
Dr.Masoomi
754 subscribers
About Dr.Masoomi
خواتین کے حقوق ،حقوق زوجین،خاندان کے آداب و اخلاق آیات و احادیث کی روشنی میں ،احکام ،اخلاق،عقائد،تاریخ و سیرت سے مربوط روزانہ کی پوسٹ ان شاءاللہ العبدمعصومی مہتمم اعلیٰ جامعہ علمیہ دارالھدیٰ محمدیہ علی پور مؤسس و سرپرست جامعہ علمیہ بنت الھدیٰ للبنات سیت پور https://wa.me/923087333500 https://wa.me/989196633714
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*🔰امام مہدی عج کے سپاہی کیسے بنیں؟ ، نوجوانوں کے لیے پیغام* نوجوانانِ اسلام! آپ وہ نسل ہیں جنہیں اللہ نے غیر معمولی صلاحیتوں، جذبے، اور ولولے سے نوازا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے حقیقی سپاہی بنیں تو صرف دعویٰ کافی نہیں، بلکہ عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ یہاں چند اہم نکات ہیں جو آپ کو اس راہ پر گامزن کر سکتے ہیں: *🌟 1. تقویٰ اور طہارت اختیار کریں* امام زمانہؑ کے سپاہی وہی بن سکتے ہیں جو دل و جان سے پاک ہوں۔ گناہوں سے بچیں، نگاہ، زبان اور دل کی حفاظت کریں۔ *"جو خود کو اصلاح کرے گا، وہ دوسروں کی اصلاح کے قابل ہوگا۔"😊* *📚 2. علم حاصل کریں* علم کے بغیر جہاد ممکن نہیں۔ دین، عقائد، قرآن، اہل بیتؑ کی سیرت، اور دنیاوی علوم میں مہارت حاصل کریں تاکہ امامؑ کی نصرت میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ " *علم، امام کے سپاہیوں کا سب سے اہم ہتھیار ہے۔"⚔️* *🤝 3. وحدت اور اخوت کو فروغ دیں* فرقہ واریت سے بچیں۔ شیعہ، سنی، ہر مسلمان کو بھائی سمجھیں۔ امام مہدیؑ تمام انسانیت کے نجات دہندہ ہیں۔ *🕊️ 4. اخلاقِ محمدی اپنائیں* سچائی، دیانت، حلم، صبر اور تواضع کو اپنا شعار بنائیں۔ امامؑ کے سپاہی معاشرے کے لیے نمونہ ہوتے ہیں۔ *🛡️ 5. امر بالمعروف و نہی عن المنکر کریں* نیکی کا حکم دیں، برائی سے روکیں — مگر حکمت، نرمی اور محبت سے۔ خاموشی ظالم کی تقویت ہے۔ *🕌 6. عبادات میں پختگی لائیں* نماز، دعا، شب بیداری، اور دعائے عہد جیسے اعمال کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ یہ روحانی تیاری کا بنیادی جزو ہیں۔ *📢 7. ظہور کا انتظار صرف زبانی نہ ہو* انتظار کا مطلب ہے تیاری — خود کو ایک منظم، مضبوط، اور بااخلاق لشکر میں ڈھالنا جو ظہور کے وقت فوراً لبیک کہے۔ *✊ نوجوانوں سے آخری پیغام:* اگر تم چاہتے ہو کہ امام مہدیؑ تمہیں اپنی فوج میں جگہ دیں، تو آج ہی اپنے نفس کی اصلاح سے ابتدا کرو۔ ہر دن خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرو۔ اپنے وقت، صلاحیت اور توانائی کو دین کے لیے وقف کرو۔ *"اگر تم دنیا کے فساد سے تنگ آ چکے ہو، تو جان لو کہ امامؑ بھی تمہارے منتظر ہیں ، تمہارے جاگنے کے!"*


منزل بہ منزل کربلا .قسط -3 ازقلم : قبلہ ابو صلاح الجعفری (عبید اللہ بن زیاد کی کوفہ آمد) دوستو! اب ہم " منزل بہ منزل" منازل کربلا کی طرف بڑھ رہے ہیں. ان شاءاللہ کاروان عشق و صبرو وفاء کی یہ عظیم روداد ہم اپنے خون جگر سے لکھ کر اس عظیم واقعے میں اپنی بھی روحانی شمولیت کو یقینی بنائیں گے دوستو! بلاشبہ سفر کربلا کی منزلیں عجیب سے عجیب تر ہیں. اور کوئی واقعہ عزیز زہرا مرضیہ .ع. کے واقعے سے عجیب تر نہیں ہے ( واحسیناہ) (غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم نہایت اسکی حسین. ابتداء ہیں اسماعیل) میں اور میرے ماں باپ و اہل و اولاد قربان جائیں اس قافلے پر جو موت کی جانب رواں دواں تھا اور شہادت جنکا استقبال کرنے ارض" غاضریات" پر لب فرات "عقر بابل و نینوا " کے پاس مقام " کرب و بلاء " پر منتظر تھی.( اللہ اکبر) عزیزو! جب بصرہ میں مولا حسین علیہ الصلوات والسلام کے قاصد جناب سلیمان رضی اللہ عنہ بحکم بد نہاد ابن زیاد شہید کیے جاچکے.تو گویا قافلہ حسینی کی شہادتوں کی ابتداء بصرہ سے ہوگئی تھی. ہمارا سلام ہو سلیمان قاصد حسینؑ و صحابی فرزند رسول ص پر جنہوں نے قافلہ صبر و رضا میں سب سے پہلے شہید کی حیثیت سے اپنا نام محضر شہداء میں لکھوایا. پس یزید لعین نے کوفہ کی صورتحال دہکھتے ہوۓ اپنے قریبی مشیروں کے کہنے پر ابن زیاد کو کوفہ کی اضافی امارت و ولایت دے دی. جہاں کے لوگ جناب مسلم بن عقیل عليه السلام كے ہاتھوں پر امام مظلومؑ کی بیعت کرکے یزیدی حکومت کے خلاف آواز بلند کرچکے تھے. ان حالات سے نمٹنے کیلیے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان(لعنت اللہ علیہم اجمعین) کو مجسم ننگ و عار .شقی ابن شقی و بد نہاد ابن زیاد( لعنت اللہ علیہ والعذاب) جیسے کمین وپست شخص کی ضرورت تھی جو کوفہ کے حالات كو برصورت اور ہر قیمت پر سختي و درشتي سے قابو کرسکے. ایسا شخص جو مخلوق كی رضا کی خاطر خالق کے غیض و غضب کی پرواہ نہ کرنے والا ہو پس یزید کے حکم پر یہ لعین ابن لعین اپنے ناپاک وجود اور ارادوں سمیت بصرہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوا اور اپنی جگہ اپنے بھائی کو بصرہ کی امارت سونپ دی. اور نکلتے وقت اہل بصرہ کو بھی نافرمانی کی صورت میں سخت دھمکیاں دیں. عبید اللہ ابن زیاد لعنت اللہ علیہ اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں عمر بہلی ، شارق بن عور حریثی سمیت بصرہ سے عازم کوفہ ہوا. اس نے کوفہ میں داخل ہونے کیلیے اپنی روایتی شیطانی مکاری سے کام لیا. جب وہ کوفہ میں داخل ہوا تو اس نے سیاہ قبا زیب تن کی ہوئی تھی اوراپنے منحوس چہرے پر نقاب اوڑھا ہوا تھا۔ کہیں لوگ اسکی خبیث شکل شناخت نہ کرلیں. ( اللہ کی لعنت ہو اس پر) پس اہل کوفہ جنہوں نے اس سے قبل امام حُسینؑ بن علیؑ علیہ سلام کی کوفہ کی طرف پیش قدمی کی خبر سنی ہوئی تھی اور وہ ان کی انتظار میں تھے۔ جب عبید اللہ ابن زیاد وہاں پہنچا تو یہ لوگ سمجھے کہ شاید امام حسینؑ تشریف لے آئے ہیں۔ پس لوگوں نے نقاب میں ہونے کی وجہ سے اسے امام حسینؑ سمجھ کر اس کا شاندار استقبال کیا اور پورا کوفہ مرحبا کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ "یا ابن رسولؐ اللہ خوش آمدید آپ کی آمد مبارک ہو۔ ابن زیاد چپ چاپ چلتا رہا. اور لوگ اسکے ہاتھ کو بوسہ دیتے اور مرحبا یابن رسول اللہ کی آوازیں بلند کرتے اسکا استقبال کرتے آگے بڑھ رہے تھے. رات ہونے کی وجہ سے اسکی شناخت بھی ممکن نہیں تھی انہیں کیا پتہ تھا کہ نقاب کے اندر موجود شخص حسین بن علیؑ نہیں بلکہ شقی ابن شقی ابن زیاد ہے. کاش لوگ ایک لمحہ کیلیے سوچتے کہ یہ حسینؑ نہیں ہو سکتے کیونکہ اگر یہ حسینؑ ہوتے تو ان کے ساتھ اصحاب باوفا ضرور ہوتے. ابن زیاد کو جب لوگوں کی ابا عبد اللہ الحسینؑ سے محبت کا اندازہ ہوا تو اس لعین کو لوگوں کے اس رویے سے سخت تکلیف ہوئی۔ وہ اپنی درشتی اور سختی کی وجہ سے مشہور تھا۔ یہ اس کو اپنے آباو اجداد سے وراثت سے ملی تھی۔ جب کہ اس کی ماں مرجانہ گانے بجانے ' بدکاری اور شکار کی وجہ سے مشہور تھی۔ ابن زیاد سخت غیض و غضب اور غصے سے بھر گیا تھا لیکن اس نے اپنا نقاب اسوقت تک نہیں اتارا جب تک وہ منحوس قصر دارالامارہ کے دربار تک نہیں پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنا نقاب الٹا، کوفیوں نے جب نقاب کے نیچے سے فرزند رسولؑ کی جگہ ابن مرجانہ کو پایا تو یہ دیکھ کر سخت مایوس و خوفزدہ ہوۓ. بلاشبہ بعض اوقات بلاوجہ کا خوف عظیم نقصانات کو جنم دیتا ہے. کاش ان میں سے ایک فرد اٹھتا اور قبل اس کے کہ وہ لعین خطاب کرتا اسے جہنم رسید کرتا کیونکہ اس وقت اس کے ہمراہ کوئی لاؤ لشکر بھی نہیں تھا پس عزیزو! یہاں سے تاریخ بدلی. رویے بدلے .چہرے بدل گیے جب اس لعین ابن لعین ابن زیاد نے لوگوں کو متوجہ کیا اور نماز کے خطبے کے بعد اس نے مجمع عام سے خطاب کیا. (" امابعد. مجھے امیر المومنین یزید نے تمہارے شہر کا گورنر بنایا ہے اور یہاں کی اراضی و آبادی و صدقات پر مجھے حق تصرف دیا ہے. اور مجھ کو تاکید کی ہے کہ میں تمہارے مظلوم سے انصاف کروں. اور تم میں جو محروم ہیں انہی عطا کروں. اور ان لوگوں سے نیک سلوک کروں جو تم میں فرمانبردار و اطاعت شعار ہیں. اور ان لوگوں سے سختی سے پیش اور جو تم میں سرکش و نافرمان ہیں. پس میں تم میں سے اطاعت کرنے والوں سے شفیق والد کی طرح سلوک کرونگا . اور نافرمانوں و بیعت شکنی کرنیوالوں کیلیے میرے پاس کوڑا اور تلوار ہے. پس تم میں سے ہر شخص اپنے نفس کے متعلق اللہ سے ڈرے. ( سچائی تمہیں با خبر کرتی ہے دھمکی نہیں دیتی ) " پس یہ خطاب سن کر اہل کوفہ کے دل میں ابن زیاد کا خوف بیٹھ گیا. پھر کوفہ کے حالات یکسر بدلنے لگے اس کے بعد تبدیلی و بے مروتی کی ایسی باد خزاں چلی جس نے سفیر حسین بن علیؑ و باغ بنو ہاشم کے پھول طیب بن طیب طاہر بن طاہر جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کو خزاں آلود کرکے تنہائی و عالم غربت میں مرجھا دیا. انا للہ وانا الیہ راجعون حوالہ جات (1) الارشاد 188- ( 2) نفس المہموم 82 (3) اللہوف 32- 38 التماس دعا ...... اے ایس امجد


۲۲/ ذی الحجہ #شہادت_میثم_تمار_رحمه_الله اس دن سنہ ۶۰ ھ میں جناب میثم تمّار کو حضرت امام حسین علیہ السلام سے وفاداری کی بنا پر ابن زیاد کے حکم سے سولی پر چڑھا دیا گیا اور آپ شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔ [میثم التمّار، ص۷۴؛ اعلام الوری، ج۱، ص۳۴۳؛ قلائد النحور، ج ذی الحجه، ص۴۱۶؛ منتخب التواریخ، ص۱۳۱؛ مراقد المعارف: ج۲، ص۳۴۰؛ وقایع المشهور، ص۲۴۰] جناب میثم کی تاریخ شہادت ۱۹/ ذی الحجہ و روز عاشورا میں بھی ذکر ہوئی ہے۔ [مستدرک سفینه البحار، ج۵، ص۲۱۴] ابو مسلم میثم تمّار بن یحیی التمار عجمی، چونکہ خرما فروش تھے، انہیں "تمّار" کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ وہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے خاص شیعوں، دوستوں، اور با وفا اصحاب میں سے تھے، صاحب علم منایا و بلایا، علم تفسیر کے ماہر، اور ایمان کامل کے حامل تھے۔ وہ زاہد و عابد انسان تھے، راتوں کو قیام میں اور دنوں کو روزہ میں بسر کرتے تھے، خوش کلام و خوش بیان تھے، حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ کے نزدیک عظیم الشان منزلت کے حامل تھے۔ جس وقت وہ حج پر جارہے تھے جناب ام سلمہ نے ان سے کہا: رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ راتوں میں بارہا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے آپ کا ذکر خیر کیا کرتے تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے نزدیک میثم کی منزلت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ کے نزدیک جناب سلمان کی منزلت کی طرح تھی۔ عبید اللہ ابن زیاد ملعون نے اس جلیل القدر شخصیت کو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ولا اور مصاحبت کی بنا پر شہید کر ڈالا۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام بھی ان سے بے پناہ محبت رکھتے تھے، یہاں تک کہ کبھی کبھی مسجد جامع نکلتے تھے اور جناب میثم کی دوکان پر تشریف فرما ہوتے اور ان سے باتیں کیا کرتے تھے، اور کبھی کبھی حضرت علیہ السلام میثم کو کسی کام کی غرض سے بھیج دیا کرتے اور خود میثم کے لئے کجھور بیچا کرتے تھے۔ [مناقب آل ابی طالب علیہم السلام، ج۲، ص۳۶۷، میثم التمّار، ص۱۹؛ بحارالانوار، ج۴۱، ص۲۶۸] جناب میثم نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام سے علم حاصل کیا تھا، یہاں تک کہ انہیں گرفتار کیا گیا اور سولی دی گئی، اور جبکہ انکے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے تھے لیکن وہ فضائل و مناقب امیر المومنین علیہ السلام بیان کرنے سے نہیں رکے، یہاں تک کہ انہیں شہید کر ڈالا گیا۔ سات خرما فروشوں نے رات کے اندھیرے میں انہیں دار سے نیچے اتارا اور موجودہ قبر مطہر میں دفن کیا۔ [ارشاد، ج۱، ص۲۲۳؛ رجال کشّی، ص۸۰، ۸۳، ۸۶؛ بحار الانوار، ج۴۱، ص۲۶۸، اعیان الشیعہ، ج۱۰، ص۱۹۸؛ نفس المہموم، ص۱۲۷؛ اختیار معرفۃ الرجال، ج۱، ص۲۹۲] 📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۲۲/ذی الحجہ، ص۳۸۵


زمانہِ غَیبت یعنی موجودہ زمانے میں : شیعوں کا فریضہ قرآن کریم اور فرامینِ آئمہ طاہرین علیھم الصلواۃ و السلام کی روشنی میں : زمانہِ غَیبت میں آئمہ طاہرین صلواۃ اللہ علیہم اجمعین نے شیعوں کی ذمہ داری کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمایا ھے : 1۔ سکوت یعنی خاموشی ۔ 2 ۔ لزومِ بیت ( یعنی گھر میں بیٹھنا) 3۔ عزلت ( لوگوں سے غیر ضروری میل ملاپ سے بچنا ) 4۔ تقیہ یعنی جان و مال اور ایمان کی حفاظت کیلئے غیروں سے اپنے عقیدے کو چھپانا 5۔ کثرت سے دعاءِ تعجیل ظہور کرتے رھنا 6- مولا امام زمانہ عجص سے رابطے میں رھنا ان موارد میں احادیث بکثرت ہیں ۔ تبرکاً کچھ پیش کی جا رھی ہیں ۔ 1۔ ابوبصیر نے مولا امام الصادق صلواۃ اللہ علیہ و آلہ سے غَیبت کے دوران شیعوں کے وظیفے کے متعلق سوال کیا تو امام ص نے فرمایا : جب قائم عجص کی غَیبت کا زمانہ ھو تو اپنے گھروں میں خاموشی سے بیٹھے رھو ، یہاں تک کہ طاھر ابن طاھر المطھر ( حضرت امام مھدی عجص ) کا ظھور ھو ۔ (الغیبة للطوسی صفحہ 103) 2۔ حسین بن خالد نے مولا امام الرضا صلواۃ اللہ علیہ و آلہ سے روایت کی ھے کہ آپ جناب ص نے فرمایا : جب تک زمین و آسمان خاموش ہیں ۔ تم شیعہ بھی خاموش بیٹھو ۔ ھنگامے مت کرو اور نہ ھی تمھیں کسی قیام کی اجازت ھے ۔ { اس حدیث پاک میں ممنوعہ استعجال کی وضاحت فرمائی گئی ھے } (وسائل الشیعہ جلد 11 حدیث 14) 3۔ مولا امام الصادق صلواۃ اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا۔ ھر پرچم ( تحریک وغیرہ) جو ظہورِ قائم عجص سے پہلے بلند ھوگا ۔ اُس پرچم کا قائد طاغوت ھے ۔ (وسائل الشیعہ جلد 11 حدیث 6) (اس فرمانِ مقدس میں مولاؑ نے ظہورِ امام زمانہ عجص سے پہلے کسی بھی مذھبی یا سیاسی نام پر اُٹھنے والی تحریکوں میں شمولیت سے منع فرما دیا ھے ۔ یہی ممنوعہ و مذمومہ استعجال ھے) 4۔ مولا امام الصادق صلواۃ اللہ علیہ و آلہ نے سُدیر سے فرمایا : اے سُدیر! تا ظہورِ امام مھدی عجص اپنے گھر میں بیٹھو اور اپنے معاش میں مگن رھو ۔ (وسائل الشیعہ جلد 11 حدیث 3) 5۔ جابر جُعفی نے مولا امام الباقر العلوم صلواۃ اللہ علیہ و آلہ سے سوال کیا : مولا ص زمانہِ غَیبت میں مومن کو کیا کرنا چاہیئے ؟ امام ص نے فرمایا : اپنی زبان کی حفاظت کرے اور گھر میں بیٹھے ۔ (کمال الدین و تمام النعمة شیخ صدوق صفہہ 446) 6۔ مولا امیرِ کائنات صلواۃ اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : زمین تھام کے بیٹھے رھو ۔ مشکلات اور مصائب پر صبر کرو ۔ اپنے ہاتھوں کو حرکت نہ دو ۔ جس کام کی عُجلت اللہ کو نہیں ، تمہیں جلد بازی کی ضرورت کیا ھے ۔ (الغیبة النعمانی صفحہ 256) 7۔ مولا والی ء خراسان صلواۃ اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : جس شخص نے خروجِ قائم عجص سے پہلے تقّیہ ترک کیا ۔ اُس کا ھم آلِ محمد صلواۃ اللہ علیہم اجمعین سے کوئی تعلق نہیں ۔ (وسائل الشیعہ جلد 11) 8۔ مولا امام الصادق صلواۃ اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا ۔ ھر بیعت جو ظہورِ قائم عجص سے پہلے کی جائے گی ۔ وہ کفر و نفاق کی بیعت ھے ۔ (بحار الانوار جلد 53 صفحہ 8) 9۔ مولا امام الصادق صلواۃ اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا ۔ جب ظہورِ مھدی عجص کا وقت قریب ھو ۔ تو تمہیں مزید شدت سے تقّیہ کرنا چاہیئے ۔ (بحار الانوار جلد 11) معصومینؑ کی احادیث کا مطالعہ کیجیئے ۔ اور انکی روشنی میں اپنی زندگی استوار کیجیئے ۔ تاکہ کوئی دین فروش نہ تو آپکے جذبات کو کسی استعماری قوت کے آگے فروخت کرسکے اور نہ ھی آپکو گُمراہ کر سکے۔ 10 ۔ مولا امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف و صلواۃ اللہ علیہ نے متعدد توقیعات مبارک میں حکم فرمایا واکثروا الدعاء بتعجیل الفرج ہمارے ظہور میں تعجیل کی دعا کثرت سے کرو اسی میں تمہاری تمام مشکلات کا حل ھے۔ مولا امام العسکری صلواۃ اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا کہ زمانہ ء غیبت میں ہلاکت سے وہی شخص بچے گا جو تعجیل ظہور کی دعا کرے گا صحیفہ ء مہدی (عجص) ، بحار الانوار ج 12 شیخ مفید کے نام خط۔ 11- بحکم قرآن کریم (آیہ مبارکہ ۔۔۔ اصبروا و صابروا و رابطوا ) ہمارے زمانے کے پاک امام عجص کا ہم پر حق ھے کہ ھم آپ جناب عجص کی غیبت پر صبر کریں، دوسروں کو صبر کی تلقین کریں اور آپ جناب عجص سے مربوط رھیں۔ غیبت پر صبر کریں، اس کا مطلب یہ ھے کہ غیبت سے مایوس ہو کر کسی غیر معصوم کو اپنے اوپر حاکم یا ولی نہ بنائیں۔ اور اگر کوئی مومن صبر کا دامن چھوڑے تو اسے حوصلہ دیں اور امام زمانہ عجص سے منسلک رکھیں۔ جو شخص مندرجہ بالا تین حقوق ادا کرے گا تو یہ چوتھا حق بفضل مولا (عجص) ، خود بخود پورا ھو جاتا ھے آئیں! ہلاکت سے بچیں اور کثرت سے دعا ءِ تعجیل ظہور کریں اور اپنا ورد بنائیں اللھم عجل لیولیک الفرج اللھم عجل لیولیک الفرج اللھم عجل لیولیک الفرج اللھم عجل لیولیک الفرج اللھم عجل لیولیک الفرج اللھم عجل لیولیک الفرج


`فراز دار سے میثم بیان دیتے ہیں` `رہے گا ذکر علی ہم زبان دیتے ہیں` ⭕ *٢٢ ذی الحجہ 60 ہجری شہادت صحابی باوفا امیرالمومنین امام علیٔ حضرت میثم تمار اسدی* 💔 📜 جناب میثم تمارٔ کو عشق علیِٔ کے جرم میں سولی چڑھایا گیا، میثم تمّار ایک غلام تھے جنہیں امام علی علیہ السلام نے خرید کر آزاد کردیا تھا میثم کی شہادت امام حسین علیہ السلام کے کربلا میں داخل ہونے سے دس روز قبل ہوئی۔ *#شہادت_میثم_تمار


*🌱مُختَصر پُر اَثَر🌱* *نظر انداز ہونے لگے تو تعلق دیکھے بغیر خاموشی سے کنارہ کر لیں کسی پر بوجھ بننے سے یاد بن جانا بہتر ہے کیونکہ رشتے بوجھ نہیں ہوتے۔🥺* *🌱مُختَصر پُر اَثَر🌱* *برے لوگوں کی برائی کی وجہ سے آپ اپنی اچھی صفات ترک مت کریں* *صبر اور برداشت سے زندگی کے سفر کو شاندار طریقے سے جاری رکھیں یقیناً ایک دن آئے گا زیادتی کرنے والے آپ کے روبرو آئیں گے لیکن آپ سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں ہو گی کیونکہ وقت اچھائی اور برائی کا صلہ اکثر دنیا میں بھی سامنے لے آتا ہے ،* *🌱مُختَصر پُر اَثَر🌱* *درست دروازے تک پہنچنے سے پہلے تمہیں بہت سے غلط دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں، غلطیاں بُری نہیں ہوتیں، بلکہ وہ پختگی کی طرف لے جاتی ہیں۔* — شمس تبریزی *🌱مُختَصر پُر اَثَر🌱* *اپنی پریشانیوں کو رکھنے کی بہترین جگہ تمہاری پھٹی ہوئی جیب ہے، اپنی چھوٹی اور معمولی پریشانیاں اس پھٹی ہوئی جیب میں ڈال دو تاکہ وہ گر جائیں، اور جو بڑے مسائل ہیں، اُن کا حل تلاش کرو، پھر اُنہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرو تاکہ وہ بھی آہستہ آہستہ اُس جیب سے گر جائیں۔*

22 ذی الحج سن 60 ھجری صحابی رسولؐ حضرت میثم تمار کو محمدؐ وآلؑ محمدؐ سے محبت کے جرم میں عبید اللہ بن زیاد(لعین) کے حکم پر سولی پر چڑھایا گیا اور ان کی زبان کاٹ دی گئی۔۔۔۔۔ حضرت میثم تمار صحابی رسول صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں ساتھ ہی آپ حضرت علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی اور اہلیبیتؑ رسولؐ کے جانشینوں میں شامل ہیں۔ شھادت سے قبل آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تاہم آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ حضرت علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی، اس وقت حضرت میثم نے کہا تھا کہ میری زبان بھی کاٹ دی جائے تو میں حق بات اور آپ کی محبت سے دست بردار نہیں ہونگا۔ حضرت میثم ایک غریب کھجور فروش تھے مگر پروردگار کی عبادت میں کوئی کثر نہ چھوڑتے یہی وجہ تھی کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کے بہترین دوست تھے۔۔۔۔


الاصہب اور الابقع کے درمیان اقتدار کی جنگ اور اقتدار روس کے پاس چلے جانا۔! حضرت امام محمدباقرعلیه السلام نے فرمایا:پس اس سال زمین پر مغرب کی جانب سے بہت زیادہ اختلافات ہونگے پس پہلی سرزمین جو خراب ہوگی وہ شام کی ہوگی اور تین جھنڈوں میں تقسیم ہوجائیں گے اصہب کا پرچم ،ابقع کا پرچم اور سفیانی کا پرچم ۔(بحار:ج52:ص212) اس سے ظاہر ہوتاہے که الابقع یعنی المبقع الوجه شام پر پہلے قابض ہوگا اسکا اقتدار اپنے حریف الاصہب یعنی الاصفر الوجه سے پرانا ہوگا کیونکه احادیث میں ہے که الاصہب کاانقلاب دارلحکومت اور حکومت کے مرکز سے باہرہوگا اور وہ اقتدار پر قبضه جمانے میں ناکام ہوگا پس یا تو الابقع ہی اصلی اقتدار کا مالک ہوگا یاپھر وہ انقلاب لانے میں کامیاب ہوگا اور اس کا دوسرا حریف الاصہب اس پر حمله آور ہوگا دونوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے پر واضح اور حتمی کامیابی حاصل نه کرپائےگا پس سفیانی اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومت کے مرکز سے باہر کی طرف سے دونوں پر ٹوٹ پڑےگا اور دونوں کو شکست دےگا اس سے اندازہ ہوتا ہے که الاصہب غیر مسلم ہوگا کیونکه بعض روایات میں اس کا وصف العلج لکھا گیا ہے جوکه عام طور پر کافروں کا وصف ہے پہلے درجے کے مصادر میں جس مروانی کا ذکر واردہوا ہے جیسے غیبت نعمانی میں ہے تو اس سے مراد وہی الابقع ہے کوئی اور شخص سفیانی کے مقابل میں نہیں ہوگا احادیث میں ابقع اور اصہب دونوں کے سیاسی رجحان پر مذمت کی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے که دونوں اسلام کی مخالفت میں کام کررہے ہوں گے اور کافر طاقتوں کے موالی و اتحادی ہونگے آنے والی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے که الاصہب روس کا حامی وموالی ہوگا پس جب العلج الاصہب قیام کرےگا اور مرکز کا تخته الٹنا اس کے لئے مشکل ہوجائےگا تو وہ تھوڑے ہی عرصه میں قتل کردیا جائےگااور اس موقع پر اقتدار ترک یعنی روس کے پاس چلاجائےگا۔ (الزام الناصب:ج2:ص204) عصر ظہور:ص114

سلسلہ منزل بہ منزل كربلا قسط -2 از قلم : قبلہ ابو صلاح الجعفری (2012) ( شہادت كيلئے امام حسین علیہ سلام کی آمادگی اور جناب محمد حنفیہ کے نام خط میں مقصد خروج کی وضاحت ) عزيزو ! اب ماه محرم كی آمد آمد ہے. عزیزو ! حسینؑ اس وقت سفر کربلا میں ہیں. اب هم بھی " منزل بہ منزل کربلا " حسینؑ کے ساتھ چلیں گے. بس یہاں محرم کا چاند نمودار ہو رھا ہوگا وہاں امامت کا سورج اور جناب زہراؑ کا چاند ارض نینوا میں اپنے ستاروں کے ساتھ غروب ہونے جارہا ہوگا. اللہ تعالی کی ذات تمام پردیسیوں اور مسافروں کے سفر کو امام حسينؑ كے سفر کے صدقے میں آسان کرے. اے چشم فلک ! کیا تو نے حسینؑ جیسا مسافر کہیں کبھی دیکھا تھا ؟؟ آخر کار وہ مرحلہ آ گیا جب قافلہ صبر و رضا کے چلنے کی باری آئی. ابا عبد اللہ الحسینؑ نے بحسرت جد بزرگوار اور ماں کی قبروں کی آخری زیارت کی . مسموم و مظلوم بھائی کو جنت البقیع میں وداع کیا. روایت کہتی ہے کہ حسینؑ ماں کی قبر سے جدا ہوے تو مثل بچے کے پھوٹ پھوٹ کر روۓ. پھر نانا اور بھائی سے امت کے مظالم کی شکایت کی. اور شدید گریہ کیا اللہ کا سلام ہو آپؑ کی ان خوبصورت آنکھوں پر جن سے آنسو مثل گوہر گرتے تھے. پس عزیزو! حسینؑ کے گریہ وبکاء سے رسول اللہ ص قبر مطہر میں قرار نہ پا سکے آخر وہ نانا خاموش بھی کیسے رہتے جنکے دوش پرحسینؑ پلے تھے . اور بھلا وہ ماں بھی کیسے خاموش رہتیں جس نے چکیاں پیس پیس کر انہیں پالا تھا. قبر رسول و سیدہؑ کو لرزہ طاری ہوا اور یہاں سے بھی رونے کی آوازیں بلند ہوئیں اور میری جان فدا ہو اور ایسا کیوں نہ ہو آخر حسینؑ کے رونے سے قلب مصطفی ص کو تکلیف پہنچتی تھی -(الطبري في ذخاير العقبي 143). المختصر ! اب سیدانیوں کے سواریوں پر بیٹھنے کی باری آئی اور عصمت و طہارت کی خواتین ایک ایک کرکے سواریوں پر تشریف فرما ہوئیں راوی کہتا ہے کہ اتنے میں ایک بلند قامت خاتون اندر سے برآمد ہوئیں ان کے دائیں بائیں جانب بنوہاشم کے جوان چل رہے تھے. انھیں دیکھ کر حسین ابن علیؑ تعظیم اٹھ کھڑے ہوۓ. دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہ زینب بنت امیر المومنینؑ تھیں. مدینہ سے کربلا اور کربلا سے واپس مدینہ تک زینب بنت علیؑ اپنے عظیم بھائی حسین بن فاطمہ کی حجت قاطعہ و دلیل و برہان بنیں. اور بلاشبہ شریکتہ الحسین ٹھہریں. زینبؑ کا حسینؑ کا ساتھ دینا کربلا میں واجب کی حیثیت رکھتا تھا. اگر آپ نہ ہوتیں تو ان سب قربانیوں کو کوفہ و شام کے درباروں بازاروں اور مجمع عام میں لہجہ " لسان اللہ" میں کون بیان کرتا ؟ واللہ یہ زینب س تھیں جو قول میں سچی اور کردار میں اپنی ماں فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مکمل تصویر تھیں. جن کے قول کو جھٹلایا نہ جا سکا. جن کی آواز دبائی نہ جا سکی جنکی مظلومیت کو نظر انداز نہ کیا جا سکا. اور قیامت تک یزیدیت کو ایسا رسوا کر گئیں کہ سب پر واضح ہوگیا کہ نبی عربی ص کے دین کے اصل وارث و حامی کون ہیں اور اسلام کے نام پر دین کے لبادے میں منافقت و انحراف اختیار کرنے والے کون ہیں. تب ھی تو زینب ص باصرار اپنے بھائی کے ہمراہ چلیں تھیں جب ساری تیاریاں مکمل ہوئیں تو مولا و آقا حسین بن علی نے روانگی سے قبل ایک وصیت لکھی پھر اس پر مہر و دستخط کرکے اپنے بھائی محمد حنفیہ کےحوالے کیا. خط کا مضمون یوں تھا. «هذا ما أوصى به الحسين بن علي إلى أخيه محمد ابن الحنفية، أنّ الحسين يشهد أنّ لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، وأن محمداً عبده ورسوله جاء بالحق من عنده، وأن الجنة حق والنار حق، وأن الساعة آتية لا ريب فيها، وأن الله يبعث من في القبور، وأني لم أخرج أشراً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً، وإنما خرجت لطلب الإصلاح في أمة جدي وأبي علي بن ابي طالب فمن قبلني بقبول الحق فالله أولى بالحق، ومن رد علي أصبر حتى يقضي الله بيني وبين القوم الظالمين وهو خير الحاكمين» -(بحار الانوار4/ 329 ) " بلاشبہ حسین بن علی یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ ایک ہے. اسکا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں. وہ اللہ عزوجل کی طرف سے حق لیکر آۓ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جنت و دوزخ برحق ہے اور قیامت کا دن برپا ہوکر رہے گا یہی وہ برحق دن ہے جب اللہ لوگوں کو انکی قبور سے محشور کریگا. میں نہ خلفشار پھیلانے نکلا ہوں نہ کوئی شر پھیلانے نکلا ہوں اور نہ ظلم کےارادے سے میں نے خروج کیا ہے. بلکہ میرے نکلنے کا مقصد فقط اپنے جد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت میں اصلاح ہے. اور یہ کہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں . اور اپنے نانا اور بابا کی روش پر چلوں. پس تم میں سے جو قبولیت حق کےساتھ مجھے قبول کرے تو اللہ اس کا زیادہ سزاوار ہے کہ حق ( واہل حق ) کا ساتھ دیا جاے . اور تم میں سے جو میری دعوت کو ٹھکرا دے تو میں اس کے معاملے میں صبر اختیار کرونگا یہاں تک کہ اللہ میرے اور ظالمین کے درمیاں فیصلہ فرما دے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے " حسینؑ نے یہ خط بھائی محمد حنفیہ کے حوالے کیا. محمد حنفیہ و دیگر اکابرین بنو ہاشم و بعض اصحاب نے آپکو عراق کا سفر ملتوی کرنے کی استدعا کی اور ان خطرات سے اگاہ کیا جو وہ اس بارے میں سنتے آۓ تھے لیکن حسینؑ مصمم ارادہ کرچکے تھے. اور اپنے الہی فریضے سے بخوبی واقف تھے پس آپؑ نے ان کے جواب میں فرمایا " واللہ ! بجایے اس کے کہ مرنے کے بعد مجھے خانہ کعبہ کی دیوار میں دفن کردیا جاۓ. مجھے یہ بات زیادہ محبوب ہے کہ فرات کے کنارے "نواویس و کربلا " کے درمیان میرے جسم کے چتھیڑے اڑا دئیے جائیں " جناب ام المومنین ام سلمہ کے یہ کہنے پر کہ اپ رسول زادیوں اور اپنی عورتوں اور بچوں کے ہمراہ عراق کا سفر نہ کیجیے ؟ تو آپؑ نے جواب دیا. " اے اماں ! یہی اللہ کی رضا ہے کہ میں قتل کردیا جاوں اور آل رسول اسیر کرلی جایے"( بحار الانوار 3/331 و 364 ) بعض روايتوں میں آیا ہے کہ آپؑ نے سفر سے منع کرنے والے اصحاب سے کہا کہ " اللہ مجھے مقتول دیکھنا چاہتا ہے " کچھ روایتوں کے مطابق آپؑ نے فرمایا " چاہے میں عراق کی طرف جاوں یا نہ جاوں یہ لوگ مجھے قتل کرکے رہیں گے -( عوالم الامام الحسين -180) رب کعبہ کی قسم ! قلم اب مزید تاب تحریر نہیں رکھتا . اے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کے چین ! اے زخمی دلوں کے مرہم و دوا حسینؑ . آپ کے کف پا کی خاک پر ہمارا سلام . سلام اے فرزند فاطمہ .سلام اے کربل کے مسافر. السلام علیک یا صاحب الزمان . عجل اللہ تعالي فرجک. ولا حول ولا قوہ الا باللہ العلی العظیم. التماس دعا .......اے ایس امجد


امام مہدی(عج) زمین والوں کے لئے امان ہیں: “اِنّی لَاٴَمٰانُ لِاٴَهْلِ الْاٴَرْضِ كَمٰا اَٴنَّ النُّجُومَ اٴَمٰانُ لِاٴَهْلِ السَّمٰاءِ” ”بے شک میں اہل زمین کے لئے امن و سلامتی ہوں، جیسا کہ ستارے آسمان والوں کے لئے امان کا باعث ہیں“۔ ( کمال الدین، ج 2، ص 485،ح 10 ) 💟شرح یہ کلام حضرت امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے اس جواب کا ایک حصہ ہے جس کو امام علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے جواب میں لکھا ہے، اسحاق نے اس خط میں امام علیہ السلام سے غیبت کی وجہ کے بارے میں سوال کیا تھا۔ امام علیہ السلام نے غیبت کی علت بیان کرنے کے بعد اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ غیبت کے زمانہ میں امام کا وجود بے فائدہ نہیں ہے، وجود امام کے فوائد میں سے ایک ادنیٰ فائدہ یہ ہے کہ امام زمین والوں کے لئے باعث امن و امان ہیں، جیسا کہ ستارے آسمان والوں کے لئے امن و سلامتی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ دوسری صحیح روایات میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ جیسا کہ اُن روایات میں بیان ہوا ہے: اگر زمین پر حجت (خدا) نہ ہو تو زمین اور اس پر بسنے والے مضطرب اور تباہ و برباد ہوجائیں۔ امام زمانہ علیہ السلام کو اہل زمین کے لئے امن و امان سے اس طرح تشبیہ دینا جس طرح ستارے اہل آسمان کے لئے امن و امان ہوتے ہیں؛ اس سلسلہ میں شباہت کی چند چیزیں پائی جاتی ہیں جن میں سے دو چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے: 1۔ جس طرح تخلیقی لحاظ سے ستاروں کا وجود اور ان کو ان کی جگھوں پر رکھنے کی حالت اور کیفیت، تمام کرّات، سیارات اور کھکشاوں کے لئے امن و امان اور آرام کا سبب ہے، زمین والوں کے لئے امام زمانہ علیہ السلام کا وجود بھی اسی طرح ہے۔ 2۔ جس طرح ستاروں کے ذریعہ شیاطین آسمانوں سے بھگائے گئے ہیں اور اہل آسمان منجملہ ملائکہ کے امان و آرام کا سامان فراہم ہوا ہے اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام کا وجود، تخلیقی اور تشریعی لحاظ سے اہل زمین سے، مخصوصاً انسانوں سے شیطان کو دور بھگانے کا سبب ہے۔
