
Malik Haider Ali
February 15, 2025 at 08:22 AM
*`خلافت راشده`*
*👈🏻حضرت ابو بکر صدیق رضی الله*
قسط نمبر ۔۔۔(1)
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے قدیم رفیق اسلام کے سب سے پرانے جان نثار، محرم اسرار نبوت، ثانی اثنین فی الغار حضرت ابو بکر صدیقؓ ، آپﷺ کے جانشین منتخب ہوئے ۔ آپ کا نام عبداللہ کنیت ابو بکر، صدیق اور عقیق لقب ہے۔ والد کا نام ابوقحافہ تھا۔ آپ قریش کی شاخ بنی تیم سے تعلق رکھتے تھے۔ چھٹی پشت پر آپ کا نسب آنحضرت ﷺ سے مل جاتا ہے۔ آپ کا گھرانہ زمانہ جاہلیت سے نہایت معزز چلا آتا تھا۔ قریش کے نظام سیاسی میں خون بہا کے مال کی امانتداری کا عہدہ آپ ہی کے گھر میں تھا۔ اسلام سے پہلے حضرت ابو بکر ؓ کا شغل تجارت تھا۔ آپ ابتدا ہی سے سلیم الفطرت تھے چنانچہ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ کا دامن اخلاق عرب کے کے عام مفاسد سے بالکل پاک رہا اور اسی زمانہ کے لوگوں پر آپ کے کے حسن اخلاق راست بازی اور متانت و سنجیدگی کا سکہ بیٹھا ہوا تھا اور شرفائے مکہ میں آپ بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ سے
آپ تقریباً آنحضرت ﷺ کے ہم عمر تھے۔ طبیعت کی یکسانیت کی وجہ سے بچپن ہی سے دونوں میں گہرے تعلقات و روابط پیدا ہو گئے تھے۔ ان روابط کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کے اخلاق و سیرت سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جس وقت سب سے پہلی مرتبہ اسلام کی دعوت دی تو حضرت ابو بکر ؓ نے بغیر کسی شک و شبہ کے اس کی تصدیق کی ۔ قبول اسلام کے بعد وہ اسلام کی تبلیغ میں آنحضرت ﷺ کے دست راست بن گئے اور راہ اللہ میں جان و مال اور عزت و آبرو سب شمار کر دی اور میدان جان شماری میں کوئی دوسرا صحابی آپ سے بازی نہ لے جاسکا ۔ بعض مواقع پر گھر کا سارا سامان اللہ کی راہ میں دے دیا۔ جب آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کچھ اہل و عیال کے لیے بھی چھوڑا ہے تو عرض کیا ان کے لیے اللہ اور اس کا رسول کافی ہیں۔ںیہن
کسی صحابی کی اسلامی خدمات آپ کے برابر نہیں ہیں۔ ان کی مختصر فہرست یہ ہے:
قریش کے سن رسیدہ لوگوں میں سب سے اول اسلام قبول کیا اور مکہ کی پر خطر اور مظلومیت کی زندگی کے ہر مرحلہ میں آنحضرت ﷺ کے پشت پناہ رہے۔ تبلیغ اسلام میں آپ ﷺ کی رفاقت کرتے جہاں حضور ﷺ تشریف لے جاتے ساتھ جاتے اور اپنے جاننے والوں سے آپ ﷺ کا تعارف کراتے۔
حضرت عثمان حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت ابو عبیدہ بن جراح حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہھما جیسے اکابر اور اساطین اسلام آپ ہی کی کوششوں سے مشرف با اسلام ہوئے ۔ کفار کے ظلم و جور کے مقابلہ میں سینہ سپر رہے۔ حضرت بلال ، عامر بن فہیرہ اور متعدد غلاموں کو جو اسلام کے جرم میں اپنے مشرک آقاؤں کے ظلم و جور کا نشانہ تھے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ ہجرت کے بعد جب آنحضرت ﷺ نے مسجد کی تعمیر کا ارادہ فرمایا تو اس کی زمین کی قیمت جو دو یتیموں کی ملکیت تھی حضرت ابوبکر ؓ نے ادا کی۔ اس طرح مدینہ میں سب سے پہلا اللہ تعالیٰ کا گھر حضرت ابو بکر ؓ کی مدد سے تعمیر ہوا۔
غزوات میں بدر، احد ،بنی مصطلق ،حدیبیہ ،خیبر، فتح مکہ، حنین و طائف وغیرہ تمام معرکوں میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور سب میں نمایاں اور ممتاز خدمات انجام دیں۔ حدیث سیرت اور طبقات کی کتابوں میں اس کی تفصیل ہے۔
9ھ میں امارت حج کا منصب تفویض ہوا ۔ غرض آغاز اسلام سے لے کر وفات نبویﷺ تک ہر مرحلہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے آنحضرت ﷺ کی جان نثارانہ رفاقت کی۔ آپ ﷺ پر ان کی ان قربانیوں کا اتنا اثر تھا کہ فرماتے تھے *"کہ جان و مال کے لحاظ سے مجھ پر ابو بکر سے زیادہ کسی کا احسان نہیں ہے"۔* اس رفاقت اور خدمات کی بنا پر صحابہ کرام کی جماعت میں حضرت ابو بکر ؓ اسلام کے سب سے بڑے محسن اور اسرار نبوی کے محرم تھے۔ اس لیے وہ قدرتاً نیابت نبویﷺ کے سب سے زیادہ اہل و مستحق تھے اور آنحضرت ﷺ کی حیات ہی میں خاص خاص مواقع پر اس کا شرف حاصل ہوتا تھا، چنانچہ آپ ﷺ مرض الموت میں جب نقل و حرکت کی طاقت آپ ﷺ میں نہ رہی اس وقت آپ ﷺ نے نبوت کا سب سے بڑا منصب یعنی مسجد نبوی کی امامت کا شرف حضرت ابو بکر ؓ ہی کو عطا فرمایا۔ جو در حقیقت آپ ﷺ کی جانشینی کی طرف اشارہ تھا۔ لیکن اسلام کا نظام شوری پر ہے اس لیے آپ ﷺ نے اپنی جانب سے کسی کو اپنا جانشین نامزد کر کے اس کو توڑنا نہ چاہتے تھے۔ اس لیے صراحہ کسی کو جانشین نامزد نہیں فرمایا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ آپﷺ کی صحبت اور آپ ﷺ کی تعلیم نے آپ ﷺ کے حاشیہ نشینوں میں ایسی صحیح بصیرت اور قوت فیصلہ پیدا کر دی تھی، کہ آپ ﷺ کے بعد اسلامی نظام کے قیام میں کسی غلطی کا امکان باقی نہ رہ گیا تھا اس لیے آپ ﷺ نے آئندہ کے بارے میں تصریح سے سکوت فرمایا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
❤️
1