
Fiqh al Qulub | Understanding of Hearts
3.2K subscribers
About Fiqh al Qulub | Understanding of Hearts
❤️ Fiqh al Qulub - Understanding of Hearts Taught by Ustazah Farhat Hashmi Every Friday @ 10:30 am Toronto Time 📲Join our Whatsapp Channel to: 🌎 Get Updates about Weekly Class 💻Zoom Link and Other Venues of Classes to Join and attend for Free 💡 Reflections of Lessons, Reminders and Review Points 📱Click the Link to Join Fiqh al Qulub WhatsApp Channel https://tinyurl.com/Fiqhalqulub
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

فقہ الاستقامہ ٠٧/٠٢/٢٠٢٥ بسم اللہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته پیاری استاذہ جی! *استقامت حاصل ہوتی ہے کمال العمل اور کمال التقوی سے* ان الفاظ پر غور کرتے ہوۓ میں سوچ رہی تھی کہ کمال العمل , عمل کی superlative degree بنتی ہے,جسے شاید کہ ہم احسان کہہ سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ کمال العمل تک پہنچنے کے لٸے انسان کا خود شناس ہونا ضروری ہے۔جتنا انسان خود کو جانے گا (جس میں اسکی ذہنی صحت,جسمانی صحت اور اسکی روحانی صحت بھی شامل ہے ) اتنا ہی اسکا عمل بہترین ہوتا چلا جاۓ گا۔ زندگی نام ہے ایسے سفر کا جس میں انسان خود کو refine کرتا ہے ,جس میں وہ مسلسل محنت کرتا ہے۔ انسان کا خود پر جو حق ہے اس میں سب سے اول priority خود شناسی ہونی چاہٸے کیونکہ خودشناسی کی کمی کی وجہ سے انسان boredom کا شکار ہوتا ہے۔ہر انسان ہر کچھ نہیں کر سکتا۔اسلیے ضروری ہے کہ انسان اپنے skills کو پہچانے۔ علم: knowledge یا معلومات: information , ان سب میں فرق ہے۔ آج کی دنیا میں جتنے علوم انسانیت کے سامنے آ چکے ہیں کہ عقل دنگ ہے۔اللہ سبحانہ و تعالی قرآن میں سورة لکھف کی آیت میں فرماتے ہیں: قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا [ الكهف: 109] ”کہہ دو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے (لکھنے کے) لئے سیاہی ہو تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہوجائے اگرچہ ہم ویسا ہی اور (سمندر) اس کی مدد کو لائیں.“ ہم دنیا سے گزر جاٸیں گے مگرعلم کے دریچے کھلتےچلے جاٸیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جو علم میرے پاس ہے , وہ دراصل کیا ہے؟ اگر وہ علم knowledge ہے تو وہ ہمارے actions کا part بن جاۓ گا اور جو بات ہمارے دل پر اثر کرتی ہے وہی ہمارے عمل کا حصہ بنتی ہے۔اب وہ چاہے دنیا ہو یا قرآن و سنت۔ بسا اوقات ہمارے پاس قرآن و سنت اور فقہ کی بہت سی معلومات بھی آ جاتی ہے لیکن اگر وہ ہمارے عمل کا حصہ نہیں بن پاتی تو وہ معلومات انسانیت تک پہنچانے کے لیے google,chatgpt, deepseek جیسے tools بہتر طور پر کر رہے ہیں۔ اس informational world سے انسان کا ایسے علم کو چننا جو نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی فاٸدہ مند ہو یہ وہی لوگ کر سکیں گے جو اولواالباب ہونگے یعنی عقل والے۔ کمال العمل تک پہنچنے کے لیے خودشناسی, پھر اپنے skills کا پہچاننا اور ان skills کو اللہ کے دین کے لیے offer کرنا ضروری ہے۔اس سے انسان نہ صرف boredom سے بچے گا بلکہ اسکے لیے علم کے مزید دریچے کھلیں گے, جب جب اس کے اندر طلب بڑھے گی وہ اھدنا الصراط المستقیم کے لیے ہاتھ اٹھاۓ گا تو وہ نہ صرف کمال العمل تک پہنچے گا بلکہ کمال التقوی کے حصول پر بھی گامزن ہو گا۔قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا تعلق باللہ بہتر ہو گا او وہ پھر وہ تقوی کے حصول کے سفر میں بہتری کے لیے کوشاں ہو گا۔اس کو motivation کے لیے ادھر ادھر نہیں دیکھنا پڑے گا کیونکہ اس کو اپنا target بالکل واضح ہو گا۔اس کو یقین ہو گا کہ زندگی میں آنے والی آزماٸشیں یا خوشی کے لمحات یا انسانی تقاضوں کی وجہ سے جو ذمہ داریاں انسان پر عاٸد ہوتی ہیں, یہ اللہ کے plan کا حصہ ہیں,جنھیں مجھے accept کرنا ہےاور خود پر کام کرتے رہنا ہے اور حالات جیسے بھی ہوں مجھے ایک بہترین انسان بننا ہے۔ اصل بات کوشش اور نیت کی ہے۔اللہ ہم سب سے راضی ہو اور ہم سب کو سلامتی کے راستوں پر استقامت عطا فرماۓ۔آمین آمنہ خان

فقه القلوب: فقه الاستقامة: حصہ دوم 1. دو لازم ہجرتیں: ☆اللہ کی طرف:توحید، ایمان، اخلاص، تقویٰ، محبت، خوف، امید اور توکل کے ساتھ۔ ☆رسول اللہ ﷺ کی طرف: ان کے فیصلے کو مقدم رکھ کر، ان کی اطاعت اور شریعت کی پیروی کر کے۔ 2.اسلام کے تین بنیادی اصول: ☆ایمان: اللہ، اس کے اسماء و صفات، فرشتے، کتابیں، رسول، آخرت اور تقدیر پر یقین۔ ☆احکام: اللہ کے مقرر کردہ قوانین، عبادات، معاملات۔ ☆اخلاق: احسان اور بلند اخلاق کا اختیار کرنا۔ 3.ایمان اور عمل کی یکجائی: ☆عقیدہ بغیر عمل کے بے اثر، اور شریعت بغیر عقیدہ کے ناقص ہے۔ ☆ایمان کے ساتھ ساتھ احسان کی صفت ہر کام میں ضروری ہے۔ 4.استقامت اور نبی ﷺ کی سیرت: ☆استقامت، ایمان کا پھل ہے۔ ☆نبی ﷺ کی سیرت اور ان کے طریقہ جُہد کو اپنانا ضروری ہے۔ 5. فتنوں کے وقت رویہ: ☆مسلمانوں کی جماعت اور امام کے ساتھ وابستگی ضروری ہے۔ ☆اگر کوئی امام نہ ہو، تو فتنوں سے بچنے کے لیے کنارہ کشی بہتر ہے۔ 6.عزلت اوراجتماعیت: ☆اصلا لوگوں کے ساتھ رہنا افضل ہے، مگر نیت درست ہونی چاہیے۔ ☆خلوت میں ذکر، فکر، عبادت، سادہ زندگی، اور موت کی یاد کو ترجیح دینی چاہیے۔ 7.کامل ایمان اور اللہ کی محبت: ☆زبان ذکر میں، دل معرفت میں، اور اعضاء عبادت میں مشغول ہوں۔ ☆اللہ کا محبوب بننے والا آسمان و زمین میں محبوب ہو جاتا ہے۔ 8. دین کی بنیادیں: ☆ایمان، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق۔ ☆ایمان اور عبادات بندے کا اللہ سے اور باقی تین اس کے بندوں سے تعلق درست کرتے ہیں۔ 9.استقامت کے لیے چار چیزوں کی حفاظت: ☆نظر، خیالات، الفاظ، اور قدموں کی حفاظت ضروری ہے۔ 10.نبی ﷺ کی زندگی اور محنت کو اپنانا: ☆محبت کے ساتھ نبی ﷺ کی سیرت اور جدوجہد کو اپنانا ضروری ہے۔ ☆صرف صحبت یا محبت کافی نہیں، بلکہ عملی اتباع شرط ہے۔ 11.دنیا و آخرت کے اسباب: ☆دنیا کے لیے زراعت، تجارت، صنعت ضروری ہیں۔ ☆آخرت کے لیے ایمان، عبادات، اخلاق اور نیک اعمال لازمی ہیں۔ زبیدہ عزیز 2025۔02۔08

فقه القلوب فقه الاستقامة *وَقَالَ اِنِّىۡ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّىۡ ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ* ۞ (العنكبوت۔ 26) ہجرت دو قسم کی ہے۔۔ ▫️ *پہلی قسم* اللہ کی طرف ہجرت توحید اور ایمان کے ساتھ یعنی اپنے خیالات اور نظریات کو چھوڑ کر اس چیز کی طرف جانا کہ جو انسان کے لیے سب سے اہم ہے اور وہ ہے اللہ کو ایک ماننا اور اس پر ایمان لانا، اخلاص اور تقوی کے ساتھ۔۔ انابت اور محبت کے ساتھ۔۔ اور خوف اور اس کی رحمت کی امید کے ساتھ۔۔ اس پر توکل کرنے اور اس سے مدد طلب کرنے کے ساتھ۔۔ اور اللہ کے سوا کسی اور کی طرف توجہ نہ کرنے کے ساتھ۔۔ ▫️اگر انسان کی زندگی میں توحید ایمان اخلاص تقوی نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنی عادتوں اور اپنے لائف سٹائل کو نہیں چھوڑا جب تک ان چیزوں کا اختیار نہیں کر لیتا۔ ▫️ *دوسری قسم* رسول اللہ صلی اللہ علیہ علیہ وسلم سے فیصلہ کروانے کے لیے ان کی طرف ہجرت کرنا کہ وہ بتائیں کہ کیا صحیح اور کیا نہیں، ان کے فیصلے کو تسلیم کرنے اور ان کے حکم کی اطاعت کرنے کے ساتھ، ان کے سینے سے جاری کیے ہوئے احکام کو قبول کرنے کے ساتھ۔۔ یعنی انسان اپنی عادتیں اپنے طریقے چھوڑتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اختیار کرتا ہے ۔۔ ▫️ کفر و شرک سے ایمان کی طرف آنا ▫️نفاق اور فسق و فجور کو چھوڑ کر اخلاص اور تقوی کی طرف آنا ▫️ لاپرواہی اور بے حسی کی زندگی چھوڑ کر انابت اور اللہ کی محبت کی طرف آنا ▫️اللہ کا خوف اور اس سے امید رکھنا ▫️نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت زندگی میں اپنانا اپنے کلچر اور باقی چیزوں کو چھوڑ کر یہ بھی ہجرت ہے.. *جو اس ہجرت کو قائم کر لیتا ہے تو وہ دنیا اور اخرت میں تمام لوگوں سے بڑھ کر خوش نصیب ہوتا ہے* اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں *مَنۡ عَمِلَ صَالِحًـا مِّنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰى وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَـنُحۡيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجۡزِيَـنَّهُمۡ اَجۡرَهُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ* ۞ (النحل. 97) جو کوئی نیک عمل کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس حال میں کہ وہ مومن ہو تو ہم ضرور اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے ( یعنی نیکی کے کاموں کی توفیق عطا کریں گے) اور ہم انہیں ان کے بہترین اعمال کے مطابق ان کا اجر ضرور عطا کریں گے جو وہ کیا کرتے تھے. ▫️ یعنی ایک زندگی ہے اپنی مرضی کی اور ایک زندگی ہے اللہ کی مرضی کی جو شخص شفٹ کرتا ہے اپنی مرضی سے اللہ کی مرضی کی طرف تو پھر اللہ سبحانہ و تعالی اس کا بدلہ اس کو دنیا میں بھی عطا کرتا ہے اور اخرت میں بھی۔۔ اللهم وفقنا لما تحب وترضی فائزہ بتول

*حصولِ استقامت کے 13 ذرائع* اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْارَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْاوَلَاتَحْزَنُوْاوَاَبْشِرُوْابِالْجَنَّۃِ۔ *1 صفتِ صبر حاصل کرنا:* صبر کا لغوی معنٰی ہے''روک دینا اپنے نفس کو ہر اس قول و فعل سے روک دے جو اللہ کو ناپسند ہو۔ آپ ﷺ کا فرمان ''کسی کو صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بے پایاں وسیع خیر وبھلائی نہیں ملی.(صحیح بخاری) *2۔ اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اور اُسی سے پناہ مانگنا:* حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال جب عورت نے اپنی طرف مائل کرنا چاہا تو یوسف علیہ السلام نے فوراً شیطان کے وساوس اور بہکاوے سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ طلب کی، {مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہ' رَبِّیْ اَحْسَنَ مَثْوَایَ اِنَّہ' لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَo (یوسف) پس اللہ نے انہیں استقامت عطاء کی اور اپنے حکم کی خلاف ورزی سے بچا لیا۔ *3 اللّٰہ سے استقامت کی دعاء کرنا:* اہلِ ایمان کی صفت کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرکے اس کی مدد طلب کرتے ہیں۔۔ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِن لَّدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَھَّابُo ( اٰل عمران:۸) رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًاوَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلٰی الْقَوْمِ الْکَفِرِیْنَ (البقرۃ) یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ *4۔ قرآنِ کریم کے ساتھ مضبوط تعلق* وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً *کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ* وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاًo (الفرقان:۳۲) ایک دوسرے مقام فرمایا قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ *لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا* وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَo ( النحل:۱۰۲) استقامتِ دین کے لیے قرآن ِ کریم کی تلاوت کرنا، اسے حفظ کرنا اور اُ سکی آیتوں کو سمجھنا اوراُس پر غور وفکراور تدبّر کرنا سب سے زیادہ معاون و مفید ہے۔ *5 ۔موت کو یاد کرنا* وَمَا ھٰذِہٖ الْحَیوٰۃُ الدُّنْیَآاِلَّا لَھْوٌوَّلَعِبٌ وَاِنَّ الدَّارَالْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ لَوْ کَانُوْایَعْلَمُوْنَo (العنکبوت) اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں۔۔ ''موت کو بکثرت یاد کروجو کہ خواہشات اور لذتوں کومٹانے والی ہے۔'' (صحیح:ترمذی) {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوااللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَo( اٰلِ عمران) اِس بات کا خیال رکھنا کہ موت صرف اسلام کی حالت میں واقع ہو۔ *6 ۔اللّٰہ کے وعدوں کو یادرکھنا* اپنے نفس کو اکثر اللہ کے وعدے اور اجر و انعام کی یاد دلاتے رہنا ۔ جب کبھی صحابہ اکرام پر کوئی آزمائش آتی تو اللہ وتعالیٰ اُن کے لیے آسانی پیدا کرنیوالی آیات نازل کرتا جن میں جنت کی خوشخبری ہوتی ۔ اور یہی معمول نبی ﷺ کا بھی تھا کہ وہ پریشان حال صحابہ اکرام کو جنت کی بشارتیں دے کر مطمئن کیا کرتے تھے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے آل یاسر سے فرمایا '' آلِ یاسر! صبر کرو ،کیونکہ تمہاری منزل جنت ہے۔'' اس کے علاوہ اُن آیات اور احادیث کا مطالعہ بھی ضروری ہے جن میں اللہ کے دین سے پھر جانے پرسخت وعیدیں اور عذابوں کا تذکرہ موجود ہے۔تا کہ ہمارے قلوب میں اللہ کا رعب اور خوف پیدا ہوگا دنیوی مشکلات قیامت کے ہولناک عذاب کے مقابلے میں ہلکی نظر آئیں گی۔ *7۔صُحبتِ صالح اور طلبِ نصیحت:* نبی ﷺ نے فرمایا 'لوگوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بھلائی کے راستہ پر گامزن کرنے کی چابیاں اور بدی کاراستہ بند کر نے والے ہیں ۔اور لوگوں میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو برائی کے راستہ پر گامزن کرنے کی چابیاں ہیں اور وہ نیکی کے راستہ کو بند کرنے والے ہیں ۔'' ( ابن ماجہ) اسلامی تاریخ سے یہ بات عیاں ہے کہ جب کبھی مسلمانوں پر آزمائش کا وقت آیا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مطمئن اور ان کی مدد چندایسے صالح افراد کے ذریعے کی جو لوگوں کے سامنے اللہ اور اسکی شان و رفعت کا تذکرہ کرتے، مؤمنوں کو اللہ کی رحمتیں اور انعات یاد دلاتے، اور انہیں دین کی راہ میں آنے والی مشکلات پر صبر کی تلقین کرتے۔ چنانچہ علّامہ ابن القیم ؒ دورِفتن میں اپنے استاذ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کا کردار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ''جب ہمارا خوف بڑھ جاتا اور ہم برُے انجام کا خیال کرتے اور ہمارے لیے حالات بہت بگڑ جاتے ، توہم اُن کے پاس چلے آتے۔ ہم صرف انکا دیدار ہی کرتے اور صرف ان کی حوصلہ مندانہ باتیں سنتے تو ہمارے تمام خوف وخطررفع ہو جاتے اور ان کی بجائے اطمینان، تقویّت، اعتماد اور سکون حاصل ہو جاتا۔'' (الوابل الصیّب، ص۹۷) *8 ۔کثرت سے نیک اعمال کرنا:* اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تویقیناً یہی اُن کے لیے بہتر اور بہت زیادہ مضبوطی والاہے، تب تو انہیں ہم اپنے پاس سے بڑا ثواب دیں اور یقیناً انہیں راہِ راست دکھلادیں ۔'' (سورۃ النساء) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ثابت قدمی کا نسخہ یہ بتلایا ہے کہ ہم ان اعمال کو ہمیشہ سر انجام دیتے رہیں جن کا ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیاہے۔ معروف مفسر امام قتادہ کا قول ''جہاں تک دنیوی زندگی کا تعلّق ہے، اللہ انہیں نیک و صالح اعمال کرتے رہنے میں استقامت دیگا اور اور آخرت(قبر میں)اللہ انہیں قبر میں ثابت قدم رہنے میں مدد کریگا۔'' نبی ﷺ کو سب سے زیادہ وہ اعمال محبوب ہیں جنہیں بندہ ہمیشہ کیے جاتا رہے چاہے وہ اعمال معمولی ہی کیوں نہ ہوں ۔ حدیث ِقدسی ہے: ''میرا بندہ میرا قرب حاصل کرنے کیلئے جو عبادات بجالاتا ہے اُن میں سے مجھے سب زیادہ محبوب وہ ہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں اورمیرا بندہ نفلی عبادات سے بھی میرے قریب ہوتا جاتاہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں ۔'' (صحیح البخاری) اگر ہم عام حالات میں نیک اعمال کی ادائیگی میں سُستی برتنے لگیں تو پھر ہم سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ ہم پُرفتن دور میں یامصائب و مشکلات میں استقامت کے ساتھ دین پر ڈٹے رہینگے؟ اس کے بر عکس اگر ہم نے اپنے قیمتی اوقات کو اللہ کی عبادات اور نیک اعمال میں صَرف نہیں کیا، تو یقینا ہم معصیتوں اور گناہوں میں گِھرے رہ جائیں گے اوراللہ کی نافرمانی ایمان کی کمی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ *9 ۔صحیح راہ اختیار کرنے میں جدّوجہد کرنا اور اُسکی حقانیت پر اعتماد کرنا:* بندے کو اپنے راستہ کی حقانیت کا جتنا زیادہ یقین و اعتماد ہوگا اتنی ہی مضبوطی کے ساتھ وہ اپنے راستہ پر قائم و دائم رہیگا۔ اس کی بہترین مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کے ان جادوگروں کی ہے۔ جادوگروں نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ دیکھا تو دنگ رہ گئے۔ وہ جادو کی حقیقت کو پہچانتے تھے کہ آنکھوں کا دھوکا اور شعبدہ بازی ہے لہٰذا جادوگر سرِ تسلیم خم کر بیٹھے، ''وہ سارے جادوگر سجدے میں گرگئے اور پکار اٹھے کہ ہم تو ہارون علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے رب پر ایمان لائے۔'' حضرت ابن عباس نے فرمایا ''صبح وہ جادوگر بن کر اٹھے اور دن کے ختم ہونے پر وہ شہداء بن گئے۔'' (ابن کثیر ۳/۲۱۵) *10۔ اَنبیاء کے واقعات کو پڑھنا اور اُنہی جیسی زندگی گزارنے کی کوشش کرنا* ارشادِ الٰہی ہے: وَکُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَمنْبَآئِ الرُّسُلِ مَانُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَا َدکَ۔۔۔ ''اگلی امتوں کا اپنے نبیوں کو جھٹلانا، نبیوں کا ان کی ایذاؤں پر صبر کرنا،بالآخر مؤمنوں کا فتح ونصرت پانا اور کافروں پر اللہ کے عذابوں کا آنا،کافروں کا ذلیل وبرباد ہونا ،نبیوں رسولوں اور مؤمنوں کا نجات پانا، یہ سب واقعات ہم آپ کوسنارہے ہیں ،تاکہ آپ وسلم کے دل کو ہم مزید مضبوط کردیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل سکون واطمینان حاصل ہو جائے ۔''(تفسیر ابن کثیر) *11۔ بتدریج اور مستقل دین کا علم اور دینی تربیت حاصل کرنا:* ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {قُلْ ھَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُاُولُواالْاَلْبَابِo} ( زمر:۹) علم حاصل کرنا، دین کو سمجھنا اور بتدریج وقدم بہ قدم دینی تربیت حاصل کرنا ،یہ سب حصولِ استقامت کے بنیادی اسباب ہیں ۔ دین کا علم صحیح اور غلط کی تفریق کر دیتا ہے، مجرموں کے طریقہ بے نقاب کر کے مؤمنوں کے طریقہ کی نشان دہی کرتا ہے۔ قلوب میں اللہ کی محبت پیدا کرتااور اسکے عذاب کا خوف دلاتا ہے۔ اور بندے کو اسلام سے ایمان اور پھر احسان کے درجہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص جو اپنے دین کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا وہ دین پر قائم کیسے رہیگا جبکہ وہ اپنے دین کو پہچانتا ہی نہیں ؟؟ *دشمنان ِ اسلام کی سازشوں کی خبر رکھنا* اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: {وَکَذَالِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وِلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ} ( الانعام:۵۵) دشمنان ِ اسلام ہر وقت اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور دین سے دور کرنے کی کوششیں کرتے ہیں اسلامی تعلیمات کا غلط تصوّر عام کرکے اسلام سے متنفر کرنا عورتوں کی حق تلفی او ر ان پر ظلم کرنے والا دین ہونے کبھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمتیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر کیچڑ اچھالنا کبھی اللہ کے اسماء و صفات پر سوالات اٹھائے اور کبھی تقدیر پر شکوک کی بوچھاڑ۔۔ اپنے دین سے جہالت اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے بے خبری ہی کا نتیجہ ہے کہ آج لوگوں میں اسلام کے متعلق غلط فہمیاں موجود ہیں ۔ اس لیے ہمیں کو اچھی اور بھلی باتوں کے ساتھ ساتھ برائی اور دشمنانِ اسلام کی شر پسندانہ سازشوں کا بھی علم ہونا چاہیئے۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں'لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خیرو بھلائی کی بارے میں سوال کیا کرتے تھے اور میں شرّ وبرائی کے بارے میں سوال کیا کرتا تھااور یہ اس خدشہ کی بناء پر کہ میں کہیں اس میں نہ پھنس جاؤں ۔۔۔۔۔۔'' صحیح بخاری *13 اسلام کے روشن مستقبل کا پختہ یقین:* {ھُوَاالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلٰی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَo الصَّفَ:۹) قرآن و حدیث میں اسلام کے روشن مستقبل کی خوشخبری دی گئی ہے۔ ہمیں ان آیات واحادیث کا مطالعہ کرنا چاہیئے نا امیدی اور عدمِ یقین کی وجہ سے ہم کہیں ہدایت پا لینے کے بعد پھر گمراہی کی دلدل میں نہ پھنس جائیں ۔ (فتح الباری) ''اللہ کی قسم اسلام ضرور کمال کو پہنچے گا اور ایک زمانہ آئے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا اوراسے اللہ کے سوا کسی کاڈر نہیں ہوگا۔ صرف بھیڑیئے کا خوف ہوگا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھاجائے، لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔'' *استقامت:فتح ونصرت کی کُنجی* {فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا اِنَّہ' بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo} (سورۂ ھود:۱۱۲)

💛 *حيات قلب* ▪️قلب کی زندگی کے لیے ایمان، یقین، استقامت، قران و حدیث اور اعمال صالحہ کی غذا لازمی ہے۔ اسی سے قلب کی قوتوں کی حفاظت ہوتی ہے اور توبۃ النصوح سے فاسد مواد/ گناہ( برائیوں) کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ▪️دل کی مثال ایک قلعہ کی طرح ہے۔ اور شیطان اس میں داخل ہونا، حکومت کرنا اور غالب آنا چاہتا ہے۔ اب اس کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟ اصلاح سے پہلے ہمیں ان دروازوں کو دیکھنا ہوگا جس کے ذریعے وہ دل کے اندر داخل ہوتا ہے۔ اور ان کو بند کرنا ہوگا۔ پھر اسے ایمان اور صالح اعمال سے مزید مزین کرنا ہوگا۔ ▪️شیطان کے اندر آنے کی راہیں اور دروازے بندے کی اپنی بری عادات و صفات ہیں۔ 📍 *دل کو تباہ کرنے کے دروازے* شرک و نفاق حسد و حرص غضب و شہوات جلد بازی / تحقیق نہ کرنا۔ عوام کو مذہبی تعصب پر ابھارنا، تکبر،جھوٹ، بد گمانی۔۔۔ وغیرہ ▪️ *بھلائی پر ثابت قدم رہنے میں دل تین طرح کے ہوتے ہیں۔* 1- وہ جو تقوی سے آباد ہیں مسلسل ریاضت و تزکیہ کرنے سے ان کے دل پاک ہو چکے ہیں اور برے اخلاق سے صاف ہیں۔ اس دل میں غیب کے خزانوں سے بھلائی کے خیالات آتے رہتے ہیں اور فرشتہ رہنمائی کرتا رہتا ہے۔کہیں کچھ خیال لپکے یا کچھ چوک ہو تو توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ 2- دوسرا وہ دل ہے جس میں خواہشات بھری ہے برے اخلاق سے آلودہ ہے اس پر شیطان کا غلبہ رہتا ہے کیونکہ اس کے لیے جگہ بڑی فراغ ہے دل خواہشات کے دھوئیں سے بھر جاتا ہے اور روشنی ختم ہو جاتی ہے گویا ایسے ہو جاتا جیسے آنکھیں دھوئیں سے بھری ہو اس حالت میں وہ دیکھ نہیں سکتی پھر ایسے دل پر نصیحت کا اثر نہیں ہوتا۔ ۔( امام عبدالرحمن ابن جوزی) 3- وہ دل جس میں مختلف خیالات ہیں برائی کے خیالات برائی پہ امادہ کرتے ہیں اور نیکی کی خیالات نیکی کی طرف آمادہ کرتے ہیں۔ ایسے دل کو مزید ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہ وہ اپنے دل کو نیک خیالات اور نیک اعمال پر جما کر رکھے نیک صحبت اختیار کرے استقامت اختیار کرے۔ قرآن پڑھے یہ دلوں کی بہترین غذا ہے دل اس سے قوت پاتے ہیں۔ دعائیں کریں استغفار کرے معوذتین پڑھے۔ تاکہ اس کا نفس اور شیطان اس پر حاوی نہ ہو۔ ▪️ارشاد باری تعالیٰ ہے، *فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ* (سورة الانعام: 125) يا مقلب القلوب ثبت قلوبنا على دينك. امين

*فقه القلوب* *فقه الاستقامة* *7 فروری، 2025* آج کا یہ سبق سن کر میں اپنے آپ سے سوال کرتی رہی کہ میرے اندر اللہ سے کتنی حیا ہے؟ کہ وہ ہر وقت دیکھ رہا ہے، فرشتے میرا ہر عمل لکھ رہے ہیں؟ جب میرے اندر اس بات کا احساس نہ رہا کہ فرشتے روزانہ میرے اعمال لے کر اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں تو میں نے اپنی نمازوں کو اہمیت دینا کم کردی۔ کیوں نہیں میں نے علم کا احترام کیا؟ میں آخرت کے بارے میں کیوں سنجیدہ نہیں ہوں؟ جب میرے اوپر کوئی مشکل وقت آئے، مجھے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ میں کیا غلط کر رہی ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں استغفار کو کتنا لازم کیا؟ کیونکہ اللہ تعالی انسان کے اعمال کے مطابق اس پر حالات نازل کرتے ہیں۔ جیسے انسان کے اعمال ہوتے ویسے ہی حالات اس کے اوپر آتے ہیں۔ انسان اگر یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی اس کے ساتھ آسانی کا معاملہ کریں تو وہ شخص بھی لوگوں کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے۔ میں نے کتنے ہی اپنے غلط عقائد کو چھوڑ کر اللہ کی طرف توحید اور ایمان کے ساتھ ہجرت کی؟ کتنا میں نے اپنے اخلاص، تقوی، انابت، اللہ کی محبت، اس کا خوف، امید، توکل اور اللہ ہی سے مدد لینا اور کسی اور سے نہ مدد لینا یہ سب اپنے اندر کتنا پیدا کیا؟ میں نے زندگی میں اپنی خواہشات اور عادات اور غلط رواج کو چھوڑ کر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو کتنا اختیار کیا؟ جب انسان اللہ کے مطابق زندگی گزارتا ہے اللہ تعالی نیکی کاموں کی اس کو توفیق عطا کرتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالی انسان کو دنیا اور اخرت میں اجر دیتے ہیں پھر وہ شخص ایک دلی پرسکون حالت میں رہتا ہے۔ میرے لیے ضروری ہے کہ میں اپنے رب کو پہچانوں، اس کی معرفت کا علم حاصل کروں، کیونکہ یقین کی بنیاد علم ہے، جب میرے اندر علم کی پختگی آئے گی تب میں اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی گزاروں گی، جس کی بدولت میری عبادات اور لوگوں کے ساتھ معاملات رب کی رضا کے مطابق ہوں گے۔ جب میں رب کی رضا کے لیے زندگی بسر کروں گی تو میں احسان کے درجے پر اپنی عبادات اور معاملات کروں گی۔میں لوگوں کے رویوں سے اکتا نہیں جاؤں گی بلکہ میں حکمت سے کام لوں گی کیونکہ بد اخلاقی کے ساتھ کوئی نہیں سیکھتا اور بدتمیزی سے انسان کچھ حاصل نہیں کرتا۔ استقامت اختیار کرنے کے نتیجے میں انسان کمال تقوی اور کمال عمل کر پاتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی کوتاہیوں اور کمیوں کے باوجود ان کے ساتھ مل کر رہے اور اگر انسان کو اپنے ایمان کا ڈر ہو، فتنہ میں پڑ جانے کا خوف ہو تو وہ تنہائی میں تھوڑے قناعت کرے، اپنی موت کو کثرت سے یاد کرے اور اللہ کے ذکر سے کبھی بھی غافل نہ ہوئے۔ مجھے چاہیے کہ میں اس بات کا جائزہ لوں کہ میری نگاہیں کیا دیکھتی ہیں؟ جو بھی میرے دل میں وسوسے آتے ہیں، کیا میں ان سے بچنے کی فکر کرتی ہوں؟ کوشش اور دعائیں کرتی ہوں؟ میری زبان سے کیا الفاظ نکلتے ہیں؟ اور میرے قدم کس طرف چل کر جاتے ہیں؟ ان چار پہلوؤں پر کام کرنے سے اللہ تعالی انسان کی حفاظت کرتے ہیں ورنہ شیطان انسان کا ظاہر اور باطن بگاڑ دیتا ہے۔ میرے اندر جتنی اللہ کی محبت زیادہ ہوگی اتنا ہی میں اپنی خواہشات کی قربانی دوں گی۔ آخر کیوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کے دعوے کرتی ہوں لیکن میں اپنی توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی؟ بلکہ دور جدید کیا حالات اور یہود و نصاری کے طریقے کیوں میرا دل زیادہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں؟ مکمل استقامت کے لیے انسان کو اللہ سے ملاقات پر یقین، سنت پر عمل اور ذکر کی کثرت کرنی ہوگی اور پورے شرح صدر کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہوگا۔ انسان کے اندر جب دعوت الی اللہ کرتے ہوئے یقین کی کمی ہوتی ہے تب انسان اللہ سے اپنی تکلیف کا اظہار کرنے کی بجائے لوگوں سے اپنی مشکلات کا ذکر کرتا رہتا ہے ۔ مجھے چاہیے کہ میں دین کو قائم کرنے والی صحبت اختیار کروں۔ میں اپنا مزاج خیر حاصل کرنے والا اور خیر دینے والا بناؤں۔ انسان کے نیک اعمال اس کو جنت میں لے جانے کے لیے کافی نہیں لیکن ایمان، عبادات، اخلاق اور عمل صالح یہ سب اسباب ہیں جنت میں لے جانے کے لیے۔ مجھے اپنے پر افسوس کہ میں دنیا کے لیے اپنا سب کچھ فراہم کرنے کے لیے کیوں تیار ہو جاتی ہوں اور جب دین کا معاملہ آتا ہے تو میں کیا کرتی ہوں؟ آخر کیوں میرے اندر مثبت سوچوں کمی ہے جس کی وجہ سے میں چیزوں کو صحیح طور پر نہیں دیکھ پاتی ہوں؟ رب کائنات سے دعا ہے کہ وہ میرے دل کی اصلاح کر دے اور یہ تین پر استقامت عطا کر دے۔ آمین مریم سلیم https://m.youtube.com/watch?v=HTGlte_XvNI&t=2462s

🔶 *اسلامی زندگی کے تین اصول دہرا لیجیے:* 🔸 *پہلا اصول: ایمان* ایمان شروع ہوتا ہے علم سے۔ اس لیے کہ کسی بھی چیز پر یقین لانے کے لیے اسکے بارے میں علم ہونا ضروری ہے۔ 🔸 *دوسرا اصول: احکام* نیک اعمال یا اوامر جو اللہ نے انسان کے لیےمقرر کیے ہیں۔ظاہری اعمال جنہیں انسان اپنے اعضاء سے کرتا ہے، جیسے کہ عبادات اور معاملات۔ 🔸 *تیسرا اصول: اخلاق* احسان کرنا تمام اخلاق میں بلند ہے، یعنی اعلی اخلاق یہ ہے کہ احسان کا معاملہ ہو، عبادات میں بھی اور معاملات میں بھی۔ *عقیدہ ہرگز پھل نہیں لائے گا اور شریعت کا کوئی اثر زندگی میں نظر نہیں آتا ہے اگر احسان کی صفت نہ ہو۔* 🔻*استقامت یہ ہے کہ* • رسول ﷺ کے طریقے پر عمل کیا جائے • آپ ﷺ مشن کو آگے بڑھایا جائے، 🔻*استقامت کا نتیجہ:* صبر اور تقوی ہے فقہ القلوب: فقہ الاستقامه (صفحہ 737)

*استقامت: تھکن کے بعد پلٹنے کا حوصلہ* فقه القلوب کے باب فقه الاستقامة میں ہم نے پڑھا کہ جب انسان مقصد سے تجاوز کرجائے تو اس کو اپنی اسقامت میں تھکاوٹ ہونے لگتی ہے جیسے موسی علیہ السلام کے ساتھ ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طلبِ علم کے سفر پر نکلے، تو اُس مقام سے آگے بڑھ گئے جہاں رکنا تھا۔ جب مقصد سے ہٹے، تو تھکن نے انہیں گھیر لیا۔ لیکن یہی تھکن ایک نشانی بن گئی—ایک یاددہانی کہ وہ اپنی "مچھلی" بھول چکے ہیں، جو اصل منزل تک پہنچنے کا اشارہ تھی۔ جب وہ واپس لوٹے، تو اصل سفر کا آغاز ہوا۔ *زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔* جب ہم اپنے مقصد— *عبادتِ الٰہی اور دعوت الی اللہ*—سے ہٹ جاتے ہیں، تو دل میں بے سکونی اور تھکن چھا جاتی ہے۔ اگر ہم اس تھکن سے نکلنا چاہتے ہیں تو اس کے پیچھے ایک پیغام کو سمجھیں: *"رُک جاؤ، سوچو، اور واپس پلٹو!"* *عبادت اور دعوت الی اللہ* کی طرف استقامت صرف مسلسل آگے بڑھنے کا نام نہیں، بلکہ اصل استقامت یہ ہے کہ جب آپ بھٹک جائیں یا تھک جائیں، تو واپس پلٹنے کا حوصلہ رکھیں۔ *" یہ اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے ایک یاددہانی ہے کہ ہماری منزل کسی اور سمت یعنی اللہ کی طرف ہے۔"* تو رکیں، اپنی "مچھلی" کو پہچانیں، اور پھر استقامت کے ساتھ اپنے مقصد - *عبادت اور دعوت الی اللہ* - کی طرف بڑھیں—کیونکہ اصل استقامت اسی کے ساتھ ہے۔ مزید سیکھیے: فقه القلوب کلاس میں ڈاکٹر فرحت ھاشمی کے ساتھ ہر جمعہ کو آنلائن رات 8:30 (پاکستان وقت کے مطابق)