
/\/\/-\|QB/-\|_
February 28, 2025 at 05:13 PM
مسلمان اپنا توازن کھو کر جوابی حملے کے دباؤ کی وجہ سے اسے پھر بحال نہیں کر پائے تھے۔ شجاعت میں مگر کہیں کوتاہی نہیں ہوئی تھی۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مخلوط قبائلی سپاہ کے ساتھ افراج کو مرتب کرنا ایک غلط اقدام تھا کیونکہ قبائلی جذبہ عربوں میں اب بھی بہت تیز تھا۔ دراصل اسلامی حمیت کے لئے اور اس انفرادی ہمت و مہارت کے لئے جو لشکر اسلام کی امتیازی خصوصیات تھیں، یہ جزبہ مزید طاقت بھی بہم پہنچاتا تھا۔ دشمن کی تعداد میں ایک کے بدلے تین کی برتری اور مسیلمہ کے مقلدین کے کٹڑ اور اندھے جوش کے سامنے مسلم افواج کا اندرونی ربط اس وجہ سے ڈھیلا پڑ گیا کہ قبائلی وفاداری کا بندھن موجود نہ تھا۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کی دوبارہ گروہ بندی کی۔ انہوں نے سابقہ صف آرائی اور سالاروں میں کوئی ترمیم نہ کی لیکن انہوں نے سپاہ کے از سر نو قبائلی اور خاندانی دستے اور گروہ مرتب کئے۔ ان حالات غالب تھا کہ ہر شخص نہ صرف اسلام کے لئے بلکہ اپنے خاندانی وقار کے لئے بھی لڑے گا۔ مزید برآں اس سے قبیلوں کے درمیان صحتمند رقابت کا بھی پہلو نکل آیا۔ جب لشکر پھر سے منظم ہو گیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور اس کے دوسرے اعلیٰ سالاروں نے اس کے جزوی اخراج کا چکر لگایا۔ انہوں نے سپاہ کے ساتھ بات چیت کی اور ان کے اس عزم کو پختہ کیا کہ مسیلمہ کے ہاتھوں زک اٹھانے کا پورا بدلہ لیا جائے گا۔ سپاہ نے قسم کھائی کہ ضرورت پڑی تو دانتوں تک سے لڑیں گے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے چند جری اور دلیر سپاہ چن کے ایک ذاتی دستہ بھی مرتب کیا۔ اس کے ساتھ ان کا ارادہ تھا کہ وہ خود کو جہاں لڑائی سب سے گھمسان کی ہو جھونک کر اپنی سپاہ کے لئے ایک مثال قائم کریں گے۔ یہ دستہ بہت کام آنے والا تھا۔ اس دستے کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے تاکید کی کہ میرے پیچھے پیچھے رہنا۔
اس طرح دوبارہ منظم ہو کر مسلمانوں نے باقاعدہ صفوں میں ایک بار پھر میدان عقرباء کی طرف پیشقدمی کی۔ وہ نہ صرف شیروں کی مانند بلکہ بھوکے شیروں کی طرح میدان کارزار کو لوٹے۔ دوسری طرف اسی اثناء میں مسیلمہ کذاب نے بھی اپنی فوج کو سابقہ ترتیب میں دوبارہ صف آراء کر لیا۔ وہ اللہ کی تلوار رضی اللہ عنہ کی دوسری ضرب کا اس یقین کے ساتھ منتظر تھا کہ وہ ایک بار پھر مسلمانوں کو بدحواس کر کے میدان سے بھگا دے گا۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے حکم پر لشکر اسلام دوبارہ اللہ اکبر کے نعروں اور اس معرکے کے خاص جنگی نعرے "یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)" کے ساتھ امنڈتا ہؤا آگے بڑھا نسبتاً چھوٹے لشکر نے پھر مرتدین کی کثیر التعداد سپاہ سے ٹکر لی۔ بازو، بازو سے اور قلب، قلب سے ٹکرائے۔ مسلم میمنہ کے سالار، حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رجال کا سامنا کیا جو کفار کے میسرہ کا مرتد سالار تھا، اس غدار کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی خواہش میں حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا، "اے رجال! تم نے دین حق کو چھوڑ دیا۔ اس کی طرف لوٹ آؤ، اسی میں شرافت اور بہتری ہے" غدار نے لیکن انکار کر دیا۔ پھر ان دونوں کے درمیان جو شدید مقابلہ ہؤا اس میں حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رجال کو جہنم رسید کر دیا۔
❤️
3