
الجمعیت
February 6, 2025 at 05:10 AM
ھم جنس پرستی--------- کے--- تاریخ -- نقصانات --- اور بچاو کا طریقہ
ہم جنس پرستی کے ہمارے بچوں پر وار۔
ہم جنس پرستی یعنی عورت کی عورت اور مرد کی مرد سے جنسی محبت کو کہا جاتا ہے ۔ہم جنسیت کے حامل افراد ایک دوسرے کے لیے ایک خاص قسم کی رومانوی کشش رکھتےہیں ۔انگریزی میں اس کے لیے ہوموسیکشویلٹی ( Homosexuality) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ہم جنس پسند مردوں کے لیے (گے) ، (Gay) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہم جنس پرست عورتوں کے لیے لیسبینزم (Lesbianism) کا لفظ زبانِ زدِ عام ہے ۔اس کی ابتداء کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ اس کی ابتدا مصر قدیم سے ہوئی جہاں دیوی ماتا آئسس کے معبد میں ہیجڑے پجاری رہتے تھے جن سے زائرین تمتع کرتے تھے ۔اس کے علاوہ قدیم یونان کے فلاسفہ نے ہم جنس عشق کی تعریف و تو صیف میں منطقی دلائل دیے اور یونانِ قدیم کے شاعروں نے اس کی کشش کے گیت بھی گائے ۔جیسے ہی دنیا میں (Capitallism ) نے پنجے گاڑھنا شروع کیے یورپ اور امریکہ کی سماجی زندگی میں ہم جنس پرستی عام ہونے لگی ،جبکہ وہاں پر موجود مذہبی طبقہ اس کو ایک سماجی لعنت اور مکروہ ہی سمجھتا تھا ۔1950 سے ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے مختلف تنظیمیں سر گرداں رہیں، مگر 1978 میں بننے والی ایک عالمی تنظیم International Lesbian, Gay, Bisexual, Trans and Intersex Association (آئی ایل جی اے ) نے ہم جنس پرستوں کی آواز باقاعدہ حکومت کے ایوانوں تک پہنچائی اور 2008میں اقوام متحدہ نے ہم جنس پرستوں کو ان کے باقاعدہ حقوق بھی دئیے اور ان کو تخفظ بھی فراہم کیا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکوں کو لڑکوں سے اور لڑکیوں کو لڑکیوں سے باقاعدہ شادی کرنے کی اجازت مل گئی اور آج امریکہ اور یورپ کی نئی نسل اس تذبذب کا شکار ہے کہ آیا وہ ایک لڑکی ہے یا لڑکا اس کو ماہرین نے ( Extreme gender identity crisis ) کا نام دیا ہے ۔
ہم جنس پرستی اس وقت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے جس کی زد میں مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک بھی آچکے ہیں ۔پاکستان میں ہم جنس پرستی کا آغاز مشرف دور میں ہی ہو چکا تھا ،مگر اُس وقت اس کو زیادہ اہمیت نا دی گئی بعد میں Transgender Persons (Protection of Rights)Act, 2018 اسمبلی سے پاس ہو کر ہم جنس پرستوں کو اُن کی آزادی کا مژ دہ سنا گیا ۔اس قانون کے مطابق اگر کوئی عورت اپنی جنس سے خوش نہیں تو وہ آسانی سے اپنی جنس بدل سکتی ہے اسی طرح ایک مرد بھی آسانی اور آزادی سے اپنی جنس بدل سکتا ہے ۔اس کے علاوہ ہم جنس پرست بغیر کسی ڈر اور خوف کے آپس میں شادی کر سکتے ہیں ۔یہ ہی وجہ کہ آج ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں چاہے وہ سکول ،کالج،یونیورسٹی ہو یا مدرسے ہر جگہ ہمیں ایک بڑی تعداد میں ہم جنس پرست نظر آتے ہیں ۔اب تو ہمارے بڑے بڑے نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ ہم جنس پرستی انسانی حقوق میں شامل ہے ۔اور حیرت کی بات تو یہ کہ بڑے بڑے ہم جنس پرست جو کہ اچھے خاصے مکمل مرد ہونے کے باوجود ٹرانسجنڈر بنے پھرتے ہیں اُن کو ہمارے معصوم بچوں کے سامنے رول ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو پاکستان میں رہتے ہوئے مغرب کا کھاتے ہیں اور مغربی ایجنڈے کے تحت ہمارے بچوں کو ہم جنس پرستی کا درس دے رہے ہیں ، ہمارے بچوں کو بڑی مہارت سے اس ایک لعنت کی طرف راغب کیا جا رہا ہے ۔بی بی سی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہےکہ کراچی ہم جنس پرستوں کی جنت ہے ۔
اس وقت پاکستان میں کوریا کا ایک میوزک بینڈ جس کا نام بی ٹی ایس ( BTS) ہے بہت مقبول ہے ۔یہ بینڈ 2013 میں بنا اس کا تعلق کوریا کے شہر سیول سے ہے۔اس کو پسند کرنے والی نئی نسل پوری ایک آرمی کی شکل میں پاکستان میں موجود ہے یہ بینڈ ہمارے ٹین ایجرز کو ناچ گانا تو سیکھا ہی رہا ہے ساتھ ساتھ اس بینڈ میں شامل ہم جنس پرست نوجوان اپنے دیکھنے والوں کو ہم جنس پرستی بھی سیکھا رہے ہیں ۔
پاکستان میں ہم جنس پرستی کے حامی بہت سے لوگ اس کے حق میں مختلف دلائل دیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے تو کوئی کہتا ہے کہ ہم جنس پرستی جینیاتی وجوہات کی بنا پر عین فطرت ہے ۔کسی کا کہنا ہے کہ ہم جیسوں سے اُنسیت کہاں کا جرم ہے ۔اگر یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے تو اس کا علاج ممکن ہے ۔جینزاور فطرت والی بات بالکل ایسے ہے جیسے کسی داستان میں مافوق الفطرت عناصر ہوں کیوں کہ سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جنسی رجحانات میں صرف جینز کا ہی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ ہارمونز ،انسان کی ابتدائی تربیت ،سماجی اثرات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ٹرانسجنڈر ایکٹ 2018 میں ہم جنس پرستی ایک جرم ہو یا نا ہو مگریہ ایک گناہ ضرور ہے ،وہ ہی گناہ جس نے آج سے ایک ہزار نو سو تیتالیس سال قبل پومیئی شہر کے ہم جنس پرستوں کو جلا کر راکھ بنا دیا تھا ،وہ جس حالت میں جلے آج بھی پومیئی شہر میں اُسی حالت میں پڑے ہیں تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بن سکیں ۔سچ تو یہ ہے کہ یہ قوم لوط کا فتنہ ہے جس کا اللہ تعالی نے کئی مقامات پر قرآن پاک میں ذکر کیا ۔سورت نمل میں فرمایا "کیا تم لوگ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو! بلکہ تم بڑے ہی جاہل ہو۔"سورت شعراء میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ؛"کیا تم خلق میں سے مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو۔ اور تمہارے رب نے تمہارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑتے ہو۔ بلکہ تم لوگ نہایت ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔ وہ بولے کہ اے لوط ! اگر تم باز نہ آئے تو تم لازماً یہاں سے نکال چھوڑے جاؤ گے۔ اس نے کہا، میں تمہارے اس عمل سے سخت بیزار ہوں۔ اے رب! تو مجھے اور میرے اہل کو ان کے عمل کے انجام سے نجات دے۔ "
یاد رہے ہم جنس پرستی صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ دیگر بڑے الہامی مذاہب میں بھی گناہ اور حرام ہے ۔اللہ تعالی نے بائبل کے شروع میں قوم لوط کا واقعہ بیان کر دیا ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں اس کے علاوہ یہودیت میں جنسیت کے حوالے سے واضح تعلیمات توریت میں موجود ہیں اس میں لکھا گیا ہے "کوئی مرد کسی دوسرے مرد سے اس طرح ہم بستری نا کرے جیسے وہ عورت کے ساتھ کرتا ہے. "
(کتاب احبار)
اس کے علاوہ بدمت ،سکھ مت ،بہایئت میں بھی ہم جنس پرستی کی واضح الفاظ میں ممانعت موجود ہے ۔
فتنوں سے بھر ے اس دو ر میں ہمیں اپنوں بچوں کو اس لعنت کے بارے میں ایجوکیٹ کرنا بہت ضروری ہے ۔والدین کو چاہیئے کہ بچوں پر تشدد نا کریں بچوں سے پیار اور محبت سے پیش آئیں ،اُن کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات مضبوط رکھیں ۔والدین پر یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے تعلیمی اداروں میں ہونے والے سیمینارز اور ٹاک شوز کے بارے میں با خبر رہیں ۔والدین اس بات کا دھیان رکھیں کہ بچے موبائل پر کیا دیکھ رہے ہیں کیوں آجکل کارٹونز میں اورخاص کر (Disney) ڈیزنی موویز میں (LGBTQ) کے اس فتنے کوایک قوس قزح کے نشان سے دیکھایا جا رہا ہے جس کو یہ لوگ (pride) پرائڈ کا نام دیتے ہیں ۔بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کس قسم کا لٹریچر پڑھ رہے ہیں اُن کی دوستی کس قسم کے لوگوں سے ہے۔نسل نو کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ قرآن پاک ترجمہ تفسیر کے ساتھ پڑھیں تا کہ وہ خود جان سکیں کہ قوم لوط کیوں جل کر راکھ ہوئی ،قوم سبا کی تباہی کا سبب کیا تھا ،قوم نوح کیوں ملیا میٹ ہوئی ۔ہمارے ٹین ایجرز کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہو چکا ہے کہ اللہ تعالی نے مرد کو عورت اور عورت کو مرد کے بنایا ہے دونوں کو ایک دوسرے کے لیے نہیں بنایا گیا یہ ہی عین فطرت ہے اور جو کوئی بھی فطرت سے بغاوت کرے گا ذلیل و رسوا ہو جائے گا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں فطرت سے بغاوت نا کریں اور ہم جنس پرستی جیسی لعنت سے دور رہیں تو ہمیں مل کر اس کے خلاف آواز اُٹھانی ہو گی۔
ہم جنس پرستی کی اقسام اور درجات
جس طرح زنا کی مختلف اقسام اور درجے ہیں جیسے آنکھ کا زنا (غیرمحرم کو دیکھنا)، ہاتھ کا زنا (چُھونا)، نظر کا زنا (غیر محرم کو دیکھنا)، پاؤں کا زنا (بدکاری کی طرف چل کر جانا) اور دماغ کا زنا (غیرمحرم کو سوچ کر یا فحش فلموں کے مناظر کو ذہن میں لاکر لذت لینا) ہے۔ اسی طرح ہم جنس پرستی بھی صرف دو مردوں یا دو عورتوں کے درمیان حرام جسمانی تعلق تک محدود نہیں ہے۔ جسمانی ہم جنس پرستی اور بدکاری سے سب واقف ہیں اور اس پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ آج ہم دوسری اقسام پہ بات کریں گے۔
کچھ مرد یا کم عمر لڑکے کہتے ہیں کہ ہم نے آج تک کسی دوسرے مرد سے جسمانی تعلق قائم نہیں کیا لیکن ہمیں فلاں فلاں بندہ (کوئی مرد یا لڑکا) اچھا لگتا ہے۔ اس کے پاس بیٹھنا، اس سے فون پہ گھنٹوں باتیں کرنا، اس کی یاد میں لگ کے ہر چیز کو بھول جانا، اس کے کندھے یا سینے پہ سر رکھ کے لیٹنے کی خواہش ہونا، اس کے ساتھ تعلق کے دوران اپنی فیملی ، والدین، بیوی بچے اور گھر بار تک کو نظرانداز کرنا، اس انسان کی لت لگ جانا، اس کے فون اور میسج کے انتظار میں تڑپتے رہنا، وہ ناراض ہو تو ہر چیز سے دل بیزار ہوجانا، یہ چند عام علامات ہیں۔ ایسی صورت میں ایک مرد کو غیر فطری اور جنون کی حد تک کسی دوسرے مرد کی عادت ہوجاتی ہے اور یہ بندہ عورت زات میں دلچسپی بالکل کھودیتا ہے۔ اس قسم کو ذہنی یا نفسیاتی ہم جنس پرستی کہتے ہیں۔ یہیں کیفیات ایک عورت کی کسی دوسری عورت یا لڑکی کے لیے بھی ہو سکتی ہیں۔
اب بندہ یہ چیز مان نہیں پاتا کہ وہ دراصل ہم جنس پرستی کا شکار ہے کیونکہ معاشرے میں ہم جنس پرستی صرف جسمانی تعلق کو سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ والی لت یا ذہنی ہم جنس پرستی بھی انسان کی شخصیت ، زندگی اور اس کے دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ اس لیے اس سے نکلنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا جسمانی ہم جنس پرستی سے نکلنا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ کسی مرد کا مرد کو دیکھ کر، اس کے بارے میں سوچ کر خوش ہونا یا ذہنی لذت محسوس کرنا بھی ہم جنس پرستی کے زُمرے میں آتا ہے اور ایسا انسان بھی غیرفطری راستے پہ چل رہا ہے۔ اس قسم کی ہم جنس پرستی کی وجوہات میں بری صحبت اور فحش فلمیں دیکھنا وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ یہ چیز قدرت نے انسانی فطرت میں نہیں رکھی بلکہ وہ دنیا میں آکر اسے انجانے میں خود اختیار کرتا ہے اس لیے اسے بدلنا انسان کے اختیار میں ہے یعنی مایوسی کی کوئی بات نہیں۔
سب سے پہلے تو انسان کو یہ تسلیم کرنا ہے کہ اس کے اندر یہ مسئلہ موجود ہے۔ خود سے جھوٹ نہ بولے نہ ہی خود کو دھوکہ دے۔ پھر مضبوط ارادہ کرے کہ اس اذیت سے خود کو نکالنا ہے۔ اگر دوسرے مردوں یا کم عمر لڑکوں کی طرف رغبت ہوتی ہو تو ان سے فاصلہ رکھے۔ اگر کوئی ایک یا چند لڑکے ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ مسئلہ ہورہا ہے تو ان سے مکمل لاتعلقی اختیار کرے۔ ان کا فون نمبر اور تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کرے۔ اگر کسی مرد سلیبرٹی یا اداکار کا فین ہے تو اس کو فالو کرنا بند کردے۔ تمام مردوں سے فاصلہ رکھ کر ملے۔ گلے ملنے سے پرہیز کرے۔ اگر کسی کی تصاویر موبائل میں رکھی ہیں تو ان کو ڈیلیٹ کرنا ہے۔ کوئی ایسا واسطہ نہ رہے جو اس شخص کی یاد دلائے۔
بری عادت کو چھوڑنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی عادتوں کو متبادل کے طور پر اپنائے جیسے ورزش ، مراقبہ ، مطالعہ کرنا وغیرہ۔
اللہ ہمیں پاک زہن ، صحتمند جسم اور توبہ انصوح نصیب فرمائے۔ آمین۔
👍
3