
سفینةالنجاة
363 subscribers
About سفینةالنجاة
دینی معلومات آیات و احادیث کی روشنی میں ،احکام ،اخلاق،عقائد،تاریخ و سیرت سے مربوط روزانہ کی پوسٹ ان شاءاللہ العبدمعصومی مہتمم اعلیٰ جامعہ علمیہ دارالھدیٰ محمدیہ علی پور مؤسس و سرپرست جامعہ علمیہ بنت الھدیٰ للبنات سیت پور https://wa.me/923087333500 https://wa.me/989196633714
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

🔸 *دھمال از نظر نہج البلاغہ* *(حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ سلام)* ◀️ *دھمال کیا بے؟ اور مولا علی علیہ السلام نے اس فعل کے متعلق کیا فرمایا بے؟* جب امیرالمومنین علی علیہ السلام کوفه سے دمشق شام کی طرف جنگ کیلۓ لشکر لے کر جا رہے تھے, راستے میں انبار شہر کے زمینداروں کو جب پتا چلا که امام علی علیہ السلام کا گزر ہو رہا ہے تو وه لوگ استقبال کیلۓ شہر سے باہر آ گۓ اور علی علیہ السلام کے لشکر کے آگے ترجل شروع کیا، ترجل, رجل سے بے رجل ٹانگ کو کہتے ہیں, یعنی ٹانگ اٹھا کر زمین پر مارنا جس کو ہم اپنی زبان میں دھمال یا (بھنگڑا ) کہتے ہیں، انہوں نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کے سامنے دھمال ڈالنا شروع کر دیا. تو علی علیہ السلام نے پوچھا : ماھذه الذی صنعتموه, یه لوگ کیا حرکت کر رہے ہیں، کہا که آپ علیہ السلام کا استقبال کر رہے ہیں، ہم اپنے امیروں اور حکمرانوں کا استقبال اسی طرح کرتے ہیں. تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : والله ماینتفع بھذه امراءکم , خدا کی قسم تمہارے والی و تمہارے حکمران ان باتوں سے کوئی فائده نہیں لیتے, یعنی تمہارے بھنگڑے دھمال مجھے کوئی فائده نہیں دیتے اور نه ہی تمہارے لیۓ کوئی فائده بے، ہاں یه ضرور بے که تم دنیا میں اپنی جانوں کو مشقت میں ڈالتے ہو اور آخرت میں اس دھمال کی وجه سے بدبختی اور عذاب میں ره جاؤ گے، اور وه کتنے گھاٹے کی مشقت ہوگی، جسکی تمہیں سزا بھگتنا پڑے گی، مجھے ان طریقوں سے خوش کرنے کیلۓ نه آؤ بلکه علی علیہ السلام دھمال یا بھنگڑے سے خوش نہیں ہوتے، نه ہی دھمال کو پسند کرتے ہیں. لوگ پریشان ہو گۓ که یه پہلے امیر ہیں جو دھمال کو ناپسند کر رہے ہیں, جبکه پہلے جو حکمران آتے تھے وه تعریفیں بھی کرتے تھے، پیسے اور انعام بھی دیتے تھے. مولا علی علیہ السلام نے فرمایا : یه دھمال دنیاوی تھکاوٹ اور اخروی شقاوت ھے، اس دھمال یا بھنگڑے سے نه میں خوش ہوتا ہوں اور نہ میرا خدا خوش ہو گا، اور نه ہی تمہارے دھمال کا کوئی فائده ھے. بھنگڑوں دھمالوں کو چھوڑو اور سنو پهلے مجھ سے پوچھو که تمہارا فریضه کیا بنتا بے؟ تمہارا فریضه بھنگڑا اور دھمال نہیں بلکه تمہارا فریضه یه بے که شمشیر اور ڈھال لو نیزه اور تلوار ہاتھ میں پکڑو اور میرے ساتھ میری فوج میں مل کر اس طاغوت اور ان ظالموں کو کچلو جو اسلام کے دشمن ہیں، یه تمہارا فریضه بے۔ فرائض سے مت دور رہو، دین شناسی لو توہمات کا مت شکار ہو جاؤ، من گھڑت راہوں پر مت سفر کرو، قرب خدا حاصل کرو. (حضرت امیر علیہ السلام فرماتے تھے میری حسرت تھی کاش میری باتوں کو کوئی سمجھتا). آج یہی دھمال درباروں، میلوں پر عبادت و عقیدت اور قرب حاضر صاحب مزار کے طور پر لوگ ڈالتے ہیں، جیسے حضرت لعل شھباز قلندر رح کی قلندری دھمال اور بابا بلھے شاه کی دھمال مشھور ہے. یه جہالت بے که فرائض کو بھلا کر ناچ کر بزرگ یا اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. جبکه مولا علی ع نے واضح الفاظ میں اس فعل بد کی مذمت کی ہے اور اسے دنیاوی تھکاوٹ اور اخروی عذاب سے تعبیر کیا بے. مزید یہ واقع آپ نہج البلاغه ص نمبر 824/ حکمت نمبر 37 پر تفصیلی ملاحظه فرما سکتے ھیں.

*عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں* عصر حاضر کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ جو اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے درمیان خاص اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی کے دور غیبت میں ان کے شیعوں اور چاہنے والوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ تاکہ وہ ان پر عمل پیرا ہو کر آپ(ع) کے ظہور کے لیے زمین ہموار کریں۔ اس مقالہ میں ہم بغیر کسی تمہید اور مقدمہ کے ان ذمہ داریوں میں سے چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں جنہیں ہمیں ایک منتظر ہونے کے عنوان سے انجام دینا ضروری ہے ورنہ ہم آپ (ع) کے سچے منتظر نہیں سو سکیں گے: ۱: امام زمانہ (ع) کی معرفت یہ حقیقت ہے کہ جب تک ہم امام زمانہ علیہ السلام کو نہیں پہچانیں گے، ان کی معرفت حاصل نہیں کریں گے ہر گز ان کے واقعی انتظار کرنے والے نہیں بن سکتے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک دن امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے مجمع میں داخل ہوئے اور خدا کی حمد و ثنا اور پیغمبر اکرم (ص) پر درود و سلام بھیجنے کے بعد فرمایا: «يا ايها الناس ان الله ما خلق العباد الا ليعرفوه فاذا عرفوه عبدوه فاذا عبدوه استغنوا بعبادته عن عبادة من سواه، فقال له رجل: بابى انت وامى يابن رسول الله ما معرفة الله؟ قال: معرفة اهل كل زمان امامهم الذى يجب عليهم طاعته (1)؛ اے لوگو! خداوند عالم نے بندوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ اس کی معرفت حاصل کریں، جب اس کی معرفت حاصل کر لیں تو اس کی عبادت کریں اور جب اس کی عبادت کریں تو اس کے غیر کی عبادت سے بے نیاز ہو جائیں۔ ایک شخص نے عرض کیا: اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، اللہ کی معرف سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ہر زمانے کے لوگوں کو اپنے اس امام کی معرفت حاصل کرنا جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔ اسی طرح رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: «من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة الجاهلية (2)؛ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔ امام زمانہ (ع) کے دوران غیبت میں جن دعاوں کو پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ان کے مضامین کی طرف توجہ کرنے سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کا پتا چلتا ہے ان دعاوں میں سے ایک معروف و مشہور دعا جو شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین میں نقل کی ہے پڑھتے ہیں: «اللهم عرفنى نفسك فانك ان لم تعرفنى نفسك لم اعرف نبيك، اللهم عرفنى نبيك فانك ان لم تعرفنى نبيك لم اعرف حجتك، اللهم عرفنى حجتك فانك ان لم تعرفنى حجتك ضللت عن دينى (3)؛ خدایا! تو خود ہمیں اپنی معرفت دلا، اگر تو نے اپنی معرفت نہ دلائی تو ہم تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر پائیں گے، بارالہا! ہمیں اپنے نبی کی معرفت دلا، اگر تو نے اپنے نبی کی معرفت نہ دلائی تو ہم تیری حجت کی معرفت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ پروردگارا! اپنی حجت کی معرفت دلا اگر تو نے اپنی حجت کی معرفت نہ دلائی تو ہم اپنے دین سے گمراہ ہو جائیں گے۔ : ولایت اہلبیت علیہم السلام سے تمسک اہلبیت(ع) کی ولایت دو طرح کی ہے:۱؛ ولایت تکوینی، ۲؛ ولایت تشریعی۔ ولایت تکوینی کا مطلب یہ ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اذن الہی سے کائنات کے اندر تصرف کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جیسے انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے معجزات کا رونما ہونا ان کے ولایت تکوینی کے مالک ہونے کی دلیل ہے۔ ولایت تشریعی کا مطلب یہ ہے کہ ائمہ معصومین (ع) مومنین اور اسلامی سماج کے سرپرست اور ہادی ہیں۔ بنابر ایں ائمہ معصومین میں سے ہر امام اپنے زمانے میں اپنی امت کا ہادی اور سرپرست رہا ہے اور ان کی ہدایت کرتا رہا ہے۔ عصر غیبت میں امام علیہ السلام کا انتظار کرنے والوں کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ولایت ائمہ معصومین سے متمسک رہیں۔ ان کے کائنات میں حق تصرف رکھنے کے معتقد اور ان کی ہدایت تشریعی پر عمل پیرا رہیں۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «طوبى لشيعتنا المتمسكين بحبلنا فى غيبة قائمنا (4)؛ خوش نصیب ہیں ہمارے وہ شیعہ جو ہمارے قائم کے زمانے میں ہماری ولایت سے متمسک رہیں۔ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: «من ثبت على موالاتنا «ولايتنا» فى غيبة قائمنا اعطاه الله عزوجل اجرالف شهيد من شهداء بدر و احد (5)؛ جو شخص ہمارے قائم کی غیبت کے دور میں ہماری دوستی اور ولایت پر ثابت قدم رہے خداوند عالم ان ہزار شہیدوں کا اجر و ثواب اسے عطا کرے گا جو بدر و احد میں شہید ہوئے ہوں۔ نیز امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «ياتى على الناس زمان يغيب عنهم امامهم؛ ہمارے شیعوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کا امام ان سے غائب ہو جائے گا۔ زرازہ نے پوچھا: اس دور میں لوگ کیا کریں گے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: «يتمسكون بالامر الذى هم عليه حتى يتبين لهم (6)؛ وہ اس امر (ولایت) سے متمسک رہیں گے جو ان کے اوپر قرار دی گئی ہو گی یہاں تک کہ ظہور ہو جائے۔ : انتظار فرج عصر غیبت میں مومنین کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اپنے امام کا شدت سے انتظار کریں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: «افضل اعمال امتى انتظار الفرج (7)؛ میری امت کا بہترین عمل انتظار فرج ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «اقرب ما يكون العباد من الله جل ذكره و ارضى ما يكون عنهم اذا افتقدوا حجة الله جل و عز و لم يظهر لهم و لم يعلموا مكانه و هم فى ذلك يعلمون انه لم تبطل حجة الله جل ذكره و لا ميثاقه، فعندها فتوقعوا الفرج صباحا و مساء (8)؛ اس وقت بندے اللہ سے نزدیک ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہو گا جب اللہ کی حجت ان کے درمیان سے غائب ہو اور وہ اس کی جگہ کو نہ پہنچانتے ہوں اس کے باوجود وہ یہ یقین رکھتے ہوں کہ خدا کی حجت ہمارے درمیان سے نہیں اٹھی ہے۔ لہذا وہ صبح و مساء اس کے ظہور کا انتظار کرتے رہیں۔ امام صادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: «سياتى قوم من بعدكم، الرجل الواحد منهم له اجر خمسين منكم، قالوا: يا رسول الله! نحن كنامعك ببدر و احد و حنين و نزل فينا القرآن؟ فقال: انكم لو تحملوا لما حملوا لم تصبروا صبرهم (9)؛ تم لوگوں کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جس میں سے ہر ایک شخص تم میں پچاس افراد کا ثواب کمائے گا۔ کہا: یا رسول اللہ! ہم جنگ بدر و احد اور حنین میں آپ کے ساتھ تھے اور ہمارے درمیان قرآن نازل ہوا ہے؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: جو کچھ وہ تحمل اور برداشت کریں گے اگر تم کرنا چاہو تو ان جیسا صبر نہیں کر پاو گے۔ دوسری مرتبہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: انتظار الفرج بالصبر عبادة (10)؛ صبر اور حوصلہ کے ساتھ ظہور کا انتظار کرنا عبادت ہے۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: «ما احسن الصبر و انتظار فرج (11)؛ کتنا اچھا ہے صبر کرنا اور ظہور کا انتظار کرنا۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: «له غيبة يرتد فيها اقوام و يثبت فيها على الدين آخرون، فيؤذون و يقال لهم: «متى هذا الوعد ان كنتم صادقين » اما ان الصابر فى غيبته على الاذى و التكذيب بمنزلة المجاهد بالسيف بين يدى رسول الله (12)؛ ان(مھدی) کے لیے غیبت کا دور ہو گا کہ جس میں کچھ قومیں دین سے خارج ہو جائیں گی اور کچھ اپنے دین پر باقی رہیں گی۔ پس انہیں اذیت و ازار دی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا: اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ ظہور کا وعدہ کب پورا ہو گا؟ لیکن جو لوگ اس اذیت و ازار اور دشمنوں کی طرف سے جھٹلائے جانے کے باوجود ان کی غیبت پر صبر سے کام لیں گے ان کا مقام اس مجاہد کی طرح ہو گا جس نے رقاب رسول خدا (ص) میں تلوار چلائی ہو۔ : اصلاح نفس منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ خود کی اصلاح کریں، اخلاق حسنہ اور صفات کمالیہ سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کریں۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «من سره ان يكون من اصحاب القائم، فلينتظر وليعمل بالورع و محاسن الاخلاق، و هو منتظر (13)؛ جو شخص چاہتا ہے کہ امام ہمارے قائم کے اصحاب میں سے ہو، اسے چاہیے کہ انتظار کرے، ورع اور پرہیز گاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپنائے پس ایسا شخص حقیقی منتظر ہو گا۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے ایک اور جگہ فرمایا: «ان لصاحب هذا الامر غيبة فليتق الله عبده وليتمسك بدينه (14)؛ بتحقیق صاحب امر کے لیے ایک غیبت کا زمانہ ہو گا لہذا اللہ کے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنا ہو گا اور ان کے دین سے متمسک رہنا ہو گا۔ سماجی اصلاح دوران غیبت میں مومنین کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ سماج اور معاشرے کی اصلاح بھی کریں۔اگر ہر انسان اس ذمہ داری کو سمجھ کر اپنے گھر سے شروع کرے تو یقینا سماج خود بخود سدھر جائے گا، معاشرے سے برائیاں ختم ہو جائیں گی اور نتیجۃ پورا معاشرہ امام زمانہ(ع) کی حکومت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے گا۔ امام باقر علیہ السلام نے دوران غیبت شیعوں کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «ليعن قويكم ضعيفكم و ليعطف غنيكم على فقيركم ولينصح الرجل اخاه النصيحة لنفسه (15)؛ تم میں سے صاحبان قدرت ضعیفوں کی مدد کریں، غنی اور مالدار فقیروں کی دستگیری کریں اور ہر انسان اپنے بھائی کو مفید نصیحت کرے۔ خداوند عالم کا اشاد ہے: «كنتم خير امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون عن المنكر)... (16)؛ تم بہترین امت ہو جسے انسانوں کے لیے خلق کیا گیا ہے (چونکہ) تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔۔۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «ان الامر بالمعروف و النهى عن المنكر سبيل الانبياء و منهاج الصلحاء، فريضة عظيمة بها تقام الفرائض و تامن المذاهب و تحل المكاسب و ترد المظالم و تعمر الارض و ينتصف من الاعداء و يستقيم الامر (17)؛ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء کا راستہ اور صلحا کا طریقہ ہے۔ یہ ایک ایسا عظیم فریضہ ہے جس سے فرائض اور واجبات قائم رہتے ہیں، راستے پر امن رہتے ہیں، معیشت حلال ہوتی ہے، مظالم اور فساد کم ہو جاتے ہیں، زمین آباد ہوتی ہے دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور دیگر امور آسانی سے انجام پاتے ہیں۔ یقینا اگر تمام مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو فریضہ سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں تو معاشرہ ہدایت کے راستوں پر گامزن ہو جائے اور حکومت قائم آل محمد (ص) کے لیے زمینہ فراہم ہو جائے گا۔ حوالہ جات 1) بحارالانوار، ج 5، ص 312 و كنز الفوائد، كراجكى، ص 151. 2) بحار الانوار، ج 8، ص 368 و ج 32، ص 321 و ينابيع الموده، القندوزى، ج 3، ص 372. 3) كمال الدين، ج 2، ص 512. 4) وہی حوالہ، ج 2، باب 34، ح 5. 5) وہی حوالہ ، ج 1، ص 439. 6) وہی حوالہ ، ج 2، باب 33، ح 44. 7) مجمع البحرين، ص 297. 8) كافى، ج 2، باب نادر فى الغيبه، ص 127. 9) كافى، ج 8، ص 37 و مكيال المكارم، ج 2، ص 290. 10) الدعوات، قطب الدين راوندى، مدرسة الامام المهدى، ص 41. 11) بحار الانوار، ج 52، ص 129. 12) كمال الدين، ج 1، ص 437. 13) غيبت نعمانى، ص 200، ح 16. 14) كافى، ج 2، باب فى الغيبه، ص 132. 15) بشارة المصطفى لشيعة المرتضى، عماد الدين طبرى الآملى الكنجى، چاپ نجف اشرف، ص 113. 16) آل عمران/110. 17) الكافى، ج 5، ص 56؛ التهذيب طوسى، ج 6، ص 180 و تحف العقول، ص 227.

#ماه_شعبان #ماہ_شعبان_کے_آخری_ایام 🔴 دخَلْـتُ عَلَـى أَبِـي الْحَسَـنِ عَلِـيِّ بْنِ مُوسَـى الرِّضَـا ع فِـي آخِـرِ جُمُعَـةٍ مِنْ شَهْـرِ شَعْبَـانَ. فَقَـالَ لِـي: يَـا أَبَـا الصَّلْـتِ إِنَّ شَعْبَـانَ قَـدْ مَضَـى أَكْثَـرُهُ وَ هَـذَا آخِـرُ جُمُعَـةٍ فِيـهِ فَتَـدَارَكْ فِيمَـا بَقِـيَ تَقْصِيـرَكَ فِيمَـا مَضَـى مِنْـهُ وَ عَلَيْـكَ بِالْإِقْبَـالِ عَلَـى مَـا يُعِينُـكَ وَ أَكْثِـرْ مِـنَ الدُّعَـاءِ وَ الِاسْتِغْفَـارِ وَ تِلَاوَةِ الْقُـرْآنِ وَ تُـبْ إِلَـى اللَّهِ مِـنْ ذُنُوبِـكَ لِيُقْبِـلَ شَهْـرُ رَمَضَـانَ إِلَيْـكَ وَ أَنْـتَ مُخْلِـصٌ لِلَّهِ عَـزَّ وَ جَـلَّ وَ لَا تَدَعَـنَّ أَمَانَـةً فِي عُنُقِـكَ إِلَّا أَدَّيْتَـهَا وَ فِـي قَلْبِـكَ حِقْـداً عَلَى مُؤْمِـنٍ إِلَّا نَزَعْتَـهُ وَ لَا ذَنْبـاً أَنْتَ مُرْتَكِبُـهُ إِلَّا أَقْلَعْـتَ عَنْـهُ وَ اتَّـقِ اللَّهَ وَ تَوَكَّـلْ عَلَيْـهِ فِـي سِـرِّ أَمْـرِكَ وَ عَلَانِيَتِـكَ وَ مَـنْ يَتَوَكَّـلْ عَلَى اللَّهِ فَهُـوَ حَسْبُـهُ إِنَّ اللَّهَ بالِـغُ أَمْـرِهِ قَدْ جَعَـلَ اللَّهُ لِكُـلِّ شَـيْءٍ قَدْراً وَ أَكْثِـرْ مِنْ أَنْ تَقُـولَ فِي مَا بَقِـيَ مِـنْ هَذَا الشَّهْـرِ اللَّهُـمَّ إِنْ لَمْ تَكُـنْ غَفَـرْتَ لَنَـا فِيمَـا مَضَـى مِنْ شَعْبَـانَ فَاغْفِـرْ لَنَـا فِيمَـا بَقِـيَ مِنْـهُ فَإِنَّ اللَّـهَ تَبَـارَكَ وَ تَعَـالَى يُعْتِـقُ فِـي هَـذَا الشَّهْـرِ رِقَابـاً مِـنَ النَّـارِ لِحُرْمَـةِ هَـذَا الشَّهْـرِ [لِحُرْمَـةِ شَهْـرِ رَمَضَـــانَ]. ✅ ابا صلت ہَروى کہتے ہیں: شعبان کے مہینے کے آخری جمعہ کو حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی خدمت مٰیں شرفیاب ہوا؛ 🔵 آپ ع نے مجھ سے فرمایا: اے أباصلت! ماہ شعبان کا زیادہ حصّہ گزر گیا ہے اور یہ اس مہینہ کا آخری جمعہ ہے۔ لہذا ان باقی بچے ایّام میں ان کوتاہیوں کا تدارک اور انکی تلافی کرو جو پہلے ہوچکی ہیں، جو چیز تمہارے لئے فائدہ مند ہے اسے انجام دو، کثرت سے دعا اور استغفار کرو، خوب قرآن پڑھو، اور خدا کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرو، تاکہ ماہ رمضان اس طرح تمہاری طرف آئے کہ تم خدا کے لئے مخلص بن چکے ہو؛ اور کوئی ایسا حق اور امانت نہ رہے جسے تم نے ادا نہ کردیا ہو، اور مومن بھائی کے سلسلہ میں کوئی ایسا کینہ دل میں نہ رہے جسے نکال نہ دیا ہو، اور کوئی ایسا گناہ نہ ہو جسے تم نے ترک نہ کردیا ہو۔ اور خدا سے ڈرو، اور اپنے ہر چھپے اور آشکار کام میں خدا پر بھروسہ کرو، اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لئے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کردی ہے۔ اور ماہ شعبان کے ان باقی ایّام میں زیادہ سے زیادہ یہ دعا کرو: [بارالٰہا! اگر ماہ شعبان کے گذشتہ دنوں میں تو نے ہماری مغفرت نہیں کی تو ان باقی بچے ایّام میں ہمیں معاف کردے] بیشک خدا اس مہینہ میں ماہ رمضان کی حرمت کے پیش نظر، بہت سے بندوں کو آتش دوزخ سے چھٹکارا عطا کرتا ہے۔ 📚 إقبال الأعمال (ط - القديمة)، ج۱، ص۹، فصل فيما نذكره من الاستظهار لشهر الصيام بتقديم التوبة و الاستغفار ✨لہـــذا! ان ایّـــام میـــں: 1️⃣ کثرت سے دعا کریں [أَکْثِرْ مِنَ الدُّعَاءِ]. 2️⃣ استغفار کریں [وَ الِاسْتِغْفَارِ]. 3️⃣ تلاوت قرآن انجام دیں [وَ تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ ]. 4️⃣ گناہوں سے توبہ کریں [وَ تُبْ إِلَى اللَّهِ مِنْ ذُنُوبِکَ]. 5️⃣ امانتیں ادا کریں [لَا تَدَعَنَّ أَمَانَةً فِی عُنُقِکَ إِلَّا أَدَّیْتَهَا] 6️⃣ کینے دل سے نکال باہر پھینکیں [وَ لَا فِی قَلْبِکَ حِقْداً عَلَى مُؤْمِنٍ إِلَّا نَزَعْتَه] 7️⃣ گناہوں کا قلع قمع کریں [وَ لَا ذَنْباً أَنْتَ مُرْتَکِبُهُ إِلَّا قَلَعْتَ عَنْهُ] 8️⃣ تقوائے الہی اختیار کریں [وَ اتَّقِ اللَّهَ] 9️⃣ ہر کام میں خدا پر بھروسہ کریں [وَ تَوَکَّلْ عَلَیْهِ فِی سِرِّ أَمْرِکَ وَ عَلَانِیَتِهِ] 🔟 خدا کی بارگاہ میں دعا کریں: [[اللَّهُمَّ إِنْ لَمْ تَکُنْ غَفَرْتَ لَنَا فِیمَا مَضَى مِنْ شَعْبَانَ فَاغْفِرْ لَنَا فِیمَا بَقِیَ مِنْهُ]]

*🕌 *مسجد میں جانے کے آٹھ فائدے*💐 💟 *امام حسن مجتبی علیہ السلام فرماتے ہیں:* ♥️ 🍄 *مَنْ أدامَ الاْخْتِلافَ إلَى الْمَسْجِدِ أصابَ إحْدى ثَمان: آيَةً مُحْكَمَةً، أَخاً مُسْتَفاداً، وَ عِلْماً مُسْتَطْرَفاً، وَ رَحْمَةً مُنْتَظِرَةً، وَ كَلِمَةً تَدُلُّهُ عَلَى الْهُدى، اَوْ تَرُدُّهُ عَنْ الرَّدى، وَ تَرْكَ الذُّنُوبِ حَياءً اَوْ خَشْيَةً.* 🌹 *جو شخص مسلسل مسجد میں(عبادت کے لئے) جاتا ہے اسے آٹھ میں سے کوئی ایک چیز ضرور حاصل ہوگی:* *1️⃣ محکم نشانی* *2️⃣ مفید دوست* *4️⃣ رحمت عام* *5️⃣ ایسی بات جو نیکی کی ہدایت کا باعث بنے* *6️⃣ یا برائی سے روک دے* *7️⃣ شرم و حیاء* *8️⃣ یا خوف خدا سے گناہوں کو ترک کرنا۔* *📚 مستدرک الوسائل، ج 3، ص359، ح 3778*

کلام نور: ۱۵/ شعبان #ولادت_حضرت_بقیۃ_اللہ_الاعظم_صلوات_اللہ_علیہ شب جمعہ سنہ ۲۵۵ھ میں، حضرت خاتم الاوصیاء، منتقم آل محمد ص، آخری امام برحق اور ولی مطلق خدا حضرت بقیۃ اللہ حجۃ بن الحسن عجل اللہ تعالی فرجہ کی ولادت با سعادت واقع ہوئی ہے۔ [ الکافی، ج۱، ص۵۱۴؛ الارشاد، ج۲، ص۳۳۹؛ مسار الشیعۀ، ص۳۸۔۔۔] اس رات آب زمزم اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ سب لوگ اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ [تقویم الواعظین، ص۱۳۶] لیکن اب اس کو ڈھک دیا گیا ہے؛ اس شب برائت میں کثیر تعداد میں لوگوں کی آتش جہنم سے آزادی لکھی جاتی ہے؛ اور اس رات کو "شب برات" اور "شب مبارک" اور "شب رحمت" کہتے ہیں۔ حضرت امام باقر و امام صادق علیہما السلام سے روایت ہے کہ فرمایا: جب شب نیمہ شعبان آتی ہے، افق اعلیٰ سے منادی آواز دیتا ہے: " اے زائرین قبر حسین بن علی واپس جائیں کہ تمہارے گناہ بخش دیئے گئے ہیں، تمہارا اجر تمہارے خدا اور رسول خدا ص پر ہے۔ [الکافی، ج۴، ص۵۸۹۔۔۔] لیکن جو زیارت قبر امام حسین علیہ السلام کی استطاعت نہیں رکھتے وہ دیگر ائمہ کی قبور مطہرہ کی زیارت کریں؛ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ان کی قبر کی طرف رخ کرکے سلام کریں۔ [مسار الشیعۀ، ص۳۸۔۔۔] امام عج کے پدر بزرگوار حضرت ابو محمد امام حسن العسکری علیہ السلام ہیں، اور والدہ ماجدہ حضرت نرجس خاتون ہیں؛ اور امام عج کا اسم شریف اصحاب اور روایات کے مطابق اپنے جدّ خاتم الانبیاء کے نام پر "م ح م د" عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ہے۔ [الارشاد، ج۲، ص۳۳۹۔۔۔ ] ← شب ولادت کے حالات حضرت امام عسکری علیہ السلام شب ولادت میں اپنی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کو پیغام بھیجا کہ: « آج کی شام ہمارے ساتھ افطار کریں کہ یہ شب نیمہ شعبان ہے اور خداوندعالم آج کی رات اپنی حجّت کو آشکار کرنے والا ہے» حضرت امام عصر عج کی ولادت با سعادت سامرا میں طلوع فجر کے وقت نیمہ شعبان ۲۵۵ھ میں ہوئی۔ امام عج کے داہنے شانے پر تحریر تھا: «ﺟﺎﺀَ ﺍﻟﺤَﻖُّ ﻭَ ﺯَﻫَﻖَ ﺍﻟﺒﺎﻃِﻞُ إﻥَّ ﺍﻟﺒﺎﻃِﻞَ ﻛﺎﻥَ ﺯَﻫُﻮقاً» [سوره اسراء، آیت۸۱] ولادت کے بعد آپ عج کو والد کے پاس لایا گیا، آپ عج نے اس جملہ سے کلام کا آغاز کیا: «ﺃﺷﻬَﺪُ ﺃﻥ ﻟﺎ إﻟﻪَ إﻟﺎَّ اللهُ ﻭَ ﺃﺷﻬَﺪُ ﺃﻥَّ ﻣُﺤَﻤَّﺪﺍً ﺭَﺳُﻮﻝُ الله ﻭَ ﺃﻥَّ ﻋَﻠِﻴّﺎً ﺃﻣﻴﺮَ ﺍﻟﻤُﺆﻣِﻨﻴﻦَ ﻭَﻟِﻰُّ ﺍﻟﻠﻪِ» اور یکے بعد دیگرے ائمہ معصومین کا نام لیا یہاں تک کہ خود اپنے نام تک پہونچے اور اپنے محبّوں کے لئے دعا فرمائی۔ ← امام عصر عج آغوش پدر میں اس کے بعد امام عسکری ع کے امر پر حکیمہ خاتون آپ عج کو آپ کی والدہ جناب نرجس خاتون کے پاس لے گئیں۔ حکیمہ خاتون کہتی ہیں: میں ساتویں دن امام عسکری ع کے پاس گئی، تو آپ ع نے فرمایا: میرے بیٹے کو لائیں؛ میں انہیں امام ع کے پاس لائی؛ آپ ع نے اپنی زبان مبارک کو اس کے دہن مبارک میں رکھ کر فرمایا: میرے بیٹے! کلام کرو۔ میں نے دیکھا خدا کی وحدانیت کے اقرار، ثنائے پیغمبر ص و امیر المومنین ع و دیگر ائمہ ع کو دوبارہ انجام دیا جسے میں نے پہلے روز سنا تھا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی: «ﺑِﺴﻢِ ﺍﻟﻠﻪِ ﺍﻟﺮَّﺣﻤﻦِ ﺍﻟﺮَّﺣﻴﻢِ وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْأَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ هَامَانَ وَ جُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ». [ﺳﻮﺭہ ﻗﺼﺺ، ﺁﻳﺎﺕ 6 ـ 5] پھر ان کے والد بزرگوار نے فرمایا: «جو خدا نے اپنے رسولوں پر نازل کیا ہے اسے پڑھو»۔ ﺣﻀﺮﺕ عج نے سریانی زبان میں ﺻُﺤُﻒ ﺁﺩﻡ کو پڑھنا شروع کیا، اسکے بعد ﻛﺘﺎﺏ إﺩﺭﻳﺲ، ﻧﻮﺡ، ﺻﺎﻟﺢ، ﺻُﺤُﻒ ﺍﺑﺮﺍہیم، ﺗﻮﺭﺍﺕ ﻣﻮﺳﻰ، ﺍﻧﺠﻴﻞ ﻋﻴﺴﻰ، ﺯَﺑُﻮﺭ ﺩﺍﻭﺩ اﻭر ﻓﺮﻗﺎﻥ ﻣﺤﻤّﺪ ص کی تلاوت کی، اسکے بعد ﻗﺼﺺ ﺍﻧﺒﻴﺎﺀ ﻭ ﻣﺮﺳﻠﻴﻦ کا بیان شروع کیا۔ حکیمہ خاتون کہتی ہیں: میں چالیس دن کے بعد دوبارہ اپنے بھتیجے امام عسکری ع کے پاس آئی اور دیکھا کہ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻟﺰﻣﺎﻥ ع چلنے لگے ہیں۔ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﺴﻜﺮﻯ ع نے فرمایا: «پھوپھی جان! خدا کے نزدیک عزیز مولود یہ ہے»۔ میں نے کہا: میرے مولا! چالیس دن میں اس کی نشو و نما کو دوسروں سے زیادہ دیکھ رہی ہوں! فرمایا: «پھوپھی جان! ہم اوصیائے الہی کے ایک دن کی نشو و نما دوسروں کے ایک ہفتہ کی، اور ایک جمعہ کی نشو و نما دوسروں کے ایک سال کی ہوتی ہے۔ میں اٹھی اور طفل کے سر کا بوسہ لیا اور گھر واپس چلی گئی۔ [بحار الأنوار، ج۵۱، ص۲۰، ۲۷۔۔۔] ←القاب امام عصر عج اس نور الہی کے بعض القاب: "ﺣﺠّﺔ ﺍﻟﻠﻪ" "ﺣﺠّﺔ ﺁﻝ ﻣﺤﻤّﺪ" "ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻟﺰﻣﺎﻥ" ﻳﻌﻨﻰ اپنے زمانے کا حاکم، "ﻣﺎلک ﺭﻗﺎﺏ ﺍﻟﺨﻠﺎﻳﻖ" ﻳﻌﻨﻰ ہر ﺍﻣﺮ اس کا ﺍﻣﺮ، نہی اس کی نہی، اور ﺣﻜﻢ اس کا ﺣﻜﻢ ہے؛ "ﻣﻬﺪﻯ" کہ مخلوق اس کے ذریعہ ہدایت پائے گی اور اس کے وجود سے ضلالت کی راہ سے ہدایت کی شاہراہ پر آکر کامیاب ہوگی، "ﻗﺎﺋﻢ" جس کے بارے میں امام ﺻﺎﺩﻕ ع فرماتے ہیں: «چونکہ آپ ع قیام فرمائیں گے قائم کہا گیا ہے»، "ﻣﻨﺘﻈَﺮ" ان کی غیبت طولانی ہوگی اور ان کے مخلصین انتظار میں رہیں گے اور ﺷﻜّﺎﻛﻴﻦ ان کا انکار کریں گے۔ [کفایة الموحّدین، ج۳، ص۳۴۳۔۔۔] ← اوصاف امام عصر عج امام ع کے ظاہری ﺍﻭﺻﺎﻑ حضرت ﺭﺳﻮﻝ ﮔﺮﺍﻣﻰ ﺍﺳﻠﺎﻡ ص سے بہت زیادہ مشابہ ہیں، ﺯُﻣُﺮّﺩ جیسی سبز رنگ کے بالوں کی ایک لکیر گردن سے ناف تک ہے، چہرہ نورانی ستارے کی طرح چکتا دمکتا ہے۔ حضرت اﻣﻴﺮ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ع فرماتے ہیں: «وہ ایک خوش رو، خوش مو جوان ہے اس کے چہرہ کا نور ریش مبارک اور سر کے بالوں کی سیاہی پر غالب ہے۔۔۔۔» [الغیبة (شیخ طوسی)، ص۴۷۰۔۔۔] حضرت ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﻗﺮ ع فرماتے ہیں: «ان کا ﺭﻧﮓ ﻣﺒﺎﺭک سرخی مائل ہے جیسے شگفتہ گلاب ہو، اور چشم مبارک گشاد، ابرو کے درمیان کی جگہ بلند اور دونوں شانوں کے درمیان کی جگہ چوڑی ہے»۔ [[الغیبة (شیخ طوسی)، ص۲۱۵۔۔۔] چوڑی پیشانی، بلند اور باریک ناک، اور دندان ثنایا کی جڑ کے درمیان فاصلہ ہے۔ ←ﻣﺎﺩﺭ ﺍﻣﺎﻡ عصر عج ﺣﻀﺮﺕ ﺻﺎﺣﺐ ﺍلأﻣﺮ عج کی والدہ جناب ﻧﺮﺟﺲ ﺧﺎﺗﻮﻥ ہیں، جنکے دیگر نام اور القاب ملیکہ، ریحانہ، صیقل، اور سوسن ہیں۔ زیارت میں آپ کی توصیف۔ جو تمام کی تمام آپ کی عظمت و منزلت پر دلالت کررہی ہےـ ﺭﺍﺿﻴﻪ، ﻣﺮﺿﻴﻪ، ﺻﺪّﻳﻘﻪ، ﺗﻘﻴّﻪ، ﻧﻘﻴّﻪ، ﺯﻛﻴّﻪ، والدة الامام، المودعة اسرار الملک العلّام، امّ موسی، ابنة حواری عیسی سے کی گئی ہے۔ [بحار الأنوار، ج۹۹، ص۷۰۔۔۔] بنا بر منقول ﺟﻨﺎﺏ ﻧﺮجس خاتون نے سنہ261ھ میں ﺳﺎﻣّﺮﺍﺀ میں رحلت فرمائی اور ﺣﻀﺮﺕ ہاﺩﻯ ﻭ عسکری ع کے جوار میں دفن ہوئیں۔ [ﺭﻳﺎﺣﻴﻦ ﺍﻟﺸﺮﻳﻌﺔ، ﺝ۳، ﺹ۲۶ ـ ۲۵] دوسرے قول کے مطابق آپ امام عسکری ع کی شہادت سے قبل سنہ260ھ میں دنیا سے گئی ہیں۔ کیونکہ جب امام ع نے اپنی شہادت کے بعد کے حالات سے آگاہ کیا تو جناب نرجس خاتون نے آپ ع سے درخواست کی کہ دعا فرمائیں کہ آپ ع سے پہلے ہی رحلت ہوجائے۔ [ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺳﺎﻣﺮﺍﺀ، ﺝ۱، ﺹ۲۴۳۔۔۔] جناب ﺣﻜﻴﻤﻪ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻮﺍﺩ ﺍﻟﺎﺋﻤﺔ ع کی بیٹی ہیں، جنہیں چار معصوم اماموں کی زیارت کی توفیق ملی۔ [ﺑﺤﺎﺭ ﺍلأﻧﻮﺍﺭ، ﺝ۵۰، ﺹ۸] ان کی رحلت سنہ۲۷۴ھ میں سامرا میں ہوئی ہے۔ [ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺳﺎﻣﺮﺍﺀ، ﺝ۱، ﺹ۲۳۹] آپ ﻣَﺤﺮﻡ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﺍہل ﺑﻴﺖ ع تھیں، اور حضرت امام عصر عج کی ولادت کے وقت حاضر تھیں اور کئی بار امام عج کی زیارت سے ﻣﺸﺮّﻑ ہوئی ہیں۔ امام عسکری کی شہادت کے بعد آپ ان کے "سفیروں" میں سے تھیں جن کے واسطے سے لوگ اپنی حاجات تک پہونچتے تھے۔ [ﺭﻳﺎﺣﻴﻦ ﺍﻟﺸﺮﻳﻌﺔ، ﺝ۴، ﺹ۱۵۰] ←امام عصر عج کی ولادت کے بعد حضرت امام عصر عج کی ولادت کے ایک دن بعد خادم امام ع کی خدمت میں آیا اور اسے چھینک آگئی، امام ع نے فرمایا: «ﻳَﺮحَمکَ الله» اس کے بعد فرمایا: «چھینک تین دن کے لئے موت سے امان ہے»۔ [کمال الدین، ﺹ۴۳۰، ۴۴۱۔۔۔] یہ واقعہ ۲۵ شعبان میں بھی ذکر ہوا ہے [الغیبة (شیخ طوسی)، ص۲۳۲۔۔۔] امام عج کی ولادت کے تین دن بعد امام عسکری ع اپنے فرزند کو اپنے خاص اصحاب کے سامنے لائے اور اس کی امامت کی تصدیق فرمائی۔ [ﻭﻗﺎﻳﻊ ﺍﻟﺸﻬﻮﺭ، ﺹ۱۴۷] ← غیبت صغریٰ غیبت صغریٰ کے زمانے میں شیعوں میں سے چار لوگ ترتیب کے ساتھ امام عصر عج کے وکیل، اور نائب خاص رہے، جو امام عج کی خدمت میں جاتے تھے اور انہیں امام عج جانب سے وکالت کی تائید حاصل تھی؛ اور خط کے نیچے امام عج کا تحریر شدہ جواب انھیں نوّاب کے ذریعہ لوگوں تک پہونچتا تھا۔ البتّہ ان چار افراد کے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں امام عصر عج کی طرف سے وکیل معین تھے جو انہیں چار افراد کے واسطے سے لوگوں کی باتوں کو امام عج کی خدمت میں پہونچاتے تھے اور امام عج کی طرف سے ان کے سلسلہ میں توقیع صادر ہوئی تھی۔ [الغیبة (شیخ طوسی)، ص۴۱۵۔۔۔] ان چار بزرگوں کی سفارت مطلق اور کامل تھی، لیکن دیگر افراد خاص موارد میں سفارتی اختیار رکھتے تھے، جیسے ابو الحسن محمّد بن جعفر اسدی، احمد بن اسحاق اشعری، ابراهیم بن محمّد همدانی، احمد بن حمزة بن الیسع. [الغیبۃ (شیخ طوسی)، ص۴۱۵؛ المهدی علیه السلام، ص ۱۸۱۔۔۔] نوّاب اربعہ مندرجہ ذیل افراد ہیں: ابو عمر عثمان بن سعید عَمری، ابو جعفر محمّد بن عثمان بن سعید عَمری، ابو القاسم حسین بن روح نوبختی، ابو الحسن علی بن محمّد سَمُری. نائب اوّل عثمان بن سعید جلیل القدر اور قابل اعتماد انسان تھے، اور حضرت امام ہادی ع و عسکری ع کے وکیل بھی تھے۔ [المھدی، ص۱۸۱۔۔۔] وہ امام عج کی جانب سے امام عسکری ع کے کفن و دفن پر مامور ہوئے۔ [الغیبة (شیخ طوسی)، ص۳۵۶] چونکہ امام عسکری ع محلہ عسکر میں رہتے تھے اور شیعوں سے ملاقات مشکل ہوتی تھی، عثمان بن سعید جو گھی کے کاروبار میں تھے، چیزوں کو گھی کے برتن میں رکھ کر امام ع کی خدمت میں پہونچاتے تھے۔ احمد بن اسحاق قُمی نے جس وقت امام ہادی ع سے سوال کیا: مولا! میں کبھی یہاں پر ہوں کبھی نہیں ہوں، اور جب یہاں پر ہوں تب بھی ہمیشہ خدمت سے شرفیاب نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورت میں کس کی بات کو قبول کروں اور کس کی اطاعت کروں؟ امام ع نے فرمایا: «یہ عثمان بن سعید عَمری میرے امین اور معتمد ہیں، یہ جو بھی کہیں وہ میری ہی طرف سے کہا ہے اور جو چیز بھی تم تک پہونچائیں وہ میری طرف سے ہوگی»۔ احمد بن اسحاق کہتے ہیں: امام ہادی ع کی شہادت کے بعد امام عسکری ع کی خدمت میں گیا اور یہی بات دہرائی، آپ ع نے اپنے والد کی طرح فرمایا: «ابو عَمرو گذشتہ امام کے امین اور معتمد اور میری زندگی میں اور موت کے بعد بھی میرے معتمد ہیں۔ جو بھی یہ آپ کو بتائیں اور جو چیز بھی آپ تک پہونچائیں وہ میری جانب سے ہے» عثمان بن سعید امام عسکری ع کے بعد حضرت حجّت عج کے حکم سے نیابت اور وکالت کا کام کرتے رہے، اور شیعہ حضرات اپنے مسائل کو انکے پاس پہونچاتے تھے اور امام عج کا جواب ان کے ذریعہ لوگوں تک پہونچتا تھا۔ نائب دوّم ابو جعفر محمّد بن عثمان تھے، وہ بھی اپنے والد کی طرح بزرگان شیعہ میں سے تھے اور تقوی، عدالت، اور بزرگواری میں قابل اعتماد اور شیعوں کے نزدیک محترم شخص تھے۔ عثمان بن سعید نے اپنی وفات سے پہلے امام عصر عج کے حکم پر ابو جعفر کا اپنے جانشیں اور امام عج کی نیابت کے عنوان سے تعارف کرایا۔ امام عسکری ع نے ابوجعفر اور ان کے والد پر اعتماد اور اطمینان کا اظہار فرمایا تھا اور شیعہ حضرات ان کی عدالت، تقوی اور اطاعت پر یقین رکھتے تھے۔ [بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۴۶۔۳۴۴۔۔۔] نائب اوّل عثمان بن سعید کی وفات پر امام عصر عج کی جانب سے ایک توقیع صادر ہوئی جس کا ایک حصّہ کا ترجمہ اس طرح سے ہے: «انا لله و انا الیه راجعون، خدا کے حکم پر تسلیم اور اس کی قضا پر راضی ہوں۔ آپ کے والد نے سعادت کی زندگی گزاری اور بہترین حالت میں دنیا سے گئے۔ خدا ان پر رحمت نازل کرے اور انہیں انکے ائمہ علیہم السلام سے ملحق فرمائے۔ یہ آپ کے والد کی سعادتمندی تھی کہ خدا نے انہیں آپ جیسا فرزند عطا کیا جو ان کے بعد جانشیں بنے اور ان کے امور کے سلسلہ میں ان کا قائم مقام ہو، اور ان کے لئے طلب رحمت و مغفرت کرے»۔ [کمال الدین، ص۵۱۰۔۔۔] محمّد بن عثمان سے سوال ہوا: کیا آپ نے صاحب الامر عج کو دیکھا ہے؟ جواب دیا: ہاں، اور ان سے ہماری آخری ملاقات بیت اللہ میں ہوئی تھی جب وہ فرما رہے تھے: «اللّهُمَّ أنجِز لی ما وَعَدتَنی» اور رکن یمانی کے نزدیک بھی دیکھا جب کہہ رہے تھے: «اللّهُمَّ انتَقِم لی مِن أعدائی»۔ [من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۵۲۰۔۔۔] انہوں نے فقہ میں کتاب بھی تالیف فرمائی جو امام عسکری ع اور اپنے والد سے سنے ہوئے اقوال پر مشتمل ہے۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۶۳] محمّد بن عثمان نے اپنے واسطے ایک قبر آمادہ کر رہی تھی اور ساج سے بند کردیا تھا اور اس پر قرآن کی آیتوں اور ائمہ اطہار عج کے اسماء کو تحریر کر رکھا تھا۔ وہ ہر دن اس قبر میں جاتے اور اس میں ایک جز قرآن کی تلاوت کرتے اور باہر آجاتے تھے۔ انہوں نے موت سے پہلے اپنے یوم وفات کی خبر دی تھی اور جس دن کی خبر دی تھی اسی دن وفات پائی۔ [الکنی و الالقاب، ج۳، ص۲۶۸۔۲۶۷۔۔۔] اسی طرح اپنی وفات سے قبل شیعوں کو خبر دی کہ امام عج نے جناب ابو القاسم حسین بن روح نوبختی کو اپنے سفیر اور رابطہ کے لئے انتخاب کیا ہے اور وہ میرے جانشیں ہیں، سب ان سے رجوع کریں۔ [کمال الدین، ص۵۰۳۔۔۔] ان کی وفات آخر جمادی الاولی سنہ ۳۰۵ھ میں ہوئی ہے۔[الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۶۶۔۔۔] نائب سوّم ابو القاسم حسین بن روح نوبختی ہیں، جو موافق و مخالف دونوں کی نظر میں صاحب عظمت، اور تمام فرقوں میں عقل، نظر، تقوی اور فضیلت میں معروف تھے اور نائب دوّم کے وقت انکی جانب سے بعض امور کو انجام دیا کرتے تھے۔ اگرچہ نائب دوّم کے قریبیوں میں، جعفر بن احمد بن متیل سب سے زیادہ ان کے قریب تھے، یہاں تک کہ محمّد بن عثمان کے آخری ایام میں، انکے گھر کا کھانا وغیرہ جعفر بن احمد بن متیل کے گھر میں مہیا کیا جاتا تھا، اور اصحاب کے درمیان جعفر بن احمد کی نیابت کا احتمال زیادہ پایا جاتا تھا، لیکن محمد بن عثمان کے آخری لمحات میں جب جعفر بن احمد سرہانے اور حسین بن روح پائنتی کی جانب بیٹھے تھے، انہوں نے جعفر بن احمد کی جانب رخ کیا اور فرمایا: «مجھے حکم ہوا ہے کہ امور کو حسین بن روح کے سپرد کروں»۔ جعفر بن احمد کہتے ہیں: میں اپنی جگہ سے اٹھا اور حسین بن روح کا ہاتھ پکڑا اور انہیں محمّد بن عثمان کے سرہانے بٹھایا اور خود پائنتی کی جانب جا بیٹھا۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۷۰۔۔۔] ۶ شوال سال ۳۰۵ھ میں امام عصر عج کی جانب سے ان کے لئے پہلی توقیع صادر ہوئی جس میں اس طرح تحریر تھا: «ہم انہیں پہچانتے ہیں، خدا انہیں اپنی تمام خیر و خوبی اور رضا کی طرف لے دے اور ان کی مدد فرمائے۔ ان کے خط سے مطلع ہوا، مجھے ان پر اعتماد اور اطمینان ہے۔ میرے نزدیک ان کا وہ مقام و مرتبہ ہے جو انکی خوشنودی کا سبب ہوگا۔ خدا ان پر اپنے احسان میں اضافہ فرمائے کہ خدا ولی اور ہر چیز پر قادر ہے، اور اس خدا کا شکر جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے رسول محمد و آل محمد ص پر درود و سلام ہو»۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۷۳۔۔۔] بغداد کے عظیم متکلم اور متعدد کتب کے مؤلف ابو سہل نوبختی سے سوال ہوا: کیوں حسین بن روح کو نیابت کا عہدہ ملا لیکن آپ کو نہیں؟ کہا: ائمہ علیہم السلام بہتر جانتے ہیں، اور وہ جن کو منتخب کریں وہی سب سے زیادہ مناسب اور لائق ہوگا، میں ایسا شخص ہوں جو مخالف سے شدّت کے ساتھ مناظرہ کیا کرتا ہے اور اگر امام عج کا نائب ہوتا اور امام عج کی جگہ کی معلومات رکھتا جیسا کہ ابوالقاسم نیابت کی بنا پر معلومات رکھتے ہیںـ اور امام عج کے بارے میں مخالفوں سے بحث و مناظرہ پر مشکل میں پڑجاتا تو شاید خود پر قابو نہ کر پاتا اور امام عج کی جائے سکونت کو فاش کردیتا؛ لیکن ابو القاسم اگر امام عج ان کے دامن کے نیچے بھی ہوں اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے پھر بھی وہ اپنے دامن کو نہیں ہٹائیں گے اور دشمن کو نہیں دکھائیں گے۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۲۹۱۔۔۔] جناب ابوالقاسم حسین بن روح تقریبا ۲۱ سال تک نیابت کے درجہ پر فائز رہے۔ انہوں نے وفات سے قبل نیابت کے امور کو امام عج کے حکم سے علی بن محمد سمری کے سپرد کیا اور شعبان سنہ ۳۲۶ ھ میں وفات پاگئے۔ ان کی قبر بغداد میں ہے۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۸۷۔۳۹۳۔۔۔] نائب چہارم ابوالحسن سمری ہیں جنہیں حضرت صاحب الزمان عج کے حکم سے حسین بن روح کے بعد نیابت کے امور سپرد کئے گئے۔ علمائے رجال کے قول کے مطابق موصوف کی عظمت و جلالت کسی توصیف کی محتاج نہیں۔ ابوالحسن سمری نے ایک دن بعض بزرگوں کے مجمع میں فرمایا: خدا علی بن بابویہ کی مصیبت میں آپ کو اجر دے، وہ اس وقت وہ دنیا سے چلے گئے۔ ان لوگوں نے وقت، دن اور مہینہ کو محفوظ کرلیا اور ۱۷ یا ۱۸ دن بعد خبر ملی کہ اسی وقت میں علی ابن بابویہ قمی دنیا سے گئے تھے۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۹۶۔۔۔] ← غیبت صغریٰ کا اختتام علی بن محمد سمری کی وفات سے قبل شیعوں میں سے بعض افراد ان کے پاس آئے اور پوچھا: آپ کے بعد آپ کا جانشین کون ہوگا؟ جواب دیا: مجھے اس بات کا حکم نہیں ہے کہ اس بارے میں کسی کو کچھ کہوں۔ [بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۶۰] اس کے بعد ایک توقیع جو امام سے صادر ہوئی تھی شیعوں کو دکھائی۔ انہوں اس توقیع کی نسخہ نویسی کی جس کا مضمون یوں تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم، اے علی بن محمد سمری، خدا تمہاری مصیبت پر تمہارے بھائیوں کو اجر عظیم دے۔ اگلے چھ دن میں تم دنیا سے جانے والے ہو، لہذا اپنے کو آمادہ کرلو اور کسی کو وصیت نہ کرنا کہ وہ تمہارے بعد تمہارا جانشین ہو۔ غیبت کبری کا اغاز ہوگیا ہے اور اب ظہور نہیں ہوگا یہاں تک کہ حکم خداوندی آجائے، جو ایک طولانی مدّت، دلوں کے سخت ہوجانے اور زمیں کے ستم سے بھر جانے کے بعد ہوگا۔ عنقریب کچھ لوگ ہمارے شیعوں کے درمیان میری زیارت کا دعوی کریں گے۔ معلوم رہے کہ جو بھی خروج سفیانی اور ندائے آسمانی سے پہلے ایسا دعوی کرے (یعنی سفیر اور نائب کے عنوان سے زیارت کا دعوی کرے) وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے ولاحول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ [بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۶۱۔۔۔] چھٹے دن جو نیمہ شعبان سنہ ۳۲۹ کی تاریخ تھی جناب ابوالحسن سمری کی وفات ہوگئی، نہر ابوعتاب کے کنارے خلنجی روڈ، بغداد میں دفن ہوئے۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۹۶۔۔۔] علامہ مجلسی احتجاج طبرسی سے نقل فرماتے ہیں: امام عصر عج کے نائبین خاص میں سے کسی نے بھی امام عج کی جانب سے حکم صریح سے پہلے اور گذشتہ نائب کی جانب سے پیش کیے جانے سے قبل خود کو نائب کے عنوان سے پیش نہیں کیا۔ شیعوں نے بھی کسی کی بات قبول نہ کی مگر یہ کہ امام عصر عج کی جانب سے کوئی علامت اور نشانی مل جائے جو اس کی گفتار کی صداقت اور نیابت پر دلالت کررہی ہو۔ [احتجاج، ج۲، ص۲۹۷۔۔۔] ← زمانۂ غیبت کبری میں ہماری ذمہ داریاں عصر غیبت میں امام عج کے محبّوں اور شیعوں کی بعض ذمہ داریاں مندرجہ ذیل ہیں: ۱. روز جمعه، عید فطر، عید قربان، عید غدیر میں دعائے ندبہ کی تلاوت۔ ۲. جمعہ کے دن امام عج کی زیارت۔ ۳. اعتقاد میں ثابت قدم اور مستحکم رہنے کے لئے اس دعا کی تلاوت: « یا اللهُ، یا رَحمنُ، یا رَحیمُ، یا مُقَلَّبَ القُلُوبِ، ثَبَّت قَلبی عَلی دینِکَ ». [کمال الدین، ص۳۵۲۔۔۔] ۴. جب نام" قائم" لیا جائے تو احترام میں اٹھ کھڑے ہونا۔ ۵. مشکلات اور گرفتاریوں میں امام عج سے توسّل۔ ۶. امام عصر عج کے ظہور میں تعجیل اور سلامتی کے لئے صدقہ دینا۔ ۷. اس دعا کی تلاوت، جس میں ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا ہمیں امام ع کی معرفت عطا کرے: « اللّهُمَّ عَرَّفنی نَفسَکَ فَاِنَّکَ اِن لَم تُعَرَّفنی نَفسَکَ لَم اَعرِف نَبِیَّکَ، اللّهُمَّ عَرَّفنی رَسُولَکَ فَاِنَّکَ اِن لَم تُعَرَّفنی رَسُولَکَ لَم اَعرِف حُجَّتَکَ، اللّهُمَّ عَرَّفنی حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ اِن لَم تُعَرَّفنی حُجَّتَکَ ضَلَلتُ عَن دینی »۔ [الکافی، ج۱، ص۳۳۷۔۔۔] ۸. امام عج سے منسوب مجالس میں شرکت، خاص کر ان کے جدّ بزرگوار حضرت سید الشھداء کی مجالس عزا میں۔ ۹. امام عج کے لئے اعمال صالح ہدیہ کرنا، جیسے زیارت قبور ائمہ ع، قرائت قرآن و حجّ و عُمره و طواف. ۱۰. گناہوں سے حقیقی توبہ۔ ۱۱. لوگوں کو امام عج کی جانب متوجہ کرنا #وفات_علی_بن_محمد_سمری_نائب_امام_عصر_عجل_اللہ_فرجہ_الشریف اس روز سنہ ۳۲۹ھ میں شیخ الجلیل، نائب خاص حضرت امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف جناب علی بن محمد سمری کی وفات واقع ہوئی جو غیبت صغریٰ کے اختتام اور غیبت کبریٰ کے آغاز کے معنی میں ہے، کیونکہ حضرت صاحب الامر عجل اللہ فرجہ الشریف نے انہیں حکم فرمایا تھا کہ کسی کو اپنا وصی و جانشین قرار نہ دینا کیونکہ غیبت کبریٰ کا آغاز ہوگیا ہے۔ [الغیبۃ (شیخ طوسی)، ص۳۹۴؛ کمال الدین، ص۵۰۳...] 📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۱۵/ شعبان، ص۲۴۱

🌻 *مومن کی صفات*🌷 🍄 *عن عبد الملك بن غالب، عن أبي عبد الله عليه السلام* 🌹 *قال: ينبغي للمؤمن أن يكون فيه ثماني خصال: وقورا عند الهزاهز، صبورا عند البلاء، شكورا عند الرخاء، قانعا بما رزقه الله، لا يظلم الأعداء ولا يتحامل للأصدقاء، بدنه منه في تعب والناس منه في راحة، إن العلم خليل المؤمن، والحلم وزيره، والعقل أمير جنوده، والرفق أخوه، والبر والده.* 💌 *امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ*❤ 🌺 *مومن کے اندر آٹھ صفات ہونا چاہیں* 1⃣ *فتنوں کے دوران اطمینان.* 2⃣ *آزمائش میں صبر* 3⃣ *آسائش میں شکر 4⃣اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی رزق میں قناعت* 5⃣ *دشمنوں پر بھی ظلم نہ کرنا* 6⃣ *دوستوں پر اپنی رای وغیرہ کو نہ ٹھونسنا* 7⃣ *اس کا جسم (محنت مشقت و عبادت کی وجہ سے) تھکا ہارا* 8⃣ *دوسرے لوگوں کو اسکی طرف سے آرام اور سکون ہو.* *نیز* ⏺ *علم مومن کا دوست* ⏺ *حلم اسکا وزير* ⏺ *عقل اسکے لشکر کا امیر* ⏺ *رفاقت و محبت اسکا بھائی* ⏺ *اور نیکی اسکا باپ ہوا کرتا ہے.* 📚 *اصول کافی ج 2 ص 47*

ـ💠🌀💠🌀 ـ🌀💠🌀 ﷽ ـ💠🌀 ـ🌀 *پیغام مـــــھدویت* 9️⃣8️⃣ *غیبت کبریٰ میں شیعوں کی ذمہ داریاں 💙* امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: *"خدا کی قسم امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت طولانی ہوگی اس زمانے میں وہی نجات پائے گا جسے اللہ امامت کے اعتقاد پے ثابت قدم رکھے اور امام کے جلدی ظہور کے دعا کی توفیق دے.* غیبت امام زمانہ عجل اللہ میں ہم شیعوں کے کچھ اہم وظائف ہیں جنھیں انجام دینا بے حد ضروری ہے *1- اس زمانے میں نجات کا ذریعہ آپ کی امامت کے اعتقاد پے ثابت قدم رہنا* *2- صبر و تحمل سے کام لینا* *3- ظہور امام کے لئے زیادہ سے زیادہ دعا کرنا* *4- اپنے اعمال کے ذریعہ ظہور امام کے لئے زمینہ فراہم کرنا* *5- اپنے اعمال سے امام کو خوش کرنا* *6- امام کی سلامتی کے لئے نماز پڑھنا، صدقہ اور دیگر کار خیر کرنا* *7- امام کے شیعوں کو گمراہی سے بچانا* *8- غیبت کبریٰ کے لئے معصومین علیہم السلام سے وارد ہونے والی دعاؤں کو پڑھنا* *9- لوگوں کو امام کی ذات سے آشنا کرنا* حوالہ - شیخ صدوق، کمال الدین، جلد 2، صفحہ 384 •┈┈••✾❀🕊💓🕊❀✾••┈┈•؛ 💠 🌀💠 💠🌀💠🌀

#انتظار_فرج 🌹🌹حضرت امام صادق علیہ السلام: 🟤 مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ، فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِيئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ۔ 🔵 جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا شمار حضرت امام قائم عج کے اصحاب میں ہو تو اسے چاہئے کہ انتظار کرے اور اس انتظار کے ساتھ پرہیزگاری اور اچھے اخلاق سے عمل کرے۔ اس صورت میں اگر اسے موت آجائے اور امام قائم عج اس کے بعد قیام کریں تو اس کا اجر و ثواب اتنا ہی ہے جتنا اس شخص کا ہوگا جو امام قائم عج کے حضور میں پہونچنے والا ہے۔ لہذا اس راہ میں کوشش کرو اور منتظر رہو، مبارک ہو تمہیں اے موردِ رحمت گروہ۔ 📚 الغيبة للنعماني، ص200، ح۱۶، باب ما روي فيما أمر به الشيعة من الصبر و الكف و الانتظار للفرج و ترك الاستعجال بأمر الله و تدبيره ✍🏼 یعنی انتظار کا مطلب صرف دعا کرنا اور جشن منا لینا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عمل کی منزل میں قدم بڑھانا اور خود کو نیک اخلاق سے آراستہ کرنا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا شمار حضرت امام عصر عج کے واقعی منتظرین میں ہو، تو قلبی اور زبانی اظہار محبّت کے ساتھ ساتھ ورع و جدّ و جہد کے پابند بنیں، واجبات کو انجام دیں اور محرّمات سے پرہیز کریں، خوش اخلاق بنیں اور خود کو اس طرح ڈھالنے کی کوشش کریں کہ گویا ان لوگوں جیسے ہوں جو حضرت امام عصر عج کے ہمرکاب ہونے کی توفیق رکھتے ہیں۔

*اصحاب امام زمانہ علیہ السلام کی بعض اہم خصوصیات* قسط۱. ۱) *معرفت و اطاعت:* امام جعفر صادق علیہ السلام: *رِجَالٌ كَأَنَّ قُلُوبَهُمْ زُبَر اَلْحَدِيدِ لاَ يَشُوبُهَا شَكٌّ فِي ذَاتِ اَللہ هُمْ أَطْوَعُ لَهُ مِنَ اَلْأَمَةِ لِسَيِّدِهَا۔* ترجمہ: وہ ایسے مرد ہیں جن کے دل لوہے کی طرح مضبوط ہیں اور اللہ کی ذات کے بارے میں ان کے دل میں کوئی شک نہیں، وہ ایسے مرد ہیں جو اپنے مولا کے سامنے سب سے زیادہ اطاعت کرنے والے اور فرمانبردار ہیں۔ (۱) امیرالمومنین علیہ السلام: *رِجَالٌ مُؤْمِنُونَ عَرَفُوا اَللَّهَ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ وَ هُمْ أَنْصَارُ اَلْمَهْدِيِّ فِي آخِرِ اَلزَّمَانِ۔* ترجمہ: وہ ایسے مرد مومن ہیں جو اللہ کو ایسے پہچانتے جیسے پہچاننے کا حق ہے اور وہ ہی آخر الزمان میں حضرت مهدی علیہ السلام کے انصار ہیں۔ (۲) منابع: ۱) بحارالانوار، ج۵۲، ص۳۰۷۔ ۲) بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۲۹. ((🤲: عمران علی میرانی))

🌹ظہور امام زمانہ (عجل) کے لئے دعا کرو حضرت مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں: اَكثِروا الدُّعاءَ بِتَعجِیل الفَرَجِ فَاِنَّ ذلِكَ فَرَجُكُم. ظہور کے لئے زیادہ سے زیادہ دعا کرو کیوں کہ ظہور میں تمہاری لئے نجات ہے۔ 📚 کمالالدین، ج2، ص485 •┈•┈•⊰✿✿⊱•┈•┈┈• ❤️منتظرین امام زمانہ(عجل) کے وظائف اور ذمہ داریاں 🔷 امام زمانہ(عجل) کے ظہور کے بعد آپ کی نصرت کا دل سے مصمم ارادہ رکھنا۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ: جس شخص کا ارادہ و نیت یہ ہو کہ اگر قائم آل محمد علیہ السلام کے زمانہ کو درک کرے گا تو وہ ان کی نصرت کرے گا، وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے امام زمانہ (عج) کے ہمراہ اپنی تلوار سے جنگ کی ہو، اور آپ کے قدموں میں شہادت دو شہادتوں کے برابر ہے 📚 اصول کافی، ج 2 ص 85 و 222 📚 مکیال المکارم 33واں مورد •┈•┈•⊰✿✿⊱•┈•┈┈• https://whatsapp.com/channel/0029VaPEwLRFcow06yLOsd1D غیبت کبریٰ میں شیعوں کے ذمہ داریاں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: وَ اَللَّهِ لَيَغِيبَنَّ غَيْبَةً لاَ يَنْجُو فِيهَا مِنَ اَلْهَلَكَةِ إِلاَّ مَنْ ثَبَّتَهُ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَى اَلْقَوْلِ بِإِمَامَتِهِ وَ وَفَّقَهُ فِيهَا لِلدُّعَاءِ بِتَعْجِيلِ فَرَجِهِ خدا کی قسم امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت طولانی ہوگی اس زمانے میں وہی نجات پائے گا جسے اللہ امامت کے اعتقاد پے ثابت قدم رکھے اور امام کے جلدی ظہور کے دعا کی توفیق دے۔ 📚 کمال الدین، ج 2، ص 384 •┈•┈•⊰✿✿⊱•┈•┈┈•