ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
February 22, 2025 at 07:09 AM
چراغ فکر(یومیہ) ﴿سلسلہ نمبر:33﴾ زیورات پر زکوٰۃ واجب ہے ✍️ شاہ امان اللہ ندوی ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ علامہ غامدی صاحب کاایک کلپ گزرا ،جس میں وہ مستورات کے زیورات کو حاجت اصلیہ مان رہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ عورتوں کے زیورات پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے،کیونکہ یہ حاجت اصلیہ میں سے ہے،سن کر بہت تعجب ہوا،جی چاہاکچھ اس باب میں بھی خامہ فرسائی کی جائے ورنہ لوگ مغالطے میں پڑ جائیں گے اورعند اللہ عقاب کے مستحق ہو جائیں گے ۔ زیورات پر زکوٰۃ کے وجوب کے نقلی و عقلی دلائل نقلی دلائل (قرآن و حدیث سے ثبوت) اللہ تعالیٰ نے سونے اور چاندی پر زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی ہے "وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ۔"(التوبہ: 34)"اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔" یہ آیت عمومی ہے، جو ہر اُس شخص پر لاگو ہوتی ہے جو سونا اور چاندی کا مالک ہو، چاہے وہ نقدی ہو یا زیورات۔ زیورات پر زکوٰۃ کی تصریح حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی، اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے کنگن تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا: "أَتُؤَدِّينَ زَكَاةَ هَذَا؟"(کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟)اس نے کہا: نہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا:"أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟"(کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہیں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے؟)پس اس عورت نے فوراً وہ کنگن اتار کر صدقہ کر دیے۔(سنن ابی داؤد: 1563، سنن النسائی: 2481، مسند احمد: 7065)یہ حدیث واضح طور پر بتاتی ہے کہ زیورات پر زکوٰۃ دینا واجب ہے، ورنہ آخرت میں اس کا سخت مواخذہ ہوگا۔ عذاب کی وعید نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: > "مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ، كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ۔"(صحیح مسلم: 987، سنن الترمذی: 638) اس حدیث میں قیامت کے دن سونا چاندی جمع کرنے اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر شدید عذاب کا ذکر ہے۔ عقلی دلائل (منطقی و اجتہادی استدلال) شریعت نے زکوٰۃ کے لیے چند بنیادی اصول بیان کیے ہیں: مال نامی (بڑھنے والا مال) پر زکوٰۃ فرض ہے۔ قوتِ خرید رکھنے والے مال پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اگر مال کی مقدار نصاب کے برابر ہو اور سال گزر جائے، تو زکوٰۃ فرض ہے۔ زیورات ان تینوں اصولوں کے تحت آتے ہیں، کیونکہ یہ مال نامی ہے: عورت کے لیے یہ محفوظ سرمایہ ہے جو ضرورت پڑنے پر بیچا یا استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس میں قوتِ خرید موجود ہے: سونے اور چاندی کے زیورات ہمیشہ تجارتی و مالیاتی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ نصاب کو پہنچتے ہیں: عموماً عورتوں کے زیورات ساڑھے سات تولہ سونے یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی حد سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر زیورات کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ کر دیا جائے، تو ایک شخص لاکھوں کا سونا رکھ سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ "یہ تو میرے ذاتی استعمال کا ہے"۔ اس طرح امیر لوگ زکوٰۃ سے بچ جائیں گے، جبکہ غریبوں کا کوئی حق نہیں رہے گا۔ زیورات بھی دیگر تجارتی مال کی طرح ہیں ،جیسے دکان میں رکھا ہوا سونا یا چاندی تجارتی مال شمار ہوتا ہے اور اس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، ویسے ہی عورتوں کے زیورات بھی سرمایہ کی ایک شکل ہیں۔ اس لیے ان پر زکوٰۃ دینا لازم ہے۔ غامدی صاحب کا مؤقف اور اس کا جائزہ غامدی صاحب کے مطابق عورتوں کے زیورات حاجتِ اصلیہ میں شمار ہوتے ہیں، اس لیے ان پر زکوٰۃ نہیں، لیکن جمہور فقہاء نے ان کے اس نظریے کو درست نہیں مانا، کیونکہ، شریعت میں حاجتِ اصلیہ کی تعریف محدود ہے، اور اس میں وہی چیزیں آتی ہیں جو زندگی گزارنے کے لیے ناگزیر ہوں، جیسے رہائش، کپڑے، کھانے پینے کی اشیاء، سواری اور پیشہ ورانہ اوزار۔زیورات حاجتِ اصلیہ نہیں، بلکہ تعیش (Luxury) میں شمار ہوتے ہیں، جو زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے۔ احادیث میں واضح حکم موجود ہے کہ زیورات پر زکوٰۃ فرض ہے، اور اس کا انکار نصوصِ شرعیہ کے خلاف ہے،زیورات پر زکوٰۃ فرض ہے، اگر وہ نصاب کو پہنچ جائیں اور سال گزر جائے۔ جو لوگ اس پر زکوٰۃ نہیں نکالتے، وہ شرعی طور پر گناہگارہوں گے اور آخرت میں سخت مؤاخذہ ہوگا، غامدی صاحب کا نظریہ جمہور امت کے خلاف ہے، اور شرعی و عقلی دونوں لحاظ سے کمزور ہے، عورتوں کو بھی اپنے زیورات کی زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے، ورنہ قیامت کے دن سخت عذاب کا سامنا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا!ہر صاحبِ نصاب عورت پر لازم ہے کہ وہ زیورات کی زکوٰۃ ادا کرے، ورنہ عند الشرع وہ مستحقِ عذاب ہوگی۔ (سرحدی عقاب

Comments