Fiqh al Qulub | Understanding of Hearts
Fiqh al Qulub | Understanding of Hearts
February 8, 2025 at 09:51 PM
*فقه القلوب* *فقه الاستقامة* *7 فروری، 2025* آج کا یہ سبق سن کر میں اپنے آپ سے سوال کرتی رہی کہ میرے اندر اللہ سے کتنی حیا ہے؟ کہ وہ ہر وقت دیکھ رہا ہے، فرشتے میرا ہر عمل لکھ رہے ہیں؟ جب میرے اندر اس بات کا احساس نہ رہا کہ فرشتے روزانہ میرے اعمال لے کر اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں تو میں نے اپنی نمازوں کو اہمیت دینا کم کردی۔ کیوں نہیں میں نے علم کا احترام کیا؟ میں آخرت کے بارے میں کیوں سنجیدہ نہیں ہوں؟ جب میرے اوپر کوئی مشکل وقت آئے، مجھے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ میں کیا غلط کر رہی ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں استغفار کو کتنا لازم کیا؟ کیونکہ اللہ تعالی انسان کے اعمال کے مطابق اس پر حالات نازل کرتے ہیں۔ جیسے انسان کے اعمال ہوتے ویسے ہی حالات اس کے اوپر آتے ہیں۔ انسان اگر یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی اس کے ساتھ آسانی کا معاملہ کریں تو وہ شخص بھی لوگوں کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے۔ میں نے کتنے ہی اپنے غلط عقائد کو چھوڑ کر اللہ کی طرف توحید اور ایمان کے ساتھ ہجرت کی؟ کتنا میں نے اپنے اخلاص، تقوی، انابت، اللہ کی محبت، اس کا خوف، امید، توکل اور اللہ ہی سے مدد لینا اور کسی اور سے نہ مدد لینا یہ سب اپنے اندر کتنا پیدا کیا؟ میں نے زندگی میں اپنی خواہشات اور عادات اور غلط رواج کو چھوڑ کر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو کتنا اختیار کیا؟ جب انسان اللہ کے مطابق زندگی گزارتا ہے اللہ تعالی نیکی کاموں کی اس کو توفیق عطا کرتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالی انسان کو دنیا اور اخرت میں اجر دیتے ہیں پھر وہ شخص ایک دلی پرسکون حالت میں رہتا ہے۔ میرے لیے ضروری ہے کہ میں اپنے رب کو پہچانوں، اس کی معرفت کا علم حاصل کروں، کیونکہ یقین کی بنیاد علم ہے، جب میرے اندر علم کی پختگی آئے گی تب میں اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی گزاروں گی، جس کی بدولت میری عبادات اور لوگوں کے ساتھ معاملات رب کی رضا کے مطابق ہوں گے۔ جب میں رب کی رضا کے لیے زندگی بسر کروں گی تو میں احسان کے درجے پر اپنی عبادات اور معاملات کروں گی۔میں لوگوں کے رویوں سے اکتا نہیں جاؤں گی بلکہ میں حکمت سے کام لوں گی کیونکہ بد اخلاقی کے ساتھ کوئی نہیں سیکھتا اور بدتمیزی سے انسان کچھ حاصل نہیں کرتا۔ استقامت اختیار کرنے کے نتیجے میں انسان کمال تقوی اور کمال عمل کر پاتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی کوتاہیوں اور کمیوں کے باوجود ان کے ساتھ مل کر رہے اور اگر انسان کو اپنے ایمان کا ڈر ہو، فتنہ میں پڑ جانے کا خوف ہو تو وہ تنہائی میں تھوڑے قناعت کرے، اپنی موت کو کثرت سے یاد کرے اور اللہ کے ذکر سے کبھی بھی غافل نہ ہوئے۔ مجھے چاہیے کہ میں اس بات کا جائزہ لوں کہ میری نگاہیں کیا دیکھتی ہیں؟ جو بھی میرے دل میں وسوسے آتے ہیں، کیا میں ان سے بچنے کی فکر کرتی ہوں؟ کوشش اور دعائیں کرتی ہوں؟ میری زبان سے کیا الفاظ نکلتے ہیں؟ اور میرے قدم کس طرف چل کر جاتے ہیں؟ ان چار پہلوؤں پر کام کرنے سے اللہ تعالی انسان کی حفاظت کرتے ہیں ورنہ شیطان انسان کا ظاہر اور باطن بگاڑ دیتا ہے۔ میرے اندر جتنی اللہ کی محبت زیادہ ہوگی اتنا ہی میں اپنی خواہشات کی قربانی دوں گی۔ آخر کیوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کے دعوے کرتی ہوں لیکن میں اپنی توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی؟ بلکہ دور جدید کیا حالات اور یہود و نصاری کے طریقے کیوں میرا دل زیادہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں؟ مکمل استقامت کے لیے انسان کو اللہ سے ملاقات پر یقین، سنت پر عمل اور ذکر کی کثرت کرنی ہوگی اور پورے شرح صدر کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہوگا۔ انسان کے اندر جب دعوت الی اللہ کرتے ہوئے یقین کی کمی ہوتی ہے تب انسان اللہ سے اپنی تکلیف کا اظہار کرنے کی بجائے لوگوں سے اپنی مشکلات کا ذکر کرتا رہتا ہے ۔ مجھے چاہیے کہ میں دین کو قائم کرنے والی صحبت اختیار کروں۔ میں اپنا مزاج خیر حاصل کرنے والا اور خیر دینے والا بناؤں۔ انسان کے نیک اعمال اس کو جنت میں لے جانے کے لیے کافی نہیں لیکن ایمان، عبادات، اخلاق اور عمل صالح یہ سب اسباب ہیں جنت میں لے جانے کے لیے۔ مجھے اپنے پر افسوس کہ میں دنیا کے لیے اپنا سب کچھ فراہم کرنے کے لیے کیوں تیار ہو جاتی ہوں اور جب دین کا معاملہ آتا ہے تو میں کیا کرتی ہوں؟ آخر کیوں میرے اندر مثبت سوچوں کمی ہے جس کی وجہ سے میں چیزوں کو صحیح طور پر نہیں دیکھ پاتی ہوں؟ رب کائنات سے دعا ہے کہ وہ میرے دل کی اصلاح کر دے اور یہ تین پر استقامت عطا کر دے۔ آمین مریم سلیم https://m.youtube.com/watch?v=HTGlte_XvNI&t=2462s
❤️ 😢 😮 14

Comments