
Molana zubair ahmad siddiqiui
1.0K subscribers
About Molana zubair ahmad siddiqiui
مواعظ وتحریرات الشیخ مولانازبیراحمدصدیقی دامت برکاتھم
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*سلسلۂ نقوشِ قرآن* *سورت الکہف (آ ٹھویں قسط )* *شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *کشتی کیوں توڑی؟* گزشتہ سے پیوستہ حضرت موسیٰ وخضر علیہماالسلام کی ملاقات کا واقعہ چل رہا ہے، آیت نمبر 79 میں حضرت خضر علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ فرما رہے ہیں کہ میں نے کرایہ نہ لینے والے لوگوں کی کشتی کا تختہ اس لیے توڑا تھا کہ آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر خوبصورت اور بے عیب کشتی چھین لیتا تھا، جبکہ ان غریبوں کو یہ بات معلوم نہ تھی۔ البتہ مجھے چونکہ اللہ نے تکوینیات کا علم دیا ہے، لہٰذا مجھے علم تھا کہ اگر یہ کشتی بے عیب رہی تو چھن جائے گی، اس لیے میں نے کشتی داغدار کرکے غریبوں کی خیر خواہی کی بد خواہی نہیں۔ احسان فراموشی کی بجائے احسان کا بدلہ احسان سے دیا۔ *بچے کو قتل کرنے کی حکمت* ؟ آیت نمبر 80, 81۔ بچے کو قتل کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ اس کے ماں باپ نیک تھے اور اللہ کے حکم سے مجھے پتا تھا کہ اس نے بڑے ہو کر کافر بننا ہے، مجھے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ بڑا ہو کر یہ اپنے نیک والدین کو تکلیف پہنچائے گا اور بیٹے کی محبت میں اس کے والدین کا ایمان بھی خطرے میں پڑ جائے گا، تو اس کے ماں باپ کی خیر خواہی میں کہ وہ ایمان پر رہیں، میں نے اس بچے کو قتل کیا اور ہمارا یہ بھی ارادہ ہوا (یعنی ہم نے اللہ پاک سے دعا کی-معارف القرآن) کہ اس بچے کے بدلے میں اللہ انہیں بہتر اولاد عطاء کر دیں گے، عمدہ اور نیک اولاد عطاء فرما دیں گے،اس لیے میں نے بچے کو قتل کر دیا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس بچے کے بعد اللہ نے ان ماں باپ کو ایک بچی دی، اس بچی کا نکاح ایک نبی سے ہوا اور وہ بچی ایک نبی کی ماں بنی، تو دو نبیوں سے اس کی نسبت ہو گئی اور بعض نے تو فرمایا کہ ستر(70) نبی اس کی نسل سے آئے۔ (روح المعانی) اللہ کے نبی نے اگر ایک بچے کو اللہ کے حکم سے قتل کیا، نبی کا معاملہ ہے نا اور نبی کوئی بھی کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہیں کرتے تو حضرت خضر کے اس فعل کے پیچھے یقیناً اللہ کا حکم ہو گا، جب نبی نے اللہ کے حکم سے اس بچے کو قتل کیا تو اللہ نے اس کے بدلے میں انہیں یہ بدلہ دیا۔ *دیوار درست کرنے کی وجہ* ؟ آیت نمبر 82۔ رہا دیوار کا معاملہ سو وہ معاملہ بھی بڑا گہرا اور تکوینی معاملہ تھا، وہ معاملہ یہ تھا کہ مرنے والا نیک آدمی تھا، اللہ کا ولی تھا، فوت ہونے سے پہلے اس نے سونے کی ایک تختی اپنے چھوٹے بچوں کے لیے جو اس وقت یتیم ہو رہے تھے،اس دیوار کے نیچے دبا دی تھی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو یہ سونے کی تختی اور خزانہ نکالیں گے اور خرچ کریں گے۔ دیوارکی حالت چونکہ خستہ تھی اس لیے میں نے یہ سوچا کہ اگر یہ دیوار خدا نخواستہ گر گئی تو کوئی ان بچوں کا یہ خزانہ اور یہ تختی کوئی چرا نہ لے، اس لیے یتیموں کی خیر خواہی میں اس دیوار کو ٹھیک کر دیا۔ اس نیک بندے کی خواہش اللہ تعالیٰ نے یوں پوری کی کہ اپنے نبیوں سے اس دیوار کی درستگی کرا کر حفاظت کا انتظام فرمایا۔ معلوم ہوا کہ بندے کے نیک اعمال کی وجہ سے اللہ پاک اس کی نسل، خاندان اور آس پاس کے مکانات کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔ (تفسیر مظہری) نیز نیکی کا اثر نسلوں میں بھی باقی رہتا ہے۔ *دیوار کے نیچے کون سا خزانہ تھا* ؟ کہتے ہیں کہ یہ ایک سونے کی تختی تھی اور اس پر چند چیزیں لکھی تھیں،سب سے پہلے تو اس تختی پر لکھا ہوا تھا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اس کے بعد نصیحت کے د رج ذیل قیمتی کلمات لکھے تھے:- تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے پھر بھی غمگین رہتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو اللہ کو رزاق سمجھتا ہے اس کے باوجود ضرورت سے زائد مشقت اٹھاتا ہے اور فضول کوششوں میں لگا رہتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو موت پر ایمان رکھتا ہے پھر بھی خوش و خرم رہتا ہے،ٹھٹھہ اور مذاق کرتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو قیامت پر ایمان رکھتا ہے پھر بھی غفلت برتتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا کے انقلابات کو جانتا ہے پھر بھی مطمئن رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس تختی پر یہ بھی لکھا تھا: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے صدیوں پہلے اس تختی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی مہر ثبت تھی۔ (معارف القرآن بحوالہ قرطبی) *یہ سب کام خدائی احکامات کے تابع* اس قصے میں حضرت خضر علیہ السلام نے یہ وضاحت بھی فرما دی: یہ سارے کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیے بلکہ اللہ کے حکم سے کیے،یہی تعبیر ہے ان کاموں کی جن کا آپ تحمل نہ کر سکے۔ *کیا حضرت خضر علیہ السلام اب بھی حیات* ؟ حضرت خضر علیہ السلام اب بھی حیات ہیں یا نہیں؟ قرآن وسنت میں اس بارے میں کوئی صراحت نہیں ہے۔ البتہ بعض روایات و آثار سے ان کی حیات اور بعض سے ان کی وفات بارے اقوال بیان کیے گئے ہیں۔اس سلسلے میں بعض حضرات کے کشف بھی منقول ہیں۔ تاہم چونکہ حضرت خضر علیہ السلام کی حیات یا انتقال سے ہمارا کوئی اعتقادی یاعملی مسئلہ متعلق نہیں ہے،اس لیے اس بارے زیادہ بحث کی بھی حاجت نہیں اور نہ ہی کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ضروری ہے۔ (مزید تفصیلات کے لیے تفسیر معارف القرآن، جلد: 5، صفحہ: 626 تا 626 ملاحظہ فرمائیں) *علمِ شریعت وعلمِ تکوین* یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایسا علم جسے حاصل کیے بغیر نہ تو اللہ پاک کی مرضی معلوم ہو سکتی ہو اور نہ اس پر عمل کیے بغیر اللہ کا قرب حاصل ہو سکتا ہو اسے علمِ شریعت کہتے ہیں۔انبیائے کرام اسی علم کو پہنچانے کے لیے مبعوث ہوئے اور اس پر آخرت کی کامیابی کا مدار ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس دنیا میں ہونے والے واقعات وحوادث کے پیچھے کار فرما وجوہات اور اسباب جاننے کا تعلق علمِ تکوین سے ہے۔ اس علم کے احکامات کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی تلاش کے درپے رہنے سے روحانی ترقی یا آخرت کی نجات موقوف ہے۔ ان تکوینی خدمات کے لیے عموماً فرشتے مقرر ہیں تاہم اللہ پاک نے انبیائے کرام میں سے بعض کو اس خدمت کے لیے متعین فرمایا ہے جن میں سے حضرت خضر بھی شامل ہیں اور چونکہ حضرت خضر علیہ السلام ان کاموں کو انجام دینے پر مامور تھے، اس لیے انہوں نے یہ کام کیے،لیکن اس کی وجہ سے نہ تو علمِ تکوینی کو علمِ شریعت پر فوقیت اور نہ ہی کسی شخص کو باطنی مصلحت کی وجہ سے شریعت کے ظاہری احکام کی خلاف ورزی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ *ایک مغالطہ* بعض نام نہاد صوفی اس واقعہ سے استدلال کرکے علمِ ظاہر اور علمِ باطن کا فرق کرتے ہیں اور اپنی خرافات اور خلافِ شریعت افعال کو علمِ باطن کا نام دے کر خدائی احکامات کی صریح خلاف ورزی کرکے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ علمِ تکوین اور علمِ باطن میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ علمِ تکوین: اس کائنات کے اندر پیش آنے والے واقعات کے حقیقی اسباب کا علم، علمِ تکوین ہے۔ علمِ باطن: نفسانی اخلاق کی اصلاح اور باطنی گندگیوں (مثلاً تکبر، حسد، حب ِجاہ، حب ِمال وغیرہ) کو دور کرکے اپنے ظاہر کو شرعی احکامات سے آراستہ کرنے کا نام علمِ باطن ہے اور یہ کسی طور پر بھی شرعی احکامات کے خلاف نہیں۔ لہٰذا اگر کوئی شخص بزرگی اور تصوف کے لبادے میں خدائی احکامات کو توڑتا پھرے اور علمِ باطن کا دعویٰ کرکے اپنی بدعملی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے تو ایسے نام نہاد ملنگ کو حزب الشیطان تو کہا جاسکتا ہے حزب اللہ اور اولیاء اللہ میں سے ہرگز نہیں سمجھا جاسکتا۔ *فرقہ باطنیہ* تاریخ ِاسلام میں ایک فرقہ گزرا ہے جسے باطنیہ اور فاطمیہ کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ بھی علمِ ظاہر اور باطن کا فرق بیان کرتا تھا۔ اس فرقے نے پوری شدت سے یہ دعویٰ کیا کہ ہر لفظ کے دو معنی اور مطلب ہوتے ہیں۔ایک ظاہری مطلب جو صرف عوام کو سمجھ آتا ہے اور دوسرا حقیقی اور باطنی معنی جو صرف اہلِ اسرار اور عقلاء کو سمجھ آسکتا ہے۔ اسی طرح قرآن وحدیث کے بھی کچھ ظواہر ہیں اور کچھ حقائق ہیں۔ جو شخص صرف ظاہری معنی میں گرفتار ہے صرف وہی شریعت کی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ جس کی رسائی اصل حقائق تک ہو جاتی ہے وہ شریعت کی ظاہری پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ تحقیقات کے چند نادر نمونے اس ضابطے کو بنیاد بنا کر اس فرقے نے قرآن وسنت کی ایسی من مانی باطنی تشریح کی کہ الامان والحفیظ، مثلاً جنابت سے مراد راز افشاء کر دینا ہے۔ غسل سے مراد تجدیدِ عہد ہے۔ طوفان ِنوح سے مراد علم کا طوفان ہے،جس میں اہلِ شہادت غرق کیے گئے۔ کعبہ خود نبی کی ذات ہے۔ جہنم علمِ ظاہر اور جنت علمِ باطن کا نام ہے۔ طہارت سے مراد مذہبِ باطنیہ کے علاوہ ہر مذہب سے برأت۔ صلوٰة سے مراد اِمام ِ وقت کی طرف دعوت۔ آتش ِنمرود سے مراد نمرود کا غصہ ہے۔ یاجوج ماجوج سے مراد اہلِ ظاہر ہیں۔ وغیرہ وغیرہ بعد کی صدیوں میں جن فرقوں نے بھی نبوتِ محمدی کے خلاف بغاوت کرنا چاہی انہوں نے باطنیت کے اسی حربہ کا سہارا لیا اور پورے اسلامی نظام کو مشکوک اور مجروح بنا دیا۔ ایران کی بہائیت اور ہندوستانی قادیانیت اس کی واضح مثالیں ہیں۔ (تاریخِ دعوت وعزیمت) مذکورہ واقعہ کی حکمتیں حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کے اس واقعہ کو بیان کرنے میں درجِ ذیل حکمتیں ممکن ہیں: - مشرکینِ مکہ چونکہ علمِ دین کے حصول کے لیے غریب اور مسکین صحابہ کے ساتھ بیٹھنے کو عار سمجھتے تھے،اس واقعہ سے انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ مقربینِ خدا تعالیٰ، حصولِ علم کے لیے کس قدر مشقت وتکالیف کا تحمل کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا حصولِ علم میں عار ہرگز محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ - یہ درس بھی مقصود ہے کہ علم کے دو چار ابواب پڑھ لینے، یا چند دنیوی معلومات کے حصول سے اپنے آپ کو کامل نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہر ظاہر کے پس ِپردہ بہت سے حقائق ہیں۔ اللہ پاک کے علم کے وسعت ہی ان حقائق کا ادراک کر سکتی ہے۔ نیز دنیا میں اہلِ حق کے ساتھ جو فقر، فاقہ اور مظلومیت کے احوال ہیں یہ صرف ظاہر ہیں۔ ان کے پس پردہ حقائق، ثمرات اور اثرات کا ایک جہاں ہے جو نظروں سے اوجھل ہے۔ اس لیے ان ظاہری مشکلات سے مایوس ہونے کے بجائے ان کے نسلوں تک جاری بہترین نتائج کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ (تبیان الفرقان ملخص) *(جاری ہے)*

*سلسلۂ نقوشِ قرآن* *سورت الکہف* *(نویں قسط)* *شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت نمبر 83 تا 85 ۔ آپ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کے بارے میں، آپ فرما دیجیے کہ میں پڑھ کر تمہیں سناتا ہوں کہ ذوالقرنین کا کیا قصہ تھا۔ *ذوالقرنین کا واقعہ* مشرکینِ مکہ نے تین سوالات کیے تھے: -روح کیا ہے ؟- اصحابِ کہف کا کیا قصہ ہے؟ -ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے ؟ اور وہ کون سا بادشاہ تھا جس نے پوری روئے ارض کاسفر کیا تھا؟ روح والے سوال کا جواب سورۂ بنی اسرائیل میں دیا گیا۔ پھر اصحابِ کہف کا واقعہ اسی سورت میں مذکورہ ہوا اور اب آخر میں ذوالقرنین کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ *ذو القرنین کا مختصر تعارف* : ذوالقرنین ایک نیک اور صالح بادشاہ تھے، قرنین، قرن کا تثنیہ ہے، قرن کا ایک معنی سینگ آتا ہے، یا تو ان کو ذوالقرنین اس لیے کہتے تھے کہ ان کی دو زلفیں تھیں، یا اس لیے کہتے تھے کہ قرن کا ایک معنی ہے کونہ۔ تو انہوں نے زمین کے دو کونوں کا سفر کیا، مشرق کا بھی سفر کیا اور مغرب کا بھی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابتداء میں ان کی دو سلطنتیں تھیں، ایک کردستان اور ایک عراق کی طرف۔ ذوالقرنین نے ان دونوں کے درمیانی علاقوں کو فتح کر کے اپنی سلطنتوں کو ایک کر دیا۔ واللہ اعلم *ذوالقرنین کا زمانہ* : کہتے ہیں کہ ذوالقرنین جن کا یہاں قرآن میں ذکر ہے، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہم عصر ہیں، اب اندازہ لگا لیں کتنے ہزار سال پہلے کی بات ہے اور حضرت خضر علیہ السلام ان کے وزیر تھے۔ یہ نیک دل اور صالح بادشاہ تھے۔ *چار عظیم بادشاہ* : بعض تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رُوئے ارض پر چار بادشاہ ایسے گزرے ہیں جنہیں عالمگیر حکومت ملی،پوری دنیا پر انہوں نے حکومت کی، ان میں سے دو مومن تھے اور دو کافر، جو دو مومن تھے ان میں ایک یہ ذوالقرنین اور دوسرے حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں اور جو دو کافر تھے ان میں سے ایک نمرود اور دوسرا بخت نصر تھا۔ *کیا سکندرِ اعظم ہی ذوالقرنین؟* حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً ساڑھے تین صدیاں پہلے ایک شخص گزرا ہے جس سے سکندر یونانی، سکندر رومی اور سکندر مقدونی وغیرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مشہور یونانی فلسفی ارسطواس کا استاد بھی تھا اور وزیر بھی۔ بعض لوگوں نے اسے قرآنی ذوالقرنین سمجھ لیا ہے جو سراسر غلط ہے۔ سکندر یونانی ایک آتش پرست اور مشرک شخص تھا جبکہ حضرت ذوالقرنین بالاتفاق نیک صالح اور مومن تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ ذوالقرنین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حج بھی کیا تھا۔ (تفصیل کے لیے معارف القرآن جلد 5 ملاحظہ فرمائیے)۔ *بہر کیف!* حضرت ذوالقرنین کو اللہ تعالیٰ نے معجزاتی اور کراماتی طور پر ہر طرح کے مال و اسباب سے نوازا تھا، اس زمانے میں انہیں ہر طرح کے وسائل میسر تھے اور قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان کو اللہ نے کوئی ٹیکنالوجی بھی عطاء کی تھی، کیونکہ ان کے بڑے بڑے کام ہیں، ذرائع سفر بھی انہیں میسر تھے، کیوں کہ انہوں نے روئے ارض کا سفر کیا۔ *تین عظیم سفر* آیت نمبر 86 تا 88 ۔ ذوالقرنین نے تین سفر کیے، پہلا سفر مغرب کی طرف تھا، دوسرا سفر مشرق کی جانب تھا،جب کہ تیسرے سفر کی جہت اگرچہ قرآن نے بیان نہیں فرمائی تاہم آبادی چونکہ شمال کی طرف زیادہ ہے،اس لیے بھی اور تاریخی شہادتوں کی وجہ سے بھی مفسرین کے نزدیک یہ سفر شمال کی طرف ہوا تھا۔ واللہ اعلم *پہلا سفر: مغربی سمت* پوری زمین کے حکمران تھے تو خیال آیا کہ چل کے دیکھیں تو سہی اپنی سلطنت کو کہ ہماری سلطنت میں لوگ کس طرح زندگی گزار رہے ہیں، سلطنت کیسی ہے؟ مغرب کی طرف چلتے گئے، چلتے گئے، یہاں تک کہ آبادی کے آخری حصے تک جا پہنچے، وہاں تک پہنچے کہ سامنے یوں لگ رہا تھا کہ سورج کیچڑ میں غروب ہو رہا ہے،جیسے آپ سمندر میں سفر کریں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سورج سمندر سے طلوع ہو رہا ہے، اور سمندر میں غروب ہو رہا ہے،تو چونکہ وہ زمین کا آخری کونہ تھا، اس کے آگے کیچڑ تھا اور پھر سمندر تھا، اسی لیے یوں لگا کہ سورج کیچڑ میں غروب ہو رہا ہے۔ یہاں ایک قوم آباد تھی جو کافر تھی، اس قوم کے بارے میں اللہ پاک نے ذوالقرنین کو یہ اختیار دیا کہ: یعنی یا تو انہیں ان کے کفر پر سزا دیں یا پھر احسان کا معاملہ فرمائیں۔ حضرت ذوالقرنین نے ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا اور فرمایا: ہم پہلے انہیں ایمان کی دعوت دیں گے۔ اگر ایمان لائیں گے تو ان کے ساتھ اچھائی کریں گے اور اگر کفر پر جمے رہے تو انہیں سزا دی جائے گی،جو ظلم کرے گا، کفر کرے گا اس کے لیے سخت عذاب اور جو ایمان لائے گا اس کے لیے اچھی جزا۔ *دوسرا سفر: مشرقی سمت* آیت نمبر 89 تا 91۔ پھر ذوالقرنین نے مال واسباب ساتھ لیا اور مشرق کی طرف سفر شروع کیا، جب مشرق کی طرف بالکل آخری کنارے پر پہنچے تو وہاں ایک ایسی قوم ملی جو بالکل بے پردہ تھی، اب بعض نے اس کا معنی یہ لیا ہے کہ ان کے گھر نہیں تھے، بلکہ وہ جنگلوں میں کھلے آسمان تلے رہتے تھے، وحشی قسم کے لوگ تھے اور بعض نے معنی کیا کہ وہ بے لباس تھے، ستر پوشی کا اہتمام نہیں کرتے تھے،کپڑے نہیں پہنتے تھے،چیتھڑوں سے ستر کو ڈھانپا تو ڈھانپ لیا، نہ ڈھانپا تو نہ ڈھانپا، اس قوم سے ذوالقرنین نے کیا معاملہ کیا؟ قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا، بظاہر جو مغرب میں بسنے والی قوم سے کیا تھا وہی ان سے بھی کیا ہوگا (کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ یہ دونوں قومیں کافر تھیں)۔ *تیسرا سفر: شمالی سمت* آیت نمبر 92 تا 101 ۔ پھر سامانِ سفر ساتھ لیا اور سفر شروع کر دیا، اب یہ سفر کس جانب تھا، قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا، لیکن مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ سفر شمال کی جانب تھا،سفر کرتے کرتے دو پہاڑوں کے درمیان ایک ایسے مقام تک پہنچے، جہاں ایسی قوم آباد تھی جو نہ صرف زبان نہیں سمجھتی تھی بلکہ وحشیانہ زندگی گزارنے کی وجہ سے سمجھ بوجھ سے بھی عاری تھی۔ *قوم کی عاجزانہ درخواست* بہر کیف! شاید کسی مترجم کے ذریعے اس قوم نے حضرت ذو القرنین سے ایک درخواست کی: یہاں (گھاٹی کے دوسری طرف) ایک قوم رہتی ہے جسے یاجوج ماجوج کہتے ہیں، وہ اس سر زمین میں فساد کرتی ہے، ہم آپ کو پیسے دیتے ہیں، خدا کے لیے آپ ان کے اور ہمارے درمیان کوئی آڑ اور رکاوٹ بنا دیجیے،کیونکہ یہ آکر ہمارے کھیتوں کو، ہمارے سامان ِخورد ونوش کو اور ہمارے پانیوں کو چاٹ جاتے ہیں،انہوں نے ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے، آپ ان کو دوسری طرف بند کر دیں۔ حضرت ذوالقرنین نے ان سے فرمایا کہ مجھے اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے، مجھے تمہارے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے، لیکن تمہیں افرادی قوت دینی ہوگی، وہ اس کے لیے تیار ہو گئے۔ *محیر العقول کارنامہ* قابلِ غوربات ہے کہ آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے کیا کمال انجینئرنگ دِکھائی حضرت ذوالقرنین نے،یہ قوم جہاں رہتی تھی وہاں دو پہاڑوں کے بیچ میں ایک درہ تھا، پہاڑ بہت اونچے تھے،پہاڑوں کو پاٹ کر یہ آنہیں سکتے تھے، درے سے آتے تھے، تو اب ان کو اس پار روکنے کے لیے یہ انجینئرنگ اختیار کی گئی کہ اس پہاڑی درے کو بند کر دیا جائے،اب درے کو کیسے بند کیا جائے، اتنا بڑا درہ ہے، تو حضرت ذوالقرنین نے ان سے فرمایا: میرے پاس لوہے کے تختے لے آؤ، وہ تختے لے آئے، پھر اس پورے درے پر لوہے کے تختے بچھا دیے اور درہ بند کرنے کے لیے اینٹ، پتھر کی جگہ لوہے کی ان چادروں کا استعمال کیا گیا۔ پھر فرمایا کہ اس پر آگ جلا دو، آگ جلائی گئی اور ان تختوں کو اتنا گرم کیا گیا کہ وہ تپ کر آگ کی طرح سرخ ہو گئے، اب فرمایا کہ تانبا لے آؤ، تانبا لایا گیا، اس کو پگھلا کر ان تختوں پر ڈال دیا تو یہ تانبا، اِن لوہے کے تختوں کے درمیانی خلا اور سوراخوں میں جم گیا اور ان کو مضبوط جوڑ دیا، یوں ایک بہت مضبوط دیوار قائم ہو گئی جسے سدِ ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔ دیوار کی تکمیل پر حضرت ذوالقرنین نے فرمایا کہ اس دیوار کو یاجوج ماجوج نہیں توڑ سکیں گے،اس کو پار کر سکیں گے اور نہ اس میں سوراخ کر سکیں گے، فرمایا کہ یہ میرے رب کی رحمت ہے، میرے رب کی عطاء ہے، لیکن ایک وقت آئے گا کہ جب یہ دیوار ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور میرے رب کا وعدہ پورا ہوگا۔ *یاجوج ماجوج کون ہیں* ؟ یاجوج ماجوج کے بار ے میں اتنی بات طے ہے کہ یہ عام انسانوں کی طرح انسان ہیں۔ جمہور محدثین ومؤرخین کے نزدیک یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے خونخوار اور جنگجو قبائل ہیں۔(معارف القرآن) بعض مفسرین نے دنیا کی بعض جنگجو قوموں کو اسی نسل میں سے بھی قرار دیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ محض تخمینہ ہے۔ حتمی علم اللہ پاک کو حاصل ہے۔اس لیے کسی خاص قوم کو اس کا یقینی مصداق قرار دینا مشکل ہے۔ *ان کی تعداد کتنی ہے* ؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے دس حصے کیے۔ان میں سے نو حصے یاجوج ماجوج کے ہیں اور باقی ایک حصے میں باقی ساری دنیا کے انسان ہیں۔ (مستدرک حاکم بحوالہ معارف القرآن) اس سے معلوم ہوا کہ یاجوج ماجوج کی تعداد ساری نسلِ انسانی سے بہت ہی زیادہ ہے۔ (ان کے بارے میں تفصیلی کلام کے لیے تفسیر معارف القرآن جلد 5، صفحہ 38 تا 48 ملاحظہ فرمائیں) *(جاری ہے)*

*سلسلۂ نقوشِ قرآن* *سورت کہف (ساتویں قسط)* *شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کا پس منظر* آیت نمبر 60 سے 70 میں مذکور واقعہ کا پسِ منظر صحیح بخاری و صحیح مسلم میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، یہ بات اگرچہ درست تھی کیونکہ نبی اپنے دور میں سب سے زیادہ علم والا ہوتا ہے، لیکن اللہ رب العزت کو آپ کا یہ جملہ پسند نہ آیا کیونکہ ادب کا تقاضا یہ تھا کہ اس کو اللہ رب العزت کے سپرد کرتے اور یوں فرما دیتے کہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں، اس لیے اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین (وہ مقام جہاں دو دریا ملتے ہوں، ایسے مقامات دنیا میں ایک سے زائد ہیں، قرآن میں چونکہ اس کی تعیین نہیں کی گئی اس لیے متعین طور پر کوئی جگہ ذکر نہیں کی جاسکتی) میں رہتا ہے اور وہ آپ سے زیادہ علم رکھتا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ سنا تو آپ نے سوچا کہ مجھے ان سے استفادہ کرنا چاہیے، اس لیے آپ نے اللہ رب العزت سے دعا کی کہ مجھے ان کا پتا یا کوئی نشانی بتا دیں، اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو اور مجمع البحرین کی طرف سفر کرو، جس جگہ یہ مچھلی گم ہو جائے بس وہی جگہ ہمارے اس بندے کے ملنے کی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حکم کے مطابق ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی اور مجمع البحرین کی طرف سفر کا آغاز کر دیا۔ (معارف القرآن) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مجمع البحرین کی طرف سفر کرنے لگے تو آپ نے اپنے ایک خادم کو بھی اپنے ساتھ لیا، یہ خادم حضرت یوشع بن نون علیہ السلام تھے، مندرجہ بالا آیات میں سے پہلی آیت میں فتی سے مراد یہی ہیں، دونوں حضرات نے سفر شروع کیا اور چلتے رہے، دوران ِ سفر ایک جگہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سستانے کے لیے ایک پتھر کے پاس لیٹ گئے جس سے آپ کو نیند آگئی، جبکہ آپ کے خادم حضرت یوشع بن نون جاگ رہے تھے، انہوں نے دیکھا کہ مچھلی اچانک حرکت میں آگئی اور زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی، جس راستہ سے وہ دریا میں گئی تھی وہاں اللہ رب العزت نے پانی کا بہاؤ روک دیا، ایک سرنگ سی بن گئی، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو یوشع بن نون آپ کو یہ بات بتانا بھول گئے اور اس جگہ سے روانہ ہو گئے، ایک دن ایک رات کا مزید سفر کیا، جب دوسرے روز کی صبح ہو گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق ِسفر سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، کیونکہ اس سفر میں کافی تھکاوٹ ہو گئی ہے، اس وقت حضرت یوشع بن نون کو مچھلی کا واقعہ یاد آگیا، تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ساری بات بتائی اور عذر بھی پیش کر دیا کہ مجھے شیطان نے وہ بات بھلا دی تھی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہی تو ہماری منزلِ مقصود تھی، چنانچہ اسی وقت واپس روانہ ہوئے اور ٹھیک اسی راستہ سے لوٹے جس پر پہلے چلے تھے تاکہ وہ جگہ مل جائے۔ *موسیٰ، خضر علیہما السلام کی ملاقات* جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کا خادم اس پتھر کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص سر سے پاؤں تک چادر تانے ہوئے لیٹا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا تو حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ اس جنگل میں سلام کہاں سے آگیا، یہاں کے لوگ تو اس سے ناواقف ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں، حضرت خضر علیہ السلام نے دریافت کیا کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اور میں اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ خاص علم سکھا دیں جو اللہ رب العزت نے آپ کو عطاء فرمایا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ میرے ساتھ نہیں ٹھہر سکیں گے، کیونکہ ظاہری طور پر کچھ افعال آپ کو خلافِ شریعت نظر آئیں گے (جبکہ حقیقتاً وہ اللہ رب العزت کا امر اور حکم ہوگا) اور آپ چونکہ نبی ہیں اس لیے خلاف ِشریعت کاموں پر خاموش نہیں رہیں گے اور مجھ پر اعتراض کریں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اِن شاء اللہ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ اس پر حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، لیکن میری ایک شرط ہے کہ جب تک میں خود اپنے کسی عمل کی وجہ بیان نہ کروں، آپ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں کچھ نہیں پوچھیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی یہ شرط منظور کرلی اور یوں ان دونوں کا ساتھ شروع ہو گیا۔ *حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے* ؟ قرآن کریم میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ حضرت خضر علیہ السلام پیغمبر تھے یا نہیں ؟ لیکن جمہور علماء کے نزدیک حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے، مگر ان کے ذمہ اللہ رب العزت نے کچھ تکوینی امور اور تکوینی خدمات لگائی تھیں اور انہیں انہی کا علم دیا گیا تھا، تشریعی امور سے متعلق ان پر وحی نہیں نازل کی گئی۔ (معارف القرآن) *حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی توڑ دی* آیت نمبر 71 سے 74 میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کی شرط مان لی کہ میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں تب تک نہیں پوچھوں گا جب تک آپ خود نہ بتا دیں تو حضرت خضر علیہ السلام نے انہیں اپنے ساتھ رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی، اس کے بعد یہ دونوں حضرات کسی جگہ روانہ ہوئے، راستے میں کشی پر سوار ہونے کی ضرورت پڑی، چنانچہ دونوں کشتی میں سوار ہو گئے، جب کشتی میں بیٹھ گئے تو حضرت خضر علیہ السلام نے کلہاڑی مار کر کشتی کا ایک تختہ نکال دیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ دیکھا تو فوراً بول پڑے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیا آپ اس کشتی والوں کو ڈبونا چاہتے ہیں؟ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے آپ کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ نہیں ٹھہر سکیں گے اور میں نے شرط بھی لگائی تھی کہ آپ مجھ سے خود کچھ نہیں پوچھیں گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس لیے معذرت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں بھول گیا تھا، آپ میری بھول چوک درگزر فرما دیجیے، حضرت خضر علیہ السلام نے ان کی غلطی درگزر فرما دی۔ *حضرت خضر علیہ السلام نے بچے کو قتل کر دیا* جب یہ دونوں حضرات کشتی سے اتر کر آگے چلے تو راستہ میں ایک کمسِن نابالغ بچہ ملا، حضرت خضر علیہ السلام نے اس بچے کو مار ڈالا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ دیکھا تو گھبرا کر کہنے لگے کہ آپ نے ایک بے گناہ بچے کو قتل کر دیا، یہ تو آپ نے بڑی بے جا حرکت کی، کیونکہ کشتی توڑنے میں تو صرف مال کا نقصان تھا، جبکہ یہاں تو ایک معصوم جان کا قتل کر دیا گیا۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ *پارہ نمبر 16* *اِجمالی تعارف* سہولہواں پارہ سورۂ کہف کے بقیہ حصے، اس کے بعد سورۂ مریم اور سورت طٰہٰ پر مشتمل ہے۔ *موسیٰ وخضر علیہما السلام کا تفصیلی واقعہ* حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا قصہ چل رہا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حصول ِعلم کے لیے حضرت خضر علیہ السلام کی معیت میں تھے اور وہاں اس شرط پر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ رکھا کہ جب تک میں خود نہ بتاؤں آپ میرے کسی بھی کام پر نہیں بولیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہماالسلام چل پڑے، جب کشتی میں سوار ہوئے تو حضرت خضر علیہ السلام نے سب سے پہلے کشتی توڑی، اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام بول پڑے، پھر معذرت کی، آگے جاکر حضرت خضرعلیہ السلام نے بے گناہ بچے کو قتل کر دیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر بول پڑے اور فرمایا: لقد جئت شیئا نکراً آپ نے یہ غیر مناسب کام کیا کہ ایک معصوم بچے کو قتل کر دیا، حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: قال الم اقل لک انک لن تستطیع معی صبرا کہ میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرے علوم کے متحمل نہیں ہو سکو گے، اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے ایک موقع اور دے دیں، اب اگر میں آپ سے کسی چیز سے متعلق سوال کروں تو پھر آپ مجھے اپنے ساتھ نہ لے جائیے۔ پھر چل پڑے، آگے ایک بستی میں گئے، غالباً یہ انطاکیہ کی بستی تھی (اب یہ جگہ موجودہ ترکیہ کاایک حصہ ہے) اس بستی کے باسیوں نے ان دونوں نبیوں کو مہمان بنانے سے انکار کر دیا، کسی نے بھی ان کو طلب کے باوجود کھانا نہ دیا، بشری تقاضا ہے بھوک تو لگتی ہے، اس کے بعد ایک جھکی ہوئی دیوار کو دیکھا اور حضرت خضر علیہ السلام نے ہمت کرکے اس دیوار کو ٹھیک کر دیا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ انہوں نے اشارہ کیا اور کرامتاً دیوار درست ہو گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بول پڑے، ارشاد فرمایا: انہوں نے ہمیں کھانا نہیں دیا، آپ نے مفت میں ان کی دیوار بنا دی، بنانی ہی تھی تو ان سے مزدوری لے لیتے، مزدوری میں کھانا ہی لے لیتے،حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا :بس!ِ تم ان علوم کے متحمل نہیں ہو، تمہارا علم شریعت کا ہے، جبکہ یہ علم تکوین کا ہے، تم تشریعیات کے ماہر ہو اور ہم تکوینیات کے ، تو چونکہ تم ان کے متحمل نہیں ہو لہٰذا اب تم ہم سے جدا ہو جاؤ گے،البتہ جو تین کام میں نے کیے ان کے اسباب اور تاویل سنتے جاؤ۔ *(جاری ہے)*

*سلسلۂ نقوشِ قرآن* *سورتِ الکہف (چھٹی قسط)* *شیخ الحدیث والتفسیر استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *مال کا فتنہ اور ایک عبرت انگیز واقعہ* آیت نمبر 32 سے 44 میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے : دو شخص تھے جن میں سے ایک کافر تھا اور دوسرا مومن، جو کافر تھا وہ دُنیوی لحاظ سے بہت مالدار تھا، اس کے انگوروں کے کئی خوبصورت باغات تھے، جن کے کناروں پر کھجور کے درخت لگے ہوئے تھے، باغ کے درمیان میں کھیتی اُگائی ہوئی تھی، نہایت سرسبز و شاداب باغ تھے، نہریں جاری تھیں اور ہر وقت ہر طرح کی پیداوار اور مال و دولت کی کثرت رہتی تھی جبکہ مومن شخص غریب تھا، ایک دن اس کافر مالدار شخص نے اس مومن کے سامنے فخر اور غرور کرتے ہوئے کہا کہ میں تجھ سے مال و دولت میں کافی بڑھا ہوا ہوں، میرے پاس تجھ سے زیادہ مال و دولت ہے، اولاد ہے، نوکر چاکر ہیں اور عزت وجاہ وحشم ہے، اس کے بعد وہ تکبر کرتے ہوئے اپنے باغ میں گیا اور وہاں کی سرسبزی و شادابی کو دیکھ کر غرور میں آکر کہنے لگا کہ یہ ناممکن ہے کہ میرا باغ اور اس کی یہ شادابی کبھی فنا ہو سکے اور میرے خیال میں قیامت کبھی نہیں آئے گی اور اگر بالفرض قیامت آئی بھی اور میں اپنے رب کے پاس لوٹایا بھی گیا تو مجھے وہاں اس سے بہتر عطاء کیا جائے گا۔ *اللہ کو اور اپنی حقیقت نہ بھولیں* جب اس مومن شخص نے اس کی یہ متکبرانہ گفتگو سنی تو اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ تجھے یہ کہنا ہرگز زیب نہیں دیتا، تو اپنے اس رب کی قدرت کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی اور نطفہ سے پیدا کیا، تجھے تو یہ چاہیے تھا کہ جب تواپنے باغ میں داخل ہوتا تو اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتا اور ماشاء اللہ لا قوة اِلا باللہ کہتا اور جہاں تک رہی تیری یہ بات کہ میں مال ودولت اور اولاد کے لحاظ سے تم سے کمتر ہوں، تو مجھے اس کا کوئی غم نہیں، مجھے اپنے رب سے امید ہے کہ وہ مجھے ان سے بہتر نعمتیں عطاء فرمائے گا اور جس باغ پر تو یوں اِترا رہا ہے، اسے تباہ کرنا اللہ رب العزت کے لیے کوئی مشکل نہیں، وہ اگر چاہے تو اس پر آسمان سے کوئی آفت اتار دے یا اس باغ کا پانی خشک کر دے، جس سے تمہارا باغ سوکھ کر ویران ہو جائے گا، اس لیے آپ اس پاک پروردگار کی طرف رجوع کرو اور تکبر و کفر سے باز آؤ۔ مومن شخص کے اس وعظ و نصیحت کو سن کر بھی وہ شخص اپنی روِش سے باز نہ آیا اور کفر وتکبر پر ڈٹا رہا، چنانچہ اللہ رب العزت نے اس کے باغ اور تمام مال و دولت کو غارت فرما دیا اور وہ اپنے مال کی بربادی پر کف ِافسوس ملتا رہ گیا، اور اس وقت اس نے آرزو کی کہ اے کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ شرک نہ کیا ہوتا، افسوس کوئی بھی اس کے کام نہ آیا، مال وجائیداد، اولاد اور نوکر چاکر سب ختم ہو گئے، اس سے ثابت ہوگیا کہ سارے اختیارات صرف اللہ رب العزت کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر) *دنیا کی ناپائیداری کی ایک اور مثال* آیت نمبر 45 سے 49 میں اللہ رب العزت نے دنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی کی ایک عام اور سادہ سی مثال بیان فرمائی ہے کہ جیسے بارش کا پانی زمین میں جذب ہوتا ہے اور اس سے زمین میں ہریالی آجاتی ہے اور پودے وغیرہ لہلہانے لگتے ہیں، پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ ہریالی ختم ہو جاتی ہے اور پھول بوٹے خشک ہو کر چورا چورا ہو جاتے ہیں، جنہیں ہوا اڑائے پھرتی ہے، یہی حال دنیا کا ہے کہ آج تو ہری بھری اور بارونق نظر آتی ہے مگر ایک وقت آئے گا کہ اس کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا۔ یہی فکر اور دنیا کی بے ثباتی پر یقین مال کے فتنہ کا علاج ہے۔ باقی رہنے والے صرف اعمال دنیا اپنی تمام تر نعمتوں اور رونقوں کے ساتھ ختم ہو جائے گی، دنیا کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، مال اور اولاد بھی دنیا کی نعمت اور دنیوی رونق کا باعث ہیں، انہیں بھی ایک دن یہیں رہ جانا ہے، البتہ نیک اعمال کا ثواب اور اجر باقی رہنے والاہے، ان کی وضاحت ایک حدیث مبارک میں کی گئی ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باقیات صالحات کو زیادہ سے زیادہ جمع کیا کرو، عرض کیا گیا کہ وہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ لا الہ الا اللہ الحمد للہ اللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ کہنا (شعب الایمان) اسی طرح ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ کلمہ یعنی سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر میرے نزدیک ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔(صحیح مسلم) بعض مفسرین کرام کے نزدیک ان باقی رہنے والے اعمال میں پانچ وقتی نماز اور دوسرے تمام نیک اعمال بھی شامل ہیں۔ (معارف القرآن) *قیامت کی ہولناکی* اس کے بعد اللہ رب العزت نے قیامت کی ہولناکی اور اس کے چند مناظر بیان فرمائے کہ اس دن پہاڑ چلا دیے جائیں گے اور زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی جس سے وہ مکمل طور پر ظاہر ہو جائے گی، اللہ رب العزت تمام اولین وآخرین کو جمع فرمائیں گے، سب اللہ رب العزت کے سامنے پیش ہوں گے، اس وقت ان کی حالت یہ ہوگی کہ خالی ہاتھ، ننگے پاؤں، ننگے بدن پیدل چلتے ہوئے باری تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے اور سب سے پہلے جس کو لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے، حدیث پاک میں ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تو امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا سب مرد وعورت ننگے ہوں گے اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے؟ آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا اس روز ہر ایک کو ایسی فکر گھیرے ہوئے ہوگی کہ کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا خیال ہی نہیں آئے گا، سب کی نظریں اوپر اٹھی ہوئی ہوں گی۔(صحیح بخاری) پھر اللہ رب العزت ہر ایک کو ان کا نامہ اعمال پیش فرمائیں گے، جب کفار و مجرمین اس اعمال نامے کو دیکھیں گے تو افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ اس کتاب نے تو ہمارا کوئی عمل نہیں چھوڑا، ہمارے سارے کرتوت سامنے لا کر رکھ دیے، پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا اور سزا ملے گی اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ *اِبلیس جِنات میں سے* آیت نمبر 50 سے 54 میں اللہ رب العزت نے نہایت اجمالی طور پر تخلیق آدم کے موقع پر شیطان کی عداوت اور بغض کو بیان کرنے کے ساتھ انسان کو اس کی پیروی کرنے سے باز رہنے کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا جب ہم نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کے موقع پر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں تو وہ سب سجدہ میں گر پڑے لیکن ابلیس جو کہ جنات میں سے تھا، اس نے بغض و عناد کی وجہ سے سجدہ نہ کیا اور اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی اور کھلم کھلا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد سے دشمنی کا اعلان کر دیا، کیا اب بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست سمجھتے ہو اور اللہ رب العزت کی فرمانبرداری چھوڑ کر شیطان کی اطاعت کرتے ہو، یہ تو سراسر بے وقوفی اور نری حماقت ہے۔ اس لیے اس کی پیروی چھوڑ کر اللہ رب العزت کی طرف لوٹ آؤ، وگر نہ قیامت کے دن تمہارے یہ جھوٹے معبود تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے اور تمہیں جہنم کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔ *سب سے بڑا ظالم کون؟* آیت نمبر 57 سے 59 میں اللہ ر ب العزت نے سب سے بڑے ظالم کی پہچان بیان فرمائی ہے یہ وہ شخص ہے جس کے سامنے اللہ رب العزت کی آیات پڑھ کر اس کو نصیحت کی جائے اور حق کی طرف اسے بلایا جائے، لیکن وہ اس بلاوے کو ٹھکرا کر حق سے منہ موڑ لے اور اپنے گناہوں کے نتیجہ کو بھول جائے اور دن رات گناہوں میں غرق رہے جس کی وجہ سے اس کے دل میں حق قبول کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جائے اور وہ ہمیشہ کے لیے گمراہی اور ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پڑا رہ جائے، اس شخص سے زیادہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے لیے ہمیشہ کی کامیابی کو چھوڑ کر دائمی خسارہ کو قبول کر لیا ہے۔ اور یہ بھی اس رب کا کرم اور احسان ہے کہ ان ظالموں کے اعمال اور معاصی سے باخبر ہونے کے باوجود ان پر عذاب نازل نہیں فرماتا، بلکہ انہیں مہلت اور ڈھیل دیے رکھتا ہے کہ شاید ان کو ہوش آجائے اور یہ راہِ حق قبول کر لیں تو ان کی مغفرت کر دی جائے، ورنہ ان کے اعمال تو اس قابل ہیں کہ ان پر فوری عذاب نازل ہو جائے اور یہ سب تباہ وبرباد ہو جائیں، لیکن قربان جائیں اس کے کرم پر کہ انہیں اپنی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھتا بھی ہے اس کے باوجود ان پر اپنی نعمتوں کے دروازے بند نہیں فرماتا۔ *(جاری ہے)*

https://youtu.be/8PZo3Yirj3Q?si=ivmqhhRRCqTMvw23