سفینةالنجاة
سفینةالنجاة
February 22, 2025 at 04:02 AM
🔸 *دھمال از نظر نہج البلاغہ* *(حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ سلام)* ◀️ *دھمال کیا بے؟ اور مولا علی علیہ السلام نے اس فعل کے متعلق کیا فرمایا بے؟* جب امیرالمومنین علی علیہ السلام کوفه سے دمشق شام کی طرف جنگ کیلۓ لشکر لے کر جا رہے تھے, راستے میں انبار شہر کے زمینداروں کو جب پتا چلا که امام علی علیہ السلام کا گزر ہو رہا ہے تو وه لوگ استقبال کیلۓ شہر سے باہر آ گۓ اور علی علیہ السلام کے لشکر کے آگے ترجل شروع کیا، ترجل, رجل سے بے رجل ٹانگ کو کہتے ہیں, یعنی ٹانگ اٹھا کر زمین پر مارنا جس کو ہم اپنی زبان میں دھمال یا (بھنگڑا ) کہتے ہیں، انہوں نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کے سامنے دھمال ڈالنا شروع کر دیا. تو علی علیہ السلام نے پوچھا : ماھذه الذی صنعتموه, یه لوگ کیا حرکت کر رہے ہیں، کہا که آپ علیہ السلام کا استقبال کر رہے ہیں، ہم اپنے امیروں اور حکمرانوں کا استقبال اسی طرح کرتے ہیں. تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : والله ماینتفع بھذه امراءکم , خدا کی قسم تمہارے والی و تمہارے حکمران ان باتوں سے کوئی فائده نہیں لیتے, یعنی تمہارے بھنگڑے دھمال مجھے کوئی فائده نہیں دیتے اور نه ہی تمہارے لیۓ کوئی فائده بے، ہاں یه ضرور بے که تم دنیا میں اپنی جانوں کو مشقت میں ڈالتے ہو اور آخرت میں اس دھمال کی وجه سے بدبختی اور عذاب میں ره جاؤ گے، اور وه کتنے گھاٹے کی مشقت ہوگی، جسکی تمہیں سزا بھگتنا پڑے گی، مجھے ان طریقوں سے خوش کرنے کیلۓ نه آؤ بلکه علی علیہ السلام دھمال یا بھنگڑے سے خوش نہیں ہوتے، نه ہی دھمال کو پسند کرتے ہیں. لوگ پریشان ہو گۓ که یه پہلے امیر ہیں جو دھمال کو ناپسند کر رہے ہیں, جبکه پہلے جو حکمران آتے تھے وه تعریفیں بھی کرتے تھے، پیسے اور انعام بھی دیتے تھے. مولا علی علیہ السلام نے فرمایا : یه دھمال دنیاوی تھکاوٹ اور اخروی شقاوت ھے، اس دھمال یا بھنگڑے سے نه میں خوش ہوتا ہوں اور نہ میرا خدا خوش ہو گا، اور نه ہی تمہارے دھمال کا کوئی فائده ھے. بھنگڑوں دھمالوں کو چھوڑو اور سنو پهلے مجھ سے پوچھو که تمہارا فریضه کیا بنتا بے؟ تمہارا فریضه بھنگڑا اور دھمال نہیں بلکه تمہارا فریضه یه بے که شمشیر اور ڈھال لو نیزه اور تلوار ہاتھ میں پکڑو اور میرے ساتھ میری فوج میں مل کر اس طاغوت اور ان ظالموں کو کچلو جو اسلام کے دشمن ہیں، یه تمہارا فریضه بے۔ فرائض سے مت دور رہو، دین شناسی لو توہمات کا مت شکار ہو جاؤ، من گھڑت راہوں پر مت سفر کرو، قرب خدا حاصل کرو. (حضرت امیر علیہ السلام فرماتے تھے میری حسرت تھی کاش میری باتوں کو کوئی سمجھتا). آج یہی دھمال درباروں، میلوں پر عبادت و عقیدت اور قرب حاضر صاحب مزار کے طور پر لوگ ڈالتے ہیں، جیسے حضرت لعل شھباز قلندر رح کی قلندری دھمال اور بابا بلھے شاه کی دھمال مشھور ہے. یه جہالت بے که فرائض کو بھلا کر ناچ کر بزرگ یا اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. جبکه مولا علی ع نے واضح الفاظ میں اس فعل بد کی مذمت کی ہے اور اسے دنیاوی تھکاوٹ اور اخروی عذاب سے تعبیر کیا بے. مزید یہ واقع آپ نہج البلاغه ص نمبر 824/ حکمت نمبر 37 پر تفصیلی ملاحظه فرما سکتے ھیں.
❤️ 👍 5

Comments