ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
February 17, 2025 at 06:59 PM
چراغ فکر(یومیہ) ﴿سلسلہ نمبر:29﴾ مدارس کے طلباء: امت کا قیمتی سرمایہ ✍️ شاہ امان اللہ ندوی ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ آج سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نظر سے گزری، جسے ہمارے واٹس ایپ گروپ "سرحدی عقاب" میں بھی کئی حضرات نے شیئر کیا، حالانکہ گروپ میں ویڈیوز کی تکرار سختی سے ممنوع ہے۔ اس پر جی چاہا کہ کچھ لکھ دوں۔ (ویسے، اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ "ویڈیو" مذکر ہے یا مؤنث؟ تو سوچا کہ آج اس کی تحقیق کرلی جائے۔ اردو کی مشہور لغت "فیروز اللغات" میں یہ لفظ نہیں ملا، مگر اطلاعاً عرض ہے کہ "ویڈیو" مؤنث ہے، مذکر نہیں۔ عربی اور اردو میں غیر ملکی الفاظ کے بارے میں عمومی اصول یہ ہے کہ اگر وہ کسی خاص قاعدے کے تحت نہ آتے ہوں تو انہیں مؤنث مانا جاتا ہے، خاص طور پر جب وہ "چیز" کے مفہوم میں آتے ہوں، جیسے "ٹی وی"، "کار"، "مشین" وغیرہ۔) ویڈیو میں ایک مدرسے کے طالب علم کو تکمیلِ حفظِ قرآن کریم کے بعد گھر لوٹتے دکھایا گیا، جہاں اہلِ خانہ اور اقرباء نے اس کا شاندار استقبال کیا۔ مدارس کے طلبہ کا جتنا استقبال، اکرام اور اعزاز کیا جائے، وہ کم ہے۔ درحقیقت مدارسِ اسلامیہ وہ مقدس ادارے ہیں جو دینِ متین کی حفاظت، اشاعت اور تعلیم کے اہم مراکز ہیں۔ ان مدارس کے طلباء وہ خوش نصیب افراد ہیں جنہیں قرآن و حدیث کی تعلیمات سے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ یہ طلباء نہ صرف علومِ دینیہ کے وارث اور حامل ہوتے ہیں بلکہ امت کی روحانی، علمی اور فکری قیادت کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان کا جتنا بھی اکرام کیا جائے، کم ہے، کیونکہ یہ وہی جماعت ہے جس کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:"خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ" (تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے(بخاری) یہ طلباء مدارس میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزار کر دین کے خادم بنتے ہیں، اور امت کی ہدایت، رہنمائی اور تربیت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔ دینی علوم کے وارث مدارس کے طلباء انبیاء کرام علیہم السلام کی میراث کے حقیقی وارث ہیں، کیونکہ انبیاء کی وراثت درہم و دینار نہیں بلکہ علم ہوتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:"إن العلماء ورثة الأنبياء"(بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں) (ابو داؤد، ترمذی)یہی وجہ ہے کہ مدارس کے طلباء کو علمِ دین حاصل کرنے کی برکت سے دنیا و آخرت میں فضیلت و مقام حاصل ہوتا ہے۔ حاملینِ قرآن اور وارثینِ وحی یہ طلباء قرآن و حدیث کو اپنے سینوں میں محفوظ کرتے ہیں، انہیں سمجھتے اور آگے پہنچاتے ہیں۔ جو قرآن کا حامل ہوتا ہے، اس کا مقام اللہ کے نزدیک بہت بلند ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"إن الذي ليس في جوفه شيء من القرآن كالبيت الخرب"(جس شخص کے سینے میں کچھ بھی قرآن نہ ہو، وہ ویران گھر کی مانند ہے) (ترمذی)مدارس کے طلباء ایسے خوش نصیب ہیں کہ ان کے سینے قرآن کے نور سے منور ہوتے ہیں۔ اللہ کے مہمان علمِ دین کے طلباء اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "طالبُ العلمِ رَكْبَةٌ فِي اللهِ، وَاللهُ فِي عَوْنِهِ حَتّى يَتَعَلَّمَ"(علم کا طلبگار اللہ کے راستے میں ہوتا ہے، اور اللہ اس کی مدد کرتا ہے جب تک کہ وہ علم حاصل کرے)یہ وہ خوش نصیب جماعت ہے جس کی محفل میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ امت کی قیادت کے اہل مدارس کے طلباء مستقبل کے قائد، مفتی، قاضی، مصلح، واعظ، مربی اور رہنما ہوتے ہیں،یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو امت کو دینی راہنمائی فراہم کرتے ہیں اور شریعت کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ ان کی زبانوں سے نکلنے والے فتاویٰ اور ارشادات امت کے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔ مساجد و مدارس کے روشن چراغ یہی طلباء آگے چل کر مساجد کے امام، خطیب اور دینی مراکز کے معلم بنتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو امت کا دینی ڈھانچہ کمزور پڑ جائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا تھا:"لو لا العلم لكان الناس كالبهائم"(اگر علم نہ ہوتا تو لوگ جانوروں کی مانند ہوتے)یہ مدارس کے طلباء ہی ہیں جو اس علم کو سیکھ کر امت کو جہالت کے اندھیروں سے نکالتے ہیں۔ قربانی اور صبر کی علامت مدارس کے طلباء اپنی زندگی مشقت، صبر، محنت اور عبادت میں گزارتے ہیں۔ ان کی زندگی میں نہ دنیاوی عیش و عشرت کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی مال و دولت کا لالچ، بلکہ وہ اللہ کی رضا اور دین کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بناتے ہیں۔ ان کا جینا مرنا دین کے لیے ہوتا ہے۔ مدارس کے طلباء کے حقوق مدارس کے طلباء کے ہم پر کچھ حقوق بھی ہیں، جنہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ ان کی عزت و توقیر کی جائے، ان کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آیا جائے اور ان کی خدمات کو تسلیم کیا جائے۔ ان کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں، مدارس کے طلباء اکثر مالی مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں، اس لیے ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ان کے حوصلے بلند کیے جائیں ،انہیں معاشرے میں عزت دی جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ مزید جوش و خروش کے ساتھ دین کی خدمت کر سکیں۔ انہیں عملی میدان میں مواقع دیے جائیں ، مدارس کے فضلاء کو مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ امت کی خدمت بہتر انداز میں کر سکیں۔ مدارس کے طلباء امت کے قیمتی سرمائے ہیں، ان کا احترام اور تعاون ہر مسلمان پر لازم ہے۔ ان کی قربانیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے اور ان کی علمی و عملی ترقی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان طلباء کو مزید علم و عمل کی دولت سے مالا مال کرے اور انہیں امت کے لیے نفع بخش بنائے، آمین۔ ( سرحدی عقاب)

Comments