Molana zubair ahmad siddiqiui
February 7, 2025 at 07:57 AM
*سلسلۂ نقوشِ قرآن*
حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب زید مجدہم*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*سورت کا تعارف*
یہ مکی سورت ہے، قرآنی ترتیب میں سولہ (16) اور نزول کے اعتبار سے ستر (70) نمبر پر ہے، جبکہ اس سورت کے سولہ (16) رکوع اور ایک سو اٹھائیس (128) آیات ہیں۔
*نام اور وجہ تسمیہ*
-نحل: نحل عربی زبان میں شہد کی مکھی کو کہتے ہیں، اس سورت میں اللہ رب العزت نے اپنے انعامات کا تذکرہ کرتے ہوئے شہد کی مکھی کا بھی ذِکر فرمایا ہے، اسی مناسبت سے سورت کا نام سور ہ نحل رکھا گیا ہے۔ -نِعم: نعم نعمت کی جمع ہے، چونکہ اس سورت میں اللہ رب العزت نے اپنی بہت سی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ہے، اس لیے اس سورت کو سورہ نعم بھی کہا جاتا ہے۔
*ماقبل سورت سے ربط*
گزشتہ سورت میں اللہ رب العزت نے اپنی قدرت کے چند دلائل بیان فرمائے تھے، اس سورت میں بڑی تعداد میں قدرت باری تعالیٰ کے نمونے اور اللہ رب العزت کی نعمتوں کا تذکرہ بیان کیا گیا ہے۔
*مرکزی موضوع*
اس سورت کا مرکزی موضوع اللہ رب العزت کی نعمتوں کا تذکرہ کر کے اس کی ربوبیت اور الوہیت کو ثابت کرنا ہے۔
*عمومی مضامین*
- اس سورت میں اللہ رب العزت کی دنیوی اوراخروی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
- سورت میں کفار کے ایمان نہ لانے کی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں۔
- سورت میں کچھ احکامِ شریعت (ہجرت، جہاد اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ) کا ذِکر بھی کیا گیا ہے۔
- مومنین اور اللہ رب العزت کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والوں کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمونہ پیش کیا گیا ہے۔
*وقوعِ قیامت کی اطلاع*
سورت کی ابتدائی 8 آیات میں اللہ رب العزت نے کفار کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جس عذاب اور قیامت کو یہ کفار ہر وقت مذاق اُڑاتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں وہ قیامت عنقریب واقع ہو جائے گی، اس لیے تم جلد بازی نہ کرو، بلکہ اس کفر اور شرک سے باز آجاؤ جس میں تم مبتلا ہو۔
*قدرتِ باری تعالیٰ کے نمونے*
اس کے بعد اللہ رب العزت نے اپنی قدرت کے دلائل بیان فرما کر ان میں غور وفکر کی دعوت دی ہے تاکہ ان میں غور وفکر کرکے توحید کو سمجھا جا سکے، چنانچہ ارشاد فرمایا: اللہ رب العزت نے آسمان و زمین جیسی بڑی مخلوقات پیدا فرمائی ہیں اور انسان کو ایک ناپاک پانی کے قطرہ سے پیدا فرمایا، پھر جب اس کو جوانی اور طاقت مل گئی تو وہ خود ہی اپنے خالق اور مالک پروردگار کی ذات وصفات میں جھگڑنے اور بحث کرنے لگا۔ اسی طرح جانوروں اور چوپاؤں کو بھی اللہ رب العزت نے پیدا فرمایا، جن کی تخلیق کا بڑا مقصد انسانوں کو نفع پہنچانا ہے اور انسانوں کو ان چوپاؤں سے مختلف منافع حاصل ہوتے ہیں، انسان ان کی اون سے اپنے کپڑے اور پوشاکیں تیار کرتا ہے اور ان کو ذبح کر کے ان کے گوشت کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے، ان کے دودھ کو استعمال کرتا ہے۔ نیز وہ جانور انسانوں کی شان و شوکت کے اظہار کے بھی کام آتے ہیں اور ان کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے بھاری سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے، بعض جانور مثلاً گھوڑے، خچر اور گدھے وغیرہ سواری اور بار برداری کے ہی کام آتے ہیں۔
*قرآن میں جدید اِیجادات کا ذِکر*
ان سب جانوروں اور چوپایوں کے تذکرہ کے بعد اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت ایسی چیزیں بھی پیدا فرمائے گا جنہیں تم نہیں جانتے، اس جملے میں وہ سب ایجادات شامل ہیں جن کا پرانے زمانہ میں کوئی تصور نہیں تھا لیکن آج ایجاد ہو چکی ہیں ،مثلاً بسیں، کاریں، ریل گاڑیاں اور ہوائی جہاز وغیرہ اور وہ سب بھی جو آئندہ کبھی ایجاد ہوں گی، کیونکہ ہر چیز کا حقیقی خالق اللہ رب العزت کی ہی ذات ہے، انسان تو محض اللہ رب العزت کی پیدا کی ہوئی دھاتوں میں اللہ رب العزت کی دی گئی عقل اور فہم کے ذریعے جوڑ توڑ کر کے ان کے مختلف پرزے بناتا ہے اور ان میں اللہ رب العزت کی بخشی ہوئی ہوا، پانی یا آگ سے کرنٹ پیدا کرتا ہے۔
*پروردگارِ عالم کی چند مزید نعمتیں*
آیت نمبر 10 سے 22 میں جو بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کا اپنے بندوں پر ایک انعام یہ ہے کہ اس نے ان کے فائدہ کے لیے آسمان سے پانی برسایا، جس سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں، وہ پانی انسان کے پینے کے کام آتا ہے اوراس پانی سے مختلف قسم کے درخت اور پودے پیدا ہوتے ہیں، جو انسان کے بھی استعمال میں آتے ہیں اور جانوروں کے بھی، اسی پانی سے کھیتی اور باغات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ رات، دن اور سورج و چاند کی گردش کا مرتب نظام اور جگمگاتے ستارے بھی اس کی قدرت کی بڑی نشانی ہیں، جس میں انسان کے نفع اور فائدہ کی بہت سی چیزیں پوشیدہ ہیں، زمین کی تہ میں موجود معدنیات اور مختلف رنگوں کے پہاڑ اس کی عظمت اور قدرت کے گن گاتے ہیں، اسی پاک ذات نے سمندروں اور دریاؤں کو انسان کے لیے مسخر کر دیا اور اس میں بڑ ی بڑی کشتیاں چلا دیں، جن پر انسان دور دراز کے سفر طے کرتا ہے، سمندر اور دریا سے مچھلی کی صورت میں تازہ گوشت حاصل کرتا ہے اور سمندر سے کئی قیمتی پتھراور جواہرات بھی نکلتے ہیں جس سے انسان متعدد منافع حاصل کرتا ہے۔
یہ سب اس پاک ذات کی قدرت کی نشانیاں ہیں جو ہر چیز کا خالق ہے، اس کے علاوہ بھی اس کی بے شمار نعمتیں ہیں جن کو شمار کرنا اور گننا کسی کے بس اور اختیار میں نہیں ہے، اس کے باوجود انسان خاص طور پر مشرک اور کافر انسان اس پاک پروردگار کا شکر ادا نہیں کرتا اور یہ نہیں سوچتا کہ جو ذات ان سب چیزوں کی پیدا کرنے والی ہو وہ اور پتھر کی بے جان مورتیاں کیسے برابر ہو سکتی ہیں؟ جن کو نہ کسی بات کا شعور ہے اور نہ ہی ادراک، وہ تو مردوں کی طرح خود محتاج ہیں، اگر وہ ذرا بھی غور وفکر کریں تو یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ اللہ رب العزت کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ اور اگر کوئی اتنی نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی اس پاک ذات کی وحدانیت پر ایمان نہیں لاتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے دل ہی پتھر ہو چکے ہیں اور حق قبول کرنے سے محروم ہو چکے ہیں۔
*نوٹ:-* آیت نمبر 21 تا 25 میں مشرکین کے جھوٹے خداؤں یعنی بتوں سے متعلق اعلان کیا گیا ہے کہ وہ بت خالق نہیں بلکہ مخلوق ہیں، آیت نمبر 21 کا انبیاء علیہم السلام کی قبورِ مطہرہ سے کوئی تعلق نہیں۔
*کفار کی دنیا اور آخرت میں رسوائی*
اللہ رب العزت نے اپنی نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد آیت نمبر26 سے 32 میں کافروں کے انجام کا ذِکر فرمایا جو ان نعمتوں کے باوجود حق تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم نہیں کرتے اور قرآن اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور انہیں ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں کی ہلاکت اور تباہی کے بارے میں آگاہ کر کے تنبیہ فرمائی، چنانچہ ارشاد فرمایا جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں انہوں نے بھی انبیاء علیہم السلام کے خلاف بڑی تدبیریں اور چالیں چلیں، لیکن اللہ رب العزت نے ان کی تمام تدبیروں اور چالوں کو ناکام فرما دیا، اس کے بعد ان پر دنیا میں بھی دردناک عذاب آیا جس سے وہ نشانِ عبرت بن کر رہ گئے اور آخرت میں بھی اللہ رب العزت انہیں ذلیل و رسوا کریں گے اور انہیں جہنم کی آگ میں جھونک دیں گے، جہاں انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا۔
*مومنین کا دنیوی واُخروی اِنعام*
اس کے برعکس جو لوگ دنیا میں اللہ رب العزت کے نازل کردہ قرآن پر ایمان لائے اور اس کے احکامات پر عمل کیا ان کے لیے دنیا میں بھی بھلائیاں ہیں اور آخرت کا اجر تو کہیں زیادہ ہوگا، وہاں وہ متقین ایسی جنتوں میں رہائش پذیر ہوں گے کہ جن کے درختوں اور عمارتوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور جس چیز کو ان کا جی چاہے گا وہ ان کو ملے گی اور موت کے وقت بھی جو فرشتے ان کی روح قبض کریں گے وہ انہیں سلام کہہ رہے ہوں گے۔ *(جاری ہے)*
❤️
3