Molana zubair ahmad siddiqiui  WhatsApp Channel

Molana zubair ahmad siddiqiui

1.0K subscribers

About Molana zubair ahmad siddiqiui

مواعظ وتحریرات الشیخ مولانازبیراحمدصدیقی دامت برکاتھم

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
6/20/2025, 8:17:58 AM

*سلسلۂ نقوشِ قرآن* *سورت الکہف ( دسویں اور آخری قسط )* *شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *یاجوج ماجوج کب نکلیں گے* ؟ اس کے بارے میں یہ جان لیں کہ قربِ قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یاجوج ماجوج کا خروج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے انہیں اس درے کے پیچھے تک محدود کر رکھا ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور دجال کے قتل ہو جانے کے بعد نکلے گی۔ مسندِ احمد، سنن اِبن ماجہ اور جامع ترمذی میں ہے کہ یاجوج ماجوج ہر روز اس دیوار کو کھودتے رہتے ہیں، قریب ہوتا ہے کہ یہ آہنی دیوار ختم ہو جائے لیکن یہ لوگ یہ کہہ کر واپس چلے جاتے ہیں کہ اس بقیہ حصہ کو کل ختم کر دیں گے، صبح جب واپس آتے ہیں تو مِن جانب اللہ یہ دیوار پھر سے ویسے ہی ٹھیک اور مضبوط بنی ہوئی ہوتی ہے۔ درستگی کا یہ سلسلہ تب تک چلتا رہے گا جب تک اللہ پاک کی منشاء ان کو بند رکھنے کی ہو گی۔ اللہ پاک نے ان کے ذہنوں کو اس طرف متوجہ ہی نہیں ہونے دیا کہ یہ دِن رات، اس دیوار کی کھدائی کرتے رہیں یا نکلنے کا کوئی اور راستہ تلاش کریں۔ جب اللہ تعالیٰ ان کو کھولنے کا ارادہ فرمائیں گے (یہ کب ہوگا؟ قربِ قیامت میں یا اس سے پہلے؟ کوئی صراحت نہیں ہے۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ ان کا عالمگیر حملہ نزولِ عیسیٰ کے بعد ہی ہوگا) تو اس دن شام کو واپس جاتے ہوئے یہ کہیں گے کہ ان شاء اللہ! کل ہم اس دیوار کو پار کر لیں گے۔ تو اگلے دن وہ اس دیوار کو اسی حالت میں پائیں گے جیسا وہ چھوڑ گئے تھے، اس دن دیوار درست نہیں ہو گی۔ یاجوج ماجوج دیوار توڑ دیں گے اور باہر نکل آئیں گے اور اتنی تعداد میں ہوں گے کہ پوری روئے ارض پر چیونٹیوں کی طرح پھیل جائیں گے، وسائل ختم کر دیں گے، پانی کی ندیوں کی ندیاں خالی کر دیں گے، ان کی قتل وغارت گری کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا۔ لوگ اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ قلعوں اور پناہ گاہوں میں چھپ جائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اپنے ساتھیوں کو لے کر اللہ کے حکم سے کوہِ طور پر چڑھ جائیں گے۔ بالآخر اہل ایمان اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے لیے بد دعا کریں گے، ان کی بد دعا سے ان کو کوئی وبائی بیماری لاحق ہو گی جس سے یہ سب کے سب مر جائیں گے، زمین پر ایک بالشت برابر بھی جگہ ان کی لاشوں سے خالی نہ ہوگی۔ پھر اللہ پاک اونٹ کی گردنوں جیسی گردن والے بڑے بڑے پرندے بھیجیں گے جو اُن کو اٹھا کر لے جائیں گے، پھر خوب بارش ہوگی جس سے پوری زمین دھل کر بالکل صاف ہو جائے گی، پھر اللہ کی طرف سے برکتوں کا نزول ہو گا، انار اتنا بڑا ہو گا کہ لوگ اس کے چھلکے کو چھتری کے طور پر استعمال کریں گے۔ ایک انار ایک جماعت کے لیے کافی ہو جائے گا،ایک بکری کے دودھ سے ایک گھرانہ سیر ہو جائے گا،اتنی زیادہ برکت ہو گی۔(مسلم شریف بحوالہ معارف القرآن) *سدِ ذوالقرنین* حضرت ذوالقرنین کی تعمیر کردہ یہ دیوار کہاں ہے ؟ اور یاجوج ماجوج کون سی قوم ہے؟ اس بارے میں جاننا ضروری ہے اور نہ ہی قرآنی آیات کا سمجھنا اس پر موقوف ہے۔ مختلف حضرات نے اپنی اپنی تحقیقات بیان کی ہیں جو صرف اندازے ہی ہیں۔ یقینی علم اللہ پاک کو ہے۔ *اِعتراض* بعض لوگ ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے ساری دنیا چھان ماری ہے، ایسی کوئی دیوار موجود ہی نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو اب تک مخفی نہ رہتی۔ *جواب* اس کے دو جواب ہیں: سائنسی معراج کے باوجود دنیا کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جو اب تک دریافت نہیں ہوئیں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جو اب بھی دریافت ہو رہی ہیں ،آج بھی بہت سے جنگل،جزیرے ایسے ہیں جن کی حقیقتوں کا علم نہیں ہو سکا۔ آسٹریلیا کے سمندر میں ایک دیوار ہے جو تقریباً بارہ سو میل لمبی اور ایک ہزار ہاتھ چوڑی ہے ،وہ ابھی سو، ڈیڑھ سو سال پہلے دریافت ہوئی، ابھی بھی ایک جزیرہ ایسا ہے (امریکی ریاست فلو ریڈا کے قریب اسے برمودا ٹرائی اینگل یعنی مثلث تکون کہا جاتا ہے) جہاں کوئی بھی چیز جائے تو وہ گم ہو جاتی ہے،اس علاقے میں کئی ہوائی اور بحری جہاز گم ہو گئے ہیں، پچھلے سالوں میں ملائیشیا کا ایک جہاز گم ہوا تھا، جس پر ایک تجزیہ یہی تھا کہ وہ اس جزیرے میں چلا گیا ہے جو ابھی تک نہیں ملا، یہ جزیرہ ابھی تک ایک راز ہے۔ کسی کو یقینی علم نہیں کہ وہاں کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دجال وہاں ہو، کیونکہ دجال کسی جزیرے میں چھپا بیٹھا ہے۔ بہرحال! ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر یہ دعویٰ کرنا درست نہیں۔ ابھی بھی کائنات میں بہت سے سربستہ راز موجود ہیں۔ - یہ دیوار چونکہ دو پہاڑوں کے برابر بنائی گئی تھی،اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ پہاڑوں کے باہم مل جانے کی وجہ سے اب یہ دیوار بھی ایک پہاڑ ہی کی صورت اختیار کر چکی ہو،یہ عین ممکن ہے۔ بہرحال! اتنی بات یقینی ہے کہ وہ دیوار بنائی گئی تھی۔ باقی وہ دیوار تاقیامت باقی رہے گی یا نہیں؟ اس بارے میں کوئی نص ِ قطعی موجود نہیں ہے۔ دونوں طرف احتمالات موجود ہیں۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ یاجوج ماجوج نکلیں گے اور ان کا یہ انجام ہو گا۔ ان کا قصہ یہاں تمام ہوا۔ *سلطنت کا فتنہ اور اس کا علاج* سورت کے آخری رکوع میں سلطنت کے فتنے کا علاج، فکرِ آخرت اور اِخلاص کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ *گزشتہ سے پیوستہ* گزشتہ رکوع میں اللہ تعالیٰ کے وعدہ قیامت کا ذکر تھا،اسی مناسبت سے اس رکوع میں قیامت کے کچھ احوال بیان فرمائے جارہے ہیں۔ آیت نمبر 102۔ کفار ومشرکین نے دنیا میں مشکلات کے حل کے لیے مختلف کارساز، مددگار اور مشکل کشا بنا رکھے ہیں۔ روزِ محشر جب مشکل حالات درپیش ہوں گے تو ان کے سارے مزعومہ معبود اور خدا بے کار ثابت ہوں گے۔ ابھی ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ یہ غیر اللہ کو اپنا معبود سمجھتے ہیں جب کہ یہ ان کے ذرہ بھر بھی کام نہ آسکیں گے۔ ان کے لیے جہنم کی مہمانی تیار ہوگی۔ *سب ٹھاٹھ پڑا رِہ جائے گا* آیت نمبر 103۔ اس کے بعد خسارہ اور نفع مند طبقات کا بیان فرمایا کہ سب سے زیادہ خسارے میں وہ لوگ ہوں گے جن کی تمام محنت وکاوِش دنیا کی زندگی میں ہی ضائع ہو گئی اور وہ سمجھتے رہے کہ دولت،شہرت،منصب اور ڈگریوں کے بل بوتے پر وہ کامیاب ہیں۔ یہ تو آخرت میں معلوم ہوگا کہ یہ ساری کاوشیں برباد ہو گئیں۔ اصحابِ اقتدار کو بھی ان آیات کی روشنی میں اپنی آخرت کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور اپنے فیصلوں میں آخرت کو ضرور مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ ان شاء اللہ اس فتنے سے بچ جائیں گے۔ *رحمت ِخداوندی سے محروم لوگ* آیت نمبر 105- یہ لوگ کفار ہوں گے۔ ان کے اعمال کارتی برابر بھی وزن نہ ہوگا۔ اعمال کے ترازو میں ان کے اعمال بے وزن ہوں گے، کیونکہ اعمال میں وزن تبھی آئے گا جب ایمان ہوگا۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ *اللہ کے مہمان* دوسری طرف جو اہلِ ایمان ہوں گے،ان کی محنت وکاوش اور اعمالِ صالحہ انہیں نفع دیں گی اور وہ کامیاب ہو کر جنت کے محلات میں ہوں گے۔ *کلماتِ خداوندی کی وسعت* آیت نمبر 109۔ آخر میں توحیدِ خداوندی اور رِسالت ِنبوی کو بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمالات پر مبنی کلمات کو اگر تحریر میں لایا جائے تو اس کے لیے اگر تمام سمندروں کو سیاہی اور تمام درختوں کو کاٹ کر قلمیں بنالی جائیں تب بھی اللہ پاک کے کلمات ِکمالات ختم نہیں ہوں گے۔ *دلیلِ نبوت* آیت نمبر 110۔ سورت کے آخر میں فرمایا: یہ سارے واقعات میری نبوت کی دلیل ہیں، میں تمہارے منہ مانگے مطالبات پورے نہیں کر سکتا کیونکہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں، تمہارا ہم جنس ہوں۔ تم بھی انسان ہو اور میں بھی انسان ہوں۔ ہاں تمہارے اور میرے درمیان نبوت اور وحی کا فرق ہے۔ *آپ کی بشریت کا مطلب* آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عام انسانوں کی طرح مقام ومرتبہ رکھتے ہیں، حاشا وکلا ! ہرگز نہیں، عام انسانوں اور آپ میں فرق یُوحَیٰ اِلَیَّ سے کر دیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سے انسان ہیں لیکن شرف وکمال اور فرقِ مراتب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کے حقیقی مصداق ہیں۔ اس کو یوں سمجھا جائے کہ: *محمد بشر لا کالبشر کالیاقوت حجر لا کالحجر* آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا خلاصہ توحیدِ خداوندی اور آخرت کی تیاری ہے۔ لہٰذا سبھی لوگ نیک اعمال کریں اور شرک سے اجتناب کریں۔ یہی اس پوری سورت کا جوہر ہے۔ *سورت کا اِجمالی درس* سورة الکہف سے درج ذیل امور مستفاد ہوئے:- ایمان کو لاحق بیشمار خطرات میں سے چند خطرات کا تذکرہ کر کے ان سے حفاظت کا علاج تجویز فرمایا گیا ہے۔ اصحابِ کہف کے واقعہ کے ضمن میں ایمان پر اِستقامت اور اس کی برکات بیان کی گئی ہیں۔ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی بقاء کا بیان کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا قصہ بیان کرکے یہ سبق دیا گیا کہ اگر علم حاصل ہو جائے تو فطرت میں عاجزی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور علم کی مزید سے مزید تر تلاش وجستجو کی کوشش کی جائے۔ حضرت ذوالقرنین کے دنیوی اسفار اور ان کی خدا ترسی کو بیان کیا گیا ہے۔ آخری رکوع میں بتایا گیا ہے کہ ایک خدا کے پجاری بنو، جس کی عبادت اصحابِ کہف نے کی تھی، جس کی عبادت کی طرف اصحاب ِکہف نے بلایا تھا، اگر اللہ سے ملاقات پر یقین ہے تو نیک اعمال کر کے اس سے ملاقات کرنے جاؤ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لاؤ، اللہ کو خوش کر کے اس سے ملنے جاؤ اور شرک کرکے نہ جاؤ۔ *تمت سورة الکہفِ بعون اللہ سبحانہ وتعالیٰ*

❤️ 7
Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
6/20/2025, 8:17:51 AM
Post image
❤️ 1
Image
Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
6/21/2025, 2:57:23 AM
Post image
❤️ 👍 3
Image
Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
6/20/2025, 8:18:20 AM

الحمدللہ پندرہ پارے مکمل ہوگئے

❤️ 5
Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
6/19/2025, 3:07:19 AM
Post image
❤️ 🙏 10
Image
Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
6/20/2025, 4:22:32 AM
Post image
❤️ 🇵🇸 5
Image
Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
6/16/2025, 3:47:04 AM
Post image
❤️ 🤲 8
Image
Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
6/14/2025, 3:42:25 AM
Post image
❤️ 2
Image
Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
6/14/2025, 3:42:44 AM

*سلسلۂ نقوشِ قرآن* *سورت الکہف* *(نویں قسط)* *شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت نمبر 83 تا 85 ۔ آپ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کے بارے میں، آپ فرما دیجیے کہ میں پڑھ کر تمہیں سناتا ہوں کہ ذوالقرنین کا کیا قصہ تھا۔ *ذوالقرنین کا واقعہ* مشرکینِ مکہ نے تین سوالات کیے تھے: -روح کیا ہے ؟- اصحابِ کہف کا کیا قصہ ہے؟ -ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے ؟ اور وہ کون سا بادشاہ تھا جس نے پوری روئے ارض کاسفر کیا تھا؟ روح والے سوال کا جواب سورۂ بنی اسرائیل میں دیا گیا۔ پھر اصحابِ کہف کا واقعہ اسی سورت میں مذکورہ ہوا اور اب آخر میں ذوالقرنین کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ *ذو القرنین کا مختصر تعارف* : ذوالقرنین ایک نیک اور صالح بادشاہ تھے، قرنین، قرن کا تثنیہ ہے، قرن کا ایک معنی سینگ آتا ہے، یا تو ان کو ذوالقرنین اس لیے کہتے تھے کہ ان کی دو زلفیں تھیں، یا اس لیے کہتے تھے کہ قرن کا ایک معنی ہے کونہ۔ تو انہوں نے زمین کے دو کونوں کا سفر کیا، مشرق کا بھی سفر کیا اور مغرب کا بھی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابتداء میں ان کی دو سلطنتیں تھیں، ایک کردستان اور ایک عراق کی طرف۔ ذوالقرنین نے ان دونوں کے درمیانی علاقوں کو فتح کر کے اپنی سلطنتوں کو ایک کر دیا۔ واللہ اعلم *ذوالقرنین کا زمانہ* : کہتے ہیں کہ ذوالقرنین جن کا یہاں قرآن میں ذکر ہے، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہم عصر ہیں، اب اندازہ لگا لیں کتنے ہزار سال پہلے کی بات ہے اور حضرت خضر علیہ السلام ان کے وزیر تھے۔ یہ نیک دل اور صالح بادشاہ تھے۔ *چار عظیم بادشاہ* : بعض تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رُوئے ارض پر چار بادشاہ ایسے گزرے ہیں جنہیں عالمگیر حکومت ملی،پوری دنیا پر انہوں نے حکومت کی، ان میں سے دو مومن تھے اور دو کافر، جو دو مومن تھے ان میں ایک یہ ذوالقرنین اور دوسرے حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں اور جو دو کافر تھے ان میں سے ایک نمرود اور دوسرا بخت نصر تھا۔ *کیا سکندرِ اعظم ہی ذوالقرنین؟* حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً ساڑھے تین صدیاں پہلے ایک شخص گزرا ہے جس سے سکندر یونانی، سکندر رومی اور سکندر مقدونی وغیرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مشہور یونانی فلسفی ارسطواس کا استاد بھی تھا اور وزیر بھی۔ بعض لوگوں نے اسے قرآنی ذوالقرنین سمجھ لیا ہے جو سراسر غلط ہے۔ سکندر یونانی ایک آتش پرست اور مشرک شخص تھا جبکہ حضرت ذوالقرنین بالاتفاق نیک صالح اور مومن تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ ذوالقرنین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حج بھی کیا تھا۔ (تفصیل کے لیے معارف القرآن جلد 5 ملاحظہ فرمائیے)۔ *بہر کیف!* حضرت ذوالقرنین کو اللہ تعالیٰ نے معجزاتی اور کراماتی طور پر ہر طرح کے مال و اسباب سے نوازا تھا، اس زمانے میں انہیں ہر طرح کے وسائل میسر تھے اور قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان کو اللہ نے کوئی ٹیکنالوجی بھی عطاء کی تھی، کیونکہ ان کے بڑے بڑے کام ہیں، ذرائع سفر بھی انہیں میسر تھے، کیوں کہ انہوں نے روئے ارض کا سفر کیا۔ *تین عظیم سفر* آیت نمبر 86 تا 88 ۔ ذوالقرنین نے تین سفر کیے، پہلا سفر مغرب کی طرف تھا، دوسرا سفر مشرق کی جانب تھا،جب کہ تیسرے سفر کی جہت اگرچہ قرآن نے بیان نہیں فرمائی تاہم آبادی چونکہ شمال کی طرف زیادہ ہے،اس لیے بھی اور تاریخی شہادتوں کی وجہ سے بھی مفسرین کے نزدیک یہ سفر شمال کی طرف ہوا تھا۔ واللہ اعلم *پہلا سفر: مغربی سمت* پوری زمین کے حکمران تھے تو خیال آیا کہ چل کے دیکھیں تو سہی اپنی سلطنت کو کہ ہماری سلطنت میں لوگ کس طرح زندگی گزار رہے ہیں، سلطنت کیسی ہے؟ مغرب کی طرف چلتے گئے، چلتے گئے، یہاں تک کہ آبادی کے آخری حصے تک جا پہنچے، وہاں تک پہنچے کہ سامنے یوں لگ رہا تھا کہ سورج کیچڑ میں غروب ہو رہا ہے،جیسے آپ سمندر میں سفر کریں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سورج سمندر سے طلوع ہو رہا ہے، اور سمندر میں غروب ہو رہا ہے،تو چونکہ وہ زمین کا آخری کونہ تھا، اس کے آگے کیچڑ تھا اور پھر سمندر تھا، اسی لیے یوں لگا کہ سورج کیچڑ میں غروب ہو رہا ہے۔ یہاں ایک قوم آباد تھی جو کافر تھی، اس قوم کے بارے میں اللہ پاک نے ذوالقرنین کو یہ اختیار دیا کہ: یعنی یا تو انہیں ان کے کفر پر سزا دیں یا پھر احسان کا معاملہ فرمائیں۔ حضرت ذوالقرنین نے ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا اور فرمایا: ہم پہلے انہیں ایمان کی دعوت دیں گے۔ اگر ایمان لائیں گے تو ان کے ساتھ اچھائی کریں گے اور اگر کفر پر جمے رہے تو انہیں سزا دی جائے گی،جو ظلم کرے گا، کفر کرے گا اس کے لیے سخت عذاب اور جو ایمان لائے گا اس کے لیے اچھی جزا۔ *دوسرا سفر: مشرقی سمت* آیت نمبر 89 تا 91۔ پھر ذوالقرنین نے مال واسباب ساتھ لیا اور مشرق کی طرف سفر شروع کیا، جب مشرق کی طرف بالکل آخری کنارے پر پہنچے تو وہاں ایک ایسی قوم ملی جو بالکل بے پردہ تھی، اب بعض نے اس کا معنی یہ لیا ہے کہ ان کے گھر نہیں تھے، بلکہ وہ جنگلوں میں کھلے آسمان تلے رہتے تھے، وحشی قسم کے لوگ تھے اور بعض نے معنی کیا کہ وہ بے لباس تھے، ستر پوشی کا اہتمام نہیں کرتے تھے،کپڑے نہیں پہنتے تھے،چیتھڑوں سے ستر کو ڈھانپا تو ڈھانپ لیا، نہ ڈھانپا تو نہ ڈھانپا، اس قوم سے ذوالقرنین نے کیا معاملہ کیا؟ قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا، بظاہر جو مغرب میں بسنے والی قوم سے کیا تھا وہی ان سے بھی کیا ہوگا (کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ یہ دونوں قومیں کافر تھیں)۔ *تیسرا سفر: شمالی سمت* آیت نمبر 92 تا 101 ۔ پھر سامانِ سفر ساتھ لیا اور سفر شروع کر دیا، اب یہ سفر کس جانب تھا، قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا، لیکن مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ سفر شمال کی جانب تھا،سفر کرتے کرتے دو پہاڑوں کے درمیان ایک ایسے مقام تک پہنچے، جہاں ایسی قوم آباد تھی جو نہ صرف زبان نہیں سمجھتی تھی بلکہ وحشیانہ زندگی گزارنے کی وجہ سے سمجھ بوجھ سے بھی عاری تھی۔ *قوم کی عاجزانہ درخواست* بہر کیف! شاید کسی مترجم کے ذریعے اس قوم نے حضرت ذو القرنین سے ایک درخواست کی: یہاں (گھاٹی کے دوسری طرف) ایک قوم رہتی ہے جسے یاجوج ماجوج کہتے ہیں، وہ اس سر زمین میں فساد کرتی ہے، ہم آپ کو پیسے دیتے ہیں، خدا کے لیے آپ ان کے اور ہمارے درمیان کوئی آڑ اور رکاوٹ بنا دیجیے،کیونکہ یہ آکر ہمارے کھیتوں کو، ہمارے سامان ِخورد ونوش کو اور ہمارے پانیوں کو چاٹ جاتے ہیں،انہوں نے ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے، آپ ان کو دوسری طرف بند کر دیں۔ حضرت ذوالقرنین نے ان سے فرمایا کہ مجھے اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے، مجھے تمہارے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے، لیکن تمہیں افرادی قوت دینی ہوگی، وہ اس کے لیے تیار ہو گئے۔ *محیر العقول کارنامہ* قابلِ غوربات ہے کہ آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے کیا کمال انجینئرنگ دِکھائی حضرت ذوالقرنین نے،یہ قوم جہاں رہتی تھی وہاں دو پہاڑوں کے بیچ میں ایک درہ تھا، پہاڑ بہت اونچے تھے،پہاڑوں کو پاٹ کر یہ آنہیں سکتے تھے، درے سے آتے تھے، تو اب ان کو اس پار روکنے کے لیے یہ انجینئرنگ اختیار کی گئی کہ اس پہاڑی درے کو بند کر دیا جائے،اب درے کو کیسے بند کیا جائے، اتنا بڑا درہ ہے، تو حضرت ذوالقرنین نے ان سے فرمایا: میرے پاس لوہے کے تختے لے آؤ، وہ تختے لے آئے، پھر اس پورے درے پر لوہے کے تختے بچھا دیے اور درہ بند کرنے کے لیے اینٹ، پتھر کی جگہ لوہے کی ان چادروں کا استعمال کیا گیا۔ پھر فرمایا کہ اس پر آگ جلا دو، آگ جلائی گئی اور ان تختوں کو اتنا گرم کیا گیا کہ وہ تپ کر آگ کی طرح سرخ ہو گئے، اب فرمایا کہ تانبا لے آؤ، تانبا لایا گیا، اس کو پگھلا کر ان تختوں پر ڈال دیا تو یہ تانبا، اِن لوہے کے تختوں کے درمیانی خلا اور سوراخوں میں جم گیا اور ان کو مضبوط جوڑ دیا، یوں ایک بہت مضبوط دیوار قائم ہو گئی جسے سدِ ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔ دیوار کی تکمیل پر حضرت ذوالقرنین نے فرمایا کہ اس دیوار کو یاجوج ماجوج نہیں توڑ سکیں گے،اس کو پار کر سکیں گے اور نہ اس میں سوراخ کر سکیں گے، فرمایا کہ یہ میرے رب کی رحمت ہے، میرے رب کی عطاء ہے، لیکن ایک وقت آئے گا کہ جب یہ دیوار ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور میرے رب کا وعدہ پورا ہوگا۔ *یاجوج ماجوج کون ہیں* ؟ یاجوج ماجوج کے بار ے میں اتنی بات طے ہے کہ یہ عام انسانوں کی طرح انسان ہیں۔ جمہور محدثین ومؤرخین کے نزدیک یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے خونخوار اور جنگجو قبائل ہیں۔(معارف القرآن) بعض مفسرین نے دنیا کی بعض جنگجو قوموں کو اسی نسل میں سے بھی قرار دیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ محض تخمینہ ہے۔ حتمی علم اللہ پاک کو حاصل ہے۔اس لیے کسی خاص قوم کو اس کا یقینی مصداق قرار دینا مشکل ہے۔ *ان کی تعداد کتنی ہے* ؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے دس حصے کیے۔ان میں سے نو حصے یاجوج ماجوج کے ہیں اور باقی ایک حصے میں باقی ساری دنیا کے انسان ہیں۔ (مستدرک حاکم بحوالہ معارف القرآن) اس سے معلوم ہوا کہ یاجوج ماجوج کی تعداد ساری نسلِ انسانی سے بہت ہی زیادہ ہے۔ (ان کے بارے میں تفصیلی کلام کے لیے تفسیر معارف القرآن جلد 5، صفحہ 38 تا 48 ملاحظہ فرمائیں) *(جاری ہے)*

❤️ 3
Molana zubair ahmad siddiqiui
Molana zubair ahmad siddiqiui
6/14/2025, 3:42:15 AM

*سلسلۂ نقوشِ قرآن* *سورت الکہف (آ ٹھویں قسط )* *شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *کشتی کیوں توڑی؟* گزشتہ سے پیوستہ حضرت موسیٰ وخضر علیہماالسلام کی ملاقات کا واقعہ چل رہا ہے، آیت نمبر 79 میں حضرت خضر علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ فرما رہے ہیں کہ میں نے کرایہ نہ لینے والے لوگوں کی کشتی کا تختہ اس لیے توڑا تھا کہ آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر خوبصورت اور بے عیب کشتی چھین لیتا تھا، جبکہ ان غریبوں کو یہ بات معلوم نہ تھی۔ البتہ مجھے چونکہ اللہ نے تکوینیات کا علم دیا ہے، لہٰذا مجھے علم تھا کہ اگر یہ کشتی بے عیب رہی تو چھن جائے گی، اس لیے میں نے کشتی داغدار کرکے غریبوں کی خیر خواہی کی بد خواہی نہیں۔ احسان فراموشی کی بجائے احسان کا بدلہ احسان سے دیا۔ *بچے کو قتل کرنے کی حکمت* ؟ آیت نمبر 80, 81۔ بچے کو قتل کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ اس کے ماں باپ نیک تھے اور اللہ کے حکم سے مجھے پتا تھا کہ اس نے بڑے ہو کر کافر بننا ہے، مجھے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ بڑا ہو کر یہ اپنے نیک والدین کو تکلیف پہنچائے گا اور بیٹے کی محبت میں اس کے والدین کا ایمان بھی خطرے میں پڑ جائے گا، تو اس کے ماں باپ کی خیر خواہی میں کہ وہ ایمان پر رہیں، میں نے اس بچے کو قتل کیا اور ہمارا یہ بھی ارادہ ہوا (یعنی ہم نے اللہ پاک سے دعا کی-معارف القرآن) کہ اس بچے کے بدلے میں اللہ انہیں بہتر اولاد عطاء کر دیں گے، عمدہ اور نیک اولاد عطاء فرما دیں گے،اس لیے میں نے بچے کو قتل کر دیا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس بچے کے بعد اللہ نے ان ماں باپ کو ایک بچی دی، اس بچی کا نکاح ایک نبی سے ہوا اور وہ بچی ایک نبی کی ماں بنی، تو دو نبیوں سے اس کی نسبت ہو گئی اور بعض نے تو فرمایا کہ ستر(70) نبی اس کی نسل سے آئے۔ (روح المعانی) اللہ کے نبی نے اگر ایک بچے کو اللہ کے حکم سے قتل کیا، نبی کا معاملہ ہے نا اور نبی کوئی بھی کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہیں کرتے تو حضرت خضر کے اس فعل کے پیچھے یقیناً اللہ کا حکم ہو گا، جب نبی نے اللہ کے حکم سے اس بچے کو قتل کیا تو اللہ نے اس کے بدلے میں انہیں یہ بدلہ دیا۔ *دیوار درست کرنے کی وجہ* ؟ آیت نمبر 82۔ رہا دیوار کا معاملہ سو وہ معاملہ بھی بڑا گہرا اور تکوینی معاملہ تھا، وہ معاملہ یہ تھا کہ مرنے والا نیک آدمی تھا، اللہ کا ولی تھا، فوت ہونے سے پہلے اس نے سونے کی ایک تختی اپنے چھوٹے بچوں کے لیے جو اس وقت یتیم ہو رہے تھے،اس دیوار کے نیچے دبا دی تھی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو یہ سونے کی تختی اور خزانہ نکالیں گے اور خرچ کریں گے۔ دیوارکی حالت چونکہ خستہ تھی اس لیے میں نے یہ سوچا کہ اگر یہ دیوار خدا نخواستہ گر گئی تو کوئی ان بچوں کا یہ خزانہ اور یہ تختی کوئی چرا نہ لے، اس لیے یتیموں کی خیر خواہی میں اس دیوار کو ٹھیک کر دیا۔ اس نیک بندے کی خواہش اللہ تعالیٰ نے یوں پوری کی کہ اپنے نبیوں سے اس دیوار کی درستگی کرا کر حفاظت کا انتظام فرمایا۔ معلوم ہوا کہ بندے کے نیک اعمال کی وجہ سے اللہ پاک اس کی نسل، خاندان اور آس پاس کے مکانات کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔ (تفسیر مظہری) نیز نیکی کا اثر نسلوں میں بھی باقی رہتا ہے۔ *دیوار کے نیچے کون سا خزانہ تھا* ؟ کہتے ہیں کہ یہ ایک سونے کی تختی تھی اور اس پر چند چیزیں لکھی تھیں،سب سے پہلے تو اس تختی پر لکھا ہوا تھا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اس کے بعد نصیحت کے د رج ذیل قیمتی کلمات لکھے تھے:- تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے پھر بھی غمگین رہتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو اللہ کو رزاق سمجھتا ہے اس کے باوجود ضرورت سے زائد مشقت اٹھاتا ہے اور فضول کوششوں میں لگا رہتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو موت پر ایمان رکھتا ہے پھر بھی خوش و خرم رہتا ہے،ٹھٹھہ اور مذاق کرتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو قیامت پر ایمان رکھتا ہے پھر بھی غفلت برتتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا کے انقلابات کو جانتا ہے پھر بھی مطمئن رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس تختی پر یہ بھی لکھا تھا: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے صدیوں پہلے اس تختی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی مہر ثبت تھی۔ (معارف القرآن بحوالہ قرطبی) *یہ سب کام خدائی احکامات کے تابع* اس قصے میں حضرت خضر علیہ السلام نے یہ وضاحت بھی فرما دی: یہ سارے کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیے بلکہ اللہ کے حکم سے کیے،یہی تعبیر ہے ان کاموں کی جن کا آپ تحمل نہ کر سکے۔ *کیا حضرت خضر علیہ السلام اب بھی حیات* ؟ حضرت خضر علیہ السلام اب بھی حیات ہیں یا نہیں؟ قرآن وسنت میں اس بارے میں کوئی صراحت نہیں ہے۔ البتہ بعض روایات و آثار سے ان کی حیات اور بعض سے ان کی وفات بارے اقوال بیان کیے گئے ہیں۔اس سلسلے میں بعض حضرات کے کشف بھی منقول ہیں۔ تاہم چونکہ حضرت خضر علیہ السلام کی حیات یا انتقال سے ہمارا کوئی اعتقادی یاعملی مسئلہ متعلق نہیں ہے،اس لیے اس بارے زیادہ بحث کی بھی حاجت نہیں اور نہ ہی کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ضروری ہے۔ (مزید تفصیلات کے لیے تفسیر معارف القرآن، جلد: 5، صفحہ: 626 تا 626 ملاحظہ فرمائیں) *علمِ شریعت وعلمِ تکوین* یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایسا علم جسے حاصل کیے بغیر نہ تو اللہ پاک کی مرضی معلوم ہو سکتی ہو اور نہ اس پر عمل کیے بغیر اللہ کا قرب حاصل ہو سکتا ہو اسے علمِ شریعت کہتے ہیں۔انبیائے کرام اسی علم کو پہنچانے کے لیے مبعوث ہوئے اور اس پر آخرت کی کامیابی کا مدار ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس دنیا میں ہونے والے واقعات وحوادث کے پیچھے کار فرما وجوہات اور اسباب جاننے کا تعلق علمِ تکوین سے ہے۔ اس علم کے احکامات کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی تلاش کے درپے رہنے سے روحانی ترقی یا آخرت کی نجات موقوف ہے۔ ان تکوینی خدمات کے لیے عموماً فرشتے مقرر ہیں تاہم اللہ پاک نے انبیائے کرام میں سے بعض کو اس خدمت کے لیے متعین فرمایا ہے جن میں سے حضرت خضر بھی شامل ہیں اور چونکہ حضرت خضر علیہ السلام ان کاموں کو انجام دینے پر مامور تھے، اس لیے انہوں نے یہ کام کیے،لیکن اس کی وجہ سے نہ تو علمِ تکوینی کو علمِ شریعت پر فوقیت اور نہ ہی کسی شخص کو باطنی مصلحت کی وجہ سے شریعت کے ظاہری احکام کی خلاف ورزی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ *ایک مغالطہ* بعض نام نہاد صوفی اس واقعہ سے استدلال کرکے علمِ ظاہر اور علمِ باطن کا فرق کرتے ہیں اور اپنی خرافات اور خلافِ شریعت افعال کو علمِ باطن کا نام دے کر خدائی احکامات کی صریح خلاف ورزی کرکے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ علمِ تکوین اور علمِ باطن میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ علمِ تکوین: اس کائنات کے اندر پیش آنے والے واقعات کے حقیقی اسباب کا علم، علمِ تکوین ہے۔ علمِ باطن: نفسانی اخلاق کی اصلاح اور باطنی گندگیوں (مثلاً تکبر، حسد، حب ِجاہ، حب ِمال وغیرہ) کو دور کرکے اپنے ظاہر کو شرعی احکامات سے آراستہ کرنے کا نام علمِ باطن ہے اور یہ کسی طور پر بھی شرعی احکامات کے خلاف نہیں۔ لہٰذا اگر کوئی شخص بزرگی اور تصوف کے لبادے میں خدائی احکامات کو توڑتا پھرے اور علمِ باطن کا دعویٰ کرکے اپنی بدعملی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے تو ایسے نام نہاد ملنگ کو حزب الشیطان تو کہا جاسکتا ہے حزب اللہ اور اولیاء اللہ میں سے ہرگز نہیں سمجھا جاسکتا۔ *فرقہ باطنیہ* تاریخ ِاسلام میں ایک فرقہ گزرا ہے جسے باطنیہ اور فاطمیہ کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ بھی علمِ ظاہر اور باطن کا فرق بیان کرتا تھا۔ اس فرقے نے پوری شدت سے یہ دعویٰ کیا کہ ہر لفظ کے دو معنی اور مطلب ہوتے ہیں۔ایک ظاہری مطلب جو صرف عوام کو سمجھ آتا ہے اور دوسرا حقیقی اور باطنی معنی جو صرف اہلِ اسرار اور عقلاء کو سمجھ آسکتا ہے۔ اسی طرح قرآن وحدیث کے بھی کچھ ظواہر ہیں اور کچھ حقائق ہیں۔ جو شخص صرف ظاہری معنی میں گرفتار ہے صرف وہی شریعت کی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ جس کی رسائی اصل حقائق تک ہو جاتی ہے وہ شریعت کی ظاہری پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ تحقیقات کے چند نادر نمونے اس ضابطے کو بنیاد بنا کر اس فرقے نے قرآن وسنت کی ایسی من مانی باطنی تشریح کی کہ الامان والحفیظ، مثلاً جنابت سے مراد راز افشاء کر دینا ہے۔ غسل سے مراد تجدیدِ عہد ہے۔ طوفان ِنوح سے مراد علم کا طوفان ہے،جس میں اہلِ شہادت غرق کیے گئے۔ کعبہ خود نبی کی ذات ہے۔ جہنم علمِ ظاہر اور جنت علمِ باطن کا نام ہے۔ طہارت سے مراد مذہبِ باطنیہ کے علاوہ ہر مذہب سے برأت۔ صلوٰة سے مراد اِمام ِ وقت کی طرف دعوت۔ آتش ِنمرود سے مراد نمرود کا غصہ ہے۔ یاجوج ماجوج سے مراد اہلِ ظاہر ہیں۔ وغیرہ وغیرہ بعد کی صدیوں میں جن فرقوں نے بھی نبوتِ محمدی کے خلاف بغاوت کرنا چاہی انہوں نے باطنیت کے اسی حربہ کا سہارا لیا اور پورے اسلامی نظام کو مشکوک اور مجروح بنا دیا۔ ایران کی بہائیت اور ہندوستانی قادیانیت اس کی واضح مثالیں ہیں۔ (تاریخِ دعوت وعزیمت) مذکورہ واقعہ کی حکمتیں حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کے اس واقعہ کو بیان کرنے میں درجِ ذیل حکمتیں ممکن ہیں: - مشرکینِ مکہ چونکہ علمِ دین کے حصول کے لیے غریب اور مسکین صحابہ کے ساتھ بیٹھنے کو عار سمجھتے تھے،اس واقعہ سے انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ مقربینِ خدا تعالیٰ، حصولِ علم کے لیے کس قدر مشقت وتکالیف کا تحمل کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا حصولِ علم میں عار ہرگز محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ - یہ درس بھی مقصود ہے کہ علم کے دو چار ابواب پڑھ لینے، یا چند دنیوی معلومات کے حصول سے اپنے آپ کو کامل نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہر ظاہر کے پس ِپردہ بہت سے حقائق ہیں۔ اللہ پاک کے علم کے وسعت ہی ان حقائق کا ادراک کر سکتی ہے۔ نیز دنیا میں اہلِ حق کے ساتھ جو فقر، فاقہ اور مظلومیت کے احوال ہیں یہ صرف ظاہر ہیں۔ ان کے پس پردہ حقائق، ثمرات اور اثرات کا ایک جہاں ہے جو نظروں سے اوجھل ہے۔ اس لیے ان ظاہری مشکلات سے مایوس ہونے کے بجائے ان کے نسلوں تک جاری بہترین نتائج کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ (تبیان الفرقان ملخص) *(جاری ہے)*

❤️ 2
Link copied to clipboard!