دارالافتاء بھاٹاباڑی
دارالافتاء بھاٹاباڑی
February 27, 2025 at 12:31 AM
▒▓█ دارالافتاء بھاٹاباری گروپ █▓▒ 📖 #کتاب_الربوا 📖 📚سوال نمبر :( *14421107* )📚 عنوان: *مکان بنانے کے لیے بینک سے لون لینے کا حکم:* سوال: میرے محترم و مکرم مفتی منور صاحب!! میری بہن کی معاشی حالات بہت ہی زیادہ خراب ہیں ان کے پاس رہنے کے لیے نہ ذاتی مکان ہے اور نہ کرائے کا مکان؛ اور نہ ہی کرائے دینے کا پیسہ ہے اور نہ ہی ذاتی مکان بنانے کی سکت ہے بلکہ بہت ہی زیادہ پریشانیاں ہیں جو ناقابلِ بیان ہیں اور بینک سے لون لیے بغیر عزت و آبرو کا بچانا بہت ہی مشکل ہے ساتھ میں کوئی کاروبار کا انتظام بھی نہیں ہے کہ اس سے پیسے بچا کر مکان بنائیں یہ پریشانیاں بہت دنوں سے لاحق ہیں جو ناقابل برداشت ہیں تو کیا ایسی صورت میں بینک سے لون لیکر گھر کا انتظام کر سکتی ہے تاکہ عزت و آبرو کی حفاظت ہوسکے، برائے مہربانی شریعت مطہرہ کی روشنی میں مسئلہ کا کچھ حل بتائیں ۔ المستفتی: حافظ انعام الحسن صاحب دھپ دھپی بنگالی ۔ ✺✺=====••✦✿✦••=====✺✺ *اَلْجَوَابُ حَامِدًاوَّمُصَلِّیًاوَّمُسَلِّمًا* : اسلام میں جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے اور سود دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور جب بینک سے لون لیں گے تو بینک کو سود ادا کرنا پڑےگا جوکہ حرام ہے ۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں فی ’’ صحیح مسلم ‘‘ : عن جابر قال : ’’ لعن رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال : ہم سواء ‘‘ ۔ (۲/۲۷ ، کتاب المساقات والمزارعۃ ، باب لعن آکل الربا وموکلہ) و في ’’ موسوعۃ تکملۃ فتح الملہم ‘‘ : قولہ : (وموکلہ) یعني : الذي یؤدي الربا إلی غیرہ، فإثم عقد الربا والتعامل بہ سواء في کل من الآخذ والمعطي ، ثم أخذ الربا أشدّ من الإعطاء لما فیہ من التمتع بالحرام ۔ (۷/۵۷۴ ، تحت رقم :۴۰۶۸) و  في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : قال صاحب التنویر التمرتاشي : الربا شرعًا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضۃ ۔ (تنویر الأبصار) ۔(۷/۳۹۸ - ۴۰۱) و في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن عون بن أبي جحیفۃ قال : رأیتُ أبي اشتری عبدًا حجامًا فأمر بمحاجمہ فکُسرتْ فسألتہ ، فقال : ’’ نہي النبي ﷺ عن ثمن الکلب وثمن الدم ونہی عن الواشمۃ والموشومۃ ، وآکل الربا وموکلہ ، ولعن المصور ‘‘ ۔ (۱/۲۸۰ ، کتاب البیوع ، باب موکل الربا ، حدیث :۲۰۸۶) و في ’’ عمدۃ القاري ‘‘ : والموکل المطعم والآکل الآخذ ، وإنما سوی في الإثم بینہما وإن کان أحدہما رابحًا والآخر خاسرًا ، لأنہما في فعل الحرام شریکان متعاونان ۔ (۲۱/۱۴، کتاب العدۃ ، باب مہر البغي والنکاح الفاسد ، تحت حدیث :۵۳۴۷) و في ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح ، یلزم أن تکون المدۃ معلومۃ في البیع بالتأجیل والتقسیط ۔ (۱/۲۲۷ ، ۲۲۸ ، المادۃ :۲۴۵ ، ۲۴۶) و في ’’ بحوث في قضایا فقہیۃ معاصرۃ ‘‘ : أما الأیمۃ الأربعۃ وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع المؤجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبت العاقدان بأنہ بیع ومؤجل بأجل معلوم وبثمن متفق علیہ عند العقد ۔ (ص/۷ ، بحوث فقہیۃ من الہند :ص/۱۲۳ ، بیع التقسیط) المسائل المہمۃ فیماابتلت بہ العامۃ جلد ۹/ ۲۵۲ اکل کوا مہاراشٹر ،محقق و مدلل جدید مسائل جلد ۱/ ۴۲۵ اکل کوا مہاراشٹر۔ لیکن صورت مسئولہ میں ایسے مجبور غریب آدمی کے لیے بینک سے لون لینے کی گنجائش ہوگی۔ ویجوز للمحتاج الاستقراض بالربح․ اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کا ایک فتوی ملاحظہ فرمائیں: سوال: ہم گھر کے لئے ایک پلاٹ لینا چاہتے ہیں تو کیا ہم اسے لینے کے لئے بینک سے لون لے سکتے ہیں؟ اسلام کی روشنی میں اس کا جواب دیں۔ جواب: بینک سے لون لینا جس کی ادائیگی میں قسطوار سود بھی دینا پڑتا ہے، ناجائز وحرام ہے۔ جس طرح سود کا لینا حرام ہے اسی طرح سود کا دینا بھی حرام ہے۔ البتہ ایسا شخص جو محتاج وغریب ہے، رہنے کے لیے گھر نہیں ہے، کرایہ کے مکان میں رہتا ہے اور مالک مکان اسے نکالنے پر تلا ہوا ہے، بے عزتی کی زندگی گذارتا ہے تو ایسے مجبور غریب آدمی کے لیے بینک سے لون لینے کی گنجائش ہے۔ ویجوز للمحتاج الاستقراض بالربح․ فتاوی دارالعلوم دیوبند، رقم الفتوی:۳۷۷۴۳) فقط واللہ اعلم وعلمہ اتم ۔ ✍ *کَتَبَہُ الْعَبْدُمُنَوَّرُبْنُ مُصْلِح الدِّیْنْ شیخ بھاٹاباری* ۰۹/صفرالمظفر ۱۴۴۱ھ مطابق ۲۷/ستمبر، ۲۰۲۰ء ❀ https://t.me/daruleftabhatabari ❀ ❀ https://www.facebook.com/groups/Daruleftabhatabari/ ❀

Comments