
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
February 26, 2025 at 07:33 PM
چراغ فکر(یومیہ)
﴿سلسلہ نمبر:37﴾
ادب، سماج اور حقیقت
✍️ شاہ امان اللہ ندوی
ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ
شام کی سیاہی آہستہ آہستہ شہر کے بدن پر اتر رہی تھی، بازار کی روشنیاں جگمگانے لگیں اور گلیوں کے پیچ و خم میں زندگی اپنی ایک الگ چمک لیے رواں دواں تھی، میں ایک پرانے ادبی تحقیقی کام کے سلسلے میں ایک تاریخی محلے میں تھا، جہاں کبھی علم و فن کی محفلیں جمی رہتی تھیں، مگر اب اس کے نقوش دھندلا چکے تھے، اسی محلے میں میرا سامنا ایک ایسی عورت سے ہوا، جس کی کہانی تاریخ کے اوراق میں درج تو نہ تھی، مگر حقیقت کے رنگ اس پر پوری طرح بکھرے ہوئے تھے۔
وہ ایک طوائف تھی، مگر صرف ایک طوائف نہیں تھی, ایک زندہ داستان تھی، جو وقت کے ہاتھوں بار بار لکھی اور مٹائی گئی تھی۔
میں نے اسے ایک نیم تاریک کوچے کے کنارے ایک پرانے جھروکے سے جھانکتے ہوئے دیکھا،آنکھوں میں ایک عجیب سی گہری چمک تھی، جیسے ہزاروں کہانیاں ان میں دفن ہوں،میں نے آگے بڑھ کر پوچھا،
"کیا میں چند لمحے تم سے بات کرسکتا ہوں؟"
وہ مسکرائی، ایک تلخ مسکراہٹ، جیسے کوئی شکست خوردہ سپاہی اپنی شکست پر ہنستا ہو۔
"باتیں تو یہاں سب کرتے ہیں، مگر سنتے کوئی نہیں،تم کون ہو؟ اور کیا تلاش کر رہے ہو؟"
"میں ایک کہانی تلاش کر رہا ہوں، جو حقیقت کے قریب ہو،" میں نے کہا۔
"پھر تم صحیح جگہ آئے ہو،" اس نے پلٹ کر اندر آنے کا اشارہ کیا۔
ایک طوائف کی زبان سے
کمرہ عام گھروں سے مختلف نہ تھا، مگر اس کی دیواروں پر وقت کے نقوش گہرے تھے۔ ایک طرف ایک پرانا ساز پڑا تھا، جس کی تاریں شاید اب بھی وہی سُر بکھیر سکتی تھیں جو کبھی درباروں میں گونجتے تھے۔
"تمہیں کیا سننا ہے؟ میری کہانی یا میرا نوحہ؟"
"تمہاری حقیقت!"
وہ مسکرائی، مگر آنکھوں میں چمک مدھم ہوگئی۔
"حقیقت؟ حقیقت یہ ہے کہ میں ایک عورت ہوں، مگر عورت کہلانے کا حق مجھ سے چھین لیا گیا ہے، جب کوئی مرد آتا ہے تو میں صرف ایک جسم بن جاتی ہوں، میرے نام، میری شناخت، میری ہنسی، میری آنکھوں کے خواب، سب کچھ کسی اور کی ملکیت ہے۔ میں زندہ ہوں، مگر زندگی میری نہیں۔"
میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ "یہ راستہ تم نے خود چنا یا کسی نے دھکیل دیا؟"
"کسی عورت کے لیے یہ راستہ کبھی انتخاب نہیں ہوتا۔ میں بھی کبھی کسی کی بیٹی تھی، کسی کی بہن تھی۔ مگر وقت کی ستم ظریفی دیکھو، آج میں صرف ایک جسم ہوں،میرے نصیب میں صرف راتیں لکھی گئیں، وہ بھی ایسی جو ختم ہوتے ہی ایک نئی اندھیری صبح لے آتی ہیں۔"
میں نے اس سے پوچھا، "کیا کبھی تم نے آزادی کا خواب دیکھا ہے؟"
"خواب؟ خواب تو وہ دیکھتے ہیں جنہیں یقین ہو کہ نیند کے بعد ایک نیا دن ہوگا،میں نے خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے، میں اب صرف ایک عادت ہوں، جو دوسروں کی تسکین کے لیے جیتی ہے۔"
"کیا تمہیں لگتا ہے کہ سماج تمہیں قبول کر سکتا ہے؟"
"سماج؟ وہی سماج جو دن میں مجھے گناہ کہتا ہے اور رات میں میرے در پر دستک دیتا ہے؟ وہ مجھے کبھی قبول نہیں کرے گا، کیونکہ میں ان کے دوہرے معیاروں کا آئینہ ہوں۔"
اختتام یا آغاز؟
میں خاموش ہوگیا۔ شاید میرے پاس کوئی جواب نہ تھا، یا شاید میں اس خاموشی میں اس عورت کے درد کی شدت کو محسوس کر رہا تھا۔
"تو پھر تمہیں کیا ملا اس ملاقات سے؟" اس نے آخر میں پوچھا۔
میں نے ہلکی سانس لی اور کہا، "سچائی۔ اور سچائی ہمیشہ تلخ ہوتی ہے۔"
"یہاں ہر چیز تلخ ہے، میرے دوست!" وہ مسکرائی اور کھڑکی کی طرف دیکھنے لگی، جہاں شام کی تاریکی اب مکمل ہوچکی تھی۔
میں باہر نکلا، مگر اس کی آواز میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی، میں نے ایک کہانی تلاش کی تھی، مگر میرے ہاتھ میں ایک ایسی حقیقت تھی جسے شاید کوئی تسلیم نہ کرے، ایک طوائف کی کہانی، جو صرف اس کے بدن تک محدود نہ تھی، بلکہ ایک پوری تہذیب کا نوحہ تھی۔
(سرحدی عقاب)