ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
February 18, 2025 at 05:32 PM
چراغ فکر(یومیہ)
﴿سلسلہ نمبر:30﴾
تصویر اور مصور کے درمیان مکالمہ
✍️ شاہ امان اللہ ندوی
ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ
علامہ اقبال رحمہ اللہ کی مشہور زمانہ کتاب کلیات اقبال کے بال جبرئیل سے میں نے لیا ہے،کسی شعر کی تلاش تھی تو یہ اشعار سامنے بدیہی انداز میں سامنے آگئے تو سوچا کہ آج کے چراغِ فکر کی زینت انہیں اشعار کو بنایا جائے ۔
یہ اشعار ایک گہری فکری مکالمے کی صورت میں ہیں، جہاں "تصویر" اور "مصوّر" (تصویر بنانے والا) کے درمیان ایک پراثر گفتگو ہے، یہ محض ایک فنی مکالمہ نہیں، بلکہ اس میں ایک گہرا فلسفیانہ اور تصوفی پہلو بھی موجود ہے۔ اشعار کی تشریح درج ذیل ہے۔
تصویر کہتی ہے
کہا تصویر نے تصویر گر سے
نمائش ہے مری تیرے ہُنر سے
و لیکن کس قدر نا مُنصفی ہے
کہ تُو پوشیدہ ہو میری نظر سے!
یہ پہلا بند ہے،تصویر، مصوّر (تصویر بنانے والے) سے کہتی ہے کہ"میری خوبصورتی اور نمائش تیرے ہنر کا نتیجہ ہے۔" یعنی تصویر جو کچھ بھی ہے، وہ مصوّر کے فن جمیل کا عکس ہے،لیکن یہ کس قدر ناانصافی ہے کہ میں تیری تخلیق تو ہوں، مگر تجھے خود دیکھ نہیں سکتی!۔
یہ اشعار بندگی اور خالق کے تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہیں،انسان، جو خدا کی تخلیق ہے، اس کی ہستی اس کے خالق کے ہنر کا شاہکار ہے، مگر وہ براہ راست اپنے خالق کو دیکھنے سے قاصر ہے۔
مصور کہتا ہے
گراں ہے چشمِ بینا دیدہ وَر پر
جہاں بینی سے کیا گُزری شرَر پر!
نظر، درد و غم و سوز و تب و تاب
تُو اے ناداں، قناعت کر خبر پر
دوسرا بندہےمصوّر تصویر سے کہتا ہے"دیدہ ور یعنی حقیقت دیکھنے والی آنکھوں پر نظر کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے،دنیا کی حقیقت دیکھنے کی خواہش چنگاری کے لیے جلنے کی خواہش کی مانند ہے!" یعنی حقیقت کو دیکھنا آسان نہیں، یہ انسان کے لیے ایک بڑا امتحان ہے،نظر میں درد، غم، سوز اور بے قراری ہوتی ہے، اس لیے تُو اپنی موجودہ خبر پر قناعت کر!۔
یہ اشعار حقیقت کی جستجو اور اس کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جس طرح آگ کی چنگاری اگر زیادہ روشنی دیکھے تو خود جل جاتی ہے، اسی طرح انسان اگر حقیقت مطلق (خدا) کو دیکھنے کی کوشش کرے تو وہ اس کی برداشت سے باہر ہوگا۔
تصویر کہتی ہے
خبر، عقل و خِرد کی ناتوانی
نظر، دل کی حیاتِ جاودانی
نہیں ہے اس زمانے کی تگ و تاز
سزاوارِ حدیثِ ’لن ترانی‘
یہ تیسرا بند ہےتصویر جواب دیتی ہے،"محض خبر رکھنا، عقل و خرد کی ناتوانی ہے۔" یعنی صرف سنی سنائی معلومات پر قناعت کرنا دانش مندی نہیں،نظر ہی وہ چیز ہے جو دل کو حقیقی زندگی دیتی ہے، یعنی حقیقت کو دیکھنا ہی دل کی اصل حیات ہےیہ زمانہ جس دوڑ دھوپ میں لگا ہوا ہے، وہ اس قابل نہیں کہ مجھ پر 'لن ترانی' (تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے) کا قانون لاگو کیا جائے۔"
یہاں تصویر کا مؤقف یہ ہے کہ محض ظاہری علم اور خبر پر قناعت کرنا کافی نہیں، بلکہ سچائی کو دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ "لن ترانی" حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کی طرف اشارہ ہے، جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے براہ راست دیدار کی خواہش کی، تو انہیں جواب ملا کہ وہ اسے نہیں دیکھ سکتے۔ تصویر یہ کہہ رہی ہے کہ شاید آج کے انسان کو بھی اس حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مصور کہتا ہے
تو ہے میرے کمالاتِ ہُنر سے
نہ ہو نومید اپنے نقش گر سے
مرے دیدار کی ہے اک یہی شرط
کہ تُو پِنہاں نہ ہو اپنی نظر سے
یہ چوتھا بند ہےمصوّر کہتا ہے"تو میری صناعی اور ہنر کے سبب وجود میں آئی ہے، اس لیے مایوس نہ ہو،میرے دیدار کے لیے ایک ہی شرط ہے: تُو اپنی نظر سے پوشیدہ نہ ہو!"
یہاں مصوّر ایک اہم نکتہ واضح کر رہا ہے کہ اگر حقیقت کو دیکھنا ہے تو پہلے خود کو پہچاننا ہوگایہ فلسفہ صوفیانہ تعلیمات کی ترجمانی کرتا ہے، جہاں کہا جاتا ہے کہ "من عرف نفسه فقد عرف ربّه" (جس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا)۔
یہ مکالمہ محض تصویر اور مصوّر کی گفتگو نہیں، بلکہ انسان اور خالق کے تعلق، علم و حقیقت کی جستجو، اور نظر و خبر کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے,انسان خدا کی تخلیق ہے، لیکن وہ اپنے خالق کو براہ راست دیکھنے سے قاصر ہے،حقیقت مطلق کا مشاہدہ بہت بھاری ذمہ داری ہے، جس کی برداشت ہر ایک میں نہیں ہوتی۔محض ظاہری علم کافی نہیں، بلکہ خود شناسی کے ذریعے حقیقت کی جستجو کرنی چاہیے،خدا کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان پہلے خود کو پہچانے اور اپنی بصیرت کو بیدار کرے،یہ اشعار علم و عرفان، حقیقت و جستجو، اور بندے و خالق کے تعلق کا ایک اعلیٰ فکری اظہار ہیں۔
(سرحدی عقاب)