Fiqh al Qulub | Understanding of Hearts
Fiqh al Qulub | Understanding of Hearts
February 8, 2025 at 08:15 PM
*حصولِ استقامت کے 13 ذرائع* اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْارَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْاوَلَاتَحْزَنُوْاوَاَبْشِرُوْابِالْجَنَّۃِ۔ *1 صفتِ صبر حاصل کرنا:* صبر کا لغوی معنٰی ہے''روک دینا اپنے نفس کو ہر اس قول و فعل سے روک دے جو اللہ کو ناپسند ہو۔ آپ ﷺ کا فرمان ''کسی کو صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بے پایاں وسیع خیر وبھلائی نہیں ملی.(صحیح بخاری) *2۔ اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اور اُسی سے پناہ مانگنا:* حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال جب عورت نے اپنی طرف مائل کرنا چاہا تو یوسف علیہ السلام نے فوراً شیطان کے وساوس اور بہکاوے سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ طلب کی، {مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہ' رَبِّیْ اَحْسَنَ مَثْوَایَ اِنَّہ' لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَo (یوسف) پس اللہ نے انہیں استقامت عطاء کی اور اپنے حکم کی خلاف ورزی سے بچا لیا۔ *3 اللّٰہ سے استقامت کی دعاء کرنا:* اہلِ ایمان کی صفت کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرکے اس کی مدد طلب کرتے ہیں۔۔ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِن لَّدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَھَّابُo ( اٰل عمران:۸) رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًاوَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلٰی الْقَوْمِ الْکَفِرِیْنَ (البقرۃ) یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ *4۔ قرآنِ کریم کے ساتھ مضبوط تعلق* وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً *کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ* وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاًo (الفرقان:۳۲) ایک دوسرے مقام فرمایا قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ *لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا* وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَo ( النحل:۱۰۲) استقامتِ دین کے لیے قرآن ِ کریم کی تلاوت کرنا، اسے حفظ کرنا اور اُ سکی آیتوں کو سمجھنا اوراُس پر غور وفکراور تدبّر کرنا سب سے زیادہ معاون و مفید ہے۔ *5 ۔موت کو یاد کرنا* وَمَا ھٰذِہٖ الْحَیوٰۃُ الدُّنْیَآاِلَّا لَھْوٌوَّلَعِبٌ وَاِنَّ الدَّارَالْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ لَوْ کَانُوْایَعْلَمُوْنَo (العنکبوت) اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں۔۔ ''موت کو بکثرت یاد کروجو کہ خواہشات اور لذتوں کومٹانے والی ہے۔'' (صحیح:ترمذی) {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوااللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَo( اٰلِ عمران) اِس بات کا خیال رکھنا کہ موت صرف اسلام کی حالت میں واقع ہو۔ *6 ۔اللّٰہ کے وعدوں کو یادرکھنا* اپنے نفس کو اکثر اللہ کے وعدے اور اجر و انعام کی یاد دلاتے رہنا ۔ جب کبھی صحابہ اکرام پر کوئی آزمائش آتی تو اللہ وتعالیٰ اُن کے لیے آسانی پیدا کرنیوالی آیات نازل کرتا جن میں جنت کی خوشخبری ہوتی ۔ اور یہی معمول نبی ﷺ کا بھی تھا کہ وہ پریشان حال صحابہ اکرام کو جنت کی بشارتیں دے کر مطمئن کیا کرتے تھے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے آل یاسر سے فرمایا '' آلِ یاسر! صبر کرو ،کیونکہ تمہاری منزل جنت ہے۔'' اس کے علاوہ اُن آیات اور احادیث کا مطالعہ بھی ضروری ہے جن میں اللہ کے دین سے پھر جانے پرسخت وعیدیں اور عذابوں کا تذکرہ موجود ہے۔تا کہ ہمارے قلوب میں اللہ کا رعب اور خوف پیدا ہوگا دنیوی مشکلات قیامت کے ہولناک عذاب کے مقابلے میں ہلکی نظر آئیں گی۔ *7۔صُحبتِ صالح اور طلبِ نصیحت:* نبی ﷺ نے فرمایا 'لوگوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بھلائی کے راستہ پر گامزن کرنے کی چابیاں اور بدی کاراستہ بند کر نے والے ہیں ۔اور لوگوں میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو برائی کے راستہ پر گامزن کرنے کی چابیاں ہیں اور وہ نیکی کے راستہ کو بند کرنے والے ہیں ۔'' ( ابن ماجہ) اسلامی تاریخ سے یہ بات عیاں ہے کہ جب کبھی مسلمانوں پر آزمائش کا وقت آیا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مطمئن اور ان کی مدد چندایسے صالح افراد کے ذریعے کی جو لوگوں کے سامنے اللہ اور اسکی شان و رفعت کا تذکرہ کرتے، مؤمنوں کو اللہ کی رحمتیں اور انعات یاد دلاتے، اور انہیں دین کی راہ میں آنے والی مشکلات پر صبر کی تلقین کرتے۔ چنانچہ علّامہ ابن القیم ؒ دورِفتن میں اپنے استاذ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کا کردار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ''جب ہمارا خوف بڑھ جاتا اور ہم برُے انجام کا خیال کرتے اور ہمارے لیے حالات بہت بگڑ جاتے ، توہم اُن کے پاس چلے آتے۔ ہم صرف انکا دیدار ہی کرتے اور صرف ان کی حوصلہ مندانہ باتیں سنتے تو ہمارے تمام خوف وخطررفع ہو جاتے اور ان کی بجائے اطمینان، تقویّت، اعتماد اور سکون حاصل ہو جاتا۔'' (الوابل الصیّب، ص۹۷) *8 ۔کثرت سے نیک اعمال کرنا:* اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تویقیناً یہی اُن کے لیے بہتر اور بہت زیادہ مضبوطی والاہے، تب تو انہیں ہم اپنے پاس سے بڑا ثواب دیں اور یقیناً انہیں راہِ راست دکھلادیں ۔'' (سورۃ النساء) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ثابت قدمی کا نسخہ یہ بتلایا ہے کہ ہم ان اعمال کو ہمیشہ سر انجام دیتے رہیں جن کا ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیاہے۔ معروف مفسر امام قتادہ کا قول ''جہاں تک دنیوی زندگی کا تعلّق ہے، اللہ انہیں نیک و صالح اعمال کرتے رہنے میں استقامت دیگا اور اور آخرت(قبر میں)اللہ انہیں قبر میں ثابت قدم رہنے میں مدد کریگا۔'' نبی ﷺ کو سب سے زیادہ وہ اعمال محبوب ہیں جنہیں بندہ ہمیشہ کیے جاتا رہے چاہے وہ اعمال معمولی ہی کیوں نہ ہوں ۔ حدیث ِقدسی ہے: ''میرا بندہ میرا قرب حاصل کرنے کیلئے جو عبادات بجالاتا ہے اُن میں سے مجھے سب زیادہ محبوب وہ ہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں اورمیرا بندہ نفلی عبادات سے بھی میرے قریب ہوتا جاتاہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں ۔'' (صحیح البخاری) اگر ہم عام حالات میں نیک اعمال کی ادائیگی میں سُستی برتنے لگیں تو پھر ہم سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ ہم پُرفتن دور میں یامصائب و مشکلات میں استقامت کے ساتھ دین پر ڈٹے رہینگے؟ اس کے بر عکس اگر ہم نے اپنے قیمتی اوقات کو اللہ کی عبادات اور نیک اعمال میں صَرف نہیں کیا، تو یقینا ہم معصیتوں اور گناہوں میں گِھرے رہ جائیں گے اوراللہ کی نافرمانی ایمان کی کمی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ *9 ۔صحیح راہ اختیار کرنے میں جدّوجہد کرنا اور اُسکی حقانیت پر اعتماد کرنا:* بندے کو اپنے راستہ کی حقانیت کا جتنا زیادہ یقین و اعتماد ہوگا اتنی ہی مضبوطی کے ساتھ وہ اپنے راستہ پر قائم و دائم رہیگا۔ اس کی بہترین مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کے ان جادوگروں کی ہے۔ جادوگروں نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ دیکھا تو دنگ رہ گئے۔ وہ جادو کی حقیقت کو پہچانتے تھے کہ آنکھوں کا دھوکا اور شعبدہ بازی ہے لہٰذا جادوگر سرِ تسلیم خم کر بیٹھے، ''وہ سارے جادوگر سجدے میں گرگئے اور پکار اٹھے کہ ہم تو ہارون علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے رب پر ایمان لائے۔'' حضرت ابن عباس نے فرمایا ''صبح وہ جادوگر بن کر اٹھے اور دن کے ختم ہونے پر وہ شہداء بن گئے۔'' (ابن کثیر ۳/۲۱۵) *10۔ اَنبیاء کے واقعات کو پڑھنا اور اُنہی جیسی زندگی گزارنے کی کوشش کرنا* ارشادِ الٰہی ہے: وَکُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَمنْبَآئِ الرُّسُلِ مَانُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَا َدکَ۔۔۔ ''اگلی امتوں کا اپنے نبیوں کو جھٹلانا، نبیوں کا ان کی ایذاؤں پر صبر کرنا،بالآخر مؤمنوں کا فتح ونصرت پانا اور کافروں پر اللہ کے عذابوں کا آنا،کافروں کا ذلیل وبرباد ہونا ،نبیوں رسولوں اور مؤمنوں کا نجات پانا، یہ سب واقعات ہم آپ کوسنارہے ہیں ،تاکہ آپ وسلم کے دل کو ہم مزید مضبوط کردیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل سکون واطمینان حاصل ہو جائے ۔''(تفسیر ابن کثیر) *11۔ بتدریج اور مستقل دین کا علم اور دینی تربیت حاصل کرنا:* ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {قُلْ ھَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُاُولُواالْاَلْبَابِo} ( زمر:۹) علم حاصل کرنا، دین کو سمجھنا اور بتدریج وقدم بہ قدم دینی تربیت حاصل کرنا ،یہ سب حصولِ استقامت کے بنیادی اسباب ہیں ۔ دین کا علم صحیح اور غلط کی تفریق کر دیتا ہے، مجرموں کے طریقہ بے نقاب کر کے مؤمنوں کے طریقہ کی نشان دہی کرتا ہے۔ قلوب میں اللہ کی محبت پیدا کرتااور اسکے عذاب کا خوف دلاتا ہے۔ اور بندے کو اسلام سے ایمان اور پھر احسان کے درجہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص جو اپنے دین کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا وہ دین پر قائم کیسے رہیگا جبکہ وہ اپنے دین کو پہچانتا ہی نہیں ؟؟ *دشمنان ِ اسلام کی سازشوں کی خبر رکھنا* اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: {وَکَذَالِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وِلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ} ( الانعام:۵۵) دشمنان ِ اسلام ہر وقت اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور دین سے دور کرنے کی کوششیں کرتے ہیں اسلامی تعلیمات کا غلط تصوّر عام کرکے اسلام سے متنفر کرنا عورتوں کی حق تلفی او ر ان پر ظلم کرنے والا دین ہونے کبھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمتیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر کیچڑ اچھالنا کبھی اللہ کے اسماء و صفات پر سوالات اٹھائے اور کبھی تقدیر پر شکوک کی بوچھاڑ۔۔ اپنے دین سے جہالت اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے بے خبری ہی کا نتیجہ ہے کہ آج لوگوں میں اسلام کے متعلق غلط فہمیاں موجود ہیں ۔ اس لیے ہمیں کو اچھی اور بھلی باتوں کے ساتھ ساتھ برائی اور دشمنانِ اسلام کی شر پسندانہ سازشوں کا بھی علم ہونا چاہیئے۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں'لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خیرو بھلائی کی بارے میں سوال کیا کرتے تھے اور میں شرّ وبرائی کے بارے میں سوال کیا کرتا تھااور یہ اس خدشہ کی بناء پر کہ میں کہیں اس میں نہ پھنس جاؤں ۔۔۔۔۔۔'' صحیح بخاری *13 اسلام کے روشن مستقبل کا پختہ یقین:* {ھُوَاالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلٰی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَo الصَّفَ:۹) قرآن و حدیث میں اسلام کے روشن مستقبل کی خوشخبری دی گئی ہے۔ ہمیں ان آیات واحادیث کا مطالعہ کرنا چاہیئے نا امیدی اور عدمِ یقین کی وجہ سے ہم کہیں ہدایت پا لینے کے بعد پھر گمراہی کی دلدل میں نہ پھنس جائیں ۔ (فتح الباری) ''اللہ کی قسم اسلام ضرور کمال کو پہنچے گا اور ایک زمانہ آئے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا اوراسے اللہ کے سوا کسی کاڈر نہیں ہوگا۔ صرف بھیڑیئے کا خوف ہوگا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھاجائے، لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔'' *استقامت:فتح ونصرت کی کُنجی* {فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا اِنَّہ' بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo} (سورۂ ھود:۱۱۲)
❤️ 👍 13

Comments