
Molana zubair ahmad siddiqiui
February 14, 2025 at 06:57 AM
*سلسلۂ نقوشِ قرآن*
( *سورت نحل دوسری قسط* )
*شیخ الحدیث حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی دامت برکاتہم العالیہ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*کفار کا پہلا اِعتراض*
آیت نمبر 35 سے 40 میں اللہ رب العزت نے کفار کے دو شبہات ذِکر فرما کر ان کے جواب ارشاد فرمائے ہیں۔ کفا ر کا ایک اعتراض تو یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمارا کفر اور شرک ناپسند ہوتا تو ہم شرک کیوں کرتے؟ ہمارا شرک کرنا اس کی رضاء کی علامت ہے ورنہ وہ ہمیں شرک نہ کرنے دیتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کو ہمارا یہ فعل ناپسند نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ان کفار کا یہ اعتراض اور شبہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ ان سے پہلے والی قوموں نے بھی ایسے ہی اعتراض کیے تھے، حالانکہ یہ اعتراض بدیہی طور پر غلط ہے، کیونکہ اللہ رب العزت نے اس دنیا کا نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ انسان کو بالکل مجبور نہیں بنایا بلکہ اسے ایک حد تک با اختیار بنایا ہے اور اسی اختیار پر قیامت کے دن جزاء اور سزا دی جائے گی، اس لیے اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ ان کے اس اعتراض سے ذرا بھی غمگین نہ ہوں، آپ کے اور آپ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام کے ذمہ صرف ہمارا پیغام پہنچانا ہے، ان سے منوانا آپ کے ذمہ نہیں۔
*کفار کا دوسرا اِعتراض*
کفار کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں اور جو شخص مرجاتا ہے وہ دوبارہ کبھی زندہ نہیں ہوگا، اس کے جواب میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا تمہاری یہ بات سراسر غلط ہے، اللہ رب العزت ضرور سب کو زندہ کرے گا اور زندہ کرنے کے بعد ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ یعنی جزا اور سزا دے گا اور یہ اس کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے، کیونکہ جب وہ پاک ذات کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو اسے صرف کن کہنا ہی کافی ہوتا ہے اور وہ کام ہوجاتا ہے۔ تو جس ذات کی قدرت اتنی کامل ہو اس کے لیے کسی بے جان چیز کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہوگا؟
*ہجرت کی فضیلت اور اجر*
ہجرت کا معنی ہے: اپنا وطن چھوڑنا، اگر کسی جگہ مسلمانوں کو اپنے اسلامی عقائد اور عبادات پر عمل کرنے میں دشواری کا سامنا ہو تو وہاں کے مسلمانوں کو کسی ایسی جگہ کی طرف ہجرت کرنی چاہیے جہاں ان کے لیے اسلامی احکام کو برقرار رکھنے اور اس پر عمل کرنے میں آسانی ہو، چونکہ اپنا وطن چھوڑ کر کسی دوسرے دیس جا بسنا نہایت مشکل کام ہے، اس لیے جو شخص محض اسلام کی خاطر اپنا گھر اور وطن چھوڑ ے اس کا اللہ رب العزت کے نزدیک بڑا مقام ہے، اللہ رب العزت نے ان آیات میں اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں ہجرت کرتے ہیں انہیں دنیا میں بھی اللہ رب العزت اچھا ٹھکانہ عطاء فرماتے ہیں اور آخرت کے بے حساب اجر وثواب کا بھی کوئی حساب نہیں ہے۔
*کفار کا تیسرا اِعتراض*
کفار و مشرکین مکہ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ چونکہ آپ علیہ الصلوٰة والسلام بشر اور انسان ہیں، اس لیے آپ اللہ کے رسول نہیں ہو سکتے، کیونکہ کوئی بشر اور انسان نبی یا رسول نہیں ہو سکتا، اللہ رب العزت نے ان کے اس خیال کی تردید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ علیہ الصلوٰة والسلام سے پہلے بھی جتنے انبیاء ورسل دنیا میں بھیجے وہ سب کے سب بشر ہی تھے، لیکن چونکہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے اور اللہ رب العزت انہیں معجزات اور کتابیں بھی عطا ء فرماتے ہیں، اس لیے ان کا درجہ عام انسانوں سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے، کوئی عام بشر ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ پھر کفار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اگر تمہیں اس بات پر یقین نہیں کہ پہلے انبیاء بھی بشر تھے تو اہل علم سے پوچھ لو جن کو ان انبیاء کے حالات کا علم ہے، وہ تمہیں بتائیں گے کہ انبیائے سابقین علیہم السلام بھی بشر ہی تھے۔
*ائمہ اربعہ کی تقلید واجب*
آیت نمبر 43 میں اللہ رب العزت نے ایک اہم ضابطہ بیان فرمایا کہ جو لوگ احکام نہیں جانتے وہ جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کریں اور ان نہ جاننے والوں پر فرض ہے کہ جاننے والوں کے بتائے ہوئے کے مطابق عمل کریں، اسی کا نام تقلید ہے، یہ قرآن کا واضح حکم ہے اور عقل کے بھی عین مطابق ہے، امتِ محمدیہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے آج تک بغیر کسی اختلاف کے اسی ضابطہ پر عمل ہوتا آیا ہے کہ جن حضرات کو اللہ رب العزت نے شریعت کے اصول و ضوابط سمجھنے کا خاص ذوق اور منصوص احکام سے غیر منصوص احکام کو قیاس کر کے حکم نکالنے کا خاص سلیقہ عطاء فرمایا تھا اور جنہیں عربی زبان و عربی محاورات، نیز قرآن و سنت سے متعلق تمام علوم کا معیاری علم اور تقویٰ کا خاص مقام حاصل تھا، مختلف اور مجتہد فیہ مسائل میں ان حضرات کی تقلید کی گئی اور ان کی تحقیق پر اعتماد کیا گیا اور یہی طریقہ درست اور حق کے زیادہ قریب ہے۔
*جملہ احادیث حجت ہیں*
مذکورہ بالا آیات میں اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ پر قرآنِ کریم نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو کھول کر واضح فرما دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہی بیانِ قرآن اور تفسیر و تشریح قرآنِ کریم کے لیے ہوئی، لہٰذا جو کچھ آپ نے بیان فرمایا وہ سب بھی حجت اور قرآنِ کریم کی تفسیر و وضاحت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر قرآنِ کریم کا سمجھنا ناممکن ہے۔ اس لیے کہ قرآنِ کریم اجمال اور حدیث اس کی شرح ہے، قرآنِ کریم صامت اور خاموش ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ ناطق یعنی بولنے والے قرآن ہیں۔ اہل اسلام کا احادیث کی حجیت پر اتفاق و اجماع ہے۔
*کفار کو تنبیہ*
کفار کے اعتراض کا جواب دینے کے بعد اللہ رب العزت نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ اگر تم اپنی اسی روِش پر برقرار رہے اور کفر وشرک کو نہ چھوڑا تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا میں ہی اللہ رب العزت تم پر عذاب نازل فرما دے اور تمہیں زمین میں دھنسا دے یا کسی ایسے موقع سے تم پر عذاب نازل کر دے جہاں تمہیں گمان بھی نہ ہو، جیسے غزوۂ بدر میں بے سرو سامان مسلمانوں کے ہاتھوں ان کو ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان پر چلتے پھرتے کوئی آفت نازل ہو جائے، یا کوئی ایسی بیماری آپڑے جو ان کو آہستہ آہستہ ہلاکت کے منہ میں دھکیل دے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اللہ تعالیٰ کے آئے ہوئے عذاب سے بچ نہیں سکیں گے۔
*کفار سے اللہ رب العزت کا شکوہ*
آیت نمبر 53 سے 60 میں اللہ رب العزت نے کفار سے شکوہ کیا ہے کہ تمہیں جو بھی نعمتیں ملی ہیں وہ سب اللہ رب العزت کی ہی عطاء کردہ ہیں اور اگر کوئی تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بھی اللہ رب العزت کی ہی طرف سے ہے اور تم بھی تکلیف کے وقت اسے ہی پکارتے ہو، لیکن جب اللہ رب العزت تمہاری پکار پر اس تکلیف کو دور فرمادیں تو تم اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانے لگتے ہو اور کہتے ہو کہ فلاں بت نے ہم سے تکلیف دو رکی، یہ طریقہ نہایت ناشکری اور نمک حرامی والا ہے، اس سے باز آجاؤ وگرنہ تمہیں اس کا انجام بھگتنا پڑے گا۔
ایک مشرکانہ فعل یہ بھی ہے کہ یہ اللہ ر ب العزت کے دیے گئے رزق میں سے غیراللہ اور معبودانِ باطلہ کا حصہ رکھتے ہیں، مثلاً بتوں کے نام پرجانور قربان کرنا یا چڑھاوے چڑھانا وغیرہ، جس کے بارے میں ان سے قیامت کے روز اللہ رب العزت ضرور باز پرس فرمائیں گے۔ غیر اللہ کے نام پر نیاز دینا یا جانور ذبح کرنا شرک فعلی ہے، قرآنِ کریم نے شرکِ قولی کے ساتھ شرکِ فعلی کی بھی تردید کی ہے۔
نیز ان کے شرک کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ مشرکین اللہ رب العزت کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں، جبکہ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ اپنے لیے تو بیٹے پسند کرتے ہیں اور اگر ان میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خبر ملے تو اس قدر ناراض اور پریشان رہتے ہیں کہ ان کا چہرہ بے رونق اور سیاہ لگتا ہے اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے اور بیٹی کی پیدائش کو عار سمجھ کر لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس بیٹی کو اپنے پاس رکھ کر ذلت برداشت کروں یا اس کو زندہ مٹی میں دفن کر دوں۔ مقام ِافسوس ہے کہ جس چیز کو اپنے لیے باعث ِعار سمجھتے ہیں(حالانکہ حقیقتاً وہ باعثِ عار نہیں ہے) اسے اللہ رب العزت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ رب العزت ان کی اس بکواس سے بالکل پاک ہے۔ *(جاری ہے)*
❤️
2