Fiqh al Qulub | Understanding of Hearts
                                
                            
                            
                    
                                
                                
                                February 4, 2025 at 12:41 PM
                               
                            
                        
                            *انسانی دل کے اندر چھوٹا سادماغ* ۔۔۔۔۔جدید سائنسی تحقیق
انیسویں صدی حتیٰ کہ بیسویں صدی کے نصف تک سائنس دانوں کے حلقوں میں انسانی دل کو صرف خون پمپ کرنے والا ایک عضو ہی سمجھا جاتا تھا۔لیکن پھر کچھ مزید سائنسی تحقیقات ہوئیں تو سائنس ،دل کے متعلق اس بات کو سمجھنا شروع ہوئی جو قرآن نے اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے کہی تھی۔جیساکہ تفسیر قرآن کے ماہر صحابیٴرسول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا " اس قرآن میں ایسی آیات ہیں جنہیں صرف وقت گزرنے کے ساتھ ہی سمجھا جا سکے گا۔یعنی جیسے جیسے سائنسی علوم ترقی کریں گے"۔
انسانی دل کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہو اکہ جدید سائنس نےا نسانی دل کے متعلق اب یہ سمجھنا شروع کیا ہے کہ اس میں بھی ذہانت کے خانے ہیں ۔انسانی دل پر جدید تحقیقات کی بنیاد پر کینیڈا کے سائنس دان ڈاکٹر جے اینڈ ریو آرمر (Dr. J. Andrew)( Armour M.D,ph.D)نے ایک نئی میڈیکل فیلڈ کی بنیاد رکھی ہے جس کانام ہے نیورو کارڈیالوجی (Neuroradiology) یعنی انسانی دل کا اعصابی نظام (Nervous System) ۔ڈاکٹر آرمر نے دل کے اعصابی نظام کے لیے" دل کے اندر چھوٹا سادماغ" ) (A little Brain in the Heartکی اصطلاح وضع کی ہے۔
یہ اس لیے کہ انہوں نے دریافت کیا ہے کہ انسانی دل کے اندر تقریباًچالیس ہزار اعصابی خلیے (Nerve Cells) پائے جاتے ہیں ۔یہ وہی خلیے ہیں جن سے دماغ بنتا ہے ۔یہ اتنی بڑی تعداد ہےکہ دماغ کےکئی چھوٹے حصے اتنے ہی اعصابی خلیوں سے مل کر بنتے ہیں ۔مزید برآں دل کے یہ خلیے دماغ کی مدد کے بغیر کام کرسکتے ہیں ۔دل کےا ندر پایا جانے والا یہ دماغ پورے جسم سے معلومات لیتا ہے اور پھر موزوں فیصلے کرنے کے بعد جسم کے اعضاء حتیٰ کہ دماغ کو بھی جوابی ہدایات دیتا ہے۔
علاوہ ازیں دل کے اندر موجود دماغ میں ایک طرح کی یاداشت (Short Term Memory) کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے ۔دل کو دھڑکنے کےلیے دماغ کی ضرورت نہیں ہوتی ،یہی وجہ ہےکہ دل کی پیوندکاری کے آپریشن میں دل اور دماغ کے درمیان تمام رابطے کاٹ دیے جاتے ہیں اور جب دل نئے مریض کے سینے میں لگایا جاتا ہے تو وہ پھر سے دھڑکنا شروع کردیتا ہے ۔ان تمام تحقیقات کو پیش کرنے کے بعد ،جو ڈاکٹر اینڈریو آرمر اور ان کے معاون سائنس دانوں نے دل کے اعصابی نظام پر کی ہیں، ڈاکٹر آرمر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
"انسانی دل کے پاس اپنا چھوٹا سا دماغ ہوتا ہے جو اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت مشکل قسم کے تجزیے کر سکتا ہے۔دل کے اعصابی نظام کی ساخت اور کارکردگی کے متعلق جاننے سے ہمارے علم میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا ہے جس کے مطابق انسانی دل نہ صرف دماغ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے بلکہ دماغ کی مدد کے بغیر آزادنہ طور پر فرائض ادا کرتا ہے
تحقیق سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ دل ،الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی مد د سے دماغ اور بقیہ جسم کو اطلاعات پہنچاتا ہے۔ دل انسانی جسم میں سب زیادہ طاقتور الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ پیداکرتا ہے جو انتہائی تناسب سے کافی دور تک پھیلتی ہیں۔ دل کی پیداکردہ الیکٹرومیگنٹک فیلڈ دماغ کی پیداکردہ میگنیٹک فیلڈ سے 500 گنا طاقتور ہوتی ہیں اور ان کو جسم سے کئی فٹ کے فاصے سے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔
 *دل اور دماغ کے مابین دوطرفہ گفتگو کا سائنسی ثبوت* 
1970ء تک سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ صرف دماغ انسانی دل کو یک طرفہ احکام جاری کرتا ہے اور دل ہمیشہ ان کے مطابق کام کرتا ہے ،لیکن 1970ء کی دہائی میں امریکی ریاست اوہایو (Ohio) کے دو سائنس دانو ں جان لیسی اور اس کی بیوی بیٹرس لیسی نے یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسان کے دماغ اور دل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہوتا ہے ۔ یہ تحقیق امریکہ کے نہایت موٴقر سائنسی جریدے امریکن فزیالوجسٹ کے شمارے میں چھپی تھی ۔تحقیق کا عنوان تھا۔(Two-Way communication between the heart and the brain)
"انہوں نے تجربات سے یہ دریافت کیاکہ جب دماغ جسم کے مختلف اعضاء کو کوئی پیغام بھجواتا ہے تو دل آنکھیں بند کرکے اسے قبول نہیں کرلیتا۔جب دماغ جسم کو متحرک کرنے کا پیغام بھیجتا ہے تو کبھی دل اپنی دھڑکن تیز کردیتا ہے اور کبھی دماغ کے حکم کے خلاف پہلے سے بھی آہستہ ہو جاتا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل اپن ہی کوئی منطق استعمال کرتا ہے ۔مزید براں دل بھی دماغ کو کچھ پیغامات بھیجتا ہے جنہیں دماغ نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے"
جان لیسی اور بیٹرس لیسی کی تحقیقات پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی سائنس دان ڈاکٹر رولن میکریٹی اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
"جیسے جیسے ان کی تحقیق مزید آگے بڑھی انہوں نے دریافت کیا کہ دل کی اپنی مخصوص منطق ہے جو بسا اوقات دماغ سے آنے والے پیغامات سے مختلف سمت میں جاتی ہے ۔
 *حاصل کلام یہ کہ انسانی دل اس طرح کام کرتا ہے جیسے اس کا اپنا ایک دماغ ہو.*
                        
                    
                    
                    
                    
                    
                                    
                                        
                                            ❤️
                                        
                                    
                                        
                                            👍
                                        
                                    
                                        
                                            🙏
                                        
                                    
                                    
                                        21