ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
February 26, 2025 at 05:35 AM
چراغ فکر(یومیہ) ﴿سلسلہ نمبر:36﴾ آہ! جناب محترم مقیم صاحب نہیں رہے ✍️ شاہ امان اللہ ندوی ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ ممبئی کی معروف و مشہور شخصیت، جناب محترم مولانا محمد نوشاد احمد صدیقی (صدر منہاج السنہ، مالونی، ملاڈ) کے سمدھی، محترم مقیم صاحب کا گزشتہ سے پیوستہ کل ایک عارضہ کے سبب پینسٹھ ،یاسترسال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔إنا لله وإنا إليه راجعون۔ موت: ایک اٹل حقیقت یہی دستورِ ہستی ہے، یہی قانونِ قدرت ہے جو آیا ہے اسے جانا، یہی طے شدہ قسمت ہے موت ایک بے بدل حقیقت ہے جو ازل سے ہر جاندار کی گردن پر لکھ دی گئی ہے، یہ زندگی کا چراغ بجھا کر انسان کو عدم کی تاریکیوں میں چھوڑ دیتی ہے،دنیا کی ساری رعنائیاں، سبھی جلوے اور تمام خواہشات اس کے ایک جھونکے کے سامنے مٹی کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہورِ ترتیب موت کیا ہے؟ انھیں اجزا کا پریشاں ہونا یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ بادشاہوں کے تاج کو دیکھتی ہے، نہ فقیروں کی جھونپڑی کو خاطر میں لاتی ہے، نہ حسن کی تابناکی اسے روک سکتی ہے، نہ جوانی کی طغیانی اس کے سامنے ٹھہر سکتی ہے۔ یہ وقت کی گود میں چھپا ایک ایسا راز ہے جو ہر لمحہ افشا ہونے کے لیے بے تاب ہے، مگر انسان فریبِ زندگی میں مبتلا ہو کر اسے نظر انداز کرتا رہتا ہے۔ موت سے کس کو رُستگاری ہے؟ آج وہ، کل ہماری باری ہے مرحوم مقیم صاحب کی زندگی کا مختصر تعارف مسافر ہیں ہم بھی، مسافر ہو تم بھی کسی موڑ پر پھر ملاقات ہوگی مرحوم مقیم صاحب کا آبائی وطن راج نگر گاؤں، ضلع مدھوبنی تھا وہ پیشے سے ایک کامیاب ٹیلر ماسٹر تھے،کسبِ معاش کے لیے بیرون ملک دبئی میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا، پھر ممبئی کے علاقے مالونی میں مدرسہ منہاج السنہ کے پڑوس میں بس گئے۔ وہ قدیم طرز کے لوگوں کی طرح زیادہ رسمی تعلیم یافتہ نہیں تھے، مگر جو کچھ بھی تعلیم حاصل کی، وہ مضبوط بنیادوں پر قائم تھی۔ اہل خانہ اور پس ماندگان اللہ نے مرحوم کو ایک بیٹی اور تین بیٹوں سے نوازا تھا: 1. نوشاد (سب سے بڑے بیٹے) 2. شمشاد (حافظِ قرآن) 3. ارشاد (سب سے چھوٹے بیٹے) جو رب کی رضا پر راضی رہا، وہی کامیاب ہے جسے صبر آگیا،۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی لاجواب ہے حافظ شمشاد سلمہ نے اپنے والد محترم کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اپنے بھائیوں کی طرف سے حقِ ابنیت ادا کیا۔ نمازِ جنازہ میں علمائے کرام اور احباب کی بڑی تعداد شریک تھی۔ مولانا نوشاد احمد صدیقی سے رشتہ یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے "خربوزہ خربوزے سے رنگ پکڑتا ہے"، محترم مقیم صاحب، مولانا نوشاد احمد صدیقی کے سمدھی تھے، مولانا نوشاد صاحب کی دختر نیک اختر عزیزہ بشریٰ سلمہا مرحوم کی بہو اور ان کے بڑے بیٹے نوشاد کی منکوحہ ہیں۔ مولانا نوشاد صاحب ایک عالمِ دین ہیں، اور محسوس ہوتا ہے کہ ان کا فیض و اثر مرحوم پر بھی پڑا تھا، کیونکہ وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند، نیک، متواضع، ملنسار اور کم گو تھے۔ وہ "من صمت نجا" (جو خاموش رہا، وہ نجات پا گیا) کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو مگر مجھ کو لوٹا۔۔۔۔۔۔ دو بچپن کا ساون مسجد ابوبکر سے گہرا تعلق وہ چراغ بن کے جیا، سب کو روشنی دے گیا خود مسافر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر راستہ دکھا گیا عارضہ لاحق ہونے کے بعد انہوں نے مسجد ابوبکر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا، پنج وقتہ نمازیں ہمیشہ اسی مسجد میں ادا کرتے تھے۔ علالت کے بعد انہوں نے بیرونِ ملک جانا ترک کردیا تھا اور زیادہ تر وقت گھر اور مسجد کے درمیان گزارتے تھے،کچھ ماہ قبل گاؤں کی محبت نے انہیں بے قرار کیا تو آٹھ ماہ پہلے وہ اپنے آبائی وطن کی آخری زیارت کرکے واپس آئے تھے آخری الوداع دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟ روئیں گے ہم ہزار بار، ۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی ہمیں رلائے کیوں؟ مجھے ان کے انتقال کی اطلاع سوشل میڈیا کے ذریعے ملی تو پہلے یہی سمجھا کہ جناب مولانا نوشاد احمد صدیقی کے نامور صاحبزادہ مولانا طفیل ندوی کے سسر کا انتقال ہوگیا ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ بیٹے کے سسر نہیں، بلکہ بیٹی کے سسر محترم مقیم صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ یہ خبر دل کو افسردہ کر گئی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے گناہوں کو حسنات میں تبدیل کرے، ان کی برزخی زندگی کو آسان کرے، اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں (چونکہ مصروفیات کی بنا پر تعزیتی نشست میں شرکت ممکن نہیں، اس لیے یہ چند سطور محبت نامے کی شکل میں مولانا نوشاد صاحب صدیقی کی خدمت میں پیش ہیں) اللہ ہم سب کو موت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ( سرحدی عقاب)

Comments