
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
February 12, 2025 at 08:42 PM
چراغ فکر(یومیہ)
﴿سلسلہ نمبر:25﴾
ایک اور نشان راہ
✍️ شاہ امان اللہ ندوی
ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ
بعض نقوش یوں دل کی دیواروں پر کندہ ہو جاتے ہیں کہ وقت کی گرد بھی انہیں دھندلا نہیں پاتی۔ کچھ زخم مندمل ہو جاتے ہیں، مگر ان کے نشانات ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔
آج دوسری مرتبہ دارالعلوم زکریا، پرگتی نگر، نالا سوپارہ ایسٹ میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ پہلی بار آل انڈیا ملی کونسل کے ایک پروگرام میں، حضرت مولانا شمیم ریحان ندوی دامت برکاتہم کے حکم پر، اور اس بار حضرت مولانا رستم عادل صاحب کی دعوت پر۔ حکم دینے والے بدل گئے، مگر مامور وہی رہا— یعنی یہ ناچیز! دونوں مواقع کی علتیں مختلف تھیں؛ پہلی بار ملی کونسل کے ایک اجلاس کے سبب، اور اس بار طلبہ کی تقسیمِ انعامات کی تقریب کے باعث۔
آج کی حاضری میں تاخیر ہوگئی، اور تاخیر کی وجہ بھی کچھ یوں رہی کہ جناب حضرت مولانا مفتی سید آصف الدین ندوی قاسمی ایم اے، ڈائریکٹر: انسٹی ٹیوٹ آف عربک اسٹیڈیز، قادر باغ، حیدرآباد کی ایک کتاب انقلابِ حیات برائے تبصرہ بذریعہ ڈاک میرے پاس آئی تھی۔ میں اس کے مطالعے میں مشغول تھا کہ اسی دوران میرے رفیقِ درس مولانا طلحہ صاحب ندوی— جو اچولے روڈ میں رہتے ہیں، کاروبار سے وابستہ ہیں اور بے حد مصروف رہتے ہیں— کا فون آیا کہ مولانا! کچھ زحمت فرما کر تشریف لائیں۔ عرصۂ دراز کے بعد ان کی آواز سن کر جانا ناگزیر لگا، سو کتاب کو ایک طرف رکھ کر ان کے پاس چلا گیا۔ وہاں وقت گزرا، مگر کتاب مکمل نہ پڑھ سکا۔ واپسی پر دوبارہ مطالعہ شروع کیا تو کچھ ہی صفحات پڑھے تھے کہ اچانک مولانا رستم عادل صاحب کا فون آ گیا۔ ان کی آواز میں عجلت تھی، گویا کسی اہم معاملے پر گفتگو کرنی ہو۔ کہنے لگے: "طلبہ کا پروگرام ہے، سب کچھ جلدی میں طے پایا، اس لیے پیشگی اطلاع نہ دی جا سکی۔ براہ کرم فوراً تشریف لائیں!"
جب پہنچا تو تقسیمِ انعامات کا مرحلہ جاری تھا۔ وقت تقریباً دس بج رہے تھے، اور ہال و صحن طلبہ اور مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب سے پہلے نظر فخرِ ممبئی، جناب مولانا حافظ عبد القدوس شاکر حکیمی صاحب پر پڑی۔ انہوں نے محبت اور شفقت سے آواز دی، علیک سلیک کے بعد برابر بٹھایا۔ ان کی مجلس میں بیٹھنا میرے لیے سعادت کی بات تھی، کیونکہ ہجوم میں اکثر لوگ ایک دوسرے کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اور پھر عہدہ و منصب کا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ مگر یہ مردِ خدا ہمیشہ چھوٹوں کی ہمت افزائی کرتے ہیں، اسی لیے اللہ انہیں بلندیاں عطا فرماتا ہے۔ آج نہ جانے کتنے مدارس اور تنظیموں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اللہ انہیں صحت و عافیت اور عمرِ دراز عطا فرمائے، بڑے نیک لگتے ہیں مجھے!
پروگرام میں کلیدی خطاب جناب مولانا قاضی زکریا صاحب دامت برکاتہم کا تھا۔ انہوں نے نہایت علمی اور بصیرت افروز گفتگو فرمائی۔ ان کا فرمانا تھا کہ اسلام کو سب سے زیادہ نقصان اپنوں ہی کے ہاتھوں پہنچ رہا ہے۔ اگر سب مسلمان داڑھی رکھنے لگیں، تو دشمن گھبرا جائے گا اور کہے گا: "کتنے ماروگے؟ سب کے پاس داڑھی ہے!" لیکن افسوس کہ ہمارے کچھ لوگ اتحاد کے نام پر ایسے کام کر گزرتے ہیں جو دین و ایمان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ وہ غیر مسلم عبادت گاہوں میں جا کر عبادات میں شریک ہوتے ہیں، اور اگرچہ ان کا مقصد اتحاد ہوتا ہے، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس سے دوسروں کی جرأت بڑھ جاتی ہے۔
یکساں سول کوڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "تم مختلف مذاہب و ادیان کے لوگوں کو ایک قانون کے نیچے لانا چاہتے ہو؟ یہ کبھی ممکن نہیں! ایک قانون اگر چلے گا تو صرف اللہ کا، اور کسی کا نہیں!" انہوں نے قرآن کی اس آیت کی نہایت جامع تفسیر بیان کی:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى
یہاں "ذکر" سے مراد قرآن بھی ہو سکتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس بھی، جیسا کہ دوسری آیات میں "ذِكْرًا رَسُولًا" آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن سے یا نبی اکرم ﷺ کی اطاعت سے اعراض کرے، اس کی معیشت تنگ ہو جائے گی اور قیامت کے دن وہ اندھا اٹھایا جائے گا۔ یعنی پہلا عذاب دنیا میں ہی مل جائے گا، اور دوسرا عذاب قیامت میں!
ان کے بعد حضرت مولانا مفتی حشمت اللہ صاحب قاسمی کو اظہارِ خیال کے لیے بلایا گیا۔ ان کا خطاب ولولہ انگیز تھا، جو مدارس، طلبہ کی اہمیت اور ان کے ساتھ محبت و تعاون پر مشتمل تھا۔ سامعین نے بے حد پسند کیا۔
پھر جناب مولانا صابر صاحب نے "انفاق فی سبیل اللہ" پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد اس ناچیز کو بھی اظہارِ خیال کے لیے دعوت دی گئی۔ میں نے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے مولانا رستم عادل صاحب، اساتذہ اور طلبہ کو مبارکباد پیش کی اور دعا دی کہ "اللہ رب العزت جناب رستم عادل صاحب کو مؤثر بنائے، اس مدرسے اور اس کے طلبہ و اساتذہ کو اثر عطا فرمائے، اور پوری دنیا کی عوام کو ان سے متأثر فرمائے، آمین!"
آخر میں، فخرِ ممبئی، جناب مولانا عبد القدوس شاکر حکیمی صاحب نے نہایت جامع، مختصر مگر مؤثر صدارتی خطاب فرمایا۔ انہوں نے کہا:
"مدرسے کی خدمت، دین کی خدمت ہے۔ مدرسے کی مدد، دین کی مدد ہے۔"
یہ جملے دل پر گہرے اثرات چھوڑ گئے۔
پروگرام کا اختتام ان کی روح پرور دعا پر ہوا، اور یوں ایک اور یادگار لمحہ دل میں ثبت ہو گیا— ایک اور نشانِ راہ!
پروگرام کی ابتدا کس کی تلاوت سے ہوئی، معلوم نہ ہو سکا، لیکن نظامت کے فرائض جناب حضرت مولانا شمشیر صاحب دامت برکاتہم، مہتمم جامعہ فدائے ملت، واکن پاڑہ نے نہایت خوبصورتی سے انجام دئیے ۔
سرحدی عقاب