KOH NOVELS URDU
KOH NOVELS URDU
March 1, 2025 at 12:20 PM
یاروں کی یاری قسط 1 ازقلم فاطمہ طارق "امی آپ تو کہتی تھیں ہمیشہ ساتھ رہوں گی پھر کیوں مجھے اس دنیا کی بھیر میں اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں۔ یہ جانتے ہوۓ کہ اپکے علاوہ میرا خیال کون رکھے گا" وہ ٹرین کی کھڑکی سے باہر تیزی سے بھاگتے درختوں کو دیکھتے ہوۓ دل ہی دل میں اپنی امی سے مخاطب ہوئی، ایک آنسو پلکوں کی بار کو توڑتا گال پر پھسلا تھا، کچھ ہی دیر میں ٹرین پلیٹ فام پر رکی۔ "غضب خدا کا کتنا لمبا سفر تھا، ٹانگیں ٹوٹ گئیں، یوں اچانک مر کے ہمارے سر بوجھ ڈال گئی، اب ساری زندگی سھنمبالتے رہو" امینہ بیگم نے اپنا بیگ کندھے پر ڈالتے میرال کو ایل نظر دیکھ کر کہا، جو کہ انکی بات سن کر بس صبر کا گھونٹ ہی پی سکی، کیونکہ جانتی تھی، اب تو یہ روز سننا پڑے گا۔ "چلو میرال! " ملائکہ نے سامنے سیٹ پر خاموش بیٹھی اپنی بہن کو کہا۔ وہ جانتی تھی اس وقت اسکے دل پر کیا گزر رہی ہے،وہ خود بھی اسی دور سے گزر رہی تھی۔ پر وہ بری تھی، تو اپنے آپ کو مظبوط رکھنے کی کوشش کر رہی تھی، تا کہ اپنی بہن کو سھنمبال سکے، میرال نے ہاں میں سر ہلاتے ہوۓ اپنے کندھے پر اپنا چھوٹا سا بیگ رکھا اور اپنی بہن کے پیچھے ٹرین کے ڈبے سے باہر نکلنے لگی۔ ٹرین سے باہر نکلی تو آس پاس لوگوں کی بھیر تھی،ملائکہ کے ساتھ چلتی وہ ایک طرف کھڑی ہو گئی۔ جہاں امینہ بیگم جو کہ ملائکہ کی ساس تھیں،اور عامر نمرہ کو کندھے سے لگاۓ کھڑے تھے۔ کیونکہ وہ سوئی ہوئی تھی۔ "لائیں عامر نمرہ کو مجھے دے دیں" ملائکہ نے اپنے پاس کھڑے شوہر سے کہا۔ جو کہ موبائل پر اپنے بھائی کو کال کر رہا تھا۔ جس نے انہیں سٹیشن سے لینے آنا تھا۔ اسنے ملائکہ کو نمرہ پکڑائی اور آرام سے موبائل پر بات کرنے لگا۔ "غضب خدا کا یہ باسط کہاں رہ گیا، دو گھنٹے ہو گے یہاں کھڑے ہوۓ، بن بلاۓ نئے نئے عزاب سر پر مسلط ہو جاتے ہیں" امینہ بیگم نے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوۓ، نفرت بھری نگاہ ملائکہ کے بگل میں کھڑی میرال پر ڈالی۔ میرال نے چہرہ دائیں طرف موڑ لیا۔ اور آنکھ کے کنارے سے بہنے والا آنسوں صاف کیا۔ تبھی عامر نے ان سب کو آنے کا اشارہ کیا۔ وہ سب دور کھڑی گاڑی کی اُور گے۔ جہاں باسط اور عامر کھڑے تھے۔ سارا سامان گاڑی کی ڈکی میں رکھا، اور گاڑی کو گھر کے رستے پر ڈالا۔ میرال نے شیشے سے باہر بھاگتے رستے کو دیکھا، کچھ باتیں اسکے ذہن کے پردے پر لہرائیں۔ "امی بس میری سکالرشیپ لگ جاۓ ،پھر ہم اگلے ہی ہفتے کراچی چلے جائیں گے" وہ اپنے بالوں میں برش کرتے ہوۓ سہانے سپنے دیکھ رہی تھی۔ کچھ دن پہلے ہی تو اسنے سکالرشپ کے لیے اپلائی کیا تھا۔ "اللہ میری بچی کو وہ سب دے جسکا اسنے سوچا ہے، اور محنت کی ہے" انہوں نے اسکا ماتھا چومتے ہوۓ کہا تھا۔ وہ ماضی میں کھوئی ہوئی تھی کہ گاڑی جھٹکے سے رکی۔ وہ لوگ گھر پہنچ گے تھے۔ ****************************** کالی مرسڈیز ویران سڑک پر بھاگ رہی تھی، آس پاس خاموشی چھائی ہوئی تھی، وہ بے فکری سے گاڑی چلا رہا تھا گاڑی کے شیشے کھلے ہوۓ تھے، تیز میوزک گاڑی میں بج رہا تھا وہ جو کوئی بھی تھا شائد بہت خوش تھا، گانے کی لائینز وہ مسلسل گنگنا رہا تھا۔ تبھی اچانک تین چار ہیوی بائیکس پیچھے سے تیز سپیڈ پر چلتی اسکی گاڑی کے ساتھ سے گزریں۔ اسکے ماتھے پر بل نمودار ہوۓ، کوئی اسکی گاڑی کو کٹ کر گیا تھا۔ یہ بھلا اسے کیسے منظور تھا۔ وہ اپنی سپیڈ پڑھانے ہی والا تھا جب وہ چاروں بائیکس سیدھے چلتی اچانک اسکی طرف مُڑیں اسنے جلدی سے گاڑی کی بریکس پر پاؤں رکھا۔ گاڑی ایک جھٹکے سے روکی۔ اسنے اپنے ماتھے پر بکھرے بال ہاتھ سے پیچھے کیے۔ اور حیرانگی سے سامنے کا منظر دیکھا۔ جہاں وہ چاروں بائیکس اب رک چکیں تھیں اور اب اس پر سوار افراد اتر کر بائیکس کے سامنے کھڑے ہوۓ تھے۔ سب کے چہرے پر ہیلمٹ تھے۔ اسنے اپنی گاڑی میں رکھی پسٹل نکالی اور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ "کون ہو تم سب؟ اور کیا چاہیے؟" وہ پسٹل کا رخ انکی طرف کرتے ہوۓ بولا۔ وہ چاروں ایک ساتھ قدم اُٹھاتے اسکی طرف بڑھے۔ بالکل اسکے پاس آ کر کھڑے ہوۓ۔ ان میں سے ایک آگے بڑھا اور اسکے چہرے پر پنچ مارا، وہ لڑکھڑایا اور پسٹل ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گِرھی۔ پھر دوسرا آگے بڑھا اور اسنے بھی ایک پنچ مارا، سامنے والا ہلکا سا ہنسا۔ مجھے چھیر رہے ہو زندہ رہنا چاہتے ہو تو دفع ہو جاؤ۔ وہ اپنے ہونٹ سے ہلکا سا نکلا خون صاف کرتے وارنگ دیتے ہوۓ انداز میں بولا۔ وہ دونوں ایک ساتھ آگے بڑھے اور اسکے پیٹ پر پنچ مارے۔ "آہ سالو درد ہوتا ہے اتنا کیوں مار رہے ہو میں نے کیا کِیا؟" وہ چلاتے ہوۓ بولا تھا۔ "تو نے یہ کیاتو ہمیں بنا بتاۓ لندن آ گیا۔ وہ بھی اپنے گھمنڈی باپ سے ملنے، اگر تجھے کچھ ہو جاتا تو؟ ان میں سے ایک چلا کر بولا تھا۔ ایک اور پنچ اسکے منہ پر مارا۔ آہ! حسام سالے اگر تجھے بتاتا تو تم سب آنے نا دیتے اور مجھے وہ کوئی موقع نہیں چھوڑنا جس میں میرے باپ کی بےعزتی ہو" وہ ہنستے ہوۓ بولا۔ حسام پیچھے ہوا اور اپنا ہیلمٹ اتارا ایک ایک کر کے باقی سب نے بھی اتارے۔ "تم سب پاگل ہو میں پرسوں پاکستان آنے والا تھا" وہ اپنے سامنے کھڑے چاروں بے وقوف دوستوں کو دیکھ کر ہنستے ہوۓ بولا۔ جو اسکی فکر میں لندن تک ا گے تھے۔ "پرسوں نہیں ابھی ہم ابھی واپس جائیں گے، میں نے ٹکٹ بک کروا لیں ہیں، ہم سب ابھی کے ابھی واپس جائیں گے" امرحہ شاہ نے چاروں کو اپنی پاکٹ سے ٹکٹیں نکال کر دیکھائیں۔ "کیا ہو گیا ہے؟ یار اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہو؟ کل صبح چلے جائیں گے ابھی میں بہت تھکا ہوا ہوں اور اب تو زخمی بھی ہوں تو ابھی واپس جانا نا ممکن ہے" وہ گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگاتے ہوۓ بولا۔ چاروں نے غصے سے بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ "حسام،ہارون، لگتا ہے اسکی عقل ابھی تک ٹھیکانے نہیں آئی، دو چار اور گھوسے مارو" عائشہ نے سامنے بے فکر کھڑے بلاج حمدانی کی طرف دیکھ کر کہا۔ جو اپنے سامنے کھڑے چاروں کو اپنے لیے فکر مند ہوتے دیکھ مسکرا رہا تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا،اگر اس دنیا میں اسکی کوئی پرواہ کرتا ہے تو وہ اسکے چاروں جان سے عزیز دوست ہی ہیں۔ "بڈی دیکھ سب کو مزید پریشان مت کر کل رات سے ہم تجھے ڈھونڈ رہے تھے، اب ہم بھی تھک چکے ہیں۔ چل واپس چلتے ہیں ورنہ تیرے ڈیڈ آئی مین سکندر حمدانی نے پچھلی بار کی طرح کوئی نا کوئی مسلہ کھڑا کر دینا ہے، اور واپس جانا مشکل ہو جانا ہے" ہارون نے اسے تحمل سے سمجھانا چاہا۔ "تجھے کیا لگتا ہے میں میرے باپ کے ڈر کر بھاگ جاؤں ، ناممکن اب دیکھتا ہوں وہ میرے کیے پر کیا سزا دیتے ہیں۔ اور تم سب تو جانتے ہو سزائیں لینے میں تو ماہر ہوں" وہ پراسرا مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا۔ " گائیز چلو یہاں سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ،ہم اتنی دور سے یہاں گھاس کھودنے آۓ ہیں، وہ دیکھ میری بائیک پر دو ڈنڈے لگے ہیں، ہارون نے فسٹ ایڈ کٹ لایا ہے،یہ ہماری معصوم سی عائشہ نے مختلف قسم کی سپرے لائیں ہیں،تاکہ اگر کوئی تجھے مارے تو ہم اسکی آنکھوں مین ڈال سکیں۔اور یہ امرحہ اس بچاری نے اپنی فائیٹنگ کے ساری پریکٹس رات کو کی، صرف تجھے بچانے کے لیے اور تو ہنہہ تجھے تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا، ہم معصوم سارے تیری فکر میں یہاں دورے دورے آۓ اور تو۔۔ ہاہ" حسام چہرے پر جہاں بھر کی معصومیت، اداسی سجاۓ بولا تھا۔ بلاج مسکراہٹ دبا اسکا ناٹک دیکھ رہا تھا۔ وہ سب کی رگ رگ سے واقف تھا۔ کچھ بھی کہو جتنے ڈرامے کرنے ہے کر لو میں نہیں جانے والا جب تک میرا باپ میرے کیے پر جواب نہیں دیتا مین تو نہیں ہلنے والا۔ اور تم سب نے شائد مجھے کمزور سمجھا ہوا ہے۔ یاد ہے نا پچھلی دفع دس لوگ تھے جنہیں ایک میں نے اکیلے ہیں ٹھکانے لگایا تھا۔ چلو اب مجھے ہوٹل جانے دو۔ وہ بولتا ہوا گاڑی کے دروازے کی طرف برھا تھا۔ "وہ دن شائد تم بھول گے ہو جس دن ہم تمہیں کھونے والے تھے،پر ہم نہیں بھولے، اس دن بھی تم اسی طرح بی ہیو کر رہے تھے، جسے سب نارمل ہے جیسے تمہیں کوئی فرق نہیں پرتا،اسکے بعد جو ہوا ہم سب جانتے ہیں، ہارون کی آواز نے اسکے قدم جکڑ لیے تھے۔ وہ کس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا وہ خوب سمجھا تھا۔ امرحہ نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ بلاج نے مُڑ کر اسکی طرف دیکھا اب اسکے چہرے پر کوئی مسکراہٹ کوئی نرمی نہیں تھی، بس لال انگارے بھرتی نگاہیں تھیں۔ وہ کس طرح اپنا اوبلتا غصہ کنٹرول کر رہا تھا یہ وہی جانتا تھا۔ " لڑکیوں چلو حسام نے امرحہ اور عائشہ کو آنکھ کا اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔ اور خود بھی انکے ساتھ بلاج کی طرف بڑھا۔ "اوۓ! یہ کیا کر رہے ہو؟ بلاج اپنے دونوں ہاتھوں کو پیچھے کی طرف باندھتے ہوۓ دیکھ کر بولا۔ " اپنی ضدی دوست کو واپس لے کر جا رہے ہیں" حسام نے اسکے منہ پر ٹیپ لگائی بلاج نے خود کو چھڑوانے کی کوشش کی ہر ناکام رہا ان تینوں نے اسے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھایا۔ ہارون نے گاڑی چلائی، باقی سب۔ آگے پیچھے بیٹھے تھے۔ بلاج نے ہاتھ چھڑوانے اور چلانے کی کوشش کی پر ناکام رہا۔ کچھ ہی دیر میں وہ سب ایئرپورٹ پر پہنچے۔ ائیرپورٹ پہنچ گے ہیں اب اگر تم نے جانے سے انکار کیا تو ہم چاروں تجھ سے کبھی بات نہیں کریں گے۔ حسام نے ایموشنل بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ بلاج نے بھی اب اپنا ارادہ ترک کیا اور انکے ساتھ جانے کے لیے مان گیا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا یہ چاروں اسکی جان نہیں چھوڑیں گے۔ امرحہ نے اسکے ہاتھ کھولے اور منہ سے ٹیپ اتاری۔ "بچو یہ سب یاد رکھنا، تم سب کو اسکا انجام بھگتنا پڑے گا، اور تم دونوں نے جو مجھے مارا ہے اسکا حساب علحیدہ سے لوں گا وہ اپنا حلیہ ٹھیک کرتے ہوۓ بولا۔ " جانی جو چاہے سزا دینا پر ابھی چل"حسام دانت دیکھاتے ہوۓ بولا۔ امرحہ نے گاڑی سے بلاج کا پاسپورٹ پکڑا پانچوں ائیرپورٹ کے اندر چلے گے۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ سب جہاز میں بیٹھے تھے سبھی کی سیٹس آس پاس تھیں۔ کچھ ہی دیر میں جہاز نے اپنی منزل کی طرف اُڑان بڑھی۔ "چل اب بتا لندن میں کون سے بٹاخے پھوڑے" حسام اب اسکا کارنامہ جاننے کے لیے اتاولا ہو رہا تھا۔ باقی سب بھی اسکی طرف متوجہ ہوۓ۔ "یہ تو ابھی نہیں بتاؤں گا تم سب نے جو میرے ساتھ کیا اسکی اتنی سی سزا تو بنتی ہے" وہ اپنی انکھیں بند کرتے سیٹ سے ٹیک لگاتے ہوۓ بولا۔ سبھی اسکی بات پر تپے۔ "بلاج حمدانی بتا کیا کارنامہ کیا ورنہ تیرے یہ بال تو گے" امرحہ نے اسکے بال کھینچتے ہوۓ کہا۔ "آہ جنگلی چھوڑ بتاتا ہوں" بلاج اپنے بالوں کو چھڑواتے ہوۓ بولا تھا۔ اور ہاتھ کی مدد سے اپنے بالوں کو سیٹ کیا۔ سبھی جانتے تھے وہ اپنے بالوں سے کتنا پیار کرتا ہے۔ اپنے بالوں کا سٹائل خراب کرنے والے کا وہ حشر نشر کر دیتا ہے۔ پر یہاں اسکے دوست تھے جنہیں وہ کچھ نہیں کہ سکتا تھا۔ بس سن سکتا تھا۔ وہ انہی کی تو سنتا تھا باقی کسی کا اسکے سامنے زبان کھولنا بھی ناممکن تھا۔ "ہاں تو سنو! جس دن مجھے پتہ چلا مسٹر سکندر حمدانی اپنی نئی کڑوروں کی ڈیل کرنے لندن چلا گیا ہے، میں کل شام کو لندن آ گیا، ساری رپورٹ میرے پاس تھی کہاں میٹنگ ہونی ہے سب معلوم تھا۔ میں نے بس وہاں انٹری لی اور۔۔ "مینجر ! ابھی تک آڈر لے کر کیوں نہیں أۓ،آدھا گھنٹہ ہو گیا ہے آڈر دیے،ابھی کے ابھی سب کو نوکری سے نکال دوں گا"سکندر حمدانی آج اپنے لندن والے ریسٹورینٹ میں بیٹھے اپنے سب سے برے پراجیکٹ کی میٹنگ کر رہے تھے۔ اپنے ہی ریسٹورینٹ میں ابھی تک آڈر نا آنے پر وہ غصے سے وہاں کے مینجر پر چیخے۔ وہ ابھی اُردو بول رہے تھے۔ " سوری سر اصل میں وہ۔۔۔۔" مینجر ابھی کچھ بول ہی رہا تھا جب پیچھے سے آواز آئی۔ "سر غلطی میری ہے صرف میری وجہ سے آڈر لیٹ ہو گیا ہے پر فکر مت کریں یہ لیجے اپکا کھانا" آنے والے نے کافی کی ٹرے جس میں چار کپ تھے سامنے ٹیبل پر رکھی۔ ٹیبل کے اطراف چار لندن کے جانے مانے لوگ بیٹھے ہوۓ تھے جنکا کاروبار دبئی میں پھیلا ہوا تھا۔ "تم " سکندر حمدانی نے سامنے ویٹر کے اوتار میں کھڑے اپنے بیٹے کو دیکھتے ہی ماتھے پر بل چڑھاۓ غصے کو بامشکل دباتے ہوۓ کہا. "مسٹر حمدانی اپکا بیٹا اس ویٹر ڈریس میں کیا کر رہا ہے" سامنے بیٹھا مائیکل اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہو سوالیہ انداز میں سکندر صاحب سے انگریزی میں مخاطب ہوا۔ جنکے ماتھے پر بلوں کا اضافہ ہو رہا تھا۔ "سر اپکو میرے باپ کے بارے میں شائد علم نہیں انہوں نے میرے کریڈیٹ کاڈ بند کر دیے تو مجبوراَ مجھے ریسٹورینٹ میں جاب کرنی پڑی۔ وہ چہرے پر معصومیت سجاۓ بولا یوں جیسے دنیا میں اس سے معصوم انسان تو کوئی ہے ہی نہیں۔ سکندر صاحب نے گھور کر اسے چپ رہنے کا کہا۔ پر وہ کہاں چپ ہونے والا تھا جس کام سے وہ یہاں آیا تھا اسے کیے بنا کیسے جا سکتا تھا۔ کیا یہ سچ ہے سکندر حمدانی مائیکل نے اسکی بات سن کر حمدانی صاحب سے پوچھا۔ دیکھو مائیکل یہ سب بکواس ابھی حمدانی صاحب بولنے ہی والے تھے۔ کہ وہ بول ہی رہے تھے کہ اسنے ٹوکا۔ سر میں بھلا جھوٹ کیوں بولوں گا، جس انسان کے دل میں ایموشنز نا ہوں اس انسان کے ساتھ کوئی کام نہین کرنا چاہیے نقصان ہی ہوتا ہے،آپ کو تو مشورہ دیتا ہوں مت کریں ڈیل، زیادہ بولوں گا تو میرا مینجر نکال دے گا۔ اب دو وقت کی روٹی کھانے کے لیے اتنی ذلت تو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ یہ سب بھی انہی نے اسے کہا ہے کام نا کرے تو نکال دینا۔ اپنے بیٹے تک کو جو نا بخشے وہ کہاں آپ جیسے لوگوں کو منافع دے گا۔۔ بلاج نے چہرے پر جہاں بھر کی مظلومیت سجا کر کہا۔ جیسے اس سے زیادہ غریب انسان اس دنیا میں کوئی نا ہو۔ سامنے بیٹھے کلائینٹ نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔ حمدانی صاحب کا کیا ابھی اسکے چہرے پر تھپر مار دیں۔پر انہوں نے کنٹرول کیا۔ "میں چلتا ہوں " وہ سلام کرتا وہاں سے چلا گیا اور دور جا کر کھڑا ہو گیا۔ نا جانے وہ لوگ حمدانی صاحب سے کیا بول رہے تھے پر وہ کافی غصے میں لگ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں وہ سب وہاں سے چلے گے۔ سکندر حمدانی نے اپنا رخ اس طرف کیا جہاں وہ کھڑا تھا۔ پر اب وہ جگہ خالی تھی وہ انکے نکلتے ہی نکل چکا تھا۔ سکندر حمدانی نے اپنا سر ہاتھوں پر گِڑایا تھا۔ ایسا واقع ایک سال پہلے بھی ہوا تھا پر تب اس نے کسی اور طریقے سے ڈیل کینسل کروائی تھی آج دوبارہ سے اسنے وہی کیا۔ انہی کا بیٹا انکا سب سے برا دشمن بنا ہوا تھا۔ تو یہ سب ہوا تھا بلاج پرسکون لہجے میں ان چاروں کو سب بتا رہا تھا۔ "اف بلاج تیرے دماغ کی داد دینی پڑے گی۔ کیا چکر چلایا میں گڑنٹی دیتا ہوں اب تیرا باپ نہیں چھوڑے گا" حسام اسکا سارا کارنامہ سن کر بولا۔ "میں کب کہتا ہوں چھوڑے، میں تو چاہتا ہوں،میرا باپ میری وجہ سے خوف کھاۓ ، ہر کام کرنے سے پہلے ڈرے" وہ اپنے غصے کو دباتے ہوۓ بولا۔ "یہ کچھ زیادہ نہیں ہو گیا مطلب بہت نقصان ہو گیا ہے" ہارون نے افسردہ لہجے میں بولا۔ چاروں نے غصے بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ "کیا ہے؟" وہ ہکلاتے ہوۓ بولا۔ "تو بچہ ہے چپ کر کے سو جا" عائشہ نے ہارون کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔ ہارون نے منہ بسورہ۔ اسکی حرکت پر ابھی کا قہقہ بلند ہوا۔۔ ****************************************** " میرال تمہاری امی کے بارے میں پتہ چلا بہت افسوس ہوا، پر تم فکر مت کرو، ہم سب انکی کمی تو پوری نہیں کر سکتے پر تمہیں یہاں اس گھر میں کسی بھی قسم کی پریشانی نہیں ہو گی" وہ ڈائینگ ٹیبل پر پلیٹس لگا رہی تھی۔ جب تقی افسردہ لہجے میں بولا۔ "تقی بھائی! جو انسان دنیا میں آیا ہےا سے جانا تو ہے ہی، اب وہ آج جاۓ یا کل، ہم سب نے بھی ایک دن چلے جانا ہے، بس میری امی تھوڑا جلدی چلی گئیں، پر پتہ ہے جاتے وقت وہ مجھے رونے سے منع کر کے گئیں تھیں، پر میرے آنسوں رک ہی نہیں رہے میں کیا کروں۔" وہ نم لہجے میں بولی تھی۔ تقی اپنے سامنے اس چھوٹی سی لڑکی کو اتنی سی عمر میں اتنے برے برے غم اُٹھاتے دیکھ افسردہ ہوا تھا۔ "تمہاری امی نے تمہیں مظبوط رہنے کا کہا تھا تو مظبوط رہو، مظبوط رہو گی تو دنیا سے لڑ پاؤ گی ورنہ یہ دنیا توڑنے مین دو پل نہیں لگاۓ گی" وہ اسے سمجھاتے ہوۓ بولا تھا میرال نے ہاں میں سر ہلایا۔ وہ جانتی تھی تقی اسے ایک برے بھائی کی حثیت سے سمجھا رہا ہے۔ "او لڑکی چل کیچن مین اپنی بہن کی مدد کر جہاں دیکھو لڑکوں سے باتیں کرنے میں مصروف ہو جاتی ہو" تبھی امینہ بیگم نے اسے تلخ لہجے میں کہا۔ میرال شرمندہ ہوتی کیچن میں ملائکہ کے پاس آ گئی۔ جس نے اپنی ساس کی بات سن لی تھی۔ پر وہ بھی کڑوا گھونٹ پی کر رہ گئی۔ تقی شرمندہ ہوتا گھر سے باہر نکل گیا۔وہ اپنی ماں کی تلخ کلامی کو بہت اچھے سے جانتا تھا۔ "جو بات کرنی ہو مجھ سے کرنا دوبارہ تقی یا باسط سے بات مت کرنا" ملائکہ نے سخت لہجے میں کہا۔ میرال کو لگا وہ بھی اسے غلط سمجھ رہی ہے۔پر وہ اپنی ساس کو بہت اچھے ست جانتی تھی۔ "جی آپی" اسنے ہاں میں گردن ہلاتے ہوۓ کہا۔ اور بامشکل اپنے آنسوں کنٹرول کیے۔ **************************************** وہ دبے قدموں سے داخلی دروازے کو کھول کر اندر داخل ہو رہی تھی، آس ہاس دیکھا تو مکمل اندھیرا تھا صرف ایک کمرے کی لائیٹ جلی ہوئی تھی، اور وہ یقیناً اسکے بھائی کا تھا۔ کھلی بلو جینز، اوپر بلیک کھلی ہی شرٹ پہنے، گھونگھرالے شولڈر کٹ بال کھولے، کندھے پر بیگ ڈالے اور پاؤں میں جاگرز ڈالے وہ لڑکوں کے بھیس میں لڑکی تھی۔ اپنی انکھوں کو چھوٹی کر کے اسنے ہاتھوں کو دوربین کی شکل میں انکھوں پر رکھا اور آس پاس دیکھنے لگی جب رستہ صاف لگا تو سانس خارج کرتی اندر داخل ہوئی۔ وہ دبے قدموں سے چلتی جا رہی تھی آدھی راہداری عبور کر لی جب ایک دم کسی نے اسکا کان پکڑ کر مڑورا تھا۔ "آہ بچاؤ مجھے، کسی نے مجھ پر جانی حملہ کر دیا، اب تو میں مرنے والی ہوں ہاۓ میری سانس کو کیا ہو رہا ہے لگتا ہے آخری سانسیں چل رہی ہیں" وہ اونچی اونچی آواز میں چلا رہی تھی۔ "تمہاری تو آخری سانسیں میں چلاتی ہوں یہ کوئی وقت ہے گھر آنے کا" سمائرہ بیگم غصے سے بولیں۔ اور اسکا کان زور سے مڑورا۔ "ہاۓ کوئی تو بچاۓ میری ظالم ماں سے" وہ اونچی آواز میں بولی کہ کہی سے اسکا بھائی ہی آ جاۓ کیونکہ اسکے کمرے کی لائیٹ جلی ہوئی تھی۔ وہ یقیناً اندر تھا۔ "کوئی نہیں آۓ گا، تم بتاؤ ابھی تک کہاں تھی؟" سمائرہ بیگم نے اسے سامنے صوفے پر بیٹھاتے ہوۓ پوچھا۔ "موم یار یو نو نا کل سے یونی شروع ہو رہی ہے تو بس اسی کی تیاروں میں مصروف تھی" وہ اُٹھ کر انکے کندھوں پر بازو پھیلاتے ہوۓ بولی۔ "حیات عالم میں تمہاری ماں ہوں تم میری ماں نہیں ہو جھوٹ بولنا بند کرو اور سچ بتاؤ کہاں تھی؟" سمائرہ بیگم نے اب اسے غصے سے کہا۔ پر اس پر انکے غصے کا کہاں اثر ہونے والا تھا۔ "حیات نہیں مام مِشی بولیں کتنی بار کہا ہے، یہ حیات نام میری پرسلینٹی پر سوٹ نہیں کرتا، بہت بھاری نام یے مِشی نام بالکل پرفیکٹ ہے " وہ اتراتے ہوۓ بولی تھی۔ سمائرہ بیگم نے نفی مین سر ہلایا۔ "یہ جو لڑکوں والے کہرے پہن کر گھومتی ہو وہ تو پرسنیلٹی پر بہت سوٹ کرتے ہیں اوت پٹانگ حولیہ بناۓ پھیرتی رہتی ہو۔ اتنے ڈریسز لا کر دیے ہیں وہ نازلی کی بیٹی ایماب کو دیکھا ہے اتنے اچھے سے ڈریسنگ کرتی ہے اتنی پیاری لگتی ہے، ایک میری ہی قسمت پھوٹی تھی، جو تم جیسی نکمی بیٹی ملی، اور ایک بیٹا ہے جو دو منٹ بیٹھ کر بات نہیں کرتا اور ایک تم ہو جسکے پاؤں اپنے گھر سے زیادہ دوستوں کے گھروں پر ٹکتے ہیں۔ ایماب کے ساتھ رہتی ہو تو اس سے ہی کچھ سیکھ لو۔ پتہ نہیں میرے بچوں کو کیا ہو گیا ہے۔ حیات دوبارہ سے ایماب نامہ سن کر پک چکی تھی۔ کیونکہ ہر روز دو دفع تو یہ نام سننا ہی پڑتا تھا۔ "مام اپکو پتہ ہے، میں آج رخسار سے ملی وہ بتا رہی تھی، ایک ہفتے بعد نازلی انٹی کے گھر پارٹی ہے۔ اور میں حیران ہوئی ہمیں کیوں نہیں پتہ۔ بھلا کہی پارٹی ہو اور میری بیوٹی فل ماما کو نا بلایا جاۓ ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ ہماری انسلٹ نہیں" وہ اب انکا دھیان بھٹکانے کے لیے آج کی سنی بات کو مرچ مثالے لگا کر بتا رہی تھی۔ " کیا سچ میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے مجھے نہیں بلایا" سمائرہ بیگم فوراً غصے میں آگئیں۔ حیات اپنے مِشن میں کامیاب ہو گئی۔ "ہاں تو اور نہیں تو کیا میں تو کہتی ہون ابھی فون کریں اور اشنا آنٹی سے پوچھیں انہیں بھی پتہ ہے" حیات نے اور مرچ کا ترکا لگایا۔ اور وہی سمائرہ بیگم اُٹھ کر خد سے باتیں کرتیں اپنے کمرے کی طرف برھیں۔ "یا اللہ شکر ہے بچ گئی ورنہ آج تو مشی تیرا جنازہ اُٹھننا تھا اگر پتہ چل جاتا میں کہاں گئی تھی" وہ شکر ادا کرتے ہوۓ بولی۔ اور اُٹھ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی جبھی رکی۔ ابھی تک اسکے بھائی کے کمرے کی لائیٹ جل رہی تھی۔ "دو منٹ برے ہونے کا بھی کوئی فرض ادا نہیں کیا، مجھے بھری جنگ میں اکیلے لڑنے دیا آ کر بالکل سہارا نہیں دیا، بھائی تیار رہو اہنی باری پر مجھ سے امید نا رکھنا" وہ دروازے کے اندر سر دے کر بولی جہاں بیڈ پر ارام سے وہ نیم دراز اپنے موبائل پر کچھ کر رہا تھا۔ "راحیل عالم یاد رکھنا" وہ اپنی بات کو اگنور ہوتے دیکھ غصے سے بولی اور دروازے کو کھٹاک سے بند کیا۔ راحیل کا قہقہ بلند ہوا۔ وہ پیر پٹختے ہوۓ اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔ جاری ہے...
❤️ 👍 2

Comments