Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
January 31, 2025 at 10:35 AM
*سلسلۂ نقوشِ قرآن* *سورتِ حجر ( تیسری اور آخری قسط )* *شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت اقدس حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *قومِ لوط کی ہلاکت کا واقعہ* سورتِ حجر کی آیت نمبر 61 سے 79 میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی خوشخبری سنا کر فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے، چونکہ وہ انسانی شکل میں تھے اس لیے حضرت لوط علیہ السلام بھی ان کو نہ پہچان سکے اور ان کے آنے سے پریشان ہو گئے کہ شاید اب میری قوم ان کے ساتھ کیسا سلوک کرے، فرشتوں نے آپ کو پریشان دیکھ کر حقیقتِ حال سے پردہ اٹھایا اور کہا کہ ہم اللہ رب العزت کے بھیجے گئے فرشتے ہیں تاکہ آپ کی قوم پر عذاب نازل کر سکیں، اس لیے آپ رات کے کسی حصہ میں اپنے گھر والوں اور متبعین کو لے کر یہاں سے چلے جائیں اور آپ میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے، صبح ہوتے ہی ان پر عذاب نازل کر دیا جائے گا جس سے ان کی جڑ کٹ جائے گی یعنی یہ سب ہلاک اور برباد ہو جائیں گے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی چونکہ اپنی قوم سے ملی ہوئی تھی، اس لیے اس نے کسی کے ذریعے قوم والوں کو ان مہمانوں کے آنے کی اطلاع کر دی شہر والوں کو جب پتا چلا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے پاس حسین لڑکے آئے ہیں تو وہ برے ارادے سے ان کے گھر پہنچے، حضرت لوط علیہ السلام کو اس وقت تک ان مہمانوں کے فرشتے ہونے کا علم نہیں تھا، اس لیے آپ نے پریشانی کے عالم میں اپنی قوم سے کہا کہ یہ میرے مہمان ہیں، ان کو پریشان کر کے مجھے عام لوگوں میں رسوا نہ کرو اور خدا کا خوف کرو، لیکن قوم نہ مانی اور اپنی مستی میں غرق رہی، اتنے میں صبح کے آثار دِکھائی دینے لگے، جیسے ہی صبح ہوئی تو ایک تیز آواز گونجی، اس کے بعد اللہ رب العزت کے حکم سے ان کی بستیوں کو اُلٹ دیا گیا، اوپر سے پتھروں کی بارش برسائی گئی، یوں یہ قوم ہلاک اور برباد ہو گئی۔ اس کے بعد اللہ رب العزت نے ان تباہ شدہ بستیوں کا محل وقوع بیان فرما کر کفار و مشرکین کو عبرت حاصل کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا کہ ان بستیوں میں اہل بصیرت کے لیے اللہ رب العزت کی بڑی نشانیاں پوشیدہ ہیں اور یہ بستیاں ایک آباد راستہ پر واقع ہیں، اس سے مراد عرب سے شام جانے والا راستہ ہے، جہاں اردن کے علاقہ میں یہ بستیاں موجود ہیں۔ *اصحاب الایکہ کون تھے؟* حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی ہلاکت کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ رب العزت نے اصحاب الایکہ کا تذکرہ فرمایا ہے کہ وہ لوگ بھی ظالم اور گنہگار تھے، اس لیے ہم نے انہیں بھی ہلاک کر دیا۔ ایکہ دراصل گھنے جنگل کو کہتے ہیں، اصحاب الایکہ سے مراد حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ہے، کیونکہ وہ مدین میں رہتی تھی اور مدین کے قریب ہی ایک گھنا جنگل موجود تھا، جس کی وجہ سے انہیں اصحاب الایکہ کہا جاتا ہے۔ اس قوم میں کفر و شرک کے علاوہ ناپ تول میں کمی کرنے جیسے برائی بھی موجود تھی، حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں تنبیہ کی اور ان افعالِ بد سے باز آنے کا حکم فرمایا، لیکن انہوں نے ان کی بات نہ مانی اوراپنے برے عقائد اور افعال پر ڈٹے رہے، جس کی وجہ سے اللہ رب العزت نے انہیں ہلاک کر دیا۔ *اصحابِ حجر کون تھے؟* قوم ِلوط اور اہل ِمدین کی ہلاکت کے بعداللہ تعالیٰ نے آیت نمبر 80 سے آخری آیت نمبر 99 میں اصحاب حجر کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ حجر دراصل ایک وادی کا نام ہے جہاں حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود آباد تھی، اسی لیے ان کو اصحابِ حجر بھی کہا جاتا ہے، یہ اپنے دور میں ٹیکنالوجی کے بہت ماہر مانے جاتے تھے، یہ پتھروں کو تراش کر ان میں گھر بنایا کرتے، ان کے پاس اللہ رب العزت نے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا، لیکن انہوں نے ان کی اطاعت نہ کی اور اپنے کفر وشرک پر ڈٹے رہے، حضرت صالح علیہ السلام نے معجزہ کے طور پر انہیں پہاڑ سے اونٹنی نکال کر دی تھی، جس کو ان لوگوں نے اپنی بدبختی سے قتل کر دیا، جس پر اللہ رب العزت کی طرف سے ان پر عذاب آیا اور یہ سب ہلاک ہو گئے۔ *سورۂ فاتحہ کی فضیلت* اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ ہمارے انعام و اکرام کو دیکھیے کہ ہم نے آپ کو سات ایسی آیات عطاء فرمائیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں اور جن کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ انہیں قرآن عظیم کہا جاسکتا ہے، مفسرین کرام کے نزدیک اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہے جسے ہر نماز میں پڑھا جاتا ہے اور یہ اپنے مضامین کے لحاظ سے پورے قرآنِ کریم کا خلاصہ ہے، اس لیے اسے قرآن عظیم اور اُمُّ القرآن بھی کہا جاتا ہے۔ *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی* پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے لیے مزید ارشاد فرمایا کہ آپ ان کافروں کی شرارتوں اور ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف کی طرف التفات کیجیے اور نہ چیزوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیے جو ہم نے انہیں عطاء کی ہیں، کیونکہ وہ سب زائل ہو جائیں گی،آپ مومنین کی طرف متوجہ رہیے اور ان کی اصلاح کی فکر کرتے رہیے۔ البتہ کفار کو تنبیہ اور تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رکھیے اور انہیں ہمارے عذاب سے ڈراتے رہیے اور جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے علی الاعلان پہنچا دیجیے اور اگر یہ نہ مانیں تو ان کی ذرہ پرواہ نہ کیجیے، ان مذاق اڑانے والوں اور استہزاء کرنے والوں کے لیے ہم کافی ہیں اور اگر ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور تحمید کرتے رہیے اور نماز ادا کرتے رہیں اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہیے۔ (معارف القرآن) *سورت کا اِجمالی درس* - سورت کے آغاز میں قرآن کی حقانیت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قیامت کے دن کفار کی حسرت کو بیان فرمایا۔ - سورت میں اللہ رب العزت کی قدرت کی چند نشانیاں بیان فرما کر ان میں غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے تاکہ انسان توحید کو پاسکے۔ - سورت میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا واقعہ اور آدم علیہ السلام کی فضیلت اور شیطان کی انسان سے عداوت کو بیان کیا گیا ہے۔ - سورت میں مختلف ہلاک شدہ اقوام کا تذکرہ فرما کر ان سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ - سورت کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے۔ *تَمَّتْ سُوْرَةُ الحِجْرِِ بِعَوْنِ اللّٰہِ سُبْحَانَہ وَتَعَالیٰ*
❤️ 👍 7

Comments