Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
February 3, 2025 at 05:28 AM
https://whatsapp.com/channel/0029VanfrMPCcW4uesYGyc3N _*جرم و سزا کا فلسفہ اور اس کے سماجی اثرات*_ ✍️ _*توقیر بدر آزاد*_ آج ایک فورم پر "جرم اور سزا " کے متعلق گفتگو چل نکلی۔ الگ الگ نقطہ نظر کو سننے کا موقع ملا۔ سبھی نے اپنے اپنے مطالعے و مشاہدے کی روشنی میں پیش قیمتی باتیں رکھیں! کسی نے اسکے تناسب "سزا برابر جرم یا سزا زائد از جرم " پر بات رکھی، تو کسی نے " سزا بروقت اور سزا میں تاخیر " پر اپنا مشاہدہ و مطالعہ پیش کیا۔ راقم نے بھی "سزا کیوں اور سماج پر اسکے اثرات نیز الگ الگ نظریات و نکات " پر اپنا مطالعہ پیش کیا۔ اور عرض کیا. *جرم و سزا* (Crime & Punishment) کا فلسفہ انسانی سماج میں انصاف، قانون، اور اخلاقیات سے پیوستہ و گندھا ہوا ہے۔ یہ فلسفہ اس بنیادی سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے کہ جرم کیوں ہوتا ہے؟ مجرموں کو سزا کیوں دی جاتی ہے؟ اور سزا کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ اس کے علاوہ، جرم و سزا کے سماج پر اثرات کو بھی زیرِ بحث لایا جانا چاہیے، تاکہ ایک متوازن اور پرامن معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکے۔ --- جرم و سزا کے فلسفے میں کئی اہم نظریات شامل ہیں، جو مختلف ادوار میں مختلف مفکرین اور قانونی ماہرین پیش کرتے آیے ہیں۔ (1) انتقامی نظریہ (Retributive Theory) یہ نظریہ کہتا ہے کہ سزا جرم کے بدلے میں دی جاتی ہے اور اس کا مقصد انصاف کی فراہمی ہے۔ یعنی "آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت" کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، مجرم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دی جانی چاہیے،تاکہ انصاف کا تقاضا پورا ہو۔ یہ نظریہ Immanuel Kant جیسے فلسفیوں سے منسوب کیا جاتا ہے، جو سمجھتے تھے کہ سزا کا مقصد محض بدلہ نہیں بلکہ اخلاقی برتری کا قیام بھی ہے۔ (2) اصلاحی نظریہ (Rehabilitative Theory) اس نظریے کے مطابق، سزا کا مقصد مجرم کو بہتر انسان بنانا اور معاشرے میں دوبارہ شامل کرنا ہے۔ اس نظریہ کے تحت، جیلوں میں قیدیوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کی جاتی ہے تاکہ وہ مستقبل میں بہتر شہری بن سکیں۔ جدید فلاحی ریاستیں جیسے ناروے، سویڈن، اور ڈنمارک اپنے زعم کے مطابق اسی نظریہ پر عمل کرتی ہیں، جہاں انکے بقول قیدیوں کو مبینہ طور پر تعلیمی اور نفسیاتی مدد دی جاتی ہے۔ (3) مزاحمتی نظریہ (Deterrent Theory) یہ نظریہ کہتا ہے کہ سزا کو جرم کے تناسب سے لچکدار یا اتنا سخت اور عبرتناک ہونا چاہیے کہ دوسروں کو بھی جرم کرنے سے روکا جا سکے۔ بھیانک جرم پر سخت سزاؤں کے نفاذ و اطلاق کا مقصد یہ ہوتا ہے، کہ دیگر لوگ جرم کرنے سے پہلے اس کے ممکنہ نتائج سے خوفزدہ ہو جائیں۔ مثال کے طور پر، کچھ ممالک میں قتل و زندگی اور عزت و عصمت سے کھلواڑ پر سزائے موت، عمر قید، یا کوڑے مارنے کی سزائیں دی جاتی ہیں، تاکہ معاشرے میں ایسے بھیانک جرائم کی شرح کم ہو۔اور یہ نظام و نظریہ فطرت سے ہم آہنگ بھی ہے۔اگر بنظر انصاف دیکھا جایے تو عمانوئیل کانٹ سے منسوب اوپر درج نظریہ اسی فکر و فلسفہ کا چربہ و خلاصہ معلوم ہوتا ہے۔ (4) سماجی تحفظ کا نظریہ (Protective Theory) اس نظریہ کے مطابق، سزا کا بنیادی مقصد معاشرے کو جرائم پیشہ افراد سے محفوظ رکھنا ہے۔یہ کم و بیش درج بالا نظریہ نمبر ٣ سے ہی متاثر ہے۔ اس کے مطابق بعض مجرم خطرناک ہوتے ہیں،اور ان کو قید میں رکھنا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ دوسروں کو نقصان نہ پہنچا سکیں! اس نظریہ کے تحت، سخت قوانین بنا کر مجرموں کو علیحدہ رکھا جاتا ہے،جیسا کہ دہ شت گرد وں کے خلاف سخت قوانین آج عمل میں لائے جاتے ہیں ۔اور اس حوالے سے عجیب و غریب گمنام و پوشیدہ جیل وجود میں آرہے ہیں --- جہاں تک "جرم و سزا کے سماجی اثرات" کی بات ہے تو اس بابت یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ جرم اور سزا کا فلسفہ اور نتائج و عواقب صرف مجرموں تک محدود نہیں، بلکہ اس کے پورے سماج پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں چند اثرات نمایاں ہوتے ہیں ۔ (1) قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی! اگر جرم پر مناسب سزا دی جائے، تو معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم رہتی ہے اور لوگ انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر قاتل یا چور کو فوراً پکڑ کر سزا دی جائے، تو دوسرے لوگ بھی جرم کرنے سے ڈرتے ہیں۔ (2) خوف اور جرائم کی شرح میں کمی۔ اگر سزا سخت اور فوری ہو تو یہ دوسرے ممکنہ مجرموں کے لیے وارننگ بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر،جن ممالک میں سخت سزائیں دی جاتی ہیں، جیسے سعودی عرب میں چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا، وہاں جرائم کی شرح کم دیکھی گئی ہے۔ (3) مجرموں کی اصلاح اور معاشرتی بحالی اگر مجرم کو صرف قید میں ڈال کر چھوڑ دیا جائے، تو وہ مزید خطرناک ہو سکتا ہے، لیکن اگر اس کی اصلاح کی جائے تو وہ دوبارہ اچھا شہری بن سکتا ہے۔ اسکینڈ ینیوین ممالک میں جیلیں اصلاحی مراکز کے طور پر کام کرتی ہیں،جہاں قیدیوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور ان کو ہنر سکھایا جاتا ہے۔ (4) سماجی ناانصافی اور طبقاتی فرق کئی بار جرم و سزا کا نظام غیر منصفانہ رویے کا شکار ہوجاتا ہے، جہاں غریب اور کمزور افراد کو زیادہ سخت سزائیں دی جاتی ہیں،جبکہ امیر اور بااثر افراد سزا سے بچ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی امیر سیاستدان کا بیٹا جرم کرے تو اسے آسانی سے معاف کر دیا جاتا ہے،جبکہ ایک عام شخص کو سخت سزا دی جاتی ہے۔ اس سے معاشرے میں بداعتمادی اور بےچینی پیدا ہوتی ہے۔ (5) خوف اور نفسیاتی اثرات اگر معاشرے میں سخت اور غیر منصفانہ سزائیں دی جائیں، تو لوگ خوفزدہ ہو سکتے ہیں اور ان کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر،اگر کسی ملک میں معمولی جرائم پر بھی سخت سزائیں دی جائیں، تو عوام حکومت سے خوفزدہ ہو سکتی ہے، اور اس سے آمرانہ نظام جنم لے سکتا ہے۔ (6) انتقامی جذبات اور جرم کی واپسی کبھی کبھار سخت سزا دینے کے باوجود، مجرم مزید خطرناک ہو سکتے ہیں اور معاشرے میں واپس آ کر مزید جرائم کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک نوجوان کو معمولی جرم پر بہت سخت سزا دی جائے، تو وہ جیل میں مزید خطرناک مجرموں سے مل کر واپسی پر وہ ایک بڑا اور خطرناک مجرم بھی بن سکتا ہے۔ --- حاصل گفتگو! جرم و سزا کا فلسفہ انسانی معاشرت اور انصاف کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اگر سزا بروقت، منصفانہ، موثر، اور اصلاحی ہو، تو یہ معاشرے میں امن و استحکام لاتی ہے، لیکن اگر سزا موخر ،غیر منصفانہ، ظالمانہ، یا انتقامی ہو تو یہ مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ ایک کامیاب اور ترقی یافتہ معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ وہ انصاف پر مبنی اور متوازن نظامِ قانون اپنائے، جہاں جرم کا مقابلہ مؤثر طریقے سے کیا جائے، تاکہ جہاں ایک طرف سماج و معاشرے کو مجرموں سے محفوظ رکھا جاسکے، وہیں مجرموں کو قابل اصلاح صورت میں اصلاح کا موقع بھی بھر پور مل سکے! ===== @ ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتاء والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار سابق لیکچرار المعھد العالی للتدریب فی القضاء والافتا امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا [email protected] 03/02/2025

Comments