
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
February 9, 2025 at 07:43 PM
چراغ فکر(یومیہ)
﴿سلسلہ نمبر:23﴾
جامعہ عائشہ صدیقہ کے افتتاح بخاری کے پروگرام میں شرکت
✍️ شاہ امان اللہ ندوی
ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ
نالا سوپارہ—یہ نام سن کر ذہن میں ایک الگ ہی منظر ابھرتا ہے۔ خواہ نالا سوپارہ ایسٹ ہو یا ویسٹ، یہاں قدم رکھنے والا ہر شخص محسوس کر سکتا ہے کہ یہ محض ایک بستی نہیں، بلکہ علم و ادب کا گہوارہ ہے۔ بے شمار اہلِ علم، دینی مراکز، اور مساجد اس علاقے کی علمی و روحانی فضا کو مزید پُر وقار بناتے ہیں۔ آج نالا سوپارہ علماء حق کا مسکن بن چکا ہے، وہ علماء جن کے دم سے علم کے چراغ روشن ہیں اور دین کی شمعیں فروزاں۔
لیکن کبھی کبھی یہ خیال بھی ذہن کے دروازے پر دستک دیتا ہے کہ اس کا نام "نالا سوپارہ" کیوں پڑا؟ کیا یہ محض ایک تاریخی اتفاق ہے یا اس کے پیچھے کوئی دلچسپ کہانی چھپی ہے؟ جب بھی چرچ گیٹ کی طرف سے لوکل ٹرین میں واپسی ہوتی ہے اور راستے میں ایک نالا دکھائی دیتا ہے، تو دل میں ایک خیال سا بجلی کی طرح لپک جاتا ہے—شاید اسی نالے کی نسبت سے اس بستی کا نام نالا سوپارہ رکھ دیا گیا ہو! اگرچہ کچھ قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ مولانا کچھ بھی کہتے رہتے ہیں، مگر کیا کروں! خیالات کے بہاؤ کے آگے میری انگلیاں بھی مجبور ہو جاتی ہیں۔
چند دن پہلے کی بات ہے، جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات کے روحِ رواں، حضرت مولانا مفتی محمد توقیر احمد صاحب کا فون آیا۔ وہ کہہ رہے تھے،
"حضرت! جلسے میں آپ کو ناظمِ جلسہ کی حیثیت سے شریک ہونا ہے۔"
اُس وقت میں جمعیت علماء مہاراشٹر کے چند رفقاء کے ہمراہ اورنگ آباد میں دارالعلوم امدادیہ کے ایک پروگرام میں مصروف تھا، مگر دعوت کو ٹالنا ممکن نہ تھا،میں نے بلا توقف حامی بھر لی۔ جلسے کی تاریخ طے تھی—اتوار، بعد نمازِ مغرب۔
اتوار کا دن عام طور پر ملازمت پیشہ افراد کے لیے آرام، سیر و تفریح، اور گھریلو مصروفیات کا ہوتا ہے،مگر ہم جیسے ناکاروں کے لیے ہر دن کام کا دن ہوتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں:
"جس نے سبق یاد کیا، اُسے چھٹی نہ ملی!"
یہ اتوار میرے لیے غیر معمولی طور پر مصروف تھا میرے ادارے میں سالانہ امتحانات کا انعقاد ہونا تھا، جس کا اعلان ایک ہفتہ قبل ہو چکا تھا۔
امتحانات کے لیے ممتحنین کی آمد متوقع تھی، اور سب بروقت پہنچے۔
عربی و دینیات کے ممتحن حضرت مولانا سرفراز احمد قاسمی، سابق امام مسجد نور وسئ روڈ، تشریف لائے۔
عصری علوم، جیسے انگریزی، ہندی اور ریاضی کے امتحانات کےلیے معروف سماجی کارکن، محترم تسلیم انصاری صاحب بجنوری بھی وقت پر پہنچ گئے۔
دن بھر امتحانات کا سلسلہ جاری رہا، طلبہ و طالبات نے اپنی محنت کا ثبوت دیا اور ممتحنین نے ان کی قابلیت کو پرکھا۔ جب یہ مرحلہ مکمل ہوا اور مہمانوں کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا، تب کہیں جا کر میں جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات کی طرف روانہ ہوا، جہاں ایک نئی دنیا میرا انتظار کر رہی تھی۔
میں جب وہاں پہنچا تو رات اپنی گھنیری چادر پھیکا چکی تھی، نالا سوپارہ کی سرزمین آج ایک علمی محفل کا گہوارہ بنی ہوئی تھی، جہاں طالبات کی زبان سے اردو، عربی اور انگریزی میں گونجتی پر اعتماد تقاریر سن کر دل باغ باغ ہورہا تھا۔ گویا الفاظ میں جادو تھا، لہجوں میں روشنی تھی، اور فکر میں بلاغت کا رنگ نمایاں تھا۔
مجلس میں جلیل القدر علمی شخصیات جلوہ افروز تھیں،مجھے نظامت کا شرف حاصل ہوا، اور میں نے چند تمہیدی کلمات کے ساتھ محفل کا آغاز کیا۔ تلاوتِ قرآن کے لیے جناب قاری شمشاد احمد قمری صاحب کو دعوت دی گئی، جن کی پرسوز اور دلنشین آواز نے سامعین کے دلوں میں نور بھر دیا۔ پھر نعت و منقبت کے گلدستے سے محفل کو معطر کرنے کے لیے قاری نوشاد صدیقی صاحب نے بارگاہِ رسالت میں عقیدت کے موتی نچھاور کیے۔
پھر وہ لمحہ آیا جب علم و حکمت کے بحرِ ذخار، حضرت مولانا مفتی عبداللہ صاحب دامت برکاتہم، استاد حدیث و فقہ دارالعلوم عزیزیہ نے اپنے علم و فضل کے دریا بہا دیے۔ "علم کی عظمت" کے عنوان پر ان کی بسیط اور پُراثر تقریر نے سامعین کے قلوب میں فہم و شعور کی جوت جگا دی۔
اس کے بعد شاعری کی لطافت سے محفل کو مزید حسن بخشنے کے لیے قاری محمد نور صاحب، امام و خطیب مسجد تکیہ محلہ، نعت و منقبت کے چند بند پیش کیے، جن کی تاثیر سامعین پر گہرے نقوش چھوڑ گئی۔
پھر "افتتاحِ بخاری" کی سعادت کا وقت آیا۔دارالعلوم امدادیہ کے صدر الصدور، شیخ الحدیث حضرت مولانا بدر الدین صاحب مدظلہ نے اس عظیم علمی فریضے کو انجام دیا۔ مدرسہ کی ایک طالبہ نے عبارت خوانی کی، اور حضرت نے امام بخاری کی خدمات، "صحیح بخاری" کی عظمت اور حدیث کی اہمیت پر مختصر مگر جامع گفتگو فرمائی۔
اب ایک ایسا مرحلہ آیا جب محفل کو جوش و خروش سے بھر دینے والی شخصیت کا خطاب متوقع تھا،شعلہ بار خطیب، جبالِ علم حضرت مولانا مفتی ابوالکلام صاحب نے اپنے پُردرد اور بصیرت افروز کلمات کے ذریعے تعلیمِ نسواں اور خواتین کے بنیادی مرکزی کردار پر مدلل گفتگو فرمائی،ان کی باتیں دل میں اترتی گئیں اور سامعین دیر تک سر دھنتے رہے۔
پھر وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے دارالعلوم زکریا کے مہتمم، مولانا رستم عادل صاحب نے چند اشعار کے ذریعے محفل کو وجد میں ڈال دیا۔
ضلع پال گھر کے صدر جمعیت علماء، حضرت مولانا سرور صاحب مظاہری نے نہایت سادگی اور بے باکانہ انداز میں مولانا توقیر صاحب کی تعلیمی سرگرمیوں اور مدرسہ کی خدمات کو سراہااوران کے انداز میں خلوص تھا، لہجے میں اپنائیت تھی، اور سامعین پر ان کے الفاظ کا خاص اثر ہوا۔
پھر آخری مرحلے میں حضرت مولانا مفتی توقیر صاحب نے سپاس نامہ پیش کیا، تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، اور طالبات کے درمیان انعامات کی تقسیم کی گئی۔
اختتام پر حضرت مولانا مفتی ابوالکلام صاحب، امام و خطیب مرکز مسجد سوپارہ گاؤں نے رقت آمیز دعا کرائی، جس کے ساتھ ہی یہ عظیم الشان علمی اجلاس اپنے حسین نقوش ذہنوں پر ثبت کرتے ہوئے مکمل ہوا۔
مجھے یہ سعادت ملی کہ پورے جلسے کی نظامت کے فرائض انجام دے سکوں، اور بحمداللہ، یہ پروگرام بڑی کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔
پھر عشائیہ تناول کرنے کے بعد ہم اپنی مسکن کی طرف لوٹ آئے، مگر اس مجلس نے دل پر یہ انمٹ تاثر چھوڑا کہ نالا سوپارہ کی سرزمین، علم و فضل کے وارثین سے معمور ہے، اور یہ امر باعثِ مسرت بھی ہے اور باعثِ افتخار بھی۔
سرحدی عقاب