ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
February 16, 2025 at 07:55 PM
چراغ فکر(یومیہ)
﴿سلسلہ نمبر:27﴾
فیضِ علم و عمل کا روح پرور منظر
✍️ شاہ امان اللہ ندوی
ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ
رات کی گہرائی میں ستارے چمک رہے تھے، اور مسجد کے میناروں سے ٹھنڈی ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا گزرتا ہوا گویا آنے والے ایک بابرکت اجتماع کی نوید دے رہا تھا،مدرسہ مدینۃ العلوم، وازہ محلہ نالا سوپارہ ویسٹ کی آٹھویں سالانہ دستارِ فضیلت کی تقریب تھی، اور ہم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل تھے جنہیں اس علمی و روحانی محفل میں شرکت کی سعادت نصیب ہو رہی تھی۔
تین دن قبل، مشہور شاعر اور خوش گلو نعت خواں، جناب قاری ابراہیم گوہر صاحب بنفسِ نفیس تشریف لائے اور انتہائی محبت و خلوص کے ساتھ اس محفل میں شرکت کی دعوت دی۔
یہ وہ دعوت تھی جسے قبول نہ کرنا ممکن ہی نہ تھا، دیگر تمام مصروفیات ترک کیں اور پوری دلجمعی کے ساتھ اس علمی و روحانی سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔
نمازِ مغرب کے بعد ہم مقررہ وقت پر مقام اجلاس پہنچے سامنے وسیع و عریض احاطہ جگمگا رہا تھا، جہاں ایک شاندار اسٹیج اپنی پوری رونق کے ساتھ سجا ہوا تھا، لیکن جو چیز سب سے زیادہ متاثر کن تھی، وہ یہ کہ اسٹیج پر علما نہیں بلکہ طلبہ کو جگہ دی گئی تھی، گویا علم کی روشنی کے اصل چراغوں کو مرکزِ نگاہ بنایا گیا تھا، علما کرام کے لیے نیچے خاص نشستیں رکھی گئی تھیں، اور میرے منشاء کے مطابق یہ ایک بہترین اصول تھا کہ طلبہ کے علمی مظاہروں کو مکمل اہمیت دی جائے، جبکہ علما کو صرف دعا اور چند ضروری کلمات کے لیے زحمت دی جائے،اور یہی اصول تمام مدرسوں کے اختتامی جلسوں کا ہونا چاہئے تاکہ بچوں کی بھرپور نمائندگی ہو۔
پروگرام کا آغاز بابرکت تلاوت سے ہوا، جس کی سحر انگیزی نے قلوب کو گرما دیا، پھر ایک ایسا منفرد لمحہ آیا، جسے شاید ہی کسی نے پہلے دیکھا ہو،دو معصوم طلبہ نے قرآن کریم کی تلاوت کو حروفِ تہجی کے حساب سے پیش کیا، بالکل اسی طرز پر جیسے بیت بازی کی جاتی ہے۔ "الف" سے "ی" تک تلاوت کی یہ ترتیب اتنی مسحور کن تھی کہ ہر سننے والا حیرت اور کیف میں ڈوب گیا۔
اس کے بعد ایک کے بعد کئی شاندار علمی مظاہرے سامنے آئے،
کئ مکالمے اور مناظرے پیش کئے گئے ،ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ نوخیز ذہنوں میں علم کی چنگاریاں دہک رہی ہیں، اور ان کی زبانیں فصاحت و بلاغت کے موتی بکھیر رہی ہیں۔
مکالمے کےموضوعات میں بھی ندرت تھا "موبائل اور پب جی کے نقصانات"، "مدارسِ اسلامیہ پر دہشت گردی کے الزامات کا جواب"، اور "فتنہ شکیلیت کا مؤثر ردّ" جیسے سنجیدہ اور عصری موضوعات پر بچوں نے جو گفتگو کی، وہ کسی تجربہ کار عالم سے کم نہ تھی۔
اورنظامت بھی اعلیٰ معیارکا تھاجناب مولانا مفتی فیض الاسلام صاحب قاسمی نہ صرف جلسے کی نظامت فرما رہے تھے بلکہ وقفے وقفے سے مکالمے کاپسِ منظر بیان کر کے سامعین کو علمی سفر پر گامزن کر رہے تھے۔
پروگرام کے آخری مرحلے میں وہ لمحہ آیا، جس کا سب کو شدت سے انتظار تھا—دستار بندی!
آخر میں ان تمام علماء کرام اور ائمہ عظام کو اسٹیج پر بلایا گیا جس میں یہ ناچیز بھی شامل تھا اوران سولہ خوش نصیب طلبہ، جنہوں نے حفظِ قرآن مکمل کیا تھا، ان کے سروں پر دستار رکھی گئی، اس لمحے کو بیان کرنا ممکن نہیں، لیکن یوں محسوس ہوا جیسے آسمان سے فرشتے اتر آئے ہوں اور اس نورانی منظر پر رشک کر رہے ہوں۔
نالا سوپارہ کے تقریباً تمام جید علما اس جلسے میں شریک تھے، جن میں قابلِ ذکر نام یہ تھے:
حضرت مولانا شاکر حکیم صاحب دامت برکاتہم العالیہ
حضرت مولانا مفتی حشمت اللہ صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ
حضرت مولانا عبد الکلام صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ (مرکز والی مسجد، شکر محلہ)
حضرت مولانا عابد زاہد صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ
حضرت مولانا محسن قاسمی دامت برکاتہم العالیہ
ان کے علاوہ بہت سارے علماء کرام تشریف فرما تھے جن کے نام میں نہیں جانتا ،ان سب سے میں معذرت چاہتا ہوں ،مجھے محسوس یہ ہوا کہ شاید باید ہی نالا سوپارہ کا کوئی عالم یا امام شریک اجلاس نہ ہو، سب موجود تھے ماشاءاللہ ،اورتمام علماء کرام اور ائمہ عظام کا چادر پوشی کے ذریعہ اعزاز واکرام بھی کیا گیا۔
ان علمائے کرام کی موجودگی نے اس جلسے کو مزید باوقار بنا دیا، اور ان کی موجودگی میں محفل واقعی ایک علمی و روحانی خاندان کی صورت اختیار کر گئی۔
جلسے کے اختتام پر ایک حیرت انگیز حقیقت سامنے آئی—وہ معصوم طلبہ، جنہوں نے حروفِ تہجی کی ترتیب پر تلاوت کی تھی،وہ جناب مولانا مفتی فیض الاسلام صاحب کے صاحبزادے تھے! مزید یہ کہ ان کی اہلیہ بھی ایک عالمہ ہیں۔ گویا ان کا نام واقعی ان کی شخصیت کا آئینہ دار تھا—"فیض الاسلام"، جو اپنے گھر سے پورے علاقے تک دین کا فیض پھیلانے میں مصروف تھے۔
آخر میں حضرت مولانا عبد السبحان صاحب قاسمی اما م وخطیب جامع مسجد وسئ روڈنے مختصر مگر پرمغز خطاب فرمایا، جس میں مسلمانوں کے باہمی اخوت، استقامت، اور قرآن کی فضیلت پر روشنی ڈالی گئی۔ ان ہی کی دعاؤں کے ساتھ یہ بابرکت محفل اختتام کو پہنچی۔
یہ جلسہ محض ایک تقریب نہ تھا بلکہ ایک پیغام تھا—ایک پیغام کہ علم و عمل کی یہ روشنی کبھی مدھم نہ ہو، یہ قافلہ کبھی نہ رکے، اور یہ فیض ہمیشہ جاری و ساری رہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا فیض الاسلام صاحب قاسمی اور ان کے رفقاء کے علمی و اصلاحی کاموں میں مزید برکت عطا فرمائے اور انہیں دینِ متین کی خدمت کے لیے مزید استقامت بخشے۔
آمین، ثم آمین!
فیض پہنچے دوسروں کو ہم سے ،ہم ہوں شادماں
(سرحدی عقاب)