Baloch Students organization
Baloch Students organization
February 21, 2025 at 09:43 AM
*تحریر سعید فیض* *سال 1987 میں فروری 21 کو سانحہ جیونی کے وجوہات میں سب سے اھم وجہ میرے خیال میں یہ تھا کہ اس وقت بی ایس او سیاسی و تنظیمی طور پر بہیت مضبوط اور کام Hbیاب تھا۔ اسے ختم کرنے اور خوف پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے جلوس پر فائرنگ کی گئی ، یہ جلوس جیونی زون کی جانب سے نکالی گئی تھی ، جس کی قیادت اس وقت کے بی ایس او جیونی زون کے صدر کے طور میں (سعید فیض) ہی کر رہا تھا۔ اس جلوس سے قبل کئی دن تک لوکل انتظامیہ، تحصیلدار اور ڈپٹی کمشنر سے بات چیت ھوتی رہی اور شہر میں پانی و بجلی کی قلت و عدم دستیابی پر مطالبات جاری رہے مگر نا اہل انتظامیہ اور حکومت پاکستان ٹھس سے مس نہ ہوئی ، بعد میں ساتھیوں نے پمپلیٹ تقسیم کئے ، حکمرانوں پر دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ عوام کو شعوری طور پر مطالبات کے حق میں شاملِ جدوجہد ھونے کی طرف راغب کرنے کی ضرورت کو سمجھتے ھوئے ساتھیوں نے محنت کی۔ مسئلہ بالکل اصل اور حقیقی معنوں میں انسانی ضروریات کا تھا ، اس لئے عوامی پزیرائی ملی اور آخر کار دوستوں نے انتظامیہ کو ایک ہفتے کی الٹی میٹم دی ، ہفتہ ختم ھوا تو 21 فروری کے دن طلبہ پر مشتمل ایک جلوس ہائی اسکول جیونی سے برآمد ھوا جبکہ دوسرا جلوس عوام کی طرف سے جیونی بازار سے شروع ھوا ، دونوں آپس میں تحصیلدار کے دفتر کے سامنے اکھٹے ھوئے جہاں پر جلسے سے بی ایس او جیونی زون کے صدر سعید فیض ، اور دیگر ساتھیوں نے خطاب کیا ،* *مقررین میں بی ایس او جیونی زون کے جرنل سیکریٹری منظور قادر ، نائب صدر منظور امامی ، حسن اوج اور دیگر کئی دوست شامل تھے۔ اکرم رمضان ،نور محمد جمڈی، صالح خمہار ، ممتاز بھٹو، عطا الرحمن، ابوبکر حاجی محمد، عارف حیات ، نور حسین شمس ، حسن حاجی غلام رسول ، یاسین سجاد ، اکبر محمد زرگر ، ریاض حسین ، شوکت محمد ، اصغر گنز ، یحییٰ ، ریاض حسین ، نزیر قادر بخش ، یعقوب بنجارہ ، ماسٹر عبد العلیم شہزادہ، ھاشم ڈِڈُک ، اُستا پیری، ماسٹر عبدالعلیم عبدالرب ، پیرل دلوش ، مہیم صابر ، رزاق کوہسری ، واحد مولداد، حسین شہزادہ ، عبدالرحمن ، رسول بخش ، اسماعیل ، مولابخش مولُک اور دیگر کئی دوستوں نے اھم کردار ادا کیا۔* *بی ایس او جیونی کے سینئر دوست واجہ اکرم حیات اس دوران تربت عطا شاد ڈگری کالج میں زیر تعلیم ھونے کی وجہ سے جیونی میں موجود نہ تھے ، اسی طرح سینئر ساتھی حبیب بلوچ (سیٹھ حبیب) حسن جوش اور پیر بخش شہزادہ جامعہ ملیہ کالج کراچی میں زیر تعلیم رہے ، اعجاز حسین بھی ، اس سانحہ میں موجود نہ تھے مگر مذکورہ تمام قابل احترام دوست وقوعہ کے فوراً بعد جیونی پہنچے اور حالات کا سامنا کرتے ریے۔* *تحصیلدار کے دفتر سے جلوس بازار کی طرف روانہ ھوا۔ اس وقت پولیس تھانہ بازار کے اندر ہی تھا۔ جوں ہی جلوس بازار پہنچا پولیس نے لاٹھی چارج شروع کی ، کئی دوست زجمی ھوئے مگر جلوس منتشر نہیں ھوئی بلکہ مزید لوگ شامل ھوتے رہے حتیٰ کہ پورا شہر اُمڑ آیا ، آخر کار پولیس نے ھوائی فائرنگ کی اور آنسو گیس کی شیلنگ شروع کی ، یوں جلوس کے شرکاء اور پولیس کے دوران آنکھ مچولی کافی وقت چلتی رہی ، لوگ پانی دو ، بجلی دو ،ورنہ کرسی چھوڑ دو کا نعرہ لگا رہے تھے ، آنسو گیس کی وجہ کئی کارکنانِ بے ھوش ھوچکے تھے ، اس دوران بازار کے دونوں اطراف کے گلیوں میں خواتین کی کثیر تعداد بی ایس او کے کارکنوں کی مدد کیلئے نمک ، تھولئے اور پانی ساتھ لے کر موجود تھے اور ھنگامی صورتحال میں تاریخی کردار ادا کر رہے تھے۔* *یک اچانک پولیس نے ڈائریکٹ گولی چلائی اور سامنے کھڑی ننھی سی جان یاسمین کو یہ گولی سر پر لگی ، اس کے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے تھے کیونکہ فائرنگ کی آوازیں تیز تھیں ، جی تھری رائفل سے معصوم یاسمین کے ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی کٹ گئی تھیں ۔ ایک گولی ماہیگیر حسن کارچی کے بازو پر جا کر لگی ، جنہیں منظور امامی ، خالد اور دیگر دوستوں نے فوری طور پر ہسپتال پہنچایا۔* *پھر سپائی جلاد خان نے فائر کی اور خاتون ازگل کو شہید کیا ، ازگل کے بیٹے ھاشم اور ھم نے اس پر چادر رکھ دی۔ ھاشم کو گھر پہچایا۔ یاسمین کی جسد خاکی کو اس کی اماں نے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر گھر پہنچا دی۔ بازار میں بارش کا پانی خون سے مل کر سرخ ھوچکی تھی.* *ھمیں پتہ نہیں تھا کہ سرکار کے خون خوار انتظامیہ نے بی آر پی نامی مسلح فورس کو بلایا ، جب سینکڑوں کی تعداد میں مسلح سپائی موقع پر پہنچے تو بھگدڑ مچ گئی ، گرفتاریاں شروع ہوگئیں ، فائرنگ بھی جاری تھی ، میں نے دیکھا میں ابوبکر ، ھاشم ڈڈک ، اکبر جاوید ، اسماعیل ، محمد عارف حاجی محمود کے دکان کے سامنے کھڑے ھوئے تو گولیاں ھمارے دائیں بائیں دیواروں پہ پیوست ھوتے گئے۔ ھم سب دوست بال بال بچ گئے ، ابوبکر حاجی محمد ایک دلیر انسان تھا جو خوفناک منظر کے اندر خود کو آگے بڑھنے پر تیار کر رہا تھا اور تند و تیز نعروں سے بندوق برداروں کا جواب دے رہا تھا۔* *شہید غلام نبی کو بی آر پی کے درندوں نے پیچھے سے وار کر کے ِپیٹ پر گولی مار کر شہید کر دیا جس کے خون سے انسانیت لرز اٹھی مگر اس نام و نہاد اسلامی و جمہوری ملک کے حکمرانوں کو آج تک کوئی پرواہ نہیں۔ آج بھی جیونی کے لوگ پانی کو ترستے ھیں۔ زبردستی مسلط شدہ کرپٹ اور ناایل حکومتی نظام آج بھی رائج ھے۔* *سانحہ جیونی کے خون آشام خبر ہر طرف پھیل گئی اور بلوچستان کے ہر شہر بشمول کراچی میں تاریخی مظاہرے ھوئے اور کئی جگہوں پر ہلاکتوں کی خبریں آئیں اور گرفتاریاں بھی ھوئیں ، گوادر ، کیچ ، نوشکی ، خصدار ، کراچی ، پنجگور اور کوہیٹہ میں بلوچ راج نے بی ایس او کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ھو کر ریاستی تشدد کی پرزور مزمت کی ، جیونی کے عوام ، یاسمین ، ازگل اور غلام نبی کے لواحقین کو پتہ چلا کہ وہ اکیلے نہیں بلکہ بلوچستان ، لیاری اور بلوچ راج ان کے ساتھ دیوار کی طرح کھڑی ھے۔* *ھم اپنے نہتے شہیدوں کو کبھی نہیں بُھلا پائے ، ھم سب دوست ان کی پہلی برسی پر اکٹھا رے اور آج بھی 2025 کو شعوری طور پر ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔*
❤️ 1

Comments