "زوال الدنیا أهون علی اللہ من قتل رجل مسلم""پوری دنیا کا ختم ہو جانا، اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کی جان لینے سے کم تر ہے۔" لہٰذا، ایسے حادثات پر تحقیق اور احتیاط صرف ایک انتظامی فریضہ نہیں بلکہ شرعی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری بھی ہے۔ احمد آباد طیارہ حادثہ محض ایک حادثہ نہیں، بلکہ فنی، اخلاقی، تحقیقی اور روحانی سطح پر بیداری کی ایک صدا ہے،اس نے ہمیں بتا دیا کہ زندگی کتنی ناپائدار ہے اور نظام کتنا نازک، اگر ہم نے ان نکات پر توجہ نہ دی تو یہ حادثے آئندہ بھی دہرا سکتے ہیں۔ بہر حال ہم تمام مرحومین کی موت پر اپنا اظہار غم پیش کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ سے دعاء کرتے ہیں کہ مرحومین کی مغفرت فرمائے، اہل خانہ کو صبر دے، اور ہم سب کو موت کے استحضار کے ساتھ تقویٰ کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (سرحدی عقاب)

ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
5/17/2025, 12:06:05 AM

آئینہء احساسات جناب مولانا حسن کمال صاحب قاسمی کمال گرافکس میرا روڈ ممبئی شاہ امان اللہ ندوی: چراغِ علم و دانش علم و عرفان کی دنیا میں بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو خاموشی سے اپنے حصے کا چراغ جلائے رکھتی ہیں نہ شہرت کی خواہش، نہ واہ واہی کی طلب، بس خلوص، اخلاص اور مسلسل جدوجہد، ایسی ہی ایک باوقار اور متین شخصیت کا نام ہے شاہ امان اللہ ندوی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی علم کی خدمت، تربیتِ نسلِ نو اور فکری اصلاح کے لئے وقف کر رکھی ہے،ان کا قلم سنجیدگی، متانت اور حکمت کا ترجمان ہے، وہ نہ صرف خود علم کے متلاشی ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی روشنی سے بہرہ ور کرنے میں کوشاں ہیں، ان کی تحریر میں صداقت بھی ہے، حکمت بھی، اور دردِ دل بھی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مولانا "خود ساختہ پودا" کے عنوان سے ایک سلسلہ وار کالم تحریر فرما رہے تھے، جو فکری بالیدگی، اصلاحی جذبے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر عمیق نظر کی عکاسی کرتے ہیں، الحمدللہ، اس سلسلے کی سو (١٠٠) قسطیں مکمل ہو چکی ہیں، جو بذاتِ خود ایک علمی و ادبی سنگِ میل ہے۔ اب ان تمام تحریروں کو یکجا کر کے "خود ساختہ پودا" کے عنوان سے کتابی شکل دی جا رہی ہے، جو اہلِ علم و فکر کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوگی،یہ کتاب صرف ایک مجموعۂ مضامین نہیں، بلکہ ایک جہت ہے، ایک زاویۂ فکر ہے، جو قاری کو خود شناسی، خود احتسابی اور فکری تطہیر کی طرف بلاتی ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس علمی خدمت کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، اس چراغ کو مزید فروزاں کرے، اور مولانا کی یہ کاوش امت کے لیے باعثِ ہدایت و بصیرت بنے،آمین۔ حسن کمال شیخ(قاسمی) کمال گرافکس میرا روڈ ممبئی

ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
5/17/2025, 11:50:09 AM

تاریخ کے زریں اوراق پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو کچھ ایسی عظیم الشان شخصیات کے نام ستاروں کی مانند جگمگاتے نظر آتے ہیں جن کے دلوں میں یہ تڑپ ہمیشہ موجزن رہی ہے کہ وہ اپنی قوم کے لیے ایک ایسا بیش قیمت علمی خزانہ چھوڑ جائیں جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو۔ یہ عظیم ہستیاں اپنی تخلیقی بصیرت، جدت پسندی اور منفرد اسلوب کے ذریعے ایسی تحریریں رقم کرتی ہیں کہ قاری جب ان کی کتاب ہاتھ میں لیتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر ایک سحر طاری ہو جاتا ہے، اور وہ اس وقت تک بے چین رہتا ہے جب تک کتاب کے آخری ورق تک رسائی نہ حاصل کر لے۔ انہی عظیم شخصیات میں سے ایک نام ہے حضرت مولانا شاہ امان اللہ ندوی صاحب دامت برکاتہم کا، جن کی فکر کی گہرائی اور قلم کی روانی نے علمی افق پر ایک نئی روشنی بکھیری ہے۔ ان کی کتاب کا محض ایک عنوان "خود ساختہ پودا" ہی ایسی وسعت اور گہرائی کا حامل ہے کہ گویا علم کا ایک عظیم سمندر کوزے میں سمو دیا گیا ہو۔ یہ عنوان اپنی دل آویزی، معنوی گہرائی اور فکری بلندی کے اعتبار سے اس قدر جامع ہے کہ اس پر مسلسل قلم چلانے کے باوجود اس کی تشنگی برقرار رہتی ہے۔ اگر محض عنوان میں اتنی گہرائی اور وسعت ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پوری کتاب میں علم و حکمت کے کیسے کیسے بیش قیمت گوہر نایاب بکھرے ہوئے ہیں، جو قاری کے قلب و ذہن کو منور کرتے ہیں۔ حضرت مولانا شاہ امان اللہ ندوی صاحب کو اللہ رب العزت نے بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ کبھی وہ منبر و محراب کی زینت بن کر، سامعین کے دلوں کو، قرآن و حدیث کی نورانی موتیوں سے آراستہ کرتے ہیں، کبھی درسگاہوں میں طالبانِ علومِ نبوت کو معرفت کے جام سے سیراب کرتے نظر آتے ہیں، اور کبھی اپنی تصنیف و تالیف کے ذریعے آنے والی نسلوں کے لیے علمی سرمائے کی شکل میں ایک عظیم ورثہ چھوڑتے ہیں۔ ایسی نابغہ روزگار، یگانہ دہر اور متنوع صفات کی حامل شخصیات عالمِ انسانیت میں نادر ہی ملتی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس گراں قدر تصنیف کو عوام و خواص میں قبول عام عطا فرمائے، اس سے علم و عمل کی توفیق نصیب کرے، اور آپ کی علمی و روحانی خدمات کو تاقیامت جاری رکھے۔ آمین ثم آمین، یا رب العالمین! محمد شمیم، دارالعلوم حسینیہ، بوریولی، ممبئی

ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
5/17/2025, 2:36:12 PM
Post image
Image
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
5/18/2025, 7:42:18 PM

چراغ فکر(یومیہ) ﴿سلسلہ نمبر:،١٠٧﴾ جامعہ فیضانِ اجمیری، نالا سوپارہ ویسٹ کا سالانہ اجلاسِ عام اور تقریبِ ختمِ بخاری شریف ✍️ شاہ امان اللہ ندوی ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ نالا سوپارہ علم و عرفان کے جبال کا مرکز بھی ہے اور اہلِ علم کی آماجگاہ بھی، یہاں ایسے جلیل القدر علماء قیام پذیر ہیں جو نہ صرف اپنے مقام و مرتبہ میں بلند ہیں، بلکہ علمی، دینی، ملی اور قومی خدمات میں بھی نمایاں اور قابلِ تقلید ہیں۔ اس کی جھلک اس وقت اور بھی نمایاں ہوجاتی ہے جب کسی دینی اجتماع یا اجلاس میں یہ تمام ہستیاں یکجا ہوتی ہیں، وہ منظر بڑا ہی روح پرور اور کیف انگیز ہوتا ہے، جیسے ہی مدرسے کا نام میرے کانوں سے ٹکراتا ہے، میرے دل و دماغ میں ایک خوشبو سی پھیل جاتی ہے، کیونکہ یہی وہ مقدس علمی میکدہ ہے جہاں تشنگانِ علم کو حقیقت کے جام سے سیراب کیا جاتا ہے، اس میکدے کے ساقی کوئی اور نہیں بلکہ اصحابِ علم و تقویٰ ہوتے ہیں، اور یہ میکدہ درحقیقت مدارسِ دینیہ ہوتے ہیں۔ جامعہ فیضانِ اجمیری نالا سوپارہ ویسٹ بھی ایک ایسا ہی فیض بخش ادارہ ہے جہاں انسان کو انسانیت، اور آدمی کو آدمیت کا شعور بخشا جاتا ہے، یہاں سے معرفتِ حق کا چراغ جلایا جاتا ہے، جس کی روشنی قلوب و اذہان کو منور کرتی ہے، اور قبر کی تاریکیوں میں بھی اُجالا بکھیرتی ہے۔ اسی گلشنِ علم و عرفان کے سالانہ اجلاسِ عام اور تقریبِ ختمِ بخاری شریف میں شرکت کا شرف مجھے حاصل ہوا، یہ میرے لیے سعادت و خوش بختی کی بات ہے،دو روز قبل جناب مولانا مفتی نثار صاحب قاسمی اور جناب مولانا عابد زاہد صاحب قاسمی، جو جامعہ کے موقر اساتذۂ حدیث و فقہ میں شمار ہوتے ہیں، بنفسِ نفیس میرے ادارہ ادارہ طیبہ ہنومان نگر تشریف لائے اور نہایت محبت و اخلاص سے مجھے دعوت دی،ان دونوں بزرگوں کی یہ عنایت اور محبت میرے جیسے بے سرو سامان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے، اللہ تعالیٰ ان کی محبت و خلوص کو میرے حق میں باقی و دائم رکھے، آمین۔ میں نے وعدہ کیا کہ ان شاءاللہ شرکت یقینی ہوگی، اور وعدے کے مطابق جب میں جامعہ پہنچا تو استقبال پر خلوص و محبت کی ایک خوبصورت تصویر نظر آئی، جناب مفتی فیض الاسلام صاحب (امام و خطیب، مسجد وازہ محلہ)، حضرت مولانا مفتی ابوالکلام صاحب مظاہری(امام و خطیب شکر محلہ مسجد ) اور جامعہ کی ریڑھ کی ہڈی مولانا مفتی عابد زاہد صاحب قاسمی و مفتی نثار صاحب ،یہ تمام حضرات مہمانوں کا نہایت تپاک سے استقبال فرما رہے تھے۔ اسٹیج پر مجھے بھی بٹھایا گیا،پروگرام شروع ہوچکا تھا، ایک طالب علم عربی زبان میں خطابی انداز میں نہایت فصیح و بلیغ تقریر کر رہا تھا، جبکہ نظامت کے فرائض اشرف العلوم کے استاد جناب مولانا طیب صاحب بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے۔ اس کے بعد اردو زبان میں سوشل میڈیا کے مثبت و منفی اثرات پر تین طلبہ نے ایک مؤثر مکالمہ پیش کیا، جسے سامعین نے دل چسپی سے سنا، پھر جمعیۃ علماء مہاراشٹرا کے بزرگ رہنما حضرت مولانا عبد السبحان صاحب قاسمی دامت برکاتہم نے اصلاحِ معاشرہ کے موضوع پر درد بھرا اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔ بعد ازاں خطبۂ استقبالیہ پیش کیا گیا، جس میں جامعہ کے قیام، اس کے اغراض و مقاصد اور اب تک کے علمی و تعلیمی سفر کا تفصیل سے ذکر کیا گیا، پھر جامعہ کے ایک استادِ تجوید نے جامعہ کی خدمات پر مشتمل ایک خوب صورت نظم دل کش آواز میں پیش کی۔ پروگرام کی روحانی معراج اس وقت آئی جب قطبِ طریقت، عارف باللہ حضرت مولانا قاری عبد الرشید صاحب دامت برکاتہم (گجرات) نے ختمِ بخاری کی تقریب کو رونق بخشی، طالب علم نے صحیح بخاری کی آخری حدیث کی قراءت کی، جس پر حضرت نے نہایت عالمانہ، وقیع اور پر مغز خطاب فرمایا اور اختتام پر دعاء کرائی۔ تعجب اور مسرت کی بات یہ ہے کہ جس شخصیت نے خطبۂ استقبالیہ پیش فرمایا اور جس نے بخاری شریف کی آخری حدیث کی عبارت خوانی کی، وہ جامعہ فیضانِ اجمیری کے وہی ہونہار طالب علم ہیں، جو ایک ممتاز وکیل بھی ہیں، یہ سب کچھ محض رسمی یا نمائشی نہیں تھا، بلکہ ایک عظیم پدرانہ خواب کی تعبیر اور ایک باوقار جدوجہد کا حسین ثمرہ تھا۔ انہوں نے خود بتایا کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ ان کے والد کی دلی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا حافظِ قرآن اور عالمِ دین بنے، اگرچہ ان کے والد گرامی لاک ڈاؤن کے دوران اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے، مگر ان کے فرزندِ ارجمند نے اپنے مرحوم والد کی دیرینہ آرزو کو اس انداز سے پورا کیا کہ نہ صرف ہمیں بلکہ شاید آسمان کو بھی رشک آتا ہو! اور حقیقت یہ ہے کہ ان کی اس علمی، روحانی اور عملی بلندی کے پس پردہ جہاں جامعہ کے اساتذہ کی مخلصانہ محنت، تربیتی حکمت و حکمت عملی کارفرما ہے، وہیں اس میں عارف باللہ حضرت مولانا قاری عبد الرشید صاحب دامت برکاتہم کی روحانی سرپرستی اور بصیرت افروز رہنمائی کا خاص دخل ہے،آپ نہایت علمی، فکری اور روحانی شخصیت کے مالک ہیں، آپ نے صحیح بخاری کی آخری حدیث پر جو خطاب فرمایا، وہ ایک پرمغز علمی اور فکری خطبہ تھا، جس میں بہت سی دقیق نکات اور تمثیلی حقائق کو نہایت خوبصورتی سے واضح فرمایا۔ آپ نے حدیث کے تحت "وزنِ اعمال" کے موضوع پر تفصیل سے کلام کرتے ہوئے سوال اٹھایا "عمل غیر مرئی (نظر نہ آنے والی چیز) ہے، تو قیامت کے دن اس کا وزن کیسے ہوگا؟" اس کا نہایت دلنشیں اور مؤثر جواب دیا"پھول نظر آتا ہے، خوشبو نظر نہیں آتی، مگر خوشبو کا اثر اور وجود دونوں قائم ہیں۔ اسی طرح عمل بھی بظاہر نظر نہیں آتا، لیکن اس کی حقیقت، اس کا وزن اور اس کا اثر باقی رہتا ہے۔" آپ نے فرمایا کہ آج کی سائنس نے بھی غیر مرئی اشیاء کا وزن معلوم کر کے ہمیں یہ سمجھا دیا ہے کہ،بخار کا وزن ناپا جا سکتا ہے،شوگر کی مقدار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،اور دیگر کئی ایسی اشیاء جو نظر نہیں آتیں، ان کا بھی وزن معلوم کیا جا سکتا ہے،تو جب انسان کا بنایا ہوا نظام یہ سب کچھ کر سکتا ہے، تو کیا ہمارا خالق، جو قادرِ مطلق ہے، اعمال کو تولنے پر قادر نہیں ہوگا؟ یقیناً ہوگا۔ آپ نے فرمایاکہ "اللہ تعالیٰ اعمال کو جسد (جسم) عطا فرما دے گا، ان کو قابلِ رؤیت شکل دی جائے گی۔" جیسا کہ قرآن مجید اور نماز کو بھی قیامت میں مجسم شکل عطا کی جائے گی، ویسے ہی دیگر اعمال کو بھی صورت دی جائے گی۔ اس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا "جس شخص کے پاس زکوٰۃ کا نصاب موجود ہوگا مگر وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا، قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کے گلے کا طوق بنایا جائے گا۔" یعنی عمل کو شکل عطا کر دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے،آپ نے مزید فرمایا کہ ہمیں "شکل" اور "جسد" میں فرق اور غور کرنا ہوگا، کیونکہ بعض اعمال کو تمثیلی شکل دی جائے گی، بعض کو تعبیر کے پیرائے میں پیش کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا،بعض روایات میں ہے کہ نامۂ اعمال کو تولا جائے گا،بعض میں کہ خود عمل کو تولا جائے گا،اور بعض میں ہے کہ صاحبِ عمل کو تولا جائے گا۔ آخر میں آپ نے فرمایا "اخلاص عمل میں وزن پیدا کر دیتا ہے۔"اخلاص ہی عمل کی روح ہے،اگر اخلاص نہ ہو، تو بڑے بڑے اعمال بھی وزن سے خالی ہو سکتے ہیں، اور اگر اخلاص ہو تو چھوٹے سے عمل کا وزن پہاڑوں سے بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح کی بے شمار علمی، فکری، ایمانی اور اخروی بصیرت سے بھرپور نکات حضرت نے اپنے خطاب میں ارشاد فرمائے، جو دل کو گرما گئے، عقل کو جلا بخشے اور ایمان کو تازگی عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ جامعہ فیضانِ اجمیری کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، اور اسے علم و عمل کا ایسا مرکز بنائے جہاں سے ہمیشہ روشنی پھیلتی رہے۔ (سرحدی عقاب)

ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
5/16/2025, 9:06:43 AM

چراغ فکر(یومیہ) ﴿سلسلہ نمبر:،١٠٦﴾ بت ساز کے گھر میں، بت شکن ✍️ شاہ امان اللہ ندوی ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ انسانی تاریخ میں کچھ ہستیاں ایسی ہیں جن کا ذکر صرف ماضی کا حوالہ نہیں بلکہ مستقبل کا نقشہ بھی ہے، انہی میں سے ایک ہستی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے، جنہیں ربِ کائنات نے خلیل اللہ کا رتبہ دیا، وہ ایک ایسے گھر میں پیدا ہوئے جہاں آزر جیسے بت ساز کا راج تھا، بت پرستی خاندان کی شناخت تھی، مگر تقدیرِ الٰہی نے اسی گھر سے توحید کا چراغ روشن کرنے والے کو چن لیا۔ ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت حق و باطل کے ٹکراؤ کی سب سے روشن علامت ہے، جب پوری بستی، پورا قبیلہ، یہاں تک کہ ان کا اپنا باپ باطل3 کے سامنے سر جھکائے ہوئے تھا، تب اس نوجوان نے توحید کا پرچم بلند کیا، بتوں کو توڑا، دلائل سے قائل کیا، آگ میں پھینکا گیا، مگر نہ جھکا، نہ رکا۔ گویا زبانِ حال سے کہہ دیا"ایمان، کفر کے ساتھ ایک چھت کے نیچے نہیں رہ سکتا۔" مکہ سے فلسطین، فلسطین سے مصر، مصر سے حران اور دوبارہ فلسطین، ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سفر اور ہجرت کا استعارہ ہے، ہجرت ان کے لئے صرف وطن کا ترک کرنا نہ تھا، بلکہ یہ ایک عقیدے کے بدلے پوری دنیا کو خیر باد کہنے کا اعلان تھا۔ ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں،حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ، سارہ سے حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے، جبکہ ہاجرہ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام،ایک کو شام و فلسطین کے میدان ملے اور دوسرے کو عرب کا ریگزار، مگر دونوں کے ذمے ایک ہی کام تھا، توحید کے پیغام کو دنیا میں عام کرنا۔ حضرت اسماعیل کو ابراہیم علیہ السلام عرب کی بےآب و گیاہ وادی (مکہ) میں چھوڑ گئے، یہاں ایک ننھیانسی بستی نے جنم لیا جس کے سینے میں بیت اللہ کا قیام ہوا، جسے ابراہیم و اسماعیل نے رب کی رضا کے لیے تعمیر کیا،دوسری طرف، شام میں حضرت اسحاق اور ان کے بیٹے حضرت یعقوب نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ایک طویل سلسلۂ نبوت جاری ہوا،اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، جن کے ذریعے توحید کی دعوت عرب سے نکل کر عالمگیر ہوئی۔ اسحاق علیہ السلام کے بیٹے یعقوب علیہ السلام (جنہیں اسرائیل کہا گیا) اور ان کے بیٹے یوسف علیہ السلام کی داستان ایمان، صبر، وفا، اور حکمت کا زندہ نمونہ ہے۔ یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں سے ایک عظیم قبیلہ تشکیل پایا، جسے بنی اسرائیل کہا گیا۔ اسی خاندان سے داؤد، سلیمان، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام جیسے انبیاء آئے، جو سب کے سب ابراہیمی مشن کے امین تھے۔ اگر غور کریں تو ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے اور ان کے دو مرکز، یعنی مکہ اور بیت المقدس، دراصل دو روحانی مراکز ہیں، جن سے توحید کے چشمے پوری انسانیت کو سیراب کرتے رہے، ایک طرف خانہ کعبہ، جہاں آج بھی ملتِ اسلامیہ یک زباں ہو کر لبیک کہتی ہے، اور دوسری طرف بیت المقدس، جہاں انبیاء کی نورانی قدوم کے نشان محفوظ ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام صرف ایک نبی نہیں، ایک نظریہ، ایک تحریک، اور ایک عالمی پیغام ہیں، ان کی حیاتِ مبارکہ ہمیں سکھاتی ہے کہ باطل کے ماحول میں بھی حق کا علم بلند کیا جا سکتا ہے، ہجرتیں، قربانیاں، اولاد کی جدائی، آگ کی تپش، سب کچھ قبول ہے، مگر ایمان پر سودا نہیں۔ آج اگر دنیا امن، اخوت، اور توحید کا پیغام چاہتی ہے تو اسے ایک بار پھر ابراہیم کی طرف لوٹنا ہوگا، کیونکہ قرآن نے ٹھیک ہی فرمایا "ملت ابیکم ابراہیم" تمہارے باپ ابراہیم کی ملت۔ (سرحدی عقاب)

ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
5/15/2025, 9:20:46 AM

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، اما بعد! محترم و مکرم مولانا شاہ امان اللہ ندوی دامت برکاتہم کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ علم و فضل، تدریس و تحقیق، اور دعوت و اصلاح کی ہمہ جہت خدمات کے لیے علمی حلقوں میں معروف و ممتاز ہیں، آپ کا شمار ان اہلِ قلم میں ہوتا ہے جن کے افکار و خیالات ایک سمت، ایک فکر، اور ایک دعوت کو متعین کرتے ہیں۔ اس وقت آپ "طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ" کے بانی و ناظم کی حیثیت سے تعلیمی، سماجی اور فلاحی میدان میں قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، جو آپ کے عزم، اخلاص اور وسعتِ فکر کا عملی مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس خصوصی ملکہ سے نوازا ہے، وہ تصنیف و تالیف کا میدان ہے،آپ کا قلم رواں، فکر بلیغ اور اسلوب مؤثر ہے،آپ مسلسل لکھ رہے ہیں اور امت کی فکری و اصلاحی راہنمائی میں مشغول ہیں۔ گزشتہ کئی مہینوں سے آپ نے ’’خود ساختہ پودا‘‘ کے عنوان سے جو مضامین کا سلسلہ تحریر فرمایا، وہ اہلِ علم و ذوق کے مابین بڑی مقبولیت حاصل کر چکا ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ اب اس سلسلے کو کتابی صورت میں منظرِ عام پر لانے کا ارادہ فرما رہے ہیں، جو یقیناً قارئین کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہوگا۔ ہم بارگاہِ رب العزت میں دستِ دعا بلند کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا شاہ امان اللہ ندوی صاحب کی اس مخلصانہ کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے، ان کے قلم کو مزید تاثیر عطا فرمائے، اور ان کے علم و عمل میں برکت و ترقی عطا فرمائے۔ والسلام مع الاکرام خاکسار: محمد عمر محبوب خان ندوی رکن: المؤمن بیت المال فاؤنڈیشن و کاؤنسلنگ سینٹر نالا سوپارہ، ضلع پالگھر، مہاراشٹر

ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
5/24/2025, 1:13:57 PM

چراغ فکر(یومیہ) ﴿سلسلہ نمبر:،١١٠﴾ امیدوں کے بجھتے چراغ (نشہ: وقتی سکون، دائمی تباہی) ✍️ شاہ امان اللہ ندوی ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ آج کا نوجوان جو کسی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ، امیدوں کا چراغ اور مستقبل کا معمار سمجھا جاتا ہے، وہ نشے جیسے خوفناک دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے، یہ محض ایک جسمانی بیماری نہیں بلکہ ایک فکری، اخلاقی، اور روحانی زوال کی علامت بن چکی ہے، اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ بیماری تعلیمی اداروں، مذہبی گھرانوں، اور حتیٰ کہ باشعور طبقے میں بھی سرایت کر چکی ہے۔ نشہ ایک ایسا زہر ہے جو انسان کے شعور، عقل، ارادے اور عزت کو آہستہ آہستہ مفلوج کر دیتا ہے، یہ شراب، گانجا، چرس، سگریٹ، نشیلی گولیاں، نشہ آور انجیکشن، یا آج کل کی زبان میں "ڈرگس" کی صورت میں ہو سکتا ہے،آغاز صرف تفریحاً یا دوستوں کے کہنے پر ہوتا ہے، مگر انجام تباہی، بربادی اور رسوائی ہوتا ہے۔ اس خطرناک رجحان کے پیچھے کئی اسباب کارفرما ہیں،سب سے پہلا سبب غلط صحبت ہے۔ "صحبت صالح ترا صالح کند" ایک اٹل حقیقت ہے،نشہ کرنے والے دوست انسان کو رفتہ رفتہ اسی راستے پر لے جاتے ہیں،دوسرا سبب گھریلو لاپروائی ہے، ماں باپ کی غیر موجودگی، آپسی جھگڑے یا سختی نوجوان کو جذباتی خلاء میں دھکیل دیتے ہیں،تعلیمی نظام کی بے روحی بھی ایک بڑا سبب ہے، جہاں نصاب میں اخلاقیات، روحانیت اور کردار سازی کا شدید فقدان ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا بھی اس زہر کو فیشن بنا کر پیش کرتے ہیں، اور نوجوان اسی فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بے روزگاری، معاشی دباؤ اور مستقبل کی بے یقینی بھی نوجوانوں کو اس پستی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ نشے کے نتائج نہایت ہولناک ہوتے ہیں،جسمانی طور پر انسان بیمار ہو جاتا ہے، جگر، دماغ اور پھیپھڑے ناکارہ ہو جاتے ہیں، ذہنی سطح پر ڈیپریشن، چڑچڑاپن اور خودکشی تک کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے، اخلاقی اعتبار سے انسان جھوٹ، چوری، بدتمیزی اور مجرمانہ ذہنیت کا شکار ہو جاتا ہے، دینی طور پر نماز، قرآن اور والدین کا ادب سب کچھ چھن جاتا ہے، سماجی اعتبار سے نوجوان تنہا ہو جاتا ہے، خاندان اور سماج سے کٹ جاتا ہے، اور رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس تباہی سے بچنے کے لیے علاج بھی ضروری ہے، سب سے پہلا علاج دینی تربیت ہے،بچوں کے دل میں خوفِ خدا اور محبتِ رسول پیدا کی جائے، ان کو نیک صحبت دی جائے، مسجد اور مدرسہ سے جوڑا جائے،تعلیمی اداروں میں صرف ڈگری نہیں بلکہ مضبوط کردار سازی کا انتظام کیا جائے، والدین سختی اور لاپروائی کے بجائے محبت، شفقت اور حکمت سے بچوں کی نگرانی کریں۔ ایسے نوجوانوں کے لیے بحالی مراکز، نفسیاتی کونسلنگ، اور دینی رہنمائی کے مراکز قائم کیے جائیں جہاں وہ دوبارہ زندگی کی راہ پر لوٹ سکیں۔ یاد رکھو! نشہ وقتی فرحت دیتا ہے، مگر دائمی لعنت بن کر زندگی کو نگل جاتا ہے، تمھارا دماغ، تمھا دل، تمھا جسم اللہ کی امانت ہے، اسے زہر آلود نہ کرو!قلم سے محبت کرو، کتاب سے دوستی کرو!قرآن سے رشتہ جوڑو! اور امت کا خادم بنو! قوم تم سے امید رکھتی ہے، تم خود کو ضائع نہ کرو!!! (سرحدی عقاب)

Link copied to clipboard!