ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
February 23, 2025 at 07:40 PM
چراغ فکر(یومیہ)
﴿سلسلہ نمبر:34﴾
مطمع نظر اورسعادت کے لمحات
✍️ شاہ امان اللہ ندوی
ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ
شہر کی فضا میں ایک عجیب سی سرشاری گھل گئی تھی،ہلکی ہلکی خنک ہوا چل رہی تھی اور رات کی خاموشی میں ستارے جھلملا رہے تھے،موبائل کی اسکرین پر چمکتا ہوا پیغام میری آنکھوں کے سامنے تھا،محترم الحاج قاری محمد یونس صاحب چودھری، نائب خازن جمعیت علمائے مہاراشٹر اور ان کے رفیق جناب قاری عبد الرشید صاحب نے اطلاع دی تھی کہ استاد الاساتذہ حضرت مولانا محمد خالد غازی پوری ندوی دامت برکاتہم العالیہ گونڈی میں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات الصالحات کے ختم بخاری ممشریف کے پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لا رہے ہیں، اور قیام میرے یہاں ہوگا۔
یہ سنتے ہی خوشی کی ایک لہر میرے رگ و پے میں دوڑ گئی، ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی قیمتی متاع برسوں بعد ہاتھ لگ رہی ہو، استاد محترم کی زیارت اور میزبانی کا شرف! یہ موقع کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ میں نے لمحے بھر کے لیے اپنے طے شدہ تمام امور کو نظر انداز کیا اور فوراً اپنے معمولات پر نظر دوڑائی۔
مدرسہ معاذ بن عفان میں جناب مولانا محسن قاسمی صاحب کے سالانہ پروگرام میں شرکت کی تیاری مکمل تھی، مگر اب وہ ممکن نہ تھا، ان سے معذرت کرنا پڑی۔ دوسری طرف وازہ محلہ کی جامع مسجد میں فقیہ زماں حضرت مولانا مفتی اشفاق قاضی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا زکوٰۃ کے نظام پر ایک نہایت اہم اور علمی محاضرہ تھا، جس میں میری حاضری یقینی تھی اور محترم مولانا عمر صاحب ندوی دامت برکاتہم سے وعدہ بھی کرچکا تھا، مگر یہ سب ملتوی کرنا پڑا۔ حضرت مولانا اشفاق قاضی کی زیارت اور ملاقات کا شوق عرصے سے دل میں مچل رہا تھا، مگر اس ملاقات کو ترک کرناپڑا،سب کچھ پس پشت ڈال کر استاد محترم کے استقبال کے لیے نکل پڑا۔
دل میں عقیدت کا ایک طوفان برپا تھا،استاد محترم کی آمد ایک ایسا لمحہ تھا، جو میری زندگی کے یادگار لمحوں میں شامل ہونے والا تھا،استقبال کی تیاری، ان کی قیام گاہ کی ترتیب، اور ان کی خدمت کے لمحے، سب کچھ جناب محترم قاری محمد یونس صاحب نے اپنی جانب سے جناب محترم حافظ غیاث الدین صاحب کی مدد سےکیا یہ میرے لیے کسی سعادت سے کم نہ تھا،میں اپنی تمام تر مسرت کے ساتھ ان کا منتظر تھا، کہ وہ آئیں اور میری دنیا کو اپنے وجود کی برکتوں سے معمور کردیں۔
مطمع نظر یہ ایئرپورٹ کا وہ گوشہ تھا جہاں دنیا بھر سے آنے والوں کی راہ تکنے والے بے قراری سے کھڑے تھے، ہر آنکھ دروازے پر جمی تھی، ہر دل دھڑکنوں کے ساز پر کوئی مانوس چہرہ دیکھنے کو بے تاب تھا۔
اُدھر داخلی دروازے کے اُس پار، مسافر اپنا سفر تمام کر چکے تھے۔ وہ امیگریشن کی رسمی کارروائیوں سے گزر رہے تھے، سامان کی بیلٹ سے اپنے بیگ اٹھا رہے تھے، اور دھیرے دھیرے خروج کی جانب بڑھ رہے تھے۔ جیسے ہی شیشے کے دروازے کھلتے، باہر کھڑے لوگ ایک لمحے کے لیے سانس روکے کھڑے ہو جاتے— شاید وہی آ رہا ہو جس کے انتظار میں لمحے صدیوں میں ڈھل گئے تھے!
کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں تختیاں تھیں، جن پر نام جگمگا رہے تھے۔ یہ اجنبی تھے مگر اپنے منتظر مہمانوں کے لیے رہنما، جیسے کوئی روشنی اندھیرے میں راستہ دکھا رہی ہو، اور پھر، وہ لمحہ آتا ہے جب کسی کی نظر اپنے چاہنے والے پر پڑتی ہے، پلکوں میں چمک، چہروں پر خوشی کی لہر، دلوں میں سکون کی چادر تن جاتی ہے۔
قدم تیز ہو جاتے ہیں، بازو بے ساختہ پھیل جاتے ہیں، اور فاصلہ ختم ہو جاتا ہے، کچھ آنکھیں خوشی سے چھلک اٹھتی ہیں، کچھ ہونٹ بے اختیار مسکرا اٹھتے ہیں، اور کچھ جذبات خاموشی کی زبان میں سب کہہ دیتے ہیں۔
یہ صرف آمد نہیں تھی، یہ ایک خواب کی تعبیر تھی، ایک صبر کا انعام، ایک بچھڑنے کے بعد جڑنے کی خوشبو— ایئرپورٹ کے دروازے کے اس پار ایک نیا سفر۔
۔ ہماری نظریں اس مطمع نظر پر جمی تھیں کہ کب حضرت ایئرپورٹ سے باہر تشریف لائیں گے،طویل انتظار کے بعد، بالآخر حضرت اپنے نورانی وجود کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔
(فرد سے جماعت بنی، اور جماعت سے کارواں کی شکل اختیار کر لی، ہم سب جناب محترم قاری محمد یونس چودھری صاحب، جناب قاری عبد الرشید صاحب، جناب مقبول یوسف مجاور، اور حافظئ غیاث الدین صاحب جو پوری نائب خازن جمعیت علماء اندھیری ویسٹ حضرت کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ کی جانب روانہ ہوئے)
ہم سب نے عقیدت و محبت کے ساتھ حضرت کا پُرتپاک استقبال کیا اور انہیں لے کر اندھیری میں واقع انیتا ہوٹل پہنچے، جہاں قیام کا انتظام پہلے ہی کر لیا گیا تھا، جناب محترم قاری محمد یونس صاحب نے نہایت اہتمام کے ساتھ اپنے گھر سے نفیس کھانے کا بندوبست کیا تھا، جس سے حضرت سمیت ہم سب نے لطف اٹھایا،طعام کے بعد میں نے حضرت کی خدمت میں اپنی کتاب پیش کی، جسے انہوں نے ازراہِ محبت قبول فرمایا اور اپنی کتاب عنایت کر کے نوازا،حضرت کی محبت و شفقت نے دل کو تازگی بخشی،کچھ دیر علمی گفتگو کے بعد ہم نے حضرت کو آرام کے لیے چھوڑا اور عصر کی نماز اندھیری کی وسیع و عریض عیدگاہ کی مسجد میں ادا کی۔
بعد ازاں، ہم سب گونڈی کے عظیم الشان جلسہ میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے، جلسہ گاہ پہنچے تو دیکھا کہ جید علماء کرام پہلے سے تشریف فرما تھے، جن میں حضرت مولانا عبد القدوس شاکر حکیمی صاحب مدظلہ، جناب قاری صادق خان صاحب (ناظم و بانی، چیتا کیمپ)، حضرت مولانا مفتی حشمت اللہ صاحب قاسمی، مولانا سہراب ندوی (امارتِ شرعیہ، بہار)، مفتی آزاد صاحب قاسمی استاد حدیث و فقہ معراج العلوم چیتا کیمپ اورقاری بدر عالم صاحب (چیتا کیمپ)، اور دیگر کئی علمی و روحانی شخصیات شامل تھیں۔
اس بابرکت محفل میں استادِ محترم حضرت مولانا محمد خالد غازیپوری ندوی دامت برکاتہم العالیہ نے افتتاحِ بخاری کے موقع پر حدیثِ روایت کو نہایت محققانہ اور مدلل انداز میں بیان فرمایا، انہوں نے سلسلۂ سند کا تفصیلی ذکر کیا اور امام بخاریؒ کے مختصر سوانح پر روشنی ڈالی، ان کی پرمغز اور بصیرت افروز گفتگو سے سامعین کو علمی و روحانی فیضان حاصل ہوا اور مکمل ایک گھنٹہ کی تقریر ہوئ اور سامعین نے بڑے ذوق و شوق اور نہایت سنجیدگی سے سماعت کیا۔
پھر ہم لوگ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد جناب مولانا افضل پرویز قاسمی کے گھر گئے جہاں حضرت کے عشائیہ کا پر تکلف نظم تھا ،وہیں ہم لوگوں نے عشائیہ تناول کیا ،اورہم لوگ رخصت ہوگئے،حضرت کو بصد ادب واحترام انیتا ہوٹل اندھیری میں جہاں ان کا عارضی قیام تھا ٹھہرایا اور حضرت سے دعاء لیکر رخصت ہوا،ابھی لوکل ٹرین میں ہوں ،ٹرین بورولی پہنچی ہے۔
(سرحدی عقاب)
👍
1